تمغے اور اعزازات ملک و قوم کی
امانت ہوتے ہیں یہ نوازش ِبے جا نہیں
بابر اعوان، سومنات کا مندر اور ستارہ امتیاز۔ ۔ ۔ ۔
تاریخ کا یہ منظر 1857ء کی جنگ آزادی سے تعلق رکھتا ہے جب خاندان مغلیہ کے
آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کی حکومت عملاً ختم ہوچکی تھی اور مسلمانوں
کا آخری حکمران لال قلعہ دلی میں علامت کے طور پر زندہ تھا، برطانوی فوج نے
قلعہ پر قبضے کیلئے جو فوج ترتیب دی تھی، اس میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی
جن کے نام و نصب مسلمانوں جیسے تھے، مگر ذہنی طور پر وہ انگریز کے ایسے
غلام تھے جو وہ کچھ کرسکتے تھے جس کا ہم اور آپ تصور بھی نہیں کرسکتے، اسی
وفادار فوج کی ایک رجمنٹ فرنٹیئر فورس نے جب لال قلعہ دلی پر حملہ کیا تو
قلعے کے محافظوں نے حملے سے بچنے کیلئے دروازہ بند کرنا چاہا، لیکن دروازہ
مکمل طور پر بند ہونے سے پہلے ہی فرنٹیئر فورس کے ایک سپاہی نے دروازے کے
بیچ میں اپنا سر دے دیا، مغل سپاہیوں نے دروازہ بند کرنا چاہا، فرنٹیئر
فورس کے سپاہی کی گردن نیلی ہوگئی لیکن قلعہ کا دروازہ بند نہ ہوسکا، یوں
برطانوی افواج قلعے میں داخل ہوگئی اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا ہی نہیں
برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت کا چراغ بھی ہمیشہ کیلئے گل ہوگیا، لال قلعہ
دہلی کی فتح کے بعد فرنٹیئر فورس کے سپاہی کے اس کارنامے پر حکومت برطانیہ
نے اس رجمنٹ کو اپنے سب سے بڑے فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس سے نوازا، آج بھی
یہ رجمنٹ اپنے وفادار سپاہی کی یاد منانے کیلئے تہوار کے دن اپنی گردن پر
نیلی پٹی باندھتی ہے۔
یوں تو دنیا کی ہر حکومت کا یہ قاعدہ اور قانون ہے کہ وہ اپنے ملک کے اہم،
باصلاحیت، قابل فخر اور وفادار افراد کو مختلف قسم کے سول اور فوجی اعزازات
سے نوازتی ہے اور انہیں اپنا قومی ہیرو قرار دیتی ہے، دنیا کی دیگر حکومتوں
کی طرح پاکستانی حکومت بھی اپنے ملک کے باصلاحیت، قابل فخر اور وفادار
سویلین اور فوجی افراد کو ہر سال اعزازات سے نوازتی ہے، یہ اعزازات نشان
حیدر، نشان پاکستان، نشان شجاعت، نشان امتیاز، نشان قائد اعظم، ہلال
پاکستان، ہلال جرات، ہلال شجاعت، ہلال امتیاز، ہلال قائداعظم، ہلال خدمت،
ستارہ پاکستان، ستارہ شجاعت، ستارہ امتیاز، ستارہ قائد اعظم، ستارہ جرات،
ستارہ بسالت، تمغہ پاکستان، تمغہ جرات، تمغہ شجاعت، تمغہ امتیاز، تمغہ
قائداعظم، تمغہ بسالت وغیرہ کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان اعزازات میں ستارہ
امتیاز پاکستان میں سول اور عسکری شخصیات کو عطاء کیا جانے والا تیسرا بڑا
اعزاز ہے، اِس کا ترجمہ ستارہ فضیلت بھی کیا جاتا ہے، یہ ایک ایسا اعزاز ہے
جو حکومتِ پاکستان عسکری اور سِول شخصیات کو عطاء کرتی ہے، اِس اعزاز کا
اعلان سال میں ایک دفعہ یومِ آزادی کے موقع پر کیا جاتا ہے اور یومِ
پاکستان کے موقع پر صدرِ پاکستان اس اعزاز سے منتخب افراد کو نوازتے ہیں،
عسکری حوالے سے یہ اعلیٰ ترین اعزاز بریگیڈئیر یا میجر جنرل کے رتبہ پر
فائز ان فوجی افسران کو عطاء کیا جاتا ہے، جنہوں نے نمایاں خدمات سرانجام
دی ہوں، جبکہ سول شخصیات کو یہ اعزاز ان کی اَدب، فنونِ لطیفہ، کھیل، طب یا
سائنس کے میدان میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں حکومت پاکستان نے وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان کو یہ اعزاز دینے
کا اعلان کیا، جناب بابر اعوان کو یہ اعزاز اَدب، فنونِ لطیفہ، کھیل، طب یا
