پاکستان کو بھی قابل اعتماد دوست تلاش کرنا ہوں‌گے

امریکی صدر بارک حسین اوباما نے ہفتہ رفتہ میں بھار ت کا ایک اور دورہ کر کے دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی بنیاد رکھ دی ۔ یہ ان کا بھارت کا دوسرا اور مودی حکومت کے دوران پہلا دورہ تھا جس میں انہوں نے بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں بھی شرکت کی اور بھارتی وزیر اعظم کیساتھ حید ر آباد ہائوس کے سبزہ زار میں چہل قدم بھی کی۔ اس چہل قدمی کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے مہمان کو اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پیش کی ۔امریکی صدر کے دورے پر نریندر مودی کی خوشی لازمی امر تھا ، انہیں اپنی حکومت کے پہلے سال میں ہی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے سربراہ کی میزبانی کا شرف حاصل ہو رہا تھا اور دوسری جانب پاکستان کو مرعوب کرنے کا بھی موقع ہاتھ آرہا تھا ۔امریکی صدر کا دوبار ہمارے پڑوس میں آکر واپس چلے جانا لمحہ فکریہ ہے ، اسے ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اور دوسری جانب اس کا یہ رویہ کہ بھارت تک آنے کے باوجود اس کا صدر چند گھنٹوں کیلئے ہی صحیح پاکستان آنے کی زحمت گوارا نہ کرے ۔ الٹا یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان دہشتگردی کیخلاف جو مرضی کرلے ہمارا حقیقی دوست بھارت ہی ہے۔جس کو ہم سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی بھی دیتے ہیں اور پھر جوہر ی مواد کی نگرانی کے مطالبے سے بھی دستبردار ہو جاتے ہیں ۔ ایسا کرنے سے قبل یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ بھارت ہی وہ ملک ہے جس کی وجہ سے ہی اس خطے کا امن خطرے سے دوچار ہے ۔پاکستان کے اندر بھی اس کی مداخلت اور دہشتگردی کیلئے دہشتگردوں کی معاونت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، جس کے ثبوت ہمارے چیف آف آرمی سٹاف اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران اوباما حکومت کو دے چکے ہیں ۔اس کے باوجود اوباما کا بھارت آنا اور اسے افغانستان میں اپنا قابل اعتماد پارٹنر قرار دینا ، سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے حمایت کر نا اور دہشتگردی کے خاتمے کی جدوجہد میں پاکستان کی قربانیوں اور اس کے تعاون کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پر پھر دہشتگردی کے محفوظ ٹھکانے رکھنے کا الزام لگا جانا، بھارت کے حوصلے بڑھانے ، دوہرا معیار رکھنے اور نا قابل اعتبار ثابت کرنے کی واضح مثال ہے ۔اوباماکو اس دورے میں پاکستان کے اندر دہشتگردی کے محفوظ ٹھکانے تو نظر آئے لیکن افغانستان میں پاکستان کیخلاف سازشیں کرتے بھارت کے قونصل خانے بھول گئے ۔ انہیں پشاور کے سکول میں دہشتگردی کے حوالے سے بھارتی قونصل خانوں کا کرداربالکل نظر نہیںآیا ۔ ان کی آنکھیں مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی مظالم کے حوالے سے بالکل بند رہیں ۔ ایسے میںیہ دورہ 2 غیر مسلم قوتوں کی جانب سے منافقانہ اور مسلمان دشمن پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ امریکہ کو پاکستان کا ایٹمی پروگرام قبول ہے نہ ایران کا ، ایک طرف امریکی صدر ایران کے ایٹمی پروگرام کیخلاف بھارت کے تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہیں تو دوسری جانب بھارت کی ایٹمی ٹیکنالوجی کی نگرانی سے متعلق اپنے مطالبات سے دستبردار ہو کر ایٹمی عدم پھیلائو کے حوالے سے اپنی پا لیسی پر ڈبل سٹینڈرڈ کی مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں ۔