یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

عالمی تاریخ ایسی ہستیوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے اپنے زندگی کے لیے واضح مقاصد متعین کئے ،خواب دیکھے اور پھر ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام غیر ضروری سرگرمیوں ،سیاحتوں اور ملاقاتوں کو خیر آباد کہہ دیا اور خود کو روز و شب ان مقاصد کی تکمیل میں مصروف کار کر دیا یہاں تک کہ تاریخ کے اوراق میں ان کا نام جلی حروف سے لکھا گیا ۔اورچیدہ چیدہ ایسے اشخاص کا بھی تذکرہ ملتا ہے جن کی زیست مقصد سے خالی تھی اور وقت کی لہریں انھیں بہا لیکر گئیں ان کے نام و نشاں بھی باقی نہ رہے کیونکہ ایسے لوگوں کی نظر میں وقت کی کوئی وقعت نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ اپنا اندازہ دوسروں کی رائے سے لگانے لگتے ہیں اور سرمایہ زیست میں تہی دامنی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ہمارے اکثر حکمران کچھ ایسی ہی زندگیوں کے رسیا ہیں ،رسمی جلسو ں ،تقریبات اور بیرون ملک محافل کی رونق بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،مدت اقتدار میں وہ بس شہرت اور دولت کو سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہیں اور عوام بیچارے اس بھیڑ وں کے ریوڑ کی طرح ہیں جس طرف بھی ہانک دو چل دئیے یہی وجہ ہے کہ نہ حالات بدلتے ہیں نہ اطوار بدلتے ہیں ، بس مسائل اپنی اشکال بدلتے ہیں ۔

