یوم جمہوریہ:ـجمہوریت کے حوالہ سے چند توجہ طلب امور

عوام کے ذریعہ ،عوام کے لئے اورعوام کی حکومت کوجمہوری حکومت کہاجاتاہے۔ہمارے ملک کے دستورنے بھی ہندوستانی عوام کوسرچشمۂ اقتدارواختیارماناہے۔آئین ہندنے یہاں کے شہریوں کو اپنی حکومت منتخب کرنے کے لئے خودمختاربنایاہے۔یعنی عوام کی اکثریت جس پارٹی کواپنانمائندہ بناکرمقننہ بھیجے ، ملکی قیادت اس کے ہاتھ میں ہوگی ۔اوراکثریت جس جماعت کو مستردکردے ،وہ اقتدارسے دورہوگی۔جمہوریت کا اصول یہی ہے کہ یہاں بندوں کوگناکرتے ہیں توَلاَنہیں کرتے۔ لیکن ہمارے ملک میں جوجمہوری نظام رائج ہے اورجس طرح عوامی نمائندوں کاانتخاب ہوتاہے وہ لمحہ فکریہ ہے ۔ اسمبلی یالوک سبھاانتخابات میں عوام کی اکثریت کے ذریعہ منتخب ہونے والے نمائندے قانون سازاداروں میں پہونچتے ہیں یااکثریت کے ذریعہ مستردکئے جانے والے لیڈران کے ہاتھ میں زمام اقتدارہوتاہے؟۔2014کے لوک سبھاانتخابات کوہی سامنے رکھ لیجئے۔جس پارٹی اورجن لیـڈروں کوملک کی 68فیصداکثریت نے مستردکیاوہ صر ف32 فیصدووٹ کی بناپرحکومت میں آگئی ۔کیایہ ایک جمہوریت کیلئے لمحہ فکریہ نہیں ہے۔دنیاکے دوسرے جمہوری ممالک کے اندر یہ نظام رائج ہے کہ جب تک کسی ایک پارٹی کوپچاس فیصدووٹ نہیں ملتے ہیں اقتداران کونہیں ملتا۔بصورت دیگردوبارہ انتخابات ہوتے ہیں۔چنانچہ مغربی طاقتوں کے ذریعہ تھوپی گئی جمہوریت والے افغانستان میں جب اہم صدارتی امیدوارعبداﷲ عبداﷲ اوراشرف غنی نے صداتی انتخاب میں پچاس فیصدسے کم ووٹ حاصل کئے جس کی بناپروہاں دوبارہ الیکشن ہوئے لیکن اس میں بھی دونوں کوپچاس فیصدسے زائدووٹ نہیں مل سکے تب مشترکہ حکومت کی تشکیل کی گئی۔لہٰذاعوامی نمائندگی کاصحیح مطلب بھی یہی ہے کہ پچاس فیصدسے زائدووٹ والے ہی امیدوارکامیاب قراردیئے جائیں بصورت دیگرعوام کی اکثریت کے ذریعہ منتخب حکومت اورجمہوریت کافلسفہ ناقابل فہم ہے۔اس کی طرف نائب صدرجمہوریہ حامدانصاری نے بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ اس نظام پرغورکیاجائے۔

کہاجاتاہے کہ مقننہ ،انتظامیہ اورعدلیہ جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں۔مطلب یہ ہواکہ جب تک یہ تینوں اپنی اپنی ذمہ داری اداکرتے رہیں۔اس وقت تک جمہوریت باقی ہے۔جمہوریت کی بقاکیلئے ان تینوں ستونوں کااپنے بل بوتے پرکھڑارہنااور اپنی ذمہ داریوں کے تئیں آزادرہنابھی ضروری ہے۔اس یوم جمہوریہ کے موقع پرہمیں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ ایک برس کے اندرجمہوریت کے یہ تینوں اہم ستون کیااپنی جگہ برقرارہیں یاان میں کمزوری واقع ہوئی ہے؟۔اگرکمزوری واقع ہوئی ہے توپھرملکی جمہوریت پرخطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔یہاں ان کاایک سرسری جائزہ لیاجاتاہے۔

