سانحہ پشاور قبل و مابعد۔۔۔۔۔۔۔۔
(راجہ محمد سجاد خان , کٹکیر مظفرآباد آزادکشمیر)
سولہ دسمبر دو ہزار چودہ
پاکستانی تاریخ کا ایک اور سیاہ و المناک دن جس دن پشاور میں آرمی پبلک
سکول کو ظالم و سفاک دشمن نے طالبان کے لبادے میں معصوم کلیوں کے خون سے
رنگ دیا۔اس المناک واقعہ میں ایک سو بتیس معصوم جانوں سمیت ایک سو بیالیس
نفوس کوبے دردی سے قتل کردیا گیا۔گو کہ پاکستان کی تاریخ ایسے دردناک و
المناک سانحات سے عبارت ہے۔لیکن سانحہ پشاور ایک منفرد واقعہ ہے کہ دن
دیہاڑے فوجی سکول میں داخل ہو کرخون کی ہولی کھیلی اس واقعہ کا ماسٹر
مائنڈکون ھے کس نے ظالموں کو اس جگہ تک پہنچنے میں مدد فراہم کی۔۔کون اس
کاذمہ دار ہے وفاقی ادارے یا حکومت یا صوباہی ادارے یا صوباہی حکومت یہ
بلکل اسی طرح کا معمہ ہے اور رہے گا جس طرح تاریخ پاکستان کے اوراق پارینہ
میں موجود انگنت سانحات و واقعات ہیں جن کامعمہ آج تک معمہ ہی رہا ہے ۔ان
واقعاتو سانحات کو کبھی کسی نے ایمانداری سے حل کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی
کبھی اس کی ضروت کسی نے محسوس کی جس کا نتیجہ آج ہم یہ حال دیکھ رھے
ہیں۔اگر تاریخ پاکستان کے اوراق پارینہ کی ورق گردانی کی جاے تومحمد علی
جناح بانی پاکستان کی موت بھی شکوک وشہبات کا شکار ایک معمہ ہے۔سانحات کی
بات کریں تو پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کا قتل صدر
پاکستان اور پاک فوج کے سربراہ حنرل ضیاہ الحق اور فوج کےسنیر افسران کی
شہادت کا سانحہ حو کہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے ملک کی سابق وزیراعظم بے
نظیر بھٹو کا قتل سقوط بنگلہ دیش سمیت گذشتہ پندرہ سال سے جاری دہشت گردی
کے اندوناک واقعات کا شکار ہونے والے خواص و عام سےتاریخ بھری پڑی ھے۔لیکن
ان تمام واقعات و سانحات کےوقوع پذیر ہونے کے باوجودان سانحات کے پیچھے کس
کا ہاتھ تھا اگر کبھی پتہ بھی لگا تو اس ہاتھ کی سرکوبی اور اس کے خلاف
کارواہی کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی-
اگر ماضی قریب کی جمہوری حکومت کی بات کی جاے تو اس حکومت کئ فوجی نے سابقہ
آمر اور اس کی کٹ پتلی حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھا کئ فوجی آپریشن ہوے
لیکن دہشت گردی کا ناسور ختم ہونے کے بجاے بڑھتا ھی گیا۔جس کی وجہسے
سینکڑوں ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع عو جن میں سول لوگو ںں قانون نافز کرنے
والے اداروں کے اہلکار عسکری حوان و آفیسران سیاسی سماجی شخصیاتشامل ہیں۔اس
کے باوجود دہشت گردی کا جن بے قابو رہا یہاں تک کہ پاکستان کا چپہ چپہ لہو
لہان ہو گیا-
٢٠١٣ میں آنے والی حکومت نے سب سے پہلے امن واماں کی مخدوش حالت کو ٹھیک
کرنے کا عندیہ دیا اور تمام حلیف و حریف جماعتوں سے مشاورت کے بعد دہشت
گردوں جن کو عرف عام میں طالبان کہتے ہیں کی درجہ بندی کی امن پسند طالبان
