غلام شبیر
ژاک لاکاں (عرصہء حیات:پیدائش13۔اپریل،1901وفات9ستمبر 1981)نے ابتدائی
تعلیم پیرس میں حاصل کی ۔اس کا والد صابن اور تیل کا تاجر تھا۔ژاک لاکاں
فوج میں بھرتی ہونا چاہتا تھا لیکن اس کی جسمانی کم زوری سد راہ بن گئی۔اس
کے بعد اس نے میڈیکل کے شعبے کا انتخاب کیا ۔ میڈیکل کی تعلیم امتیازی
حیثیت سے مکمل کرنے کے بعد اس نے سائیکاٹری میں اختصاصی مہارت حاصل کی اور
1931میں ایک سائیکاٹرسٹ کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔اس کی شادی
1934میں میری لوزی (Marie Louise)سے ہوئی جو نہایت کام یاب رہی اور اس کے
تین بچے پیدا ہوئے جن کی تعلیم و تربیت میں اس کی بیوی نے اہم کردار ادا
کیا۔زمانہ طالب علمی ہی سے ژاک لاکاں کو نفسیات اور فلسفے کے مضامین سے
گہری دلچسپی تھی۔ زمانہ طالب علمی کے اس عرصے میں اس نے ممتاز ماہر نفسیات
اور بابائے تحلیل نفسی سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud 1856-1939)کی تصانیف کا
عمیق مطالعہ کیا اور اس سے گہرے اثرات قبول کیے۔ نیورالوجی،سائیکو تھراپی
اور تحلیل نفسی میں ستاروں پر کمند ڈالنے والے آسٹرین دانشور سگمنڈ فرائڈ
نے لا شعور اور بچوں کی جنس کے موضوع پر جو تھیوری پیش کی اسے بیسویں صدی
کی اہم ترین تھیوری کی حیثیت حاصل ہے۔ 1930میں سگمنڈ فرائڈ کو گوئٹے پرائز
ملا۔سگمنڈفرائڈ کی شخصیت اور اس کے تحلیل نفسی کے نظریے کے بارے میں ژاک
لاکاں نے کچھ مضامین بھی لکھے جنھیں قارئین نے بہت سراہا۔سگمنڈ فرائڈسے
عقیدت کی بنا پر1936میں وہ فرائیڈین تحلیل نفسی تحریک (Freudian
Psychoanalytical Movement)سے وابستہ ہو گیا۔وہ اس تحریک کا انتہائی فعال
،مستعد،اور سر گرم کا رکن تھالیکن اس کی حق گوئی اور بے باکی اس کے ناقدین
کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور وہ اسے اپنی راہ سے ہٹانے کے ہر وقت
سازشوں میں لگے رہتے تھے۔ایک راسخ العقیدہ محقق ،زیرک نقاد ،رجحان ساز
فلسفی اور با کمال ماہر نفسیات کے طور پر اس کی پہچان ہو چکی تھی۔اپنے اصلی
اور بنیادی مباحث ،باریک بینی پر مبنی استدلال ،نفسیاتی تجزیہ کی تھیوری کے
موضوعات پر تنقیدی مضامین لکھ کر اس نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔اس
نے جو طرز ادا اختیار کی وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہ تھی۔اس کے حاسدوں
نے جب اس کے تخیل کی جو لانیوں اور فقیدالمثال کامرانیوں کو دیکھا تو وہ دل
ہی دل میں جلنے لگے ۔بے کمال لفاظ حشرات ِ ادب ہر دور میں اہل کمال کے
درپئے آزار رہے ہیں۔ژاک لاکاں کومعاشرے میں جو عزت و احترام کا مقام نصیب
ہوا ،اسے دیکھ کر سب بے کمال سنگِ ملامت لیے نکل آئے اور اس کے درپئے پندار
ہو گئے۔ان انتہائی تکلیف دہ حالات میں اُسے بین الاقوامی تحلیل نفسی ایسو
سی ایشن سے الگ کر دیا گیا۔ژاک لاکاں نے جب تیر کھا کر کمین کی جانب نظر
دوڑائی تو اپنے ہی دوستوں سے آنکھیں چار ہو گئیں ۔ ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ
سے اپنی قلبی وابستگی اور والہانہ عقیدت کی وجہ سے1964میں ژاک لاکاں نے
پیرس میں اپنی ایک تنظیم قائم کی جس کانام ایکول فرائیڈین(Ecole
Freudienne) رکھا۔ سگمنڈ فرائڈ کے نظریہء تحلیل نفسی پر تحقیق و تنقید و
توضیح اس کی زندگی کا نصب العین بن گیا۔اس کے مقالات کا مجموعہ
ایکرٹس(Ecrits)1964میں شائع ہوا۔اس کی کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی وہ شہرت
اور مقبولیت کی بلندیوں پر جا پہنچا اور پُوری دنیا میں اس کے اشہب قلم کی
جو لانیوں کی دھوم مچ گئی۔اس کا شمار نہ صرف فرانس بل کہ پوری دنیا کے
انتہائی با اثر اور رجحان ساز دانش وروں میں ہونے لگا۔ژاک لاکاں کی اس
معرکہ آرا کتاب کا شمار بیسویں صدی میں شائع ہونے والی دنیا کی سو(100) سب
سے زیادہ موثر اور مقبول کتب میں ہونے لگا۔ اس کتاب کے تراجم دنیا کی بڑی
زبانوں میں کیے گئے اور ان تراجم کی اشاعت سے نئے مباحث کا آغاز ہوا ۔اس کی
مشہور کتاب ایکرٹس (Ecrits) کا انگریزی زبان میں ترجمہ سب سے پہلے ایلن
شریڈن(Alan Sheridan) نے 1977میں کیا۔اس کے بعدبرو س فنک(Bruce Fink) نے
بھی اسے انگریزی کے قالب میں ڈھالا ،یہ ترجمہ 2006میں زیور طباعت سے آراستہ
ہو کر منصہء شہود پر آیااور اسے عالمی سطح پر بے حد پذیرائی نصیب
ہوئی۔لسانیات کے نہایت اہم اور وسیع شعبے میں پس ساختیاتی فکرکی ترویج و
اشاعت کے سلسلے میں ژاک لاکاں کی خدمات کا ایک عالم معترف تھا ۔اپنی زندگی
کے آخری ایام میں ژاک لاکاں کوغیر متوقع پریشانیوں اور ذہنی صدموں سے دوچار
ہونا پڑا۔عالمِ پیری میں جب اس کے اعضا مضمحل ہو گئے اورعناصر میں اعتدال
عنقا ہو گیاتو کئی مارِ آستین اس پر ٹوٹ پڑے اورمتعدد سانپ تلے کے بچھو
اپنی نیش زنی سے اسے اذیت دینے لگے۔ یہ سب اس کے کینہ پرور
،پُرعناداوراحسان فراموش شاگرد تھے جن کے بے قرینہ اور نا روا سلوک نے اس
حساس تخلیق کار کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیا۔ایسے چربہ
