پاکستان میں نئی نورا کشتی

پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات سے عوام کنفویژن کا شکار ہوگئے ہیں۔ اور ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ پاکستان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ملکی حالات کس طرف کو جا رہے ہیں۔ صدر پاکستان کی لاہور آمد سے قبل ہی میاں شہباز شریف کا طویل غیر ملکی دورہ اور دوسری طرف جناب صدر کی طرف سے لاہور میں ہر مہینے کارکنوں کے مسائل کا جائزہ لینے کی ملاقاتوں کا وعدہ ان سب باتوں سے تو یوں دیکھائی دیتا ہے کہ ملک میں محاذ آرائی کی سیا ست کا دروازہ کھل گیا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان میں ہمیشہ محاذ آرائی اور مخالفت برائے مخالفت کی سیاست ہوتی رہی ہے۔ پہلی بار ملک میں مفاہمت کی سیاست متعارف ہوئی تو لوگوں نے یہ خیال کرنا شروع کر دیا کہ شاید ہماری قسمت بدلنے کے دن آگئے ہیں۔ سیاست دانوں کو ملک و قوم پر ترس آگیا ہے اور وہ عوام کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن عوام کو کیا علم تھا کہ ان کی قسمت میں نت نئے دھوکے، فراڈ اور سیاسی کرتب لکھے جاچکے ہیں۔

مفاہمت کی سیاست کے آغاز سے چند روز پہلے تک کسی سیاسی جماعت نے حکومت کے خلاف سڑکوں پر نہ تو کوئی مؤثر احتجاج کیا اور نہ ہی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے کوئی سازشیں کیں۔ لیکن اچانک جب ملک کی ایک بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائدین کو علم ہوا کہ انہیں عدالت کے ذریعے نااہل قرار دیا جارہا ہے تو ملک میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اور پنجاب میں سلمان تاثیر کی جانب سے چھوٹی موٹی جو ”شرلیاں“ چھوڑی جارہی تھی انہوں نے ایک دھماکے کی صورت اختیار کر لی اور عدالتی فیصلہ کے بعد یکسر صورت حال تبدیل ہوگئی۔

گورنر سلمان تاثیر گورنر راج کی صورت میں صوبے کے یکتا و بااختیار حکمران بن گئے۔ جبکہ اس کے برعکس میاں برادران نے طوفان کی مانند احتجاجی جلسے و جلوس اور ریلیاں منعقد کر کے اور میڈیا پر مخالفانہ یلغار کے ذریعے عوام کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اب کیا ہوگا۔کچھ عرصہ حالات معمول پر آئے تو سپریم کورٹ نے این آر او کو غیر آئینی قرار دے دیا اس کے ساتھ ہی دونوں جماعتوں میں نئے خدشات پیدا ہوگئے اور ملک میں کہیں سندھ کارڈ استعمال کرنے کی دھمکیاں اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کی طرف ہاتھ کاٹنے کی دھمکیاں گردش کرنے لگیں دوسری طرف مسلم لیگ ن کی طرف سے جناب صدر زرداری پر اعتماد کا ووٹ ڈالنے سے انکار جیسے معاملات نے عوام میں خطرے کی نئی گھنٹیاں بجانی شروع کردیں۔ اس طرح سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میاں برادران عوام کو سڑکوں پر نکال کر موجودہ حکومت کی چھٹی کروانا چاہتے ہیں۔ میاں برادران کی سیاست کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ انہوں نے دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے لوگوں کو اکٹھا کیا اور پیپلز پارٹی کے خلاف ایک ہارڈ لائن کھینچ دی۔ جس کے بعد انہیں بلا امتیاز دائیں بازو کی قوتوں کا لیڈر مانا جانے لگا۔ لیکن پیپلز پارٹی سے مفاہمت کے بعد اب انہوں نے ٹارگٹ آصف علی زرداری کو بنا لیا ہے اور پیپلز پارٹی کے بارے میں سوفٹ کارنر دکھا رہے ہیں۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اس ملک کی بااختیار قوتیں کہیں آصف علی زرداری کے خلاف میاں نواز شریف کو استعمال کر کے ان کی چھٹی تو نہیں کروانا چاہتی۔ پاکستان میں اقتدار کی سیاست کا موازنہ کیا جائے تو ماضی میں ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ جس کسی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ہوتی تھی اقتدار ہمیشہ اسی کے گرد گھومتا تھا۔1988ء سے لے کر 1997ء تک کے سیاسی حالات میں بے نظیر بھٹو ایک بڑی لیڈر تھی عوام اور ووٹ ان کے ساتھ تھے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ ان کی سیاست سے نالاں تھی۔ جبکہ میاں محمد نواز شریف ابھی لیڈر بننے کے مراحل سے گزر رہے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی۔ جس کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کو کبھی پاکستان میں مکمل اقتدار نہ دیا گیا اب صورت حال بالکل اس کے الٹ ہوچکی ہے۔ میاں محمد نواز شریف بلاشبہ اس ملک کے معروف لیڈر بن چکے ہیں۔ عوام اور ووٹ ان کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ ان کی سیاست سے نالاں ہے۔ یہ بھی تو طرفہ تماشا ہی ہے کہ کل تک چھوٹے بھائی اور بڑے بھائی کہلانے والے ساعت کی ساعت میں ایک دوسرے سے یوں خفا دیکھائی دے رہے ہیں کئے گئے وعدوں کے بارے میں بھی قول وقرار کے حوالے سے عجیب انکشافات کر رہے ہیں ۔

دونوں طرف کے لوگ کچھ نہ کچھ ایسا کررہے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کہنے والا حق پر ہے اور مخالف زیادتی کررہا ہے۔بڑے میاں صاحب تو اَب یہاں تک فرما گئے ہیں کہ” زرداری مشرف کا وارث بننے کی بجائے بے نظیر بھٹو کا وارث بنیں۔“یہ بھی خوب رہی۔ محترمہ کی وراثت کے صدقے ہی سے تو وہ آج اس بلند مرتبہ پر فائز ہیں ورنہ تو انہوں نے اور پرویز مشرف نے ان کی زندگی اجیرن بنانے میں تو کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔

سلاخوں کے پیچھے گزارے گئے شب و روز وہ کیوں کر فراموش کرسکتے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں سے دوری کا کرب سہنا بلاشبہ کٹھن امتحان ہوتا ہے۔ بے بسی کی دلدل میں اترا ہوا شخص ہی جانتا ہے کہ وہ کس کرب سے گزر رہا ہے۔ یقیناً زرداری بھی بہت کچھ اپنے اوپر برداشت کر آئے ہیں۔ اَب اگر ان دنوں کو یاد کر کے وہ اپنی مہارت سے بدلہ لیتے ہیں تو یہ ان کی اپنی خوبی ہے۔”ٹین پرسنٹ“ اور ”گھوڑوں کو مربے“ کھلائے جانے کی باتیں تو ماضی کا حصہ بن چکی ہیں لیکن آج کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ زرداری نے اپنے مخالفین کو چاروں شانے چت کردیا ہے۔ بالاآخر ملکی سیاست ایک نیا پلٹا کھانے والی دیکھائی دے رہی ہے اور ماہر علم نجوم کا یہ بھی تو کہنا تھا کہ 15 جنوری کا سورج گرہن کے بعد ملکی حالات میں اچانک تبدیلی کے امکانات ہیں اب سورج گرہن تو گزر گیا لیکن ملک میں دو بڑی مفاہمتی سیاسی جماعتوں میں عجب رویے سے ملکی سیا سی فضاء تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 88638 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.