امریکا پھر ہاتھ کرگیا

’’چرسی یار کس کا، کھاپی کے کھسکا‘‘ عالمی طور پر یہ مثال امریکا پر فٹ بیٹھتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مختلف ممالک کے درمیان دوستیاں اور دشمنیاں مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہیں، مفادات بدلنے کے ساتھ دوست اور دشمن بھی بدل جاتے ہیں، البتہ اس ادل بدل کے بھی کچھ اصول وضوابط ہیں، کچھ اخلاقی حدود وقیود ہیں، جن کی پابندی کو ضرور سمجھا جاتا ہے، مگر امریکا اس معاملے میں بہت بدنام ہے۔ یہ اپنے دشمنوں کے ساتھ تو سیدھی طرح چلتا ہے، لیکن دوستوں کو ٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ جب چاہا استعمال کیا، کام نکل گیا تو کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ امریکا کی تاریخ اس طرح کی ’’مطلب کی یاری‘‘ کی وارداتوں سے بھری پڑی ہے۔

افغان روس جنگ کے دوران جوں ہی امریکا کا مقصد پورا ہوا، وہ سب کو لڑبھڑاکر بھاگ نکلا۔ اس نے پلٹ کر اس تباہ حال ملک اور روس کے خلاف تاریخی جنگ کے بیس کیمپ یعنی پاکستان کی طرف دیکھا تک نہیں، یہ دونوں ممالک اس طویل جنگ میں آنے والے زخموں کی خود ہی مرہم پٹی کرتے رہے۔ نائن الیون کے بعد پھر ہوا نے رخ بدلا تو امریکا کو پاکستان یاد آگیا، اس نے دوبارہ پاکستان کے کندھوں پر سوار ہوکر افغانستان میں جنگ چھیڑدی، اس دوران امریکا کو باربار سرکاری اور غیرسرکاری طور پر یاد دلایا گیا کہ روسی انخلا کے بعد افغانستان اور پاکستان کو تنہا چھوڑنا اس کی بھیانک غلطی تھی، اب یہ غلطی دہرائی نہیں جانی چاہیے، جواب میں امریکی صدر سے لے کر اس کے وزیروں اور مشیروں تک سب سینے پر ہاتھ دھر کر کہتے واقعی ہم نے بڑی غلطی کی تھی، آیندہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، پاکستان تو ہمارا دوست ہے، بھلا اسے کیسے تنہا چھوڑ سکتے ہیں اور افغانستان کے بارے میں بھی ایسا سوچا تک نہیں جاسکتا۔

تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود امریکا نے عادی مریض کی طرح وہی پرانی حرکت کی ہے، مگر اس بار تھوڑی سی تبدیلی کی ہے۔ پچھلی بار افغانستان اور پاکستان دونوں کو لات ماردی تھی، اب کی بار افغانستان پر تو ہاتھ رکھا ہے، مگر پاکستان کو امریکا کی بھڑکائی گئی آگ سے نمٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

امریکی صدر نے نئی دہلی میں نریندرمودی کے ساتھ کھڑے ہوکر کہا :’’ہمارا افغان مشن ختم ہوچکا، اب ہمیں وہاں پر قابل اعتماد پارٹنر کی ضرورت تھی (جو بھارت ہے)‘‘پاکستان کے خلاف اس سے بڑھ کر توہین آمیز بیان اور کیا ہوسکتا ہے۔ گویا امریکی صدر نے ایک ہی جملے میں پاکستان کی چودہ، پندرہ سالہ قربانیوں پر پانی پھیر دیا۔ اب پاکستان ناقابل اعتبار اور بھارت قابل اعتماد پارٹنر قرار پایا ہے۔ واہ جی امریکا تیری دوستی!

