نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
امریکی صدر بارک اوباما بھارت کا
دورہ مکمل کرکے براستہ سعودیہ وطن روانہ ہوگئے۔ اپنے حالیہ دورے میں انہوں
نے دفاع، تجارت ، ماحولیات اور دیگر شعبوں میں ہندوستان کے ساتھ تعاون کے
فروغ پر اتفاق کیا، فوجی طیاروں کے آلات اور قابل تجدید توانائی پر بھی
معاہدے کیے گئے ۔ امریکی صدر نے بھارت کو افغانستان میں اپنا قابل اعتماد
پارٹنر بھی قرار دیا اور سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لیے بھی بھارت کی
حمایت کی ۔ جاتے جاتے انہوں نے سرمایہ کاری اور قرضوں کی مد میں بھارت کو 4
ارب ڈالر دینے کا بھی اعلان کیا۔ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
اگلے مورچوں پر لڑنے والے ملک(فرنٹ لائن اسٹیٹ) کا کردار ادا کرنے والے
پاکستان کے لیے اُن کے پاس طِفل تسلیوں اور DO more کے مطالبے کے علاوہ کچھ
بھی نہیں ہے۔
تو کم و بیش 13 سالہ جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے اور پڑوسی ملک کے خلاف
جارحیت میں اس کو اپنا کاندھا پیش کرنے کے بعد پاکستان آج اس مقام کہ
امریکہ ، پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارت گزشتہ دو ماہ
سے سرحدوں پر غیر اعلانیہ جنگ چھیڑے ہوئے ہے، ہماری شمال مغربی سرحدیں غیر
محفوظ ہیں، افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت قائم ہے اور خود ہمارا ملک
دہشت گردی کی زد میں ہے، عالمی برادری میں ہمارا تاثر ایک غیر ذمہ دار ملک
اور دہشت گردو ں کی محفوظ پناہ گاہ کا ہے۔ اس جنگ میں ہمارے ہزاروں بے گناہ
شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہماری فوج اپنے ہی ملک کے اندر
دہشت گردوں سے برسرِ پیکار ہے۔ امریکہ کی دوستی سے یہ سارے عذاب ہمارے حصے
میں آئے ہیں بقول شاعر
یہ صلہ ملا ہے مجھ کو تیری دوستی کے پیچھے
کہ ہزاروں غم لگے ہیں میری زندگی کے پیچھے
امریکہ نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہ ایک بے رحم دشمن اور بے وفا دوست
ہے کہ جو USE AND THROW کے اصول کے تحت پاکستان کے قریب آتا ہے اور مطلب
پورا ہوتے ہی آنکھیں پھیر لیتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے بھارت
کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ دیا جاتا، پاکستان کے قرضوں کو معاف کیا
جاتا اور پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اُ س کے ساتھ اقتصادی اور
تجارتی معاہدے کیے جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ قابل صد افسوس بات یہ
ہے کہ گزشتہ ماہ جب نیٹو نے افغانستان میں اپنے مشن مکمل کرکے واپس جانے کا
باضابطہ اعلان کیا تو اس موقع پر پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے اور
پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرنا تو درکنار پاکستان کا نام تک نہیں لیا گیا
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اس امریکی صدر باراک اوباما کے دورہ بھارت کے اہم موقع پر چیف آف آرمی
اسٹاف جنرل راحیل شریف نے چین کا دورہ کرکے امریکہ کو ایک واضح پیغام دیا
ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اب تو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرِ
ثانی کرتے ہوئے اسے یہ پیغام دے کہ جناب بس بہت ہوگیا ۔ ڈو مور کے جواب میں
نو مور کا جواب دیا جائے ، امریکہ کے جھوٹے سہارے کے بجائے خطے میں اپنے
پڑوسی ممالک سے تعلقات کو مزید بہتر بنایا جائے اور اپنی مدد آپ کے تحت ملک
کی تعمیر و ترقی کے لیے قدم اٹھایا جائے۔
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے |
|