ساز ،سارق،کفن دُزد قماش کے مسخرے جب حادثہء وقت کے نتیجے میں غاصبانہ طور
پرجام پرقابض ہو نے میں کا میاب ہو جاتے ہیں تومے خانے کی توہین،رندوں کی
ہتک اور انسانیت کی بے توقیری اور توہین و تذلیل ان کا وتیرہ بن جاتا ہے۔ان
محسن کش متفنی شاگردوں کا بڑھتے ہوئے منحرف المرکز روّیے نے ژاک لاکاں کی
زندگی اجیرن کردی۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کر تے وقت جب وہ ان
شاگردوں پر اپنے الطاف وعنایات اور مروّت وشفقت کااحوال دیکھتا تو اس کی
آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ اگرچہ یہ المیہ اس کے لیے سوہان روح بن گیا تھا اس
کے با وجود اس نے اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولااور اس موضوع پر لب اظہار
پر تالے لگالیے۔
یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تواور کیا ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں
اس بے حس معاشرے میں زیرک اور رجحان ساز دانش وروں کا کوئی پرسانِ حال
نہیں۔جب جاہل اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے تو وقت کے
اس حادثے کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ ان لرزہ خیز اوراعصاب شکن حالات میں
ژاک لاکاں کو بھی سنگ ِملامت برداشت کرنے پڑے ۔ سگمنڈ فرائڈ کے بعد جس ماہر
نفسیات کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہ ژاک لاکاں ہے۔اُسے تحلیل نفسی
کے انتہائی متنازعہ ماہر کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود یہ
حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ جہاں تک قارئین میں مقبولیت کا تعلق ہے ژاک
لاکاں نے سگمنڈفرائڈ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ
سگمنڈفرائڈ کی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن ایک فرائیڈین کی حیثیت سے جوشہرت
اور مقبولیت ژاک لاکاں کے حصے میں آئی اس میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں
۔ سگمنڈفرائڈ کی تھیوری کواپنے فکری سفر میں زاد راہ بنانے والے اس نابغہء
روزگار دانش ور نے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلندمنصب تک رسائی
حاصل کی اور جریدہء عالم پر اس کادوام ثبت ہو گیا۔ژاک لاکاں کا خیال تھا کہ
لا شعور کی تشکیل بھی بالکل اسی انداز میں ہوئی ہے جس طرح زبان کی تشکیل
ہوئی ہے ۔داخلی احتیاج ایک تخلیق کار کو ایسے قلبی اور روحانی اضطراب میں
مبتلا کر دیتی ہے کہ جو اسے تخلیق فن پرمائل کرتا ہے۔ اس کی دلی خواہش ہوتی
ہے کہ سیر جہاں کے دوران اس کی جان نا تواں پر جتنے بھی موسم اترے ہیں وہ
انھیں پیرایہ ء اظہار عطا کرے ۔تخلیق ادب میں ایک تخلیق کار کی شعوری سوچ
اور گہرے غور و خوض کا بے حد اہم کردار ہے جسے تحلیل نفسی کے ماہرین نے
تخلیقی فعالت کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل قراردیا ہے ۔تخلیق کار کی تخلیقی
فعالیتیں اپنی اصلیت کے اعتبار سے نئے اور متنوع تجربات کے ابلاغ کو یقینی
بنانے کا وسیلہ ہیں ۔اس نے سگمنڈ فرائڈ کے تصور کوآگے بڑھا کر اسے حیاتیاتی
عمل سے لسانیات کی اساس پراستوار کرنے کی سعی کی۔اس نینفسیات موضوعات
Id-Ego-Super Egoکو تحلیل نفسی میں جس انداز میں پیش کیا وہ اپنی مثال آپ
ہے۔ژاک لاکاں نے تحلیل نفسی کی بنیاد پر جو تنقید لکھی وہ اس کا منفرد
تجربہ تھا جسے عالمی سطح پر زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ سگمنڈفرائڈ نے ذہن
کو شعوراور لا شعور میں تقسیم کیا ژاک لاکاں نے اس موضوع پرداد تحقیق دی۔
پس ساختیات سے متعلق اس نے بیگانگی،موضوعیت،جنسی اختلافات،محرکات ،قانون
اورتفریح جیسے مو ضوعات پر نہایت دل نشیں انداز میں اپنے خیالات پیش
کیے۔بیسویں صدی کے فرانسیسی فلسفے،سو شیالوجی،تانیثیت،ادب، فنون
لطیفہ،نفسیات بالخصوص تحلیل نفسی پر ژاک لاکاں نے جن خیال افروز مباحث کا
آغاز کیا ،پوری دنیا میں ا س کی باز گشت سنائی دی۔ژاک لاکاں نے واضح کر دیا
کہ متن فنا کی دستبرد سے ہمیشہ محفوظ رہتا ہے ،اس کی اپنی سائیکی اور اپنا
جہاں ہوتا ہے۔حرف صداقت کودوام حاصل ہے اور ایسی تحریریں جوازلی اور ابدی
صداقتوں کی امین ہوں ،وہ فنا کی دستبرد سے محفوظ رہتی ہیں۔ سیلِ زماں کے
مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلو ں کوخس و خاشاک کے ما نند بہا لے
جاتے ہیں لیکن دل سے نکلنے والے سچے الفاظ کو دوام حاصل ہے ۔صداقت کے لیے
جان کی بازی لگانے والے اپنے وجود کا اثبات کرتے ہیں اور ان کی تخلیقی
فعالیت انسانیت کی فلاح کی ضامن ثابت ہوتی ہے۔سگمنڈ فرائڈ نے بھی صداقت کی
اہمیت پر بہت زور دیا۔اس سلسلے میں ژاک لاکاں نے لکھا ہے:
Freud is referring to this connection with truth when he declares that
it is impossible to meet three challenges:to educe,govern and
psychoanalyze.Why are they impossible ,if not for the fact that the
subject can only be missed in the under takings,slipping away in the
margin Freud reserves for truth.(1)
