بی جے پی میں جس طرح خانہ جنگی کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں
، اس کا اندازہ برسوں پہلے سے ہی ہونے لگا تھا ۔ بھلے ہی دہلی الیکشن کے پس
منظر میں ناراض بی جے پی لیڈران پارٹی کے بڑے لیڈروں کے منانے سے مان جائیں
، تاہم بی جے پی میں تیار ہورہی مختلف ٹولیوں سے کبھی بھی آتش فشاں پھوٹ
سکتا ہے ، کیوں کہ مودی نے جب سے آرایس ایس کو رام کر نے کے بعد اپنے
حامیوں کا قدبڑھانا شروع کیا ، تب سے ہی ایسے آثارنظرآنے لگے تھے ، بس شاکی
اور نالاں بی جے پی کارکنوں کو ایک موقع کی تلاش تھی اور ہے بھی ، چنانچہ
اب جہاں بھی ایسے مواقع آئیں گے ، وہاں وہاں آپسی انتشار کا منظر نامہ ہو
گا ۔ بی جے پی کے دہلی ریاستی یونٹ میں جس طرح کرن بیدی اور دیگر نظر آنے
والے نئے چہروں کو فوقیت دی جارہی ہے ، ظاہر ہے ا س سے پارٹی کے لیے برسوں
کام کرنے والوں کو مایوسی ہوگی ہی ۔
گذشتہ چند برسوں میں نریندر مودی نے اپنے کئے رنگ دکھائے ۔ 2014پارلیمانی
انتخابات سے قبل انھوں نے آرایس ایس کو اپنے قبضہ میں کرنے کے لیے ہر ممکن
کوشش کی ، یہی وجہ تھی کہ انھیں وزیر اعظم کے امید وار کے طور پر سامنے بھی
لایا گیا ، حتی کہ بہ ظاہر صرف اور صرف مودی کے چہرے پر الیکشن لڑا گیا ۔
یہ تھا الیکشن سے تقریبا ً ایک برس پہلے کا مودی کا کرشمہ ، مگر عین الیکشن
کے زمانے میں انھوں نے ہندوستانی معیشت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ
نوجوانوں کو روزگار سے جوڑنے کے لیے دم دکھایا ، سبز باغ دکھائے ، یہ ہے
دوسرا کرشمہ ، تیسرا کرشمہ انھوں نے الیکشن میں تاریخ ساز کامیابی حاصل
کرنے کے بعد دکھایا کہ جذباتی تقریریں کیں ، بہ ظاہر بڑوں کو بڑا احترام
دیا ، تاکہ کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ مودی نے کامیابی حاصل کرنے کے بعد
بڑوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا، یہ سب تو ہیں پرانی باتیں مگر اب واضح
طو ر پر جو باتیں سامنے آرہی ہیں کہ مودی آرایس ایس کے افکار سے ہٹ کر بھی
ملک کی فضا کو مکدر کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، بلکہ یہ کہتے ہوئے بھی کوئی
جھجک نہیں کہ اب آر ایس ایس کو حاشیہ پر پہنچانے کی کوشش تیز تر ہوگئی ہے ،
یہی وجہ ہے کہ آرایس ایس سے قریب لیڈروں کو مودی خاطر میں نہیں لارہے ہیں ،
وزارت کی تقسیم میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ پارٹی کی صدارت میں وہ کھیل ہوا
، جس کی امید بہت ہی کم لوگوں کو تھی ، کیوں کہ صدارت کے تئیں سب سے زیادہ
دعویدار جے پی نڈھا کو ماناجارہا تھا ، ایسے میں امیت شاہ کو اس گدی پر
بٹھا کر مودی نے یہ پیغام دیا کہ اب بی جے پی میں آرایس ایس کی کوئی اہمیت
نہیں ، ایسے لیڈروں کی کوئی ضرورت نہیں ، جنھوں نے کبھی آر ایس ایس کو
مضبوط کیا ہو۔
امیت شاہ نے صدارتی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد پارٹی عہدیدا روں کی جو نئی
ٹیم بنائی تھی ، اس نے بھی یہ احساس دلایا تھا کہ مکمل طو ر پرمودی اپنی
لابی کو ہی مضبوط کرکے کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں ۔ کیوں کہ امت شاہ نے پارٹی
عہدیداروں کی نئی ٹیم کی فہرست کچھ یوں بنائی تھی، جس میں جنرل سکریٹری رام
مادھو اور جگت پرکاش نڈھا اور نائب صدور میں مختار عباس نقوی، بنڈارو
دتاتریہ اور بی ایس یدورپا شامل تھے۔ نئی ٹیم میں 8 سیکریٹری جنرل مقرر کئے
گئے ، جن میں جگت پرکاش نڈڈا، راجیو پرتاپ روڑھی، مرلی دھر راؤ، رام مادھو،