ایسے میں حکومت پاکستان کی خاموشی اور پاکستانی مشیر خارجہ کایہ بیان کہ اوباما کا دورہ بھارت خطے میں کشیدگی میں کمی کا سبب بنے گا ،خاصا مضحکہ خیزاور اس کبوتر کی مانند دکھائی دیتا ہے جو خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے ۔سرتاج عزیز اگر باتوں سے بھی عوام کو خوش نہیں کر سکتے تھے تو بہتر تھا کہ خاموشی اختیار کرلیتے ۔دورہ بھارت کے دوران اوباما کے اس بیان پر کہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد امریکہ کو افغانستان میں ایک قابل اعتماد پارٹنر کی ضرورت تھی جو اسے بھارت کی صورت میں مل گیا ہے۔ حکومت پاکستان کو ہوش کے ناخن لینے ہو ں گے اور اسے بھی اپنے لیے امریکی اور بھارتی سازشوں کے مقابلے کیلئے قابل اعتماد پارٹنر تلاش کرنے ہوں گے اور امریکی خمار سے نکل کر ملکی مفاد کے حوالے سے سوچنا ہو گا ۔ سابق حکومت نے اس صورتحال کے تدارک کیلئے’’ لک ایسٹ‘‘ کی پالیسی اختیار کی تھی ۔اس نے یہ اقدام سابق صدر زرداری کے مشورے پر لیا اور اس پر خاصی پیش رفت بھی کی ، انہوں نے روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری پر بھی توجہ دی ۔ ان کے دور میں روسی صدر کا دورہ پاکستان ہوتے ہوتے رہ گیا،ایسا ہی کام اس حکومت کو بھی کرنا ہو گا ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا دورہ چین ایک ا ہم جوابی حکمت عملی تھی جس کی ان دونوں ملکوں کو تکلیف تو ضرور ہوئی ہو گی لیکن وزیر اعظم میاں نواز شریف کی خاموشی اور بھارتی یوم جمہوریہ پر صرف نریندر مودی کو مبارک باد کا بیان عوام کے جذبات کی مکمل ترجمانی نہیں، حکومت کو بھارت کا اصلی چہر ہ اوباما پر آشکار کر نے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے تھی اور یہ بتانا چاہیے تھا کہ جس ملک کو وہ ایٹمی میدان میں کھلی چھوٹ دے رہا ہے وہ ایک پر پھر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے اور خطے کے امن کو دائو پر لگانے کیلئے تیار بیٹھا ہے ۔ اس صورتحال میں آرمی چیف نے تو اپنا کردار ادا کیا لیکن شاید حکومت اپنے فرائض ادا کرنا بھول گئی جو بھارتی عزائم کو بے نقاب کرنے سے متعلق تھے۔ ہماری حکومت یہ کیسے کر سکتی تھی اسے تو بحرانوں سے ہی نمٹنے سے فرصت نہیں ، ملک اس وقت بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کے باعث کسی جنگل کی تصویر بنا ہوا ہے ۔ ان دنوں تو وہ وزیر اعلیٰ بھی کہیں دکھائی نہیں دیتے جو کبھی بجلی نہ ہونے پر مینار پاکستان پر ٹینٹ لگا لیا کرتے تھے اور کبھی سینے پر ہاتھ مار کر یہ دعوے کرتے دکھائی دیتے تھے کہ اگر ڈیڑھ سال میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کر دی تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔نا معلوم وزیر اعظم کو اپنی اس کابینہ میں کون سے سر خاب کے پر دکھائی دیتے ہیں کہ وہ بحران پر بحران دینے کے باوجود اسی سے کام لینے پر مجبور ہیں ۔ شاید وہ اپنے وزیروں کے ہاتھوں ہی کسی بات پر بلیک میل ہو رہے ہیں۔
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274446 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More