پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
14جنوری کے وزیراعظم کے خطاب نے تو جیسے لوگوں کو ورطہِ حیرت میں مبتلا کر
دیا۔ان کے قومی اسمبلی کے اس خطاب سے تو ایسا لگتا تھا کہ بس اب امریکہ
بہادر کی خیر نہیں ہے۔ مگر سیانوں نے بتادیا ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے
اور ،اور کھانے کے اور ہوا کرتے ہیں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے
اس خطاب میں کہا کہ ”امریکہ پاکستان کے بغیر نہ تو افغانستان میں جنگ لڑ
سکتا ہے اور نہ ہی جنگ جیت سکتا ہے“کیونکہ پاکستان اس خطے کا بہت ہی اہم
ملک ہے۔ امریکہ کی ترسیلات کا نوے فیصد انحصار پاکستان پر ہے۔ جو چمن اور
خیبر کے راستے جاری ہے۔ مگر اس کے باوجود پاکستان تو جیسے اسکی زر خرید
لونڈی ہے کہ ہر جائز ونا جائز مطالبہ اسکو ماننا ہی پڑتا ہے۔ غلامی کا یہ
عظیم طوق ایک ننگِ وطن ننگِ قوم جنرل نے اس قوم کا مقدر کیا تھا۔ وزیر اعظم
کا یہ بھی کہنا ہے ”کہ امریکہ سے ہمارے تعلقات 60سال پرانے ہیں جن میں اتار
چڑھاﺅ آتا رہا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے مگر امریکہ نے
ہمارا ساتھ نہیں دیا“آج شائد ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھل رہی ہیں ؟یا یہ
آنے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاری ہے؟ مگر اس حقیقت سے کوئی کیونکر
آنکھیں چرا سکتا ہے کہ امریکہ کی پاکستان دوستی اس کے اپنے مفادات کے گرد
ہی گھومتی ہوئی نظر آتی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کا اتحادی ہونے کے باوجود اس
کو انتہائی پریشانی کے عالم میں ہمیشہ بیچ منجھدھار میں دھوکہ دیا ہے۔ خواہ
1965 کا معرکہ ہو جب اس نے پاکستان کو ہتھیاروں اور فاضل پرزوں کی سپلائی
روک کر پاکستان کی آگے بڑھتی ہوئی فوجوں کو حربی نقصانات سے ہمکنار کر دیا
تھا۔ یا 1971 کی جنگ جب اسکا ساتواں بحری بیڑا آتے آتے ہی شائد سمندر میں
غرق ہوگیا تھا۔ جس نے پاکستان کی شکست وریخت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کی مخالف قوتوں کی ہی ہاں میں ہاں ملائی ہے اور
پاکستان کو دودھ کی مکھی کی طرح الگ کر کے اس کے مفادات کو شدید نقصانات سے
ہمکنار کیا اور پھر بھی وہ ہمارا من کا میت ہے؟؟؟ہماری ضرورت کے وقت بھی اس
نے ہمارے پیسے لینے کے باوجود ہمارا خریدا ہوا ساز و سامان تک ہمیں دینے سے
صاف انکار کر دیا تھا۔ یہ ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہمارے ساتھ ہوتا رہا
ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں بھاری قومی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔
قرآن کا واضح فرمان ہے کہ ”یہود و نصارا تمہارے (مسلمانوں کے) دوست نہیں
ہوسکتے“تو پھر ان پر اعتبار کرنا کیا معنی؟
مغرب کے مکار لوگ مسلمانوں اور اسلام کے علمبرداروں کے کھلے دشمن ہیں۔ جن
سے کوئی حقیقی مسلمان اپنے حق میں بہتری کی امید نہ رکھے۔ وزیراعظم نے اپنے
خطاب میں یہ بھی کہا کہ”آج امریکہ ڈو مور کی بجائے ہم سے اسٹرٹیجک پارٹنر
شپ چاہتا ہے“ وہ ہمارے مفاد میں تو کبھی کسی بھی قسم کی پارٹنر شپ کر ہی
نہیں سکتا ہے۔ وہ ہمارے ذریعہ ہمارے لوگوں کو مروانے کے ساتھ خود بھی ڈرون
حملوں کے ذریعہ ہمارے بے گناہ شہریوں کو مسلسل موت کے گھاٹ اتار رہا ہے اور