امریکا کا دعویٰ ہے کہ وہ افغان جنگ جیت چکا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہے کہ یہ جنگ پاکستان کی مدد سے جیتی گئی۔ پاکستان نے اس جنگ میں جو قربانیاں دیں، امریکا سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک ان قربانیوں کی برابری نہیں کرسکتا، برابری تو ایک طرف رہی، پوری دنیا کی مجموعی قربانیاں پاکستان کی قربانیوں کے ایک فیصد بھی نہیں ہے۔

پاکستان نے طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کیا تھا، طالبان کے ساتھ اس کے کوئی مسائل نہیں تھے، بلکہ اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان مثالی تعلقات تھے، القاعدہ کا بھی پاکستان سے کوئی جھگڑا نہیں تھا، مگر اس سب کچھ کے باوجود پاکستان محض امریکا کے لیے اس جنگ میں کودا، امریکی عوام تو سات سمندر دور اس جنگ کو انجوائے کرتے رہے،مگر پاکستانیوں نے اس جنگ کی بھاری قیمت چکائی۔ اس کے 50 ہزار کے لگ بھگ فوجی جوان، بوڑھے، بچے اور خواتین اس جنگ میں کام آئے۔ امریکی عوام سکون کی نیند سوئے رہے، مگر دوسری طرف پاکستان میدان جنگ بنارہا، یہاں پر لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھااٹھاکر تھک گئے، معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا، اس جنگ نے معاشرے کو تقسیم درتقسیم کردیا، حکومت اور اداروں کو اپنے ہی شہریوں سے لڑنا پڑا، امریکا تو افغان مشن ختم کرچکا، مگر پاکستان میں یہ جنگ اب بھی جوبن پر ہے اور نہ جانے کب تک آگ وخون کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ ان سب باتوں کے باوجود امریکا ہمیں ہی کہہ رہا ہے تم بے وفا ہو! اگر پاکستان بے وفا ہے تو امریکا بتائے، اس کی پوری تاریخ میں کیا کوئی اور ایسا ملک یا قوم ہے، جس نے پاکستان سے بڑھ کر اس کے لیے قربانیاں دی ہوں؟

ظلم پر ظلم دیکھیں، ایک طرف امریکا نے پاکستان کو ٹاٹا کردیا اور دوسری طرف اس کے ازلی دشمن بھارت کو قابل اعتماد پارٹنر قرار دے کر افغانستان میں بٹھا رہا ہے۔ بھارت پہلے ہی افغان سرزمین کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کررہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا سے تازہ گٹھ جوڑ کے بعد بھارت زیادہ زوروشور سے اپنا یہ دھندہ کرے گا۔ پاکستان توقع کررہا تھا کہ امریکا اس کی قربانیوں کا اچھاصلہ دے گا، مگر یہ کیسا صلہ ہے کہ اس نے پاکستان پر حملوں کے لیے بھارت کو گود لے لیا۔ بلوچستان میں ایک وقفے کے بعد جس طرح دوبارہ مسلح سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے افغان مشن ختم کرکے اب افغانستان میں بیٹھ کر بھارت کی مدد سے پاکستان مشن شروع کردیا ہے۔

افغانستان ایک آزاد ملک ہے، اس میں پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ بھارت وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف جو محاذآرائی کررہا ہے، اگر پاکستان نے کسی بھی ’’طریقے‘‘ سے اس کا جواب دیا تو لازمی بات ہے، اس کے اثرات نہ صرف افغانستان، بلکہ پورے خطے پر پڑیں گے۔ پاکستان اپنے خلاف ہونے والی سازشوں پر آنکھ بند کرکے تو نہیں بیٹھ سکتا، کوئی بھی ملک اپنے پڑوس میں اس طرح کی سرگرمیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ 1962ء میں جب روس نے کیوبا میں میزائل نصب کیے تھے تو امریکا نے پوری دنیا کو سر پر اٹھا لیا تھا، اس کا موقف تھا کہ یہ میزائل کسی بھی وقت اس پر داغے جاسکتے ہیں اور وہ اپنے پڑوس میں ایسے کسی خطرے کو برداشت نہیں کرسکتا، امریکی احتجاج پر روس کو یہ میزائل ہٹانے پڑگئے تھے۔ یہی معاملہ پاکستان کا ہے۔

بہرحال امریکا نے تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان کو ایک بار پھر پیٹھ دکھادی اور صرف پیٹھ نہیں دکھائی،بلکہ بھارت کو افغانستان میں بٹھاکر اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ لوگ ٹھیک کہتے تھے امریکا کبھی بھی پاکستان کا دوست نہیں ہوسکتا، ذرا دیکھ بھال کر اس کا ساتھ دیا جائے، مگر ڈالروں کی جھنکار میں عقل کی بات کون سنتا ؟!
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 110905 views i am a working journalist ,.. View More