بھارتی مقبوضہ کشمیر کی مسلم آبادی کے تناسب میں کمی کا منصوبہ!

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنماؤں نے کہا ہے کہ بھارت ہندوؤں کو ریاست کشمیر میں بساتے ہوئے کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہے جس کے تحت انتہا پسند ہندوؤں اور تقسیم برصغیر کے وقت پاکستان سے بھارت جانے والے ہندوؤں کو باشندہ ریاست جموں و کشمیر کے سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہوئے انہیں مقبوضہ کشمیر میں بسانے کی سازش کر رہا ہے۔بھارت دو حوالوں سے مقبوضہ کشمیر میں آّبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے،ایک پنڈتوں،ڈوگروں اور تقسیم برصغیر کے وقت پاکستانی علاقوں سے بھارت جانے والے ہندوؤں کو وادی کشمیر میں مستقل بنیادوں پر آباد کرنا اور دوسرا یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں صنعتیں لگا کر لاکھوں کی تعداد میں بھارتی افراد کو وہاں کام کرنے کے لئے لایا جائے۔واضح رہے کہ اس وقت بھی پانچ چھ لاکھ بھارتی وادی کشمیر میں مزدوری کرنے کے لئے ہر سال آتے ۔ ریاست کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا بھارتی منصوبہ کوئی نیا نہیں ہے۔بھارتی ریٹائرڈ کواٹر ماسٹر جنرل کے کے نندہ نے اپنی کتاب میں بھارتی حکومت کو تجویز کیا تھا کہ کشمیر کے مردوں کو مدھیہ پردیش لیجایا جائے اور بھارت کے لوگوں کو کشمیر میں بسایا جائے۔کشمیر میں اکثریتی باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا صرف خدشات نہیں بلکہ اب یہ خطرہ حقیقی طور پر درپیش ہے۔انڈین ڈیفنس فورم نے ’’ بھارت کا کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا منصوبہ ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نے کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لئے 80اور90کی دہائی میں پنڈتوں کو نکلنے پر مجبور کیا جس سے اب وادی کشمیر میں ہندو آبادی کا تناسب ایک سے دو فیصد ہے۔ انڈین ڈیفنس فورم کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر کے خطرے سے نمٹنے کے لئے بھارت کو بلوچستان اور سندھ میں مخصوص آپریشن کرنے چاہئیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر میں مسلح تحریک کو ناکام بنانے کے لئے وادی کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی ضروری ہے جس کے لئے پنڈتوں،ڈوگروں اور دوسرے ہندوؤں کو وادی کشمیر میں مستقل طور پر آباد کرنا ہو گا،اس کے علاوہ چند ملین بھارتی افراد ،چاہے وہ ہندو ہوں یا کسی اور مذہب کے،ان کو بھی وادی کشمیر میں لانا ہو گا اور اگر ایسانہ کیا گیا تو بھارت کو ہمیشہ پراکسی وار کا سامنا رہے گا جس سے نمٹنے کے اخراجات سالانا پانچ سے دس بلین ہیں۔

بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق جموں کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب 68.3فیصد ہے اور 2001سے2011تک کی دہائی میں مسلم آبادی کی تعدادمیں 1.3فیصدکااضافہ ریکارڈکیاگیا۔2001 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کا شرح تناسب 67فیصد تھا ۔2001ء میں ریاست جموں و کشمیر کی کل آبادی ایک کروڑ 14لاکھ42ہزار 700تھی جبکہ 2011ء میں یہ کروڑ 25لاکھ 41ہزار 302ہو گئی۔ یعنی دس سال میں تقریبا 25لاکھ آبادی کا اضافہ ۔1901 ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست کشمیر کی آبادی 29لاکھ5578تھی جس میں سے21لاکھ 54ہزار 695مسلمان ،6لاکھ اننانوے ہزار 73ہندو،25ہزار 828سکھ اور35ہزار47بدھ تھے۔جموں میں ہندوؤں کی آبادی 50فیصدکے قریب تھی ۔1901ء میں وادی کشمیر کی آبادی 11لاکھ57ہزار394تھی جس میں10لاکھ83ہزار 776مسلمان تھے یعنی 93.6فیصد مسلمان تھے۔اور آبادی کا یہی تناسب گزشتہ ایک سو سال سے چلا آ رہا تھا۔1941ء کی مردم شماری میں بھی وادی کشمیر کے مسلمانوں کی آبادی کا تناسب93.6فیصد اور ہندوؤں کی آبادی کا تباسب4فیصد تھا جبکہ 2011ء میں مسلم آبادی کا تباسب کم ہو کر 68.3فیصد رہ گیا ہے۔یوں گزشتہ 70سال کے دوران مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب تقریبا26فیصد کم ہوا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کے بدترین سیلاب کے بعد حال ہی میں ہونے والے مقبوضہ کشمیر اسمبلی الیکشن اور اس کے بتائج سے بھارت کی بی جے پی حکومت نئی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے اور ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلی کے لئے مختلف منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے بڑی تعداد میں لوگوں کو لا کر بساتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی سازش کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے عوام آواز بلند کر رہے ہیں اور اس معاملے میں کشمیریوں کی طرف سے بھرپور احتجاجی تحریک بھی شروع ہو سکتی ہے۔بھارت کی طرف سے اس طرح کے اقدام سے مقبوضہ کشمیر میں سخت فساد برپا ہو سکتا ہے کہ بھارت انتہا پسند ہندوؤں کو کشمیری عوام سے لڑانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔دوسری طرف بھارت اور دوسری دشمن قوتیں پاکستان کو خانہ جنگی میں مصروف رکھنے کی کوشش میں ہیں۔یہ بھارت کی بڑی غلطی ہو گی کہ وہ یہ سمجھے کہ پاکستان میں لگنے والی آگ سے وہ خود محفوظ رہ سکتا ہے،اس آگ کی چنگاریوں بھارت کو بھی جلا اور جھلسا سکتی ہیں۔تعداد کے لحاظ سے تو درست لیکن معیار کی حوالے سے بھارتی جمہوریت انسانیت کی تذلیل پر مبنی ہے۔بھارت طبقاتی تقسیم میں اس بری طرح مبتلا ہے کہ بھارت کو اعلی ذات کے ہندوؤں کی بالادستی میں ہی مقید رکھا گیا ہے۔سیکولر ازم کا نام لیتے ہوئے بھارت ہندو حاکمیت کو یقینی بنائے ہوئے ہے۔بھارت مین رہنے والے مسلمان ہوں،سکھ یا عیسائی،ہر فرقے کے خلاف قتل عام اور غارت گری کی کاروائیاں بھارت کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں اور اقلیتوں کے خلاف تعصب، جنونیت اور درندگی پر مبنی واقعات بھارت کے اکثریتی آبادی والے ہندوؤں کے تعارف کا لازمی حصہ ہے۔دور جدیدمیں ہم کسی طور بھی بھارت میں رائج نظام کو جمہوریت سے تعبیر نہیں کر سکتے ۔دنیا کے سامنے جمہوریت کی ایک بہترین مثال برطانیہ میں شامل سکاٹ لینڈ میں آزادی کے سوال پر کرایا جانے والا ریفرنڈم تھا جس نے سکاٹ لینڈ کے عوام کو ان کا حق آزادی فراہم کیا۔

پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے اس بھیانک اقدام کے خلا ف پاکستان کو سخت موقف اور موثرحکمت عملی اپنانا ہو گی،پاکستان کے ارباب اختیار کو اس بات کا خیال رکھنا چایئے کہ کشمیر پاکستان کے دفاع کا ّآخری محاذ ہے، تقریبا دو عشرے قبل ہم نے اس حقیقت کا اظہار کیا تھا کہ اگر پاکستان نے کشمیر کا محاذ چھوڑ دیا تو پھر جنگ پاکستان کے ہر گھر کے دروازے پر دستک دے گی اور آج وہی صورتحال ہمیں درپیش ہے۔مختصر یہ کہ اگر ہم واقعی پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں اپنی ماضی کی پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی غلطیوں،کوتاہیوں ،بداعمالیوں اور مفاد پرست اپروچ کے حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے مملکت پاکستان اور اس کے عوام کے وسیع تر مفاد میں پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کا منصوبہ صرف کشمیریوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لئے بھی سنگین خطرات لئے ہوئے ہے لہذا کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے ،لیکن اگر ہم نے پاکستان کو بچانا ہے تو ہمیں کشمیرکے محاذ پر بھارت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی ہمت کرنا ہی ہو گی۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699280 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More