مقننہ کی جوصورت حال ہے اس کی وضاحت اوپرکی سطروں میں کی گئی ہے کہ ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں عوامی نمائندگی کے ساتھ کیسامذاق کیاجارہاہے اورموجودہ نظام کس طرح فیل ہے۔لوک سبھاکی الگ الگ نشستوں پربھی اگرہم غورکریں توووٹ فیصدواضح طورپربتاتے ہیں کہ عوام کی اکثریت کے ذریعہ مستردہونے والے لیڈرہی کامیاب ہوتے ہیں جس کی وجہ ووٹوں کی تقسیم ہے۔الیکشن کمیشن کواس کے لئے قدم اٹھانے چاہئیں۔یہ صحیح ہے کہ الگ الگ سیٹوں پرکئی کئی نمائندوں کاالیکشن میں کھڑاہونایہ ان کاشہری حق ہے لیکن کمیشن ایساایساکوئی انتظام کرے کہ کچھ ووٹ فیصد متعین کردیئے جائیں اورایک مرتبہ الیکشن میں اس معیارکوپورانہ کرنے پرانہیں نااہل قراردیاجائے یاپھرٹاپ دوامیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ کرایاجائے۔اسی طرح الیکشن کمیشن عام رائے دہندگان سے اس طرح کے اصلاحات پررائے بھی لے سکتاہے ۔ریاستی ایوان کی بھی یہی صورت حال ہے۔جس کی بنیادپرراجیہ سبھامیں بھی اکثریت اوراقلیت کامسئلہ سامنے آتاہے ۔ایسے میں کم ووٹ فیصدلانے والی پارٹی کولوک سبھااورراجیہ سبھا میں کسی بھی طرح کی قانون سازی کااختیارحاصل ہوجاتاہے اوراکثریتی رائے دہندگان کے ذریعہ مستردکئے جانے والے لیڈران ملک کی سمت طے کرنے لگتے ہیں۔ایسی صورت میں ڈکٹیٹرشپ اورآمرانہ نظام کے فروغ کابھی خدشہ ہے۔الیکشن کمیشن کوسنجیدگی سے اس پرنوٹس لیناچاہئے اورجمہوریت کے بہی خواہوں کوبھی تعصب کوبالائے طاق رکھ کرغورکرناچاہئے۔

جمہوریت کادوسراستون عدلیہ ہے۔کسی بھی ملک کی جمہوریت کی صحیح سمت کوناپنے کاپیمانہ یہی ہے کہ وہاں کی عدلیہ سیاست سے کتنی آزاداورغیرجانبدارہے۔ ہمارے ملک میں عدالت نے بہت اہم اورقابل قدرفیصلے بھی دیئے ہیں ساتھ ہی مقننہ پرنکیل بھی کسی ہے اورحکومت کی گرفت بھی کی ہے۔عدالتوں کی اپنی ایک شاندارتاریخ ہے جس نے جمہوری قدروں میں عوام کے اعتمادمیں اضافہ کیاہے۔لیکن اس کے کچھ فیصلے یقیناقابل توجہ ہیں۔حالیہ دنوں میں نئی حکومت کے ذریعہ کالجیئم سسٹم کوختم کرکے عدالتی تقرری کمیشن کی تشکیل سے اس خدشہ کوبہت حدتک تقویت ملتی ہے کہ آنے والے پانچ برسوں میں عدالتوں کابھی بھگواکرن ہونے والاہے۔ظاہرہے کہ ہرشعبہ میں متعصب ذہنیت کی بھرمارہے۔اس بات کی کیاضمانت ہے کہ بھگواکنبہ اپنے لوگوں کواس عدالتی تقرری کمیشن کاحصہ نہیں بنائے گا؟۔جس سے عدلیہ کی آزادی کوٹھیس پہونچ سکتی ہے۔

انتظامیہ جمہوریت کاتیسرابنیادی ستون ہے ۔ہمارے ملک کایہ شعبہ تعصب سے دوچارہے۔فرضی انکاؤنٹروں میں ملوث افسران ثبوت کے لئے کافی ہیں نیزفرقہ وارانہ فسادات کے موقعہ پرپولیس کاجورول ہوتاہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آخرکیاوجہ ہے کہ آئی اے ایس یاآئی پی ایس افسران ریٹائرہونے کے ساتھ ہی بی جے پی کادامن تھام لیتے ہیں۔ایک نہیں ان گنت مثالیں موجودہیں۔دورمت جایئے!۔مرکزی حکومت کے وزیرمملکت جنرل وی کے سنگھ اوراس سے بھی قریب کی مثال کرن بیدی مثالوں کیلئے کافی نہیں ہیں۔
ان تینوں اہم ستونوں کے علاوہ میڈیاکوجمہوریت کاچوتھاستون کہاجاتاہے۔اوران کے لئے بھی اس اصول کی کافی اہمیت ہے کہ جس طرح ایک دوشیزہ کی عصمت ہوتی ہے ۔خبروں کی بھی عصمت ہوتی ہے۔لیکن ذرائع ابلاغ خصوصاالیکٹرانک میڈیاکے ذریعہ ان اصولوں کی جس طرح عصمت دری ہورہی ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔بیشترچینلزکایہی حال ہے۔اسی مارکیٹنگ نے ایک مخصوص پارٹی کے حق میں فضاہموارکی اوررائے عامہ کومتاثرکرتے ہوئے اس پارٹی کے مشن کوعملی جامہ پہنایا۔دہلی میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔آپ مختلف چینلزکھول لیجئے اورپھردیکھئے ان کے متعصبانہ رول کو۔خبروں کاسلیکشن ،مخصوص پارٹی کی ترجمانی اورمذاکرات میں اینکروں اورمدعووین کاانتخاب ۔واضح ہوجائے گاکہ جمہوریت کایہ چوتھاستون نہ صرف غلامی کے دورسے گذررہاہے بلکہ ایک مخصوص ذہینت کی تشہیران کامشن ہے۔ہاں ایک اورقابل غورپہلویہ بھی ہے کہ میڈیاکی کارکردگی پرنظررکھنے کیلئے ہمارے یہاں پریس کونسل آف انڈیاجیساذمہ دارادارہ بھی ہے لیکن حالیہ دنوں میں جسٹس کاٹجوجس طرح کے آرایس ایس نوازبیانات دے رہے ہیں۔اگرپی سی آئی میں اسی طرح کے لوگ ذمہ دارعہدہ پررہیں تواندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں ہے کہ ہماری جمہوریت کایہ چوتھاستون معذورہوچکاہے۔اس کے علاوہ سنسربورڈکے ممبران کی اکثریت مستعفی ہوچکی ہے۔خبریہ بھی ہے کہ اس کے نئے عہدیداروں کی اکثریت سنگھ نوازہے۔ایسے میں اس ادارہ کی آزادانہ کارکردگی کی امیدکیسے کی جاسکتی ہے۔