صداقت کے ساتھ جو لوگ عہد وفااستوار رکھتے ہیں وہی علاج گردش لیل و نہار کی
استعداد سے متمتع ہوتے ہیں۔تحلیل نفسی سے شروع ہی میں یہ بات واضح ہو جاتی
ہے کہ زبان کے ذریعے جو الفا ظ ادا کیے جاتے ہیں اگر ان میں صداقت کی آمیزش
ہوتو ان کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نفسیات میں ان کی اہمیت اور افادیت
مسلمہ ہے ۔ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ کسی نفسیاتی مریض کی تحلیل نفسی کے
لیے اس کی گفتگو اور الفاظ کو نقطہء آغاز سمجھا جا سکتا ہے ۔ان الفاظ سے
فرد کے جذبات و احساسات اور فکری منہاج کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔سگمنڈ
فرائڈ نے اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ اظہار و ابلاغ میں حرف صداقت کی تاثیر
مسلمہ ہے۔جذبات کا انسلاک مفاہیم سے نہیں بل کہ نشان نما سے ہوتا ہے ۔الفاظ
اور ان سے وابستہ مطالب کے بارے میں ژاک لاکاں نے اسی خیال کو وسعت دی ،اس
نے لا شعور کے بارے میں بتایا کہ اس کی تشکیل بھی زبان کے مانند ہوئی ہے جو
کہ اشارات کے ایک نظام کی شکل میں فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے۔ژاک لاکا ں
نے لکھا ہے سچ کی معجز نما اثر آفرینی خوداپنا اثبات کرتی ہے:
For these undertakings truth proves to be complex in its essence,humble
in its offices and foreign to reality,refractory to the choice of
sex,akin to death and,on the whole rather inhumna ,Diana
perhaps.....Actaeon, tooguilty to hunt goddess,prey in which is caught,O
huntsman,the shadow that you became,let the pack go without hastening
your step,Diana will recognize the hounds for what the are worth." (2)
ژاک لاکاں نے اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ اس عالم آب و گِل میں ہر مر
حلہء زیست پر صداقت کی اثر آفرینی کا غلغلہ ہے۔صداقت کی اقلیم کو اندیشہء
زوال نہیں ۔ژاک لاکاں نے یہ بھی واضح کیا کہ تحلیل نفسی کے اعجاز سے سماجی
زندگی کا وسیع تر تناظر میں مطالعہ ممکن ہے۔اس میں دیگر سماجی نظریات کی
نسبت کہیں زیادہ وسعت ،تنوع اور بو قلمونی پائی جاتی ہے۔تحلیل نفسی ہمیں
جانچ پرکھ کی قوی صلاحیت عطا کرتی ہے۔لا شعوری خواہشات کے طلسم کا اسیر ہو
جانے کے اسباب کی گرہ کشائی تحلیل نفسی ہی سے ممکن ہے۔ نیرنگیء زمانہ
اورہرعقدہء تقدیر جہاں کی تفہیم میں تحلیل نفس کلیدی کردا ر ادا کرتی
ہے۔رخش عمر مسلسل رو میں ہے اور انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی
اس کا پاؤں رکاب میں ہے۔ شقاوت آمیز نا انصافیوں اورہلاکت خیزیوں کے موجودہ
زمانے میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بروز گمبھیر صورت
اختیار کرتا چلا جا رہاہے۔ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں تحلیل نفسی
زندگی کا وسیع تر تناظر میں جائزہ لینے کی راہ دکھاتی ہے۔ژاک لاکاں نے اپنے
تجزیاتی مطالعہ سے یہ واضح کر دیا کہ سائیکی کس طرح افراد کے فکر و خیال کی
دنیا پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے زیر اثر افراد کی فعالیت کیا رخ
اختیار کرتی ہے ۔زندگی کے مختلف پیچیدہ مراحل پر سائیکی جس انداز میں رنگ
جما تی ہے ژاک لاکاں نے اپنے تجربات ،مشاہدات اور تجزیات کے وسیلے سے اسے
پرکھنے کی سعی کی ہے۔انسانی تجربات کو ژاک لاکاں نے لسانی تناظر میں جانچنے
کا منفرد تجربہ کیا جس کے نتائج پر وہ مطمئن تھا۔
ممتاز ماہرلسانیات سوسئیر (Ferdinand de Saussure 1857-1913)کے خیالات پر
ژاک لاکاں نے گرفت کی اور ان پر نظر ثانی کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ نشان
مستحکم نہیں ہوتا بل کہ پیہم تغیر پذیر رہتا ہے اور جہاں تک الفاظ اور ان
کے مفاہیم کا تعلق ہے یہ بھی تخمین و ظن کی حیثیت رکھتے ہیں ژاک لاکاں نے
لفظ پر اپنی توجہ مر کوز رکھی ۔ اس چیز کو جس کی نمائندگی کے لیے لفظ کا
استعمال کیا جاتا ہے اسے ثانوی اہمیت کا حامل سمجھا۔ایغو کے عکس کو زیربحث
لاتے ہو ئے ژاک لاکاں نے بہت دلچسپ نتائج اخذ کیے۔اس نے آئینہ کو اس مقصد
کے لیے استعما ل کیااور اپنے موقف کی احسن طریقے سے وضاحت کی۔آئینہ کے
مرحلے کا طریق کارایک ایسا عمل تھا جس میں اس نے دو اقدار کومد نظر
رکھاپہلے درجے پر اس نے تاریخی قدر کو رکھا۔یہی وہ قدر ہے جو بچے کی ذہنی
نشو و نما میں فیصلہ کن موڑثابت ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس نے دوسری قدر کو
رکھا ہے جو بڑھتی ہوئی عمر اور جسم کی نشوو نما ہے ۔ سوچ کے ساتھ ان کا جو
چولی دامن کا ساتھ ہے،ژاک لاکاں نے اسے اجاگر کیا ہے۔اس اہم تعلق کو متشکل
کر کے ژاک لاکاں نے تحلیل نفسی کے موضوع پراپنے خیالات کی موثر انداز میں
وضاحت کی ہے۔ژاک لاکاں نے زبان کو اپنی شناخت کاوسیلہ سمجھااور اپنی ذات کو
لسانیات کی اتھاہ وسعتوں میں یوں ضم کر دیا کہ دونوں یک جان د قالب دکھائی