آج موجودہ حالات کی کوئی بھی توجیح کی جائے مگر یہ بات طے ہے کہ میاں صاحب کی حکومت میں گڈ گورنس کا فقدان اجاگر ہوچکا ہے ۔ویسے بھی میاں صاحب کا منصفانہ اور بروقت فیصلے نہ کرنا ان کواس مقام پر لے آیا ہے ،کہ آج اس ملک کا ہر وہ انسان جو ان سے تھوڑی بہت عقیدت رکھتا تھا آج اپنی سوچ پر پشیمان نظر آتا ہے ۔مگر مقام حیرت تو یہ ہے کہ میاں صاحب کو جس قدر تنقید کا سامنا کرنا پڑااس کی نا قابل فراموش تاریخ رقم ہو چکی ہے ،مگر آپ کے طرزِ حکمرانی یا طرزِ فکر میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی یہاں تک کہ پشیمانی کی ایک ہلکی سی لکیر بھی چہرے پر نمودار نہیں ہوئی ،تاریخ کے اوراق کو پلٹیں تو ایسے تنقیدی حملے آمروں پر بھی کئے گئے جو کہ اس سے بہت کم تھے مگر وہ چند دن بھی تنقیدی وار نہ سہہ پائے اور ہتھیار پھینک دئیے ۔اس سے میاں صاحب کے ضبط اورعزم و ہمت کا پتہ چلتا ہے ۔مگر کاش یہی عزم و ہمت ملکی ترقی و فلاح کے لیے وقف کیا جاتا تو آج ملک کی حالت قابل دید ہوتی ۔جبکہ اقربا پروری میں وہ تو یہ بھی بھول گئے کہ لیڈر کا بنیادی فرض کیا ہوتا ہے ۔لیڈراگر کوئی غلط کام کرے تو اس کو سزا دیتا ہے اور اگر کوئی اچھا کام کرے اسے انعام سے نوازتا ہے ۔تاکہ دوسروں کے لیے پیغام ہو مگرپٹرول بحران میں سب نے دیکھا کہ یہاں توسب الٹا ہو رہا ہے ،مجرموں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور بے گناہوں کو سزاوارٹھہرایا جاتا ہے ،جبکہ نواز حکومت کے ایجنڈوں میں سے ایک یہ تھا کہ سب کا احتساب ہوگا اور جو درست کام نہیں کریں گے وہ افسران اور وزراء نکال دئیے جائیں گے ۔آج سوال یہ ہے کہ حکومت اپنے تیسرے سال میں داخل ہو رہی ہے اس نے اب تک کیا کیا ہے ؟ سوائے پاپولر پالیٹکس ٹائپ منصوبوں ۔سڑکیں اور پل بنانے کے ۔پہلے حکومت کے پاس ایک ہی بہانہ تھا کہ دھرنا سیاست حکومتی فرائض انجام دینے میں رکاوٹ ہے اب کس چیز کا دباؤ ہے ؟آج جب حالات حکومت کے قابو میں آچکے ہیں اور پی ٹی آئی کا سونامی ،جس کا خدشہ تھا کہ وہ سب بہا کر لے جائے گا وہ بھی اتر چکا ہے ایسے میں بھی عوام کو لوٹنے کے طریقوں اور ہتھکنڈوں پر ہی عملدرآمد کیا جارہا ہے ،کہا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں لوگوں کو بیوقوف بنا کر مال بٹورنے کے لیے ایک گروہ ہوا کرتا تھا اس گروہ سے وابستہ افراد ٹھگ کہلاتے تھے ۔انہی ٹھگوں کا ایک واقعہ آج مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک دیہاتی بکرا خرید کر اپنے گھر جارہا تھا ۔کہ چار ٹھگوں کی نظر اس پر پڑ گئی اور اسے ٹھگنے کا پروگرام بنا لیا ،چاروں ٹھگ اس کے راستے پر کچھ کچھ فاصلے پر کھڑے ہوگئے ۔وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھا تو ٹھگ بولا ’’بھائی یہ کتا کہاں لیے جارہے ہو؟ ‘‘دیہاتی نے اسے گھور کر دیکھا اور بولا ’’ارے بیوقوف !تجھے نظر نہیں آتا یہ بکرا ہے کتا نہیں ہے ‘‘دیہاتی کچھ آگے بڑھا تو دوسرا ٹھگ ٹکرایا اور کہا ’’یار کتا تو بڑا شاندار ہے کتنے کا خریدا ؟‘‘دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا ۔اب وہ تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب بڑھا کہ تیسرا اس کی تاک میں بیٹھا تھا ،دیکھتے ہی پروگرام کے مطابق گویا ہوا کہ’’جناب کتا لیے کہاں جا رہے ہیں ـ‘‘ بس اب دیہاتی تشویش میں مبتلا ہوگیا کہ کہیں یہ واقعی کتا تو نہیں ۔اسی تشویش میں وہ باقی ماندہ راستہ کاٹ رہا تھا کہ بالآخر چوتھے ٹھگ سے ٹاکرا ہوگیا ،جس نے جلتی پر تیل چھڑکا اور کہا کہ ’’جناب کیا اس کتے کو گھاس کھلاؤگے؟ ‘‘اب تو بیچارے دیہاتی کے اوسان خطا ہوگئے ،اسے یقین ہوگیا کہ یہ کتا ہی ہے اور وہ اسے چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور ان چاروں نے بکرا ٹھگ لیا ۔تو جناب بات یہ ہے کہ عوام کا حال اس دیہاتی جیسا ہو چکا ہے ،ان کو یوں حالات اور حقائق پیش کئے جاتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہی سچ ہے ،شعور کی منازل طے کرنے کے لیے ذرائع بھی وہ مہیا کئے گئے ہیں جن پر ایسے ہی گروہوں کا قبضہ ہے جو مصالحت کے پردوں میں معلومات مہیا کرتے ہیں ۔ایسے میں بہتری کی امید کس سے اور کیسے کی جاسکتی ہے ۔جبکہ آج ایماندارلوگ اور علمائے دین بھی مصالحت پسندی کا شکار ہو چکے ہیں ۔مفاد پرستی اور مادہ پرستی نے سب کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیا ہے ۔آج خرد کا نام جنوں اور جنوں کا نام خرد پڑ چکا ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے کہ پوری دنیا کم قیمت تیل پر موج کر رہی ہے اور ہم قطار اندر قطار اس کے لیے بھیک مانگ رہے ہیں ۔اور تیل کی اتنی قلت ہو چکی ہے کہ ایمبولینس سروس بھی جزوی طور پر بند پڑی ہے ،تمام معمولات زندگی بند پڑے ہیں اورکہا جارہا ہے کہ یہ بحران فروری کے آخر تک جائے گا ۔خوابوں کا دیس آج شدید بد نظمی اور سیاسی افراتفری کا شکار ہوچکا ہے ،اور ایسے میں تحریک انصاف کا لائحہ عمل حکومت کے لیے پریشانی کا سبب ہوگا ۔کیونکہ عمران خان وہ لیڈر ہیں جو نوجوانوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور خیبر پختونخواہ میں ان کے خلاف کوئی کھڑا بھی نہیں ہوتا ایسے میں ان کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ کارکنان اور تمام حکومت کو صوبے کی بہتری کے لیے مصروف عمل کر دیں ،اور ان کا ایجنڈا ایک کامیاب اور پر سکون طرزحکومت کی نشاندہی کر رہا ہے اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ باقی صوبوں کے لیے باعث پریشانی ہوگا کیونکہ جناب عمران خان کی دوسروں صوبوں میں بھی پسندیدگی کو فروغ ملے گا اور اس سے ن لیگ کو خاطر خواہ پریشانی اٹھانا پڑ سکتی ہے ،اس لیے تا وقتیکہ ایسی نوبت آئے حکومت کو چاہیئے ایسی اصلاحات نافذ کرے کہ کچھ ڈیلیور ہوتا ہوا نظر آئے یہ کس قدر دکھ کی بات ہے میاں صاحب کہ آپ نے جس صبح کی ہمیں نوید دیکر گزشتہ حکومت کے خلاف احتجاج کا علم بلند کیا تھا ہم اس سے بھی زیادہ تاریک رات میں بھٹکنے لگے ہیں ،آج تو اس دھرتی کا ہر ذرہ آپ سے کہہ رہا ہے ۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

مگر بحثیت مسلمان ان تمام تلخ حقائق کے باوجود ہم اپنے کشت ویران سے ناامید نہیں ہیں کہہ انشا اﷲ تعالیٰ یہ غم کی رات ڈھل جائے گی ،اس سال بہتری ہوگی اور داغ داغ اجالا دیکھنے کو نہیں ملے گا ۔

Ruqquya Ghazal
About the Author: Ruqquya Ghazal Read More Articles by Ruqquya Ghazal: 50 Articles with 37749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.