دستورہندمیں تمام باشندے بلاتفریق مذہب وملت ’’ایک مشترکہ جمہوریت ‘‘میں پِرُودیئے گئے ہیں۔آئین میں مذہب کی اہمیت کابھی اعتراف کیاگیاہے اوربتایاگیاہے کہ یہ ملک،مذہب کی بنیاد پرحکومت نہیں کرے گا، لیکن ہرمذہب کااحترام ہوگااورمذہب کی بنیادپرکسی قسم کاکوئی امتیازی سلوک نہیں کیاجائے گا۔اسے دستورکی ۴۲ویں ترمیم کی روسے اسے سیکولراسٹیٹ کہاگیاہے جہاں مذہب یاذات پات کی بنیادپرکسی شہری کوشہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیاجاسکتا۔آئین کی روسے ہرشہری کوآزادئی رائے ،آزادئی خیال اورآزادئی مذہب حاصل ہے۔اقلیتوں کوبھی دستورمیں اس کاحق دیاگیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی اشاعت کریں۔لیکن گذشتہ چندمہینوں میں مسلمانوں اورعیسائیوں کے خلاف بیان بازیاں ہورہی ہیں۔لوجہاد،تبدیلی مذہب اورگھرواپسی جیسے شگوفے چھوڑکرحکومت تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کاارادہ رکھتی ہے یہ بھی اقلیتوں کودیئے ہوئے شہری حقوق پرڈاکہ زنی ہے۔

ایک آخری اہم بات ہے کہ ابھی امریکی صدراوبامہ ہندوستانی دورہ پرآئے ہوئے ہیں۔ہندوستان کی نئی حکومت میں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کونشانہ بنایاجارہاہے وہ تشویش کاباعث ہے۔خودآرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت عیسائیوں کوبھی دنیاکے لئے خطرہ بتاچکے ہیں اورمسلسل ان دونوں فرقوں کونشانہ بنایاجارہاہے ایسے میں اوبامہ سے یہ مطالبہ بہت اہم ہے کہ وہ مودی حکومت سے اس مسئلہ پرسوال کریں ۔خبروں کے مطابق انڈین امریکن مسلم کونسل کایہ قدم نہایت اہمیت کاحامل ہے کہ اس نے امریکی صدرکودورہ سے قبل خط لکھ کر نئی ہندوستانی حکومت میں اقلیتوں کی خراب صورتحال پرتشویش کااظہارکیاہے ۔اورمذہبی تشددکے فروغ کے خلاف اوبامہ سے مودی حکومت کے ساتھ تبادلہ خیال کامطالبہ کیاہے۔ کونسل نے اوباماکولکھے گئے خط میں کہاہے کہ وزیر اعظم مودی اوردیگر ہندوستانی حکام کے ساتھ اپنے تبادلہ خیال کے دوران ہندوستان میں عیسائی، سکھ، مسلم اوردیگراقلیتوں کی تیزی سے خراب ہوتی صورتحال کے بارے میں تشویش ظاہرکریں۔کونسل نے یہ بھی کہا ہے کہ جب سے نئی حکومت بنی ہے تب سے مذہبی تشددکی واردارت میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔خط میں اوباما سے یہ گذارش کی گئی ہے کہ وہ ہندوستان کی حکومت سے ایسی پالیسیوں پرعمل کرنے کی اپیل کریں جو ہندوستان کے سیکولر آئین سے ہم آہنگ ہوں۔ہندوستان میں بسنے والی عیسائی آبادی سے بھی ہم یہ امیدکرتے ہیں کہ وہ امریکی صدرسے اس قسم کامطالبہ کرے گی۔اخیرمیں یہ عرض ہے کہ آج یہ احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماراملک جمہوری قدروں سے کتناہم آہنگ ہے۔جمہوریت کے سبھی ستون اپنی جگہ مضبوط رہیں اورجمہوری قدروں کوفروغ دیاجائے تبھی ’’جمہوریہ ہند‘‘ کاوقاراوربلندہوگا۔

Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 36988 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.