دیتے ہیں۔اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ جب بھی علم ،ادب ،لسانیات اور فلسفہ
کے مو ضوعات پر تاریخی تناظر میں بات کی جائے گی تو یہ امر چنداں اہمیت کا
حامل نہیں کہ اس کی ماضی میں کیا حیثیت تھی یا زمانہ حال میں وہ کس منصب پر
فائز ہے یا اس وقت وہ کس مر حلہء زیست سے گزر رہا ہے اور اسے کن مسائل اور
دشواریوں کا سامنا ہے ۔مورخ کومستقبل پر نظر رکھنی چاہیے کہ آنے والے دور
میں تخلیق کارکے خیالات کو کس طرح سمجھا جائے گا ۔اس کی ساری جد و جہد کا
محور مستقبل کے لیے بہتر حکمت عملی مرتب کرنا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے
اپنے آئینہء گفتارکے ذریعے قاری کو آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر
دکھانے کی کوشش کی ہے تا کہ اقتضائے وقت کے مطابق مستقبل کی فکری منہاج کے
تعین کی اُمید بر آئے اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر آئے۔
ایک کثیر ا لتصانیف دانش ور کی حیثیت سے ژاک لاکاں نے اپنی وقیع تصا نیف سے
علم و ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا اسے تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے
گا۔ اس کا پیچیدہ مگر بصیرت افروز اسلوب قاری کو فکر و خیال کی حسین وادیوں
کی سیر کراتا ہے۔ اس کی تحریر کا ایک ایک لفظ گنجینہء معانی کا طلسم ہے جس
سے ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت سامنے آتی ہے اور مر حلہء شوق
کبھی طے نہیں ہوتا ۔ایغو الاصل فلسفیوں کے افکار کی عمارت کو پس ساختیات کے
حرف صداقت کے تیشے سے منہدم کرنے میں ژاک لاکاں نے جس انہماک کا مظا ہرہ
کیا وہ اس کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جا تا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ کے بعد
ژاک لاکاں نے تحلیل نفسی پر سب سے زیادہ وقیع کا م کیا۔تاریخ ہر دور میں اس
کے اہم کام اور عظیم نام کی تعظیم کر ے گی ۔ژاک لاکاں کی اہم تصانیف درج
ذیل ہیں:
1.Anxiety,2.Ecrits,3.The Seminar Of Jacques Lacan 10 volumes,4.The
Triumph of Religion,5.On the nameof Father,6.The four fundamental
concepts of Psycho-Analysis,8.The Ethics of Psycho-Analysis,9.The
Psychoses,9.My Teaching
ژاک لاکاں نے پامال راہوں سے بچ کر اپنے لیے ایک نیا اسلوب منتخب کیا ۔اس
نے فکر انسانی کی پرواز،تخیل کی جو لانیوں اور مستعمل علامات میں ایک واضح
فرق کی جانب متوجہ کیا ۔معاصر تنقیدی تھیوری پر ژاک لاکاں کے تصورات کے دور
رس اثرات مرتب ہوئے ۔ژاک لاکاں کے بارے میں عمو می تاثر یہ ہے کہ اس نے
فرائڈ کے نظریات کی توضیح کو نصب العین بنایا۔وہ خود کو فرائڈین سمجھتا تھا
اور اس پر وہ مطمئن بھی تھا لیکن اس کے نظریات صر ف فرائڈ تک محدود نہیں
رہتے بل کہ وہ فرائڈ کے نئے مطالعات پیش کر کے از سر نو اس کے نظریات کے
بارے میں متنوع مباحث کا آغاز کرتا ہے۔اس کا یہ اسلوب اپنی الگ شناخت رکھتا
ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لاکانین مکتبہء فکر ہے جس میں
نئے زمانے نئی صبح و شام پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔پس ساختیات کے مباحث
میں اس کا دبنگ لہجہ اس کی مستحکم شخصیت کی پہچان ہے۔ژاک لاکاں نے اپنے ذہن
و ذکاوت کی جو لانیوں سے ایک ایسے موزوں لسانی ماڈل کا تصور پیش کیا جس کے
وسیلے سے سماجی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز اور ارتعاشات کا احاطہ ممکن ہے
اور معاشرے میں انسانی مو ضوعات کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ اہم مو
ضوع جس ندرت ،تنوع اور لسانی اہمیت کا حامل ہے اسے بہت سراہا گیا۔انسانی
خواہشات کا موضوع بھی ژاک لاکاں کی توجہ کا مرکز رہا ۔انسان تمناؤں میں اس
قدر اُلجھ جاتاہے کہ اسے تمنا کے دوسرے قدم کی بھی خبر نہیں رہتی۔ہزاروں
ایسی خواہشیں اس کے دل میں پیدا ہوتی ہیں کہ ہر خواہش پر اس کا دم نکلتا
ہے۔بادی النظر میں ہر خواہش کا اختتام دوسروں کی خواہشات سے وابستہ ہے۔ہر
خواہش کے نمو پانے کے متعدد اسباب و محرکات ہو تے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ جب بھی دل میں کوئی خواہش پیدا ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی ہم دوسروں کی
جانب ملتجیانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ اس خواہش کے بارے میں وہ کیا خواہش
رکھتے ہیں۔دوسروں کی خواہشات کے احترام میں ہمیں اپنی کئی خواہشوں کا گلا
گھونٹنا پڑتا ہے،جب ہمارے دل سے کوئی خواہش رخصت ہوتی ہے تو ہم اسے آنسوؤں
اور آہوں کا نذرانہ پیش کر کے الوداع کہتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا
جا سکتا کہ کسی بھی خواہش کرنے والے کے پیش نظر ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ
دوسرا کیا خو اہش رکھتا ہے۔آلام روزگار کے مسموم ماحول میں خواہشات کے گُل
ہائے رنگ رنگ اکثر مُرجھا کر بکھر جاتے ہیں ۔اس کے باوجود یہ خوا ہشات کبھی
معدو م نہیں ہو تیں۔تما م نا آسودہ خواہشات فرد کے لا شعور میں ٹھکانا کر