سائنس کے کس میدان میں نمایاں خدمت پر دیا گیا ہے یہ تو حکومت ہی بہتر
جانتی ہے، لیکن حکومت کا یہ اعلان تمام اہل وطن سمیت خود حکومتی ارکان اور
جماعتی وابستگان کیلئے بھی باعث حیرت و استعجاب تھا، شاید اسی وجہ سے پیپلز
پارٹی کے سینئر رہنما اور سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے رکن (جو کہ اب معطل
ہیں) ڈاکٹر اسرار شاہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ”بابر اعوان نے سومنات کا
مندر فتح کیا ہے جو انہیں یہ اعزاز دیا جارہا ہے۔“ ڈاکٹر اسرار شاہ نے
ڈاکٹر بابر اعوان کی نامزدگی پر اعتراض کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا
گیلانی کو ایک خط بھی لکھا ہے، صدر زرداری کے نام بھیجی گئی اس خط کی کاپی
میں ڈاکٹر اسرار شاہ نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ بابر اعوان پہلے ہی حارث
اسٹیل ملز کیس میں ساڑھے تین کروڑ روپے کی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں،
ان کا کوئی اور کرپشن اسکینڈل سامنے آیا تو کیا حکومت ان کو ڈپٹی پرائم
منسٹر بنا دے گی، ڈاکٹر اسرار شاہ نے وزیراعظم کے نام خط میں افسوس کا
اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے ایسے شخص کو وزیر قانون بنایا ہے جو
نیپ کو مطلوب اور حارث اسٹیل ملز کیس میں ساڑھے تین کروڑ روپے کی کرپشن میں
ملوث ہے۔
ڈاکٹر اسرار شاہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ابتدائی سینئر ترین کارکنوں میں
شمار ہوتے ہیں، پارٹی کیلئے ان کی بے شمار قربانیاں ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ
17جولائی2007ء کو عدلیہ بحالی تحریک کے دوران اسلام آباد بار ایسوسی ایشن
کی طرف معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کوایک استقبالیہ دیا گیا تھا،
اسی روز پیپلز پارٹی کے کیمپ پر ہونے والے بم دھماکے میں کئی کارکن جاں بحق
ہوئے تھے، اس بم دھماکے میں ڈاکٹر اسرار شاہ بھی اپنی دونوں ٹانگوں سے
محروم ہوگئے تھے، بعد میں انہیں این اے 43سے پارٹی ٹکٹ دیا گیا اور انہوں
نے بڑی جانفشانی سے وہیل چیئر پر اپنی انتخابی مہم چلائی لیکن کامیاب نہ
ہوسکے، ڈاکٹر اسرار شاہ پارٹی میٹنگز میں نہایت بے باکی سے بولنے والے فرد
ہیں،ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اکثر و بیشتر خطوط کے ذریعے پارٹی
قیادت کو حقائق سے آگاہ کرنے کی کوشش کی، ہمیشہ پارٹی کی غلط پالیسیوں پر
تنقید کی اور میٹنگز میں غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہے، لیکن آج اسرار شاہ کو
وفاداریوں اور قربانیوں کا یہ صلہ ملا ہے کہ حق بات کہنے پر سنیٹرل
ایگزیکیٹو کمیٹی کی رکنیت سے معطل کئے جاچکے ہیں اور اس معطلی کو اُن کے
بچے پارٹی کیلئے ان کی قربانیوں کا تحفہ قرار دیتے ہیں۔
حق گوئی، وفاداری، اخلاص اور مخلصی سے مزین ڈاکٹر اسرار شاہ کی زندگی کے یہ
وہ پہلو ہیں جو ان کی ساری زندگی پر محیط ہیں جبکہ اُن کے مقابلے میں ڈاکٹر
بابر اعوان موجودہ رائج الوقت سیاسی کھیل کے ایک ایسے ماہر کھلاڑی ہیں، جو
سیاست کے اسرارو رموز، اتار چڑھاؤ اور باریکیوں کو سمجھتے ہیں اور اپنے
رہنما کے دیئے گئے ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، ان کی انہی
خوبیوں کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انہیں وزیر قانون بنانا پسند کیا اور شاید
اسی مہارت کو دیکھتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے بابر اعوان کو تمغہ امتیاز