اسی کو وہ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کہتا ہے۔ جو در اصل ہماری غیرت کا سوال ہے۔
وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ”امریکہ ایک طرف بھارت سے نیو کلئیر معاہدے
کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان پر پابندیاں جاری ہیں۔ جو ہم قبول نہیں
کریں گے۔ ہم ایٹمی اثاثوں اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں
گے“امریکہ نے ایک جانب بھارت کے ایٹمی پروگرام سے ہمیشہ صرفِ نظر کیا تو
دوسری جانب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ہمیشہ شدت کے ساتھ مخالفت کی۔ تم
ہوئے جس کے دوست اس کو دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ ہے ہمارے ساتھ
امریکہ کی دوستی کا معیار؟ دوسری طرف اسرائیل کو اس نے خود ہی غیر اعلانیہ
ایٹمی قوت مسلمانوں کے معاشی اثاثوں پر قبضہ کرنے کے لئے بنا چھوڑا ہے۔ اور
بھارت سے ایٹمی معاملات پر پینگیں بڑھ رہی ہیں۔ جس سے صرفِ نظر نہیں کیا
جاسکتا ہے۔
ڈرون حملوں کے ضمن میں وزیراعظم کا کہنا ہے کہ”امریکہ سے اعتماد کا فقدان
ہے۔ ڈرون حملوں سے قبائیلی انتہا پسندی کی طرف راغب ہو رہے ہیں“محترم وزیر
اعظم کو اس بات کا بڑی دیر کے بعد احساس ہوا ہے کہ ہمارے قبائلیوں میں غم و
غصہ کیوں پیدا ہو رہا ہے۔ تو پھر جناب ڈالر کے بدلے میں کیوں اپنے ہی لوگوں
کے کے خون کے پیاسے ہورہے ہو؟ اور ان کے اندر اشتعال کیوں پیدا کر رہے ہو؟
جناب وزیر اعظم یہ اشتعال ہمیں بھی ختم کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ ہم اپنے ہی
لوگوں پر وہ سب کچھ استعمال کر رہے ہیں جس کو کل ہمیں دشمن کے لئے بچا کر
رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں الیکشن کی بجائے پاکستانیوں کی جانیں بچانے کی فکر
کرنی چاہئے ناکہ خود بھی مارو اور اسلام کے کھلے دشمنوں سے بھی مرواﺅ۔ شیم
شیم۔
وزیراعظم نے پاکستانیوں کی اسکریننگ پر بھی لب کشائی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
”پاکستانیوں کی اسکریننگ قابل مذمت ہے“مگر کیا وزیراعظم کے اس بیان پر
امریکی پاکستانیوں کے ہتک آمیزی سے باز رہیں گے؟ یہ تو ہر ہر قدم پر ہمیں
ننگا کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ انہیں پاکستانیوں کی عزت نفس کا ذرا بھی خیال
نہیں ہے۔ یہ ہمیں جانوروں سے بھی نچلے درجے میں رکھتے ہیں، کتے بلی کی ان
کی نظر میں اہمیت ہے مگر پاکستانیوں کی نہیں۔ وزیر اعظم کے بر عکس فوزیہ
وہاب کہتی ہیں کہ ”امریکہ ہمیں بہت کچھ دے رہا ہے مگر عزت ہمیں راس نہیں“
محترمہ فرمائیے کیا یہ ہماری عزت ہے کہ ہماری ماﺅں بہنوں کی وہ اسکریننگ
کرے اور پاکستانی آپ کی طرح عزت کے ڈونگرے پیش کریں آپ کے مذکورہ بیان پر
افسوس کے سوائے کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ وزیراعظم نے بھی اس بات کی
مذمت کی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو بھی چاہئے کہ ان تمام ممالک کے لوگوں کی
اسکریننگ کا حکم دیں جو پاکستانیوں کی عزت نفس سے کھیل رہے ہیں۔ کوئی با
غیرت قوم اپنی عزت کا سودا اس طرح نہیں کر سکتی ہے۔
یہ امریکی پاکستاں میں غیر قانونی طو پر ہر اُس جگہ دندناتے پھرتے ہیں جہاں