لیتی ہیں اور وہ ان لخت لخت خواہشات کو جو اس کے لا شعور میں جگہ بنا لیتی
ہیں، اپنی متاع زیست سمجھ کر اپنے دل میں سنبھالے ہجوم غم کی ظلمتوں میں ان
سے ضیا حاصل کرتا ہے اور دل کو سنبھالنے کی سعی میں مصروف رہتا ہے۔ژاک
لاکاں خواہشات کی اسی بے کراں وسعت اور حیران کُن قوت اور مسحور کُن اثر
آفرینی کو لا شعور سے تعبیر کرتا ہے۔ ژاک لاکاں جس موضوع پر بھی اظہار خیال
کرتاہے اس موضوع کو ناقابل فراموش بنا دیتا ہے۔ اپنی حقیقت سے آگاہ ہو کر
اس نے فکر و احساس کو جس منفرد انداز میں پیرایہء اظہار عطا کیا ہے وہ زبان
و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس اورعلمی فضیلت کاثبوت ہے۔ایک زیرک اور بلند
پایہ ادیب اور فلسفی کی حیثیت سے اس نے جو ڈسکورس پیش کیا ہے وہ قاری پر
وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔اس کے ڈسکورس کے سوتے لا شعور سے پھو ٹتے ہیں
اور اس کی تاثیر قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔اپنے ڈسکورس کے بارے میں ژاک
لاکاں نے لکھا ہے:
"My discourse proceeds in the following way:sustained only in its
topological relation with the others."(3)
ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ لا شعور کی وضاحت کی اور اس کے بعد اسی
کی اساس پر اپنے منفرد انداز میں نظریہ لا شعور کو پیش کیا ۔ سگمنڈ فرائڈکے
بحرِ خیالات کاپانی اس قدر گہرا تھا کہ وہ خود بھی اس کی غواصی کر کے لا
شعور کے بارے میں حقائق کے گہر ہائے آب دار بر آمد کرنے میں کامیاب نہ ہو
سکا۔ژاک لاکاں نے زندگی بھرسگمنڈ فرائڈ کے تصورات تک رسائی اور ان کی تفہیم
کی مقدور بھر کوشش کی۔سگمنڈ فرائڈ کے وہ تصورات جن کی گُتھیاں سُلجھانے میں
خودسگمنڈ فرائڈ کو بعض پیچیدگیوں اور اُلجھنوں کے باعث تامل رہا،ژاک لاکاں
نے ان پر از سر نو غور و خوض کیا،نئے مطالعات پر توجہ دی اور متعدد نئے
مباحث کا آغاز کیا۔سگمنڈ فرائڈ کے ساتھ ژاک لاکاں کی والہانہ محبت اور قلبی
وابستگی بھی عجب گُل کِھلاتی ہے، جو بعض اوقات آشفتہ سری کی حدو ں
کوچُھولیتی ہے۔جب وہ سوز وساز کے عالم میں ہو تو سگمنڈ فرائڈ کے تعریف و
توصیف اور تشریح و تفہیم کے نادر پہلو زیر بحث لاتا ہے اور جب اس پر پیچ و
تاب کی کیفت کا غلبہ ہو تو وہ سگمنڈ فرائڈ کے متن کی تشریح کے دوران نہ صرف
اصل متن کو پس پشت ڈال دیتا ہے بل کہ اس پر تنقید بھی کرتا ہے اور اپنا الگ
زاویہء نگاہ پیش کرتا ہے ۔مروج تنقیدی نظریات کے بارے میں ژاک لاکاں نے
ہمیشہ اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا ۔اس کاخیال تھاکہ یہ تمام نظریات
رومانویت اور رجعت پسندی کی اساس پر استوارہیں۔وہ سمجھتا تھا کہ فکر و خیال
کو ان کے حصارسے نجات دلا کر لا محدود وسعتوں سے آ شنا کرنا وقت کا اہم
ترین تقاضا ہے۔اپنے خیالات کی تونگری ،جدت اور تنوع کو بروئے کار لاتے ہوئے
ژاک لاکاں نے لا شعور اور زبان کے امتزاج سے متکلم مو ضوعات کا جو نظریہ
پیش کیا وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس نے افکار تازہ کی مشعل تھا م کر
سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب فکری سفر جاری رکھا۔اس کا
خیال تھا کہ سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ لا شعور کی تفہیم پر بالعموم سنجیدہ توجہ
نہیں دی جاتی۔اس نے سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ لا شعور کے بارے میں پائی جانے
والے اختلاف آرا کو لائق اعتنا نہیں سمجھا۔اس کا کہنا ہے:
,,The Freudian unconcious has nothing to do with theso called forms of
unconcious that preceded it,not to say accompanied it,and which still
surround it today.,, (4)
ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے نظریات کی از سر نو توضیح کر کے اس جدید عصری
تقاضو ں سے ہم آ ہنگ کرنے کی سعی کی۔سگمنڈ فرائڈ نے لا شعور کو متشکل کرنے
کی جو کاوش کی وہ ایک منفرد سوچ کی مظہر ہے۔لا شعور کی ساخت کا حوالہ دے کر
سگمنڈ فرائڈ نے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کر دئیے۔سگمنڈ فرائڈ کے معاصرین
اور اس کے بعد آنے والے دانش ور لا شعور کے اہم ترین موضوع پر اس کے خیالات
کی اہمیت و افادیت کا احساس و ادراک نہ کر سکے۔ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے
نظریہ لا شعور کے بارے میں صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
the divinities ـ,,Freud,s unconcious is not at all the romantic
unconcious of imaginative creation.It is not the locus of of night.This
locus is no doubtnot entirely unrelated to the locus towards which Freud
turns his gaze_but the fact that Jung ,whoprovides a link with the terms
of the romantic unconcious,should have been repudiated by Freud is
sufficient indication that psycho-analysis is introducing something
other.,,(5)
سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ لا شعور کی وضاحت کرتے ہوئے ژاک لاکاں نے اس جانب
اشارہ کیا کہ سگمنڈ فرائڈ کے معا صرین اور نا قدین اس کے اسلوب کو سمجھنے
میں کا میاب نہیں ہو سکے۔لاشعور کے بارے سگمنڈ فرائڈکے تصورات انتہائی
پیچیدہ کیفیات کے مظہرہیں۔اس موضوع پر حقائق کی گرہ کشائی عام قاری کے بس
سے باہر ہے۔سگمنڈ فرائڈ نے لا شعور کی ساخت کا جو منظر نامہ قاری کے سامنے
رکھا ہے وہ اس قدر منفرد سوچ کا مظہر ہے کہ اسے پڑھ کر قاری حیرت زدہ رہ
جاتا ہے اورلا شعور کی ہمہ گیر قوت اس پر ہیبت طاری کر دیتی ہے۔وہ کسی حتمی
نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا اوروہ سوچنے لگتا ہے کہ کو ن سی اُلجھن کو سلجھانے
کی سعی کی گئی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خودفرائڈکے بحر تخیل کی گہرائی
اس قدر تھی کہ وہ خود بھی اس کی غواصی کر کے وہاں سے گہر ہائے آب دار برآمد
نہ کر سکا ۔اس نے لا شعور کی ساخت کا جو تصور پیش کیا وہ خود اس کی حقیقت
سے آگاہ نہ کر سکا۔اس نے اساطیر اور ما بعد الطبیعات کا حوالہ دے کر اپنے
لیے عافیت کی راہ تلاش کر لی اورقاری سرابوں میں سر گرداں پھرنے پر مجبور
ہو گیا۔سگمنڈ فرائڈ نے لا شعور کے بارے میں جو خیالات پیش کیے وہ اس کے
فکری میلانات کے آئینہ دار تھے ۔اس کی علمی سطح فائقہ ان سے عیاں تھی لیکن
عام قاری کی اس تک رسائی ممکن نہ تھی۔لا شعور کی دیوی کی جستجو میں تو
سگمنڈ فرائڈ یقیناً کا میاب ہو گیا لیکن اس دیوی کے بے پناہ حسن و جمال
،جاہ و جلال ،تاب و تواں اور حشر سامانیوں کی تاب نہ لا سکااور اس کے بعد
محواستعجاب رہا۔ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈکے لا شعور کے بارے میں پیش کیے
گئے تصورات کی وضاحت اس انداز میں کی کہ اپنی گُل افشانیء گفتار سے قاری کو
ایک جہانِ تازہ میں پہنچا دیا ۔ ژاک لاکاں نے لا شعور کے مباحث میں زندگی
کی جمالیاتی اوراخلاقی اقدار کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ہ جانتا تھا کہ ان کے
اعجاز سے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ژاک لاکاں نے
اس امر پر توجہ مر کوز رکھی کہ تخلیق فن کے لمحوں میں قارئین کے لیے راحت
اور مسرت کی جستجو کو شعار بنایا جائے ۔اس سلسلے میں فرائڈ نے کہا تھا:
’’انسان کی بنیادی خواہش یہ ہے کہ لذت یا خوشی حاصل کرے۔اس کے لیے ضروری ہے
کہ اس چیز کا انتخاب کیا جائے جس سے خوشی حاصل ہو۔‘‘(6)
یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ژاک لاکاں نے اپنی تحریروں کے
ذریعے قارئین کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کر نے اور اس کے لیے مسرت اور
راحت کی جستجوکو ہمیشہ اہم خیال کیا۔وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے
بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہا۔اس نے پس ساختیات اور
تحلیل نفسی جیسے اہم مو ضوعات کواپنے اسلوب کی اساس بنایا اور قارئین کے
لیے مسرت کی تلاش کا عمل جاری رکھا۔ذہنی دباؤ اوراعصابی تناؤ کی کیفیت میں
اس کی تحریریں فکر و نظر کو مہمیز کر کے جمو د کا خاتمہ کر کے سوچ
بچار،سعیء پیہم اورتحقیق و تنقیدپر آمادہ کرتی ہیں۔سگمنڈ فرائڈ نے لا شعو ر
اور تحلیل نفسی کے موضوع پر جن بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا ہے ،ژاک
لاکاں نے اس کی تشریح کر تے وقت تمام اہم نفسیاتی امور کو پیشِ نظر ر کھا
ہے۔ورق ورق اور تہہ در تہہ مو ضوعات تک رسائی ایک کٹھن مر حلہ تھا لیکن ژاک
لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے 1920پیش کیے جانے والے لا شعور اور تحلیل نفسی کے
چشم کشا تصورات کے اس مر حلے کا نہایت خوش اسلوبی سے طے کیا ہے۔سگمنڈ فرائڈ
نے فرد کی سائیکی کے مطالعہ کے دوسرے مر حلے میں ایک خاص انداز فکر اور
نمونہ سامنے رکھا ہے۔اس کے مطابق فرد کی سائیکی تین عوامل اڈ (Id) ،ایغو
(Ego) اور سپر ایغو(Super ego) میں منقسم دکھائی دیتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا
ہے سگمنڈ فرائڈ نے جسے ا ڈکا نام دیا ہے وہی لا شعور سے قریبی تعلق رکھتی
ہے تاہم ان تینوں کو باہم مربوط سمجھنا چاہیے۔ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کی
رحلت کے بعد نفسیات اور تحلیل نفسی کے موضوع پر فکر پرور مباحث کاسلسلہ
جاری ر کھا۔اس نے تحلیل نفسی جیسے اہم موضوع پرحقائق کی تفہیم کی ر اہ
دکھائی ۔اس نے چشم بینا پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ تحلیل نفسی کے
بارے میں پایا جانے والاابہام دو رکیا جائے اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ
تحلیل نفسی کیا نہیں ہے۔ یہ امر غور طلب ہے کہ تحلیل نفسی کے مو ضوع پر جو
کچھ لکھا جا رہا ہے اس کا تحلیل نفسی سے کوئی تعلق بھی ہے۔اس نے حقائق کی
جستجو میں جس انہماک کا ثبوت دیا وہ اس کی ذہنی اُپج اور بصیرت کا ثبوت ہے۔
ژاک لاکاں کی تحریروں کے بارے میں عمو می تاثر یہ پایاجاتا ہے کہ ان کی تہہ
تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ژاک لاکاں جس شدت کے ساتھ سگمنڈ
فرائڈ کے نظریات کی تشریح وتوضیح پر زور بیان صرف کرتا ہے ،اس سے زیادہ
سرعت کے ساتھ سگمنڈ فرائڈ کے نظریات پُر اسراریت کے پردوں میں نہاں ہوتے
چلے جاتے ہیں ۔ان حالات میں قاری کسی واضح نتیجے تک پہنچنے کے بجائے
تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیے مارنے پر مجبور ہے۔ ایک ماہر نفسیات تحلیل نفسی کو
موزوں طور پر رو بہ عمل لا کر فرد کے لا شعور کی کیفیت ،تضادات اورارتعاشات
کی تہہ تک پہنچتا ہے اور ان کے تدارک پر توجہ مرکوز رکھتا ہے لا شعور کے
زیر اثرشعور کوجن حالات کاسامنا کرنا پڑتا ہے تحلیل نفسی میں انھیں کلیدی
اہمیت کا حامل سمجھا جاتاہے۔ ایک تخلیقی فن کا ر محض فن ہی کو منصہء شہود
پر لانا اپنا نصب العین نہیں بناتا بل کہ اپنی تخلیقی فعالیتوں اور بصیرتوں
کے معجز نما اثر سے نئی صداقتوں تک رسائی کی نوید بھی سناتا ہے۔ روشن مستقل
کے خواب دیکھنا کسے عزیز نہیں، خوابوں کی خیاباں سازیاں فرد کو اپنی گرفت
میں لے لیتی ہیں۔خواب سے خیال کا معاملہ بھی تحلیل نفسی کا اہم موضوع ہے
۔ژاک لاکاں نے لا شعورکی بحث میں اس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ
لاشعور کی تشکیل بھی اسی انداز میں ہوتی ہے جس انداز میں زبان کی نمو کے
عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ژاک لاکاں نے جدید لسانیات کے اصول و ضوابط کی
روشنی میں تحلیل نفسی کے مطالعہ کی جس سعی کو اپنا نصب العین بنایاوہ اپنی
مثال آپ ہے۔سوسئیرنے نشان اور نشان نما کے مو ضوعات پر جن خیالات کا اظہار
کیا،وہ افکار تازہ کی مثال ہے جن سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات سامنے
آئے۔اپنے مضمون ,,The insistence of letter in the unconcious,,میں ژاک
لاکاں نے اس جانب اشارہ کیا ہے ۔یہ مضمون ڈیوڈ لاج(David Lodge)کی تالیف
(Modern Criticism and Theory)میں شامل ہے۔اپنے اس فکر انگیز مضمون میں ژاک
لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے لسانیات کے بارے میں نفسیات او رلا شعورسے متعلق
افکار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
,,Freud shows us in every possible way that image,s value as signifier
has nothing whatever to do with what it signifies,giving asan example
Egyption Hieroglyphics in which it would be sheer buffoonery to pretend
that in a given text the frequency of a vulture which is an aleph,or a
chick which is a vau,and which indicate a form of the verb,to be, or a
plural,prove that the text has anything at all to do with these
ornithological specimens.Freud finds in this script certain uses of the
signifier which are lost in ours,such as the use of determinatives,where
a categorical figure is added to the literal figuration of a verbal
term;but this is only to show us that even in this script,the
so-called,ideogram,is a letter.(7)
ژاک لاکاں نے اس انگارہء خاکی کو وحدت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔وہ اس
حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہم مجبوروں پر مختاری کی تہمت نا حق لگا دی
گئی ہے۔قادر مطلق کی منشا کے مطابق فطرت کے تقاضوں سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ
ایک مسلسل عمل کا مظہر ہے۔رخش عمر مسلسل رو میں ،انسان کا نہ تو ہاتھ باگ
پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں ر کاب میں ہیں ۔کاروان ہستی کا تیز گام قافلہ
راہ عدم کی جانب گامزن ہے۔فرد کی زندگی میں تغیر وتبدل کاغیر مختتم سلسلہ
جاری رہتا ہے جو متعدد تضادات اورارتعاشات کا مظہر ہے۔انسان اس دنیا میں
مانند شرار آتا ہے اور اس کی ہستی نا پائیدار کسی بھی وقت دم دے کر اسے
چنگاری کی طرح راکھ میں بدل سکتی ہے۔انسان کو اپنی حقیقت اور اصلیت کا یقین
ہو ناچاہیے ۔اگر یقین عنقا ہونے لگے تو تہذیبی و تمدنی انتشار و انحطاط کو
نوشتہء تقدیر سمجھ لینا چاہیے ۔اسے یہ حقیقت فراموش نہیں کر نی چاہیے کہ
عالم و جود میں آتے ہی انسان سب سے پہلے لسانی عمل کا آغاز کرتا ہے ۔
پیدائش کے وقت نو مولود کا رونا نہ صرف اس کی زندگی کی علامت ہے بل کہ طویل
اور پیچیدہ لسانی عمل کا نقطہء آغاز بھی ہے۔فرد کی فکری منہاج کے تعین و
تفہیم میں لسانیات اور تحلیل نفسی کا کردر بہت اہم ہے۔تحلیل نفسی کو ژاک
لاکاں نے ایک ایسا وقیع اورآبرومندانہ آلے سے تعبیر کیاہے جس کے وسیلے سے
شخصیت اور لسانی معائر کی تفہیم ممکن ہے۔اس نے سنجیدگی ،متانت ا ور ثقاہت و
شعار بنا کر حریت فکر کا علم بلند رکھا۔اس نے جس بے تکلفی اور بے ساختگی کو
اپنے اسلوب کی اسا س بنایا وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔پس ساختیات اور لا
شعور کے مو ضوعات پر اس کے افکار کی لا محدود وسعت ذہن و ذکاوت کو جِلا
بخشتی ہے۔