سے مذاکرات اور جنگ جو طالبان کے ساتھ بندق کا استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا
۔ان مذاکرات کو سیاسی مذ ہبی اور سب سے بڑھ کر عوام کا اعتماد حاصل تھا۔جب
حالات سنبھلنا شروع ہوے ملک میں امن اماں کی امیدیں مضبوط ہو رہی تھیں تو
پاکستان دشمن قوتوں کو الرجی سی شروع ہوگی ۔خفیہ ملک دشمن طاقتوں نے پش
پردہ ان مذاکرات میں خلل ڈالنا شروع کر دیاجس کی وجہ سے دونوں اطراف عدم
اعتماد کی فضاء ایک دفعہ پھر جنم لینے لگی اور دشمن کا وار کامیاب
ہوگیا۔مذاکرات ناکام ہو گیا اور دنوں اطراف اعتماد کے فقدان اور پاکستان
دشمن کی کمینگی کی وجہ سے مذاکرات پر آے دونوں فریق ایک دفعہ پھرایکدوسرے
پر بندوقیں تان کے کھڑے ہو گے۔۔حکومت نے مذاکرات کے تماد خاتمے کا فیصلہ
کیا اور ایک دفعہ پھر قومی و عوامی قیادت مذہبی قیادت مل کر فیصلہ کرنےپر
مجبو ہوگے کہ ملظ دشمنوں کے خلاف آہنی ہاتھوں کا استعمال ناگزیر ہے۔عسکری
قیادت کو فیصلہ کن جنگ کے احکامات صادر ہوگے اور قومی مذہبی سیاسی قیادت
ریشتجاریکےکےاعتماد کے ساتھ ضرب عضب آپریشن کا آغاز کیا گیاجس کے نتاہج
خوصلہ افزاء ہیں اور یہ آپریشن کی کامیابی کی نویدں ذراہع ابلاغ کے توسط سے
مل رہی ہیں۔اس سے قبل جتنے بھی فوجی آپریشن ہوے ان کے نتاہج غیر حوصلہ
افزاء تھے لبکن اب کے فوجی ژآپریشن ظا ردعمل ماضی سے کم ہے جس سے آپریشن کی
کامیابی کی امیدیں روشن ہورہی ہیں امن و اماں کی حالت قدرےبہتر ہی ہے لیکن
صد افسوس کہ ٢٠١٤ کا اختتام خون آلود دسمبر کے ساتھ ہوا اور اس قدر خون
آلود ظہ انسانیت کانپ گئی۔اور تاریخ کے اوراق میں ایک اور دردناک دن کا
اضافہ ہوا۔میں نے تحریر کے اوا ہل شطور میں تحریر کیا تھاکہ پاکستان کی
تاریخ دردناک وافعات و سانحات سے لبریز ہے لیکن ان واقعات و سانحات میں
سانح پشاور اپنی مثال آپ ھے۔ جب وطن عزیز کی آبیاری معصوم خون سے کی گئی۔
سانحہ پشاور کہ بعد پہلی دفعہ ساری قوم اور سیاسی و مذہبی قیادت دہشت گردی
کی اس جنگ میں یک جان ہوگئعسکری قیادت سمیت حلیف و حریف سرجوڑ کر کر اکھٹے
ہوگے۔فیصلہ کیا گیا کہ نہ صرف ان بؤوں کے معصوم خون کا بدلہ لیں گے بلکہ
وطن عزیز کو دہشت گردوں سے پاک کر کے دم لیں گے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے
ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور ملکی مفاد میں ملٹری کورٹس کا قیام عمل میں
لایا گیا تاکہ جنگی بنیادوں میں ملک کو دہشت گردوں سے پاک کیا جاے۔سانح
پشاور کے بعد سزاے موت کا وہ قانون جو عرصہ سے معطل تھا کو دوبارہ نافذعمل
کرنے کا فیصلہ کیا اور سزاے موت کے کی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا
گیا۔ابھی یہ عمل شروع ہوا ہی تھا کہ عالمی امن کے بہروپیوں اور اقوام عالم
کے دوہرے معیار کے حامل فورم اقوام متحدہ کی طرف سے سزاے موت کے قانون کو
انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوے حکومت پاکستان سے نظر ثانی کے
احکامات صادر ہوگے۔ابھی تک تو حکومت پاکستان نے اس قانون کو واپس لینے سے
