وطن عزیزپاکستان گزشتہ ایک دہائی سے بدترین دہشت گردی کے
عفریت سے نبرد آزما ہے ۔ دہشتگردی کے خلاف برسر پیکار قوم اب تک ساٹھ ہزار
سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق
رکھنے والے قیمتی اور بے گناہ افراد شامل ہیں ۔ بے گناہی کے جرم میں
انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ کھیل تا حال جاری ہے۔ کوچہ و بازار
میں کبھی بم دھماکے، کبھی خودکش حملے اور کبھی فائرنگ کے واقعات آئے روز
پیش آتے ہیں اور قوم کے زخموں میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں ۔ہمیں اس جنگ
میں کس نے جھونکا یہ ایک تفصیل طلب بحث ہے بہر حال ہم ایسی جنگ لڑنے پہ
مجبور ہیں جس میں ہمارے اپنے ہی ہمارے دشمن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔دوست
اور دشمن کی پہچان محو ہو کر رہ گئی ہے ۔البتہ یہ اظہر من الشمس ہے کہ
معصوم انسانوں کی جان لینے والے نہ تو دین اسلام کے خیر خواہ ہیں اورنہ ہی
وہ ملت اسلامیہ پاکستان کے خیر خواہ ہیں بلکہ وہ تو شاید انسانیت کے دائرے
سے ہی خارج ہیں ۔وہ دین اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنی اصلیت چھپا نہیں سکتے
۔پشاور میں آرمی پبلک کالج کے طلبہ کے اندوہناک قتل عام کے سانحے نے ان
دہشت گرد عناصر کے چہروں سے نقاب ہٹا دیا ہے ۔قوم تذبذب سے نکل کر اس امر
پہ یکسو ہو چکی ہے کہ کچھ بھی ہو اس عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے ۔ملک
کی تمام دینی اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے جنگ میں حکومت کے ساتھ
تعاون پہ اتفاق کیا ہے اور سیاسی و عسکری قیادت ایک ہی سمت گامزن نظر آتی
ہیں ۔یہ امر خوش آئند ہے کہ قوم متحد ہے اور ہماری صفوں میں اتفاق ہے۔
جہاں قوم کا اتحاد ہمارے لیے حوصلہ افزا ہے وہاں یہ جائزہ لینے کی بھی
ضرورت ہے کہ ہم اس عفریت سے جان چھڑانے کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں ۔اس
سنجیدگی کا فقدان ہمیں ہر جانب نظر آتا ہے ۔ریاست میں قانون کی عملداری کے
لیے یہ لازمی ہے کہ اس ریاست کے پاس بہتریں قانون موجود ہو ۔ ریاستی قانون
کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ امن اور جنگ دونوں حالتوں میں عدل اور انصاف کے
تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں
کو نشان عبرت بناتا ہے ۔مگر مقام افسوس ہے کہ ہم ریاست کو ایسا قانون دینے
میں ناکام رہے ہیں جو بلا تفریق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا سکے ۔جب ہم
نے اعلان جنگ کیا تو معلوم ہوا کہ ہمیں حالت جنگ کے لیے قانون سازی کی
ضرورت ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ایک سانحے کے نتیجے میں ہنگامی قانون
سازی کی بھی تو اس طرح کہ دہشت گردوں کو دعوت عام دے دی کہ دین کے نام پر
دہشت گردی کرو گے تو عبرت کا نشان بنا دیے جاؤ گے۔ لہذا کسی اور نام سے یہ
کاروائیاں جاری رکھو تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے
ہماری پاک فوج قبائلی علاقوں میں کاروائیاں کر رہی ہے تاکہ قانون کی
عملداری قائم کی جا سکے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں تو 1973
ء کا آئین نافذ العمل ہی نہیں ہے بلکہ یہاں تو انگریز کا بنایا ہوا FCR کا
نظام تھا جس کی حالیہ شورشوں نے اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی ہے۔سوال یہ ہے
کہ جب دہشت گردوں کا صفایا ہو جائے گا تو یہاں کونسا قانون نافذ العمل ہو
گا جس کی عملداری ہو گی ۔ ایک ہی ریاست میں دو مختلف قانون ریاست در ریاست
نہیں تو اور کیا ہے ؟ضرورت اس امر کی ہے کہ ان علاقوں کے لیے مستقل قانون
سازی کی جائے اور انہیں قومی دھارے میں لایا جائے ۔ ان علاقوں کو صوبوں کے
مساوی حقوق دلائے جائیں لیکن ہمارے ارباب اختیار اس جانب توجہ دینے کے
