شاہ عبداﷲ ایک معتدل حکمران کی حیثیت سے عرب اور
اسلامی دنیا کا ایک بڑا نام تھے ۔جو قریباََایک عشرہ سعودی تخت پر براجمان
رہے ۔یہ سعودی عرب میں امریکی مفادات کے حامی نہیں تھے۔بلکہ سعودی عرب کو
بڑی حد تک امریکی اثر و نفوذ سے نکالنے کے لئے کوشاں بھی بتائے جاتے ہیں جو
طوالت عمری اور چیسٹ انفیکشن کا شکار ہو کر اس دنیائے فانی سے 23 ،جنوری
2015 ،کو درمیان شب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کی
رحلت نے ملت اسلامیہ کو اس وجہ سے غمگین کر دیا کہ خادمین حرمین الشریفین
سے ملتِ اسلامیہ اس وجہ سے بھی عقید رکھتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خانہ کعبہ
اور روضہ،رسول کے خد مت گار کے طو پر بھی جانے مانے جاتے تھے۔اسکے علاوہ سب
سے اہم بات یہ ہے کہ وہ عرب دنیا کا ستعماریت کے خلاف اہم نام مانا جاتے
تھے۔ انہوں نے بڑے سلیقے کے ساتھ امریکیوں کو سعودی عرب سے نکلنے پر مجبور
کر دیا تھا ۔جو ان کا یک بڑا کانارنامہ تھا۔ مگر اپنی اس حکمتِ عملی کے
باوجود انہوں نے مغرب اور خاص طور پر امریکہ برطانیہ سے اپنے تعلقات میں
درارڑیں نہیں پڑینے دیں۔
شاہ عبد العزیز کے سوتیلے بھائی سلمان بن عبدالعزیز 31،دسمبر 1935ء میں
پیدا ہوئے ۔سلمان بن عبدلعزیز سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز کے ان سات
بیٹوں میں سے ایک ہیں جو سُدیری اس وجہ سے کہلاتے ہیں وہ شاہ عبدالعزیز کی
محبوب اہلیہ حصہ احمد السُدیری کے بطن سے پیدا ہوئے ۔اُن کی تعلیم و تربیت
ریاض میں قائم کئے گئے سعودی عرب کے شہزادوں کے اسکول میں ہوئی جو ابنِِ
سعود نے شاہی خاندان کے بچوں کے لئے قائم کیاتھا۔ 1950تعلیم و تربیت سے
فراغت کے بعد ، شہزادہ سلمان کو صرف 19،برس کی عمر میں سعودی فرمانروا نے
اپنے نمائندے اور امیر کے طور پر سیاست کے میدان میں اتار دیا تھا۔اس حیثیت
میں انہوں نے 17،مارچ 1953، تک خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد شاہ سعود نے ان
کا تقرر 19، اپریل 1954،کو ریاض کے میئر کے طور پر کردیا۔میئر شپ کے دوران
ا نہیں ریاض کی ترقی و جدیدیت کا خیال ذہن نشین رہا۔ مگر 25،دسمبر 1960،کو
انہوں نے میئر کے عہدے سے استفیٰ دیدیا -
ان کی سیاسی پختگی کو دیکھتے ہوئے ان کے والد شاہ سعود نے 4 ، فروی 1963،کو
28 ،سال کی عمر میں انہیں صوبہ ریاض کا گورنر بنا دیا تھا۔اس طرح ایک مرتبہ
پھر انہیں سیاست کے میدان میں قدمرکھنا پڑ گیا۔ اس عہدے پر انہوں نے بڑی
تندہی سے قریباََ48 سال تک خدمات انجام دیں۔ جس کے دوران انہوں ریاض شہر کو
دنیا کا خوبصورت ترین شہر بنا دیا ۔ انہوں نے ریاض کی ترقی و تعمیر میں بہت
اہم کردار ادا کیا۔یہاں کی سڑکوں اور بلدیاتی نظا م کو دنیا کے جدیدترین
نظاموں میں تبد ل کر کے اہم خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد انہیں 5 ،نومبر
2011 کو سعودی عرب کے وزیر دفاع کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ا س عہدے پر انہوں
نے تندہی کے ساتھ دن رات خدمات انجام دیں۔وزیرِ دفاع کی حیثیت سے انہوں نے
12 ، اپریل 2012 کو امریکہ کے صدربارک اوبامہ،اور برطانیہ کے وزیر اعظم
ڈیوڈکیمرون سے ملاقاتیں کیں۔ان دونوں رہنماؤں سے واران ٹرر کے موضوعات پر
بھی تبادلہ خیالات کیا گیا۔ ان کی جگہ پر ان کے بھائی شہزادہ سلطان بن
عبدالعزیز کو ریاض کا گورنر 2011 میں مقرر کر دیا گیا۔اسی وقت سے سلمان بن
عبدالعزیز کو نیشنل سیکورٹی کونسل کا رکن بنا دیا گیا ۔
انہیں 18،جون 2012 میں ولی عہد کے درجے پر اُن کے سوتیلے بھائی شاہ عبداﷲ
کے دورِ حکمرانی میں ان کے بھائی نائف بن عبدل العزیز کے انتقال کے بعد
انہیں سعودی عرب کا ولی عہد مامزد کر دیا گیا گویا یہ ان کی مستقبل کی باد
شاہت کا سگنل تھا۔اور اس کے ساتھ ہی انہیں نائب وزیر اعظم بھی بنا دیا
گیا۔لہٰذا جب شاہ عبد اﷲ کا انتقال ہو گیا تو، شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کی
وفات کے بعد 24،جنوری 2015۔کو سلمان بن عبدلعزیز کو سعودی عرب کا بادشاہ
بنا دیا گیا ۔اسی روز انہوں نے سعودی حکمران کے طور پر بادشاہت کا حلف اٹھا
لیا۔
شاہ سلمان انتہائی صلح جو طبیعت کے مالک رہے ہیں۔وہ خاندانی جھگڑوں اور
نااتفاقیوں میں پُل کاکر دارادا کرتے رہے اور خاندانی مسائل کو سلجھانے میں
ایک خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں ے ہمیشہ اپنے مخالفین سے بھی سیاسی انداز
میں اپنے تعلقات کو بر قرار رکھاکہا جاتا ہے کہ شاہ عبد اﷲ کی طرح ان کا
فوکس سیاست کے برعکس معیشت کی بہتری اوراس کی تبدیلی پر مرکوز ہے۔
آج کی امتِ مسلمہ غمگین ہونے کے باوجود سعودی حکمرانوں پر نظریں جمائے ہوئے
ہیں ۔ساری دنیا کی غیر اسلامی قوتیں مسلمانوں اور ان کے دین کے خلاف بد
کلامی اور بد بانی اور قلم کی دہشت گردی میں مصروف ہے۔محمدعربیﷺکے خلاف
حرضہ سرائی میں کفر کی تمام قوتیں یکجا ہیں ۔ اور امہ اختلافات و انتشار
میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اپنے ماضی پر نوحہ کناں ہے- |