معذرت کر دی ہے لیکن سزاے موت پر عملدرآمد میں کمی لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان
کی بد قسمتی ہے کہ جب بھی قوم کے مفاد میں فیصلے ہوتے ہیں اقوام متحدہ
امریکہ اور اس کے حامی ممالک کے پیٹ میں تکلیف شروع ہو جاتی ہے حالانکہ
ابھی کچھ عرصہ پہلے بھارت و امریکہ کی ایماء پر بنگلہ دیش میں پاکستان حامی
قیادت کو سزاے موت دی گی اقوام متحدہ اکے انسانی حقوق اس وقت کہاں تھے
افغانستان بھارت اور امریکہ سمیت کئ ممالک میں سزاے موت کا قانون نافذ عمل
ہے لیکن اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش ۔اقوام متحدہ کو
تکلیف ہوتی ہے تو پاکتستان کے مفاد میں خونےوالے فیصلوں کی وجہ سے۔حالنکہ
امریکہ میں ابوغریب جیل گواتتا نامو بے کے عقوبت خانے اقوام متحدہ سے اوجھل
ہیں کشمیر میں ہنوستان کی دہشت گردی اور اسراہیل کی فلسطین میں ریاستی دہشت
گردی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
قارئین کرام معذرت کے ساتھ اصل موضوع سے آگےپیچھے نکل گیا۔بات ہورہی تھی
ایکشن پلان اور ملٹری کورٹس کی تر قومی ایکشن پلان تو سب کی اتفاق راے تھی
اس پلان کی بنیاد پر ملٹری کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا اور اکیسویں
ترمیم کی روشنی میں ملٹری کورٹس کے حوالے سے قانون سازی ہوہی۔ان ملٹری
کورٹس کا داہرہ کار تمام صوبوں اور فیڈرل تک تو لاہق تحسین ہے لیکن ان
کورٹس کا قیام آذادکشمیر گلگت بلتستان کے متنازعہ علاقہ میں غیر دانشمندانہ
فیصلہ اس سے تحریک آذادی پر منفی اثرات مرتب ہو ں گے کیونکہ یہ متناذعہ
علاقے دہشت گردی سے پاک ہیں۔ان ملٹری کورٹس کے حوالےسے مذہبی طبقہ کے
تحفظات اور تنقید کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اگر دہشت گردی کو مذہب سے
جوڑا گیا تو اللہ نہ کرے اس کے نتاہج منفی ہوسکتے ہیں اور ملک دشمن ان
مذہبی قوتوں کے جذبات کھیل کر ایک دفعہ پھر سانحہ پشاور جیسے واقعات جنم لے
سکتے ہیں۔حکومت کو ہر قدم پھونک کر رکھنا ہوگا سیاسی اور مذہبی تفریق کے
بغیر دہشت گردی کا سدباب کرنا ہوگا۔ملک کے امن و اماں میں کوہی سیاسی خلل
ڈالے یا مذ ہبی قانون ایک جیسا ہو۔اس وقت کے حالات ایسے ہیں کہ پاکستان کے
دوست کم اور دشمن ذیادہ ہیں۔حکومت کو ملٹری کورٹس کے قیام کے بعد سول کورٹس
پر بھی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اور اسلامی قوانین پر عملدرآمد اور تعذیرات
ہند سے چھٹکارہ ضروری ہے کیوں ان تعزیرات کی کمزور شقوں کی وجہ سے دہشت گرد
عدالتوں کے ذریعے نکل جاتے ہیں۔اس کے ساتھ حکومت کو انصاف کے بیوپاریوں کے
خاتمے کے ساتھ منصف کو جانی و مالی تحفظ بھی فراہم کیا جائے تاکہ منصف
بلاخوف و خطر فیصلے دے سکے۔قانون کی عمل داری ہی قاہد و اقبال کے خوابوں کو
تعبیر بخش سکتی ۔موجودہ وقت کا تقاضہ ہے کہ قومی مفاد میں سخت گیر فیصلے
کیے جائیں
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو |
|