بجائے خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس خطہ
زمیں کے لیے قانون بنایا ہی نہیں گیا اور جو بنایا بھی گیا وہ بھی بقیہ ملک
سے ہٹ کر تو پھر وہاں قانوں کی عملداری کا کیا مطلب؟اب مقننہ پہ بھاری ذمہ
داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ضمن میں مؤثر قانون سازی کرے ۔
صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی سنجیدگی کا عالم بھی ان کے کردار سے عیاں ہوتا
ہے ۔صوبائی حکومتیں واقعات کی ذمہ داری وفاقی حکومت پہ ڈال دیتی ہیں اور
وفاقی حکومت صوبائی حکومت پہ نزلہ گرا کر خود کو بری الذمۃ قرار دیتی ہیں
۔سیاستدان خصوصا حکمران جب دہشت گردوں سے جنگ کا اعلان کرتے ہیں تو اپنے
گرد سرکاری محافظوں کی فوج ظفر موج میں اضافہ کر دیتے ہیں اور عوام کو دہشت
گردوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔عوام اور خواص کے مابین یہ امتیاز
اس اہم معاملے میں حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کا بیّن ثبوت ہے ۔ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ حکومت کے مختلف ادارے محض تنخواہیں بٹورنے کے لیے قائم کیے گئے
ہیں عملی طور پہ ان کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی۔دہشت گردی کے نتیجے میں
سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ خیبر پختونخواہ ہے اور اس کی سرحدات
قبائلی علاقوں سے بھی ملتی ہیں ۔اس لحاظ سے خیبرپختونخواہ کی حکومت کی ذمہ
داری بنتی ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے لیکن حکومت احتجاجی
دھرنوں اور سڑکوں پہ رقص و سرور سے فارغ ہو تو اس جانب توجہ دے۔ حکمرانوں
کے پروٹوکول کے کاروان متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کے بجائے ان کے منہ پہ
تھپڑ مارنے کے مترادف ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سانحات محض حکمرانوں کی
تشہیری مہم کے لیے رونما ہوتے ہیں ۔ عوام خون کے آنسو پی کر رہ جاتے ہیں
اور سیاسی ٹولہ فوٹو سیشن کے ذریعے اپنا قد کاٹھ بڑھانے میں مگن ہو جا تا
ہے۔ان بلٹ پروف گاڑیوں اور حفاظتی حصار کی وجہ سے عوامی جذبات بھی حکمرانوں
کے دلوں تک نہیں پہنچ پاتے ۔
اب حکومتوں کی سنجیدگی کا عالم ملاحظہ کیجیے کہ اہم امور پہ ان کی غفلت کا
کیا عالم ہے ۔دہشتگردی کے لیے سب سے اہم مواد اسلحہ ہے اسی اسلحے کے زور پہ
معصوم انسانوں کی جان لی جاتی ہے اور خوف و ہراس پھیلایاجاتا ہے۔یہ اسلحہ
اورگولہ بارود اِن دہشتگردوں تک کہاں سے پہنچتا ہے یہ معلوم کرنا ہمارے
سیکیورٹی اداروں کا کام ہے اور وہ اپنا کام کس حد تک انجام دے رہے ہیں یہ
ایک سوالیہ نشان ہے ۔جو لوگ پشاور سے کوہاٹ کا سفر کر چکے ہوں وہ بخوبی
جانتے ہیں کہ راستے میں درہ آدم خیل کا قبائلی علاقہ ہے جو اسلحے کی بڑی
منڈی ہے ۔ یہاں اسلحہ سازی کے کارخانے لگے ہیں اور ایک بڑی اکثریت کا
روزگار اسی صنعت سے وابستہ ہے ۔ درہ بازار میں ہر نوع کا اسلحہ دستیاب ہے ۔
یہاں کلاشنکوف،ریوالور،بندوقیں، راکٹ لانچر، بارودی سرنگیں اورطیارہ شکن
گنیں بھی بنتی ہیں ۔یہ اسلحہ تو فوجی نوعیت کا ہے اس کا عام آدمی سے کیا
تعلق ؟ یہ اسلحہ کون خریدتا ہے ؟ یہ اسلحہ کہاں لے جایا جاتا ہے؟اسلحے کی
اس فراوانی اور ترسیل کو روکنے کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتیں کیا کردار
ادا کر رہی ہیں؟حکومتیں اس سارے معاملے سے نظریں چرا کر بیٹھی ہوئی ہیں اور
عوام کے چیتھڑے اڑائے جا رہے ہیں۔پشاور میں کارخانو مارکیٹ ہے جہاں اربوں
روپے مالیت کا سمگل شدہ مال بکتا ہے ۔ ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے یہ ارزاں
ہے اور پورے ملک سے لوگ یہ مال خریدنے پشاور آتے ہیں ۔یہ مال گاڑیوں میں
سمگل ہو کر دیگر علاقوں میں جاتا ہے راستے میں چیکنگ ہوتی ہے مگر مٹھی گرم