کسی کے بھی جانے کی ممانیت ہوتی ہے۔ یہ قانون نافذ کرنے والوں کو بھی
دھمکیاں اور تڑیاں دیتے پھرتے ہیں۔ ان کو کوئی اس ملک میں روکنے ٹوکنے یا
لگام دینے والا نہیں ہے۔ یہ کبھی غیر قانونی اور بغیر لائسنس کا اسلحہ
لہراتے ہوئے دیکھے اور پکڑے جاتے ہیں کبھی کہوٹہ اور کبھی گوادر کی بندر
گاہ کے انتہائی حساس علاقوں میں بغیر حکومتی اجازت کے جاسوسی کرتے اور حساس
علاقوں کی ویڈیو بناتے اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے پھرتے ہیں۔ حکومت کو
چاہئے کہ انہیں لگام دے۔ اگر کہیں یہ لوگ دہشت گردی کرتے ہوئے مارے گئے تو
پھر امریکہ کی طرف سے حکومت پاکستان پر دشنام طرازیاں کی جائیں گی۔ کیونکہ
بغیر لائسنس کا اسلحہ صرف دہشت گرد ہی استعمال کرتے ہیں۔ شائد یہی لوگ ملک
میں دہشت گردی اور زبوتاژ کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان امریکنوں میں اکثریت
زی (xe)کے لوگوں کی ہے۔ جنہیں روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ جو پاکستان مخالف
ایجنڈے کے تحت جمع کئے گئے ہیں۔
پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بھیڑیوں کے حوالے کرنے والا ڈکٹیٹر آج در
در کی ٹھوکریں کھاتا مارا مارا پھر رہا ہے۔ مگر اس کے اقدامات کو دوام
بخشنے والے بھی آج سکون سے نہیں ہیں۔ عافیہ صدیقی کے حوالے سے وزیر اعظم نے
امریکہ سے کہا ہے کہ ”وہ عافیہ صدیقی کو چھوڑ دے تو اس کی پاکستان میں واہ
واہ ہوگی“ ہمیں تو امریکہ نے ایسے گہرے زخم لگائے ہیں کہ وہ صدیوں بھی
مندمل نہ ہونگے۔ وہ معصوم عافیہ کو چھوڑ کر ہم پر احسان نہیں کرے گا۔ جو ہم
اس کی واہ واہ کریں گے۔ ان پر تو ہر پاکستانی سوائے حکمرانوں کے آج بھی
لعنتیں برسا رہا ہے اور کل بھی برسائے گا۔ کیونکہ یہ درندے کمزور
پاکستانیوں کا دہرے انداز میں لہو بہا رہے ہیں اور بے گناہ پاکستانیوں پر
ڈرون طیاروں کے ذریعے دن رات آگ برسا رہے ہیں۔ اور پھر بھی سوال کرتے ہیں
کہ پاکستانی ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ان کائروں سے کسی بھلائی یا بہتری کی
کوئی امید نہ رکھی جائے۔ جو انتہائی قابلِ نفرت ہیں۔
وزیراعظم کے اس پر جوش خطاب کے بعد ہماری حکومت کے منہ پر طمانچہ صدر
اوباما کے مشیر خصوصی رچرڈ ہُل بروک کے ساتھ اسلام آباد میں صحافیوں سے
باتیں کرتے ہوئے امریکی سینٹ کی آرمڈ کمیٹی کے چیرمین سینیٹر کارل لوین نے
یہ کہہ کر مارا کہ امریکہ پاکستانی حدود میں ڈرون حملے بڑھانا چاہتا ہے۔
پاکستانی حکمران اپنے عوامی بیانات میں تو ڈرون حملوں کے روکنے کا مطالبہ
کرتے ہیں لیکن اپنی نجی گفتگو کے دوران ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہیں۔ شیم
شیم اس بیان کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کی آواز تک نہیں نکلی۔ امریکی
سینیٹر کے اس بیان نے ہمارے حکمرانوں کے دوغلے پن کا پول بھی کھول کے رکھ
دیا ہے۔ جو نہایت ہی قابلِ مذمت بات ہے۔ ہُل بروک نے اور ان کے ساتھی
سینیٹر کارل لوین نے جو اسلام آباد میں وزیر اعظم کے اسمبلی سے خطاب کے بعد
گفتگو کر رہے تھے نے تو وزیر اعظم کے پاکستانیوں کی اسکریننگ نہ کرنے کے
بیان کو ان کے دارلحکومت میں ہی ان کے پر جوش خطاب کے بعد کھلے بندوں مسترد
کر دیا اور کہا کہ امریکہ پاکستانی حدود میں ڈرون حملے بڑھانا