سے نوازا ہے، صدر آصف علی زرداری نے یہ فیصلہ یقیناً ان کی کارکردگی کی
بنیاد پر کیا ہوگا، بابر اعوان کی وہ خدمات کیا ہیں جن کے طفیل انہیں یہ
اعزاز بخشا گیا؟ یہ تو حکومت ہی بہتر جانتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ آج
کی سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، ہماری سیاست ایک ایسا عمل ہے جس
میں نہ کوئی دائمی دشمن ہوتا ہے اور نہ دائمی دوست، درحقیقت سیاست یا
اقتدار میوزیکل چیئر کا کھیل ہے، جو شخص اس میدان میں اترنے کے بعد عقل سے
فیصلے کرتا ہے وہی اس کھیل میں کامیاب ہوتا ہے، گویا سیاست عقل کا وہ کھیل
ہے جس کا راستہ دل سے نہیں، دماغ سے ہوکر گزرتا ہے، اس میں دل اور جذبات کا
کوئی عمل دخل نہیں، جس نے سیاست میں عقل سے کام لیا وہ جیت گیا، سیاست کے
اسی اصول اور پھر وقت کی ایک لہر نے بابر اعوان کو سیاست کے اس ساحل پر
اتار دیا جہاں سے کامیابی زیادہ دور نہیں تھی، جبکہ ڈاکٹر اسرار شاہ کی
وفاداری، اخلاص ومروت اور قربانیوں پر ابن الوقتی اور چاپلوسی اس قدر غالب
آگئی کہ حق و انصاف کے روشن دیئے بھی بجھ گئے، جس کی وجہ سے وہ حق گوئی اور
سچائی کا علم لئے تنہا کھڑے رہ گئے۔
حیرت کی بات ہے کہ وفاقی وزیر قانون جو کہ پارٹی کے شریک چیئرمین کے منظور
نظر بھی ہیں کی حیثیت پارٹی کے جیالے کارکنوں کے نزدیک انتہائی متنازعہ ہے،
جب حکومت نے بابر اعوان کو ستارہ امتیاز دینے کا اعلان کیا تو اس فیصلے کے
خلاف ڈاکٹر اسرار شاہ نے وزیر اعظم کے نام ایک خط میں اپنے تحفظات کا اظہار
کیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بابر اعوان کو ستارہ امتیاز دیئے جانے کے
خلاف ان کے تحفظات پارٹی کی سینٹرل مجلس عاملہ کے رکن ہونے کی حیثیت سے
پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ میں زیر بحث لائے جاتے ،کیونکہ دنیا بھر کی
جمہوری پارٹیاں، پارٹی ارکان کو اختلاف رائے کا نہ صرف حق دیتی ہیں بلکہ
اختلاف رائے کے حوالے سے ان کے مؤقف اور رائے کا احترام کرتے ہوئے اختلافی
امور کو خاص طور پر پارٹی کی جنرل کونسل یا مجلس عاملہ میں زیر بحث لاتی
ہیں اور اکثریت رائے سے کسی نتیجے پر پہنچ کر پارٹی میں جمہوری اقدار کا
تحفظ کرتی ہیں، لیکن ڈاکٹر اسرار شاہ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا، حکمران
جماعت کے اعلیٰ منصبوں پر فائز ہائی کمان نے پارٹی روایات کے برخلاف آمرانہ
روش اختیار کرتے ہوئے اپنے ایک دیرینہ کارکن کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کی
رکنیت معطل کرکے پارٹی منشور اور دستور کی ہی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ آئین
میں دی گئی انسانی حقوق کی دفعات کو روند ڈالا، ہمارا ماننا ہے کہ حکومتی
مصلحتیں اور مجبوریاں اپنی جگہ لیکن ہر دل میں سچائی ایک دیا ضرور روشن
رہتا ہے، جو تقاضہ کرتا ہے کہ سچ بولا جائے اور حق وانصاف کا ساتھ دیا
جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ تمغے اور اعزازات نوازش بے جا نہیں بلکہ ملک و قوم
کی امانت ہوتے ہیں، جس کی تقسیم میں کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس
امانت کو اپنی افتاد طبع، اپنی خواہشات، ذاتی پسند و ناپسند اور شخصی
معاملات کے تابع کر دے، یاد رکھئے کہ یہ اعزازات پاکستان کے اُن عظیم
سپوتوں اور قومی ہیروز کیلئے ہیں جو ملک و قوم کی فلاح و بہبود، بہتری اور
استحکام کیلئے کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں، گستاخی معاف یہ قومی امانت
حکومت اور صدر کے خیر خواہوں اور وفاداروں کیلئے نہیں۔ |