تخلیق ادب کے بارے میں یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ تخلیق کار کے داخلی اور خارجی
محرکات کی مطابقت تخلیقی عمل کو نمو بخشتی ہے۔ تخلیقی عمل کو اوج کمال تک
پہنچانے میں متعدد لا شعوری محرکات اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے
کہ تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے کی صلاحیت جذبِ
دروں اوروجدان کی ایک توانا لہر کی مر ہونِ منت ہے ۔ وجدان کی یہ لہر اس
قدر مسحور کن ہوتی ہے کہ تخلیقی فن کار دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس کی
شان دل ربائی کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ اظہار و ابلاغ کی صورت میں
الفاظ جو دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں ان کے پس پردہ زبان و بیان پر
خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ رنگ ،خوشبواور حسن وخوبی کے
تمام استعاروں کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ژاک لاکاں نے ادب اور تحلیل
نفسی کے مو ضوع پر جن خیالات کا اظہار کیا وہ اس کی منفرد سو چ اور بصیرت
کے مظہر ہیں۔ژاک لاکاں نے ادب اور تحلیل نفسی کے بارے میں پہلے سے مروج و
مقبول تصور کو لائق اعتنا نہ سمجھا ۔اکثر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تحلیل
نفسی کو ادب سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتاجب کہ ادب کو تحلیل نفسی
سے فیض یا ب ہو نے کے متعدد مو اقع ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر فنون لطیفہ کی
تخلیق، ان کی ماہیت اور تخلیق فن کے پس پردہ کار فر ما لا شعوری محرکات کے
بار ے میں تحلیل نفسی ہی خضر راہ بن کر ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے۔ کہا جا
تاہے کہ اس کے عو ض ادب تحلیل نفسی کو کچھ عطا کر نے کی صلا حیت سے یکسر
محروم ہے۔ژاک لاکاں نے اس تا ثر کو یک طرفہ ، نا کا فی ،مبہم اور نا قابل
تسلیم سمجھتے ہو ئے اپنا الگ نظر یہ پیش کیا۔اس نے یہ با ت زور دے کر کہی
کہ لا شعور کی سا خت اور تشکیل بھی زبان ہی کے ما نند ہو تی ہے۔لا شعور اور
زبان کے ما بین جس گہری مما ثلت کی جا نب ژاک لاکاں نے قارئین کو متو جہ
کیا ہے، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ لا شعور کی خا ص زبان کا مطا لعہ یقینا
ممکن ہے ۔ اس کے بعد ادب کا مطالعہ بھی لا شعور کے مطالعہ کے لیے اپنائے جا
نے والے خاص معا ئر کی رو شنی میں کیا جا سکتا ہے ۔اس وسیع وعریض کا ئنات
میں حسن ودل کشی اور چاہت و محبت کی کبھی کمی نہیں رہی لیکن کا ئنات کے
اسرارو رموز کی گرہ کشائی میں تاحال کا میابی نہیں ہو سکی۔انسانیت کے وقار
اور سر بلندی پر با لعموم توجہ نہیں دی گئی۔ سگمنڈفرائڈ کے دور سے لے کر
زمانہ حال تک انسانی زندگی کا محور وہ چیز نہیں رہی جو وقت کااہم ترین تقا
تھا ۔آج ضرورت اس امرکی ہے کہ فرد کی تحلیل نفسی پر اس قدر بھر پور توجہ دی
جائے کہ وہ اپنی حقیقت کا شناسا ہو سکے۔ ہر زبان کے ادب اور فنون لطیفہ میں
تحلیل نفسی کو لا شعور سے تعبیر کر تے ہو ئے ژاک لاکاں نے اذہان کی تطہیر و
تنویر اور فکر وخیال کو مہمیز کر نے کی ایک منفرد سو چ کو پر وان چڑھا نے
کی سعی کی۔ژاک لاکاں کی ان خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اس دنیا میں
چراغ زیست ہمیشہ فروزاں رہے گا،فصل بہار کی رنگینیاں اور دل کشیاں بھی جاری
رہیں گی۔کئی تابندہ ستارے غروب ہوں گے اور ان کی جگہ نئے ستارے طلوع ہو تے
رہیں گے۔جبین دہر پر حسین خیالات کی افشاں کی تابانیوں کا سلسلہ بھی جاری
رہے گا لیکن عصر حاضرمیں ایسا رجحان ساز فلسفی کہاں سے لائیں جسے ژاک لاکاں
جیسا کہا جا سکے۔ زندگی بھر خرد کی گتھیاں سلجھانے والا یہ تخلیق کار عدم
کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا ہے۔اس کی حیات کے افسانے تاریخ کے
طوماروں میں دب کر ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جائیں گے لیکن اس
کے لسانی اور فلسفیانہ افکار کی سد ابہار بو قلمونیوں اور جدت کو ہمیشہ یاد
رکھا جائے گا۔ مجھے عبد ا لمجید سالک کا یہ شعر یا د آ رہا ہے ا یسا محسوس
ہوتا ہے کہ ژاک لاکاں اپنے مداحوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے:
ہمارے دور میں ڈالیں خِرد نے اُلجھنیں لاکھوں
جنوں کی مشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہو ں گے
مآخذ
(1)Jacques Lacan :Ecrits,Translated by Bruce Fink,Norton &Company
London,2006,Page 362.
(2) do Page 362
(3)Dylan Evans:An introductory of Lacanian
Psychoanalysis,Routledge,London,2006,Page,80-
(4)Jacques Lacan:The four fundamental concepts of
psychoanalysis,translated by Alan Sheridan,Norton&company London,Page
24-
(5) do Page 24-
(6) بہ حوالہ محمدحسن عسکری:ستارہ یا بادبان،مکتبہ سات رنگ ،کراچی،طبع اول
،1963،صفحہ 100۔
(7)David Lodge:Modern Criticism and theory,Pearson,Singapore,2004.Page
,7 |
|