محترمہ سروج پانڈے، بھوپندر یادو، رام شنکر ر کٹھیریا اور رام ناتھ (تنظیم)
شامل ہیں ۔ نئی ٹیم میں 11 نائب صدور میں بنڈارو دتاتریہ، بی ایس یدورپا،
ستیہ پال ملک، مختار عباس نقوی، پروشوتتم روپالا، پربھات جھا، رگھور داس،
مسز کرن ماہیشوری، ونے سربددھے، مسز رینو دیوی اور دنیش شرما کے نام ہیں۔
اس فہرست سے صاف اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنے آرایس ایس کے قریبی ہیں اور
کتنے مودی کے ۔کل ملا کر جس طرح انتخابات سے قبل بی جے پی میں کئی ٹولیاں
تھیں ، اسی طرح کچھ دنوں کے بعد آرایس ایس سے الگ کچھ ٹولیاں بن جائیں گی ،
ابھی اس لیے کچھ واضح نہیں ہورہا ہے کہ مودی برسر اقتدار ہیں ، ان پر کسی
کا کوئی دباؤ نہیں ، چنانچہ جس کسی کے دل میں کوئی بغاوتی خیال پیدا ہوتا
ہے تو وہ دبانے کی کوشش کرتا ہے ، تاہم کب تک بغاوتی خیالات راکھ کے ڈھیر
میں دبے رہیں گے ، پارٹی کے لیے جی جان لگانے والوں کا پیمانہ صبر تو کبھی
نہ کبھی لبریز ہوگا ہی ۔ رفتہ رفتہ آپسی خانہ جنگی کے واقعات سامنے آنے لگے
ہیں ۔حالات ایسے ہو گیے ہیں کہ بی جے پی کے ذرا کمزور ہوتے ہی باغیانہ تیور
سخت ہونے لگیں گے، کیوں کہ اپنی کمزوریوں کا محاسبہ کرتے وقت جوتیوں میں
دال بنٹنے لگے گی۔
انتخابات سے قبل سے لوگوں کے ذہن وگمان میں یہ تھا کہ مودی کے برسراقتدار
آنے کے بعد ملک میں فرقہ پرستی کا زہر گھلے گا ، مگر حالات گواہ ہیں کہ
فرقہ پرستی کے ساتھ ساتھ زیادہ غیر ملکی دباؤ سے ہندوستان پریشان ہونے والا
ہے ، آرایس ایس کا زور ختم کرکے مودی ملک میں کچھ اور ہی کرنا چاہ رہے ہیں
، یعنی اب جو کچھ ہورہا ہے ، وہ نہ ملک کے عوام کے مفاد میں ہے اور نہ ہی
بی جے پی اور آرایس ایس کے مفا د میں، صرف اور صرف انجانے ڈگر پر ملک کی
سیاست چل پڑی ہے ، ایک ایسا ڈگر جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے ، جمہوریت کے
لیے نقصان دہ ہے۔بی جے پی میں عہدوں کی تقسیم اور مودی کے بدلتے تیور خاص
طور سے ان کے قول وعمل میں تضاد سے صرف ہندوستانی عوام کو ہی نہیں بلکہ
دیگر بیرونی ممالک کو انجانے خدشات ستانے لگے ہیں ۔ مودی حکومت کے قیام کے
قریبی دنوں میں جس طرح ملزموں کو آزاد کیا گیا ،گناہگاروں کو صاف اور بے
داغ قراردیا گیا ، وہ کیا جمہوریت کے ساتھ مزاق نہیں ہے ، اور اب جس طرح
ملزمین کو صاف وشفاف قراردینے کی روش عام ہوتی جارہی ہے ، اسے ملک کی تباہی
کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھا جاتاسکتا ہے ۔ مودی کی اسی روش اور مودی ٹولے
کی مضبوط ہوتی گرفت سے بی جے پی زبردست خانہ جنگی کی شکار ہو گی ۔اس کا
نتیجہ یہ ہوگا کہ نئے چہروں کی شمولیت سے پارٹی کو نقصان ہی اٹھانے پڑے۔ اس
میں شک نہیں کہ کرن بیدی کے بی جے پی میں شامل ہونے سے دہلی یونٹ کسی حد تک
مضبوط ہوئی تھی ، تاہم ان کی بڑھتی مقبولیت سے فعال کارکن حاشیہ پر جارہے
ہیں توپارٹی کو منفی نتائج کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے ۔ دھیر سنگھ کااپنے
حامیوں کے ساتھ بی جے پی سے الگ ہونا ، سکھا رائے اور ان کے حامیوں کی
ناراضگی بھی دہلی یونٹ کو کمزور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ موجودہ صورتحال سے
اندازہ ہوتا ہے کہ مودی ٹولے کو پارٹی مفا د سے کہیں زیادہ اپنے ہم خیالوں
کا مفاد عزیزہے ، جو کہ بی جے پی کے مستقبل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے ۔ |