کر دی جاتی ہے اور مال سمگل ہو جاتا ہے ۔ اس مال کی آڑ میں کیا کیا سمگل ہو
رہا ہے اس کی اطلاع کیونکر 1717کو دی جائے ؟اگر مشکوک سرگرمی دیکھیں تو
حکومتی اداروں کو بتایں لیکن حکومتی ادارے اگر ایک بیّن جرم پہ چشم پوشی کا
مظاہرہ کریں تو عوام کیا کریں ؟اسی طرح ملاکنڈ ڈویژن میں کسٹم چور گاڑیاں
دستیاب ہیں جن پہ مقامی انتظامیہ کی نمبر پلیٹ لگا کر ڈویژن کی حد تک
قانونی بنادیا جاتا ہے ۔ یہ گاڑیاں سستی ہونے کی وجہ سے عام افراد کی قوت
خرید میں ہیں۔ اب اگر دہشتگرد یہ گاڑیاں استعمال کریں تو یہ معلوم بھی نہیں
کیا جا سکے گا کہ کس کی گاڑی استعمال ہوئی کیونکہ وہ گاڑی رجسٹر ہی نہیں
ہوئی۔اسمگلنگ کا تدارک کرنا حکومتوں کا فرض ہے لیکن اس ضمن میں وہی خواب
غفلت ۔اب آپ ہنڈی کے کاروبار کو ہی دیکھ لیں یہ قطعا غیر قانونی ہے مگر
صوبے اور ملک کے ہر حصے میں جاری ہے ۔ اس کے ذریعے نقد رقم کی منتقلی ہوتی
ہے اور حکومتی ادارے کے پاس رجسٹر نہ ہونے کی وجہ سے اس رقم کا سراغ لگانا
ممکن نہیں رہتا کہ کس نے کسے رقم فراہم کی ۔ اب دیکھیے دہشتگردی کے لیے
مالی معاونت کا راستہ کھلا ہے، اسلحے کی تجارت کے لیے راہ ہموار ہے اور
اسکی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں تو پھر یہ حکومتیں کس چیز کے خلاف لڑ رہی
ہیں اور کس کا تدارک کر رہی ہیں ۔
گزشتہ کچھ عرصے سے عدلیہ عوامی توقعات کا مرکز بنی ہوئی ہے لیکن دہشت گردی
کے معاملے میں عدالتوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے ۔ فوجی عدالتوں کا قیام
عدالتی نظام کی ناکامی کا بیّن ثبوت ہے۔انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ نے
دہرا معیار اپنا رکھا ہے ۔ ہمارے ملک کی ایک نامور شخصیت پہ ایک سے زائد
مقدمات ہیں جن میں اسے سزائے موت بھی ہو سکتی ہے لیکن انہیں گرفتار تک نہیں
کیا گیا بلکہ وہ شخص سرکاری پہرے میں پورے ملک میں دندناتا پھرتا ہے جبکہ
اسی شخص پہ قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے ۔ مقتول
ابھی زندہ ہے جبکہ قاتل تختۂ دار پہ جھول گئے ۔یہ کیسا نظام عدل ہے ؟اگر
معاشرے میں عدل کی فراہمی کو یقینی نہ بنایا گیا تو قوم تباہ و برباد ہو کر
رہ جائے گی۔عدلیہ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی تبھی ہم اس جنگ میں
کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔
دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عوام نے متفقہ طور پہ حکومت وقت کو ذمہ داری سونپ
دی ہے اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے انتہائی اقدام
کر گزرے۔ اسکے لیے لازم ہے کہ حکومت ، مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کا قبلہ
درست ہو ۔دہشت گردی کے خلاف جامع حکمت علی تیار کرنے کی ضرورت اشدہے جس کے
ذریعے دہشتگردوں کی ہر قسم کی سرگرمی کو روکا جا سکے ۔ایسے قوانین مرتب کیے
جائیں جن کی موجودگی میں ہنگامی قانون سازی نہ کرنا پڑے ۔ حکومت کو بلا
تفریق کاروائی کرنا چاہیے اورہر قسم کی دہشت گردی کا سدباب ہونا چاہیے ۔کسی
کو بھی قانون سے ماوراء نہیں ہونا چاہیے ۔کسی بھی شخص یا ادارے کو قانون سے
ماوراء نہیں ہونا چاہیے ۔اگر ہم بلاتفریق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنادیں
اور ہر مجرم کو قرار واقعی سزا دیں تو مسئلے پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسکے
ساتھ عوام کو دینی و دنیوی تعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ خالی
ذہن ہی دہشتگردوں کے شکنجے میں باآسانی گرفتار ہو جاتے ہیں ۔ دہشتگردوں کی
فکر سے لڑنے کے لیے تطہیر افکارکی ضرورت ہے ۔ اس معاملے میں علماء اور دینی
جماعتوں سے تعاون حاصل کرنا چاہیے ۔اگر آج بھی ہم نے سانحات سے سبق نہ
سیکھا اور اپنا قبلہ درست نہ کیا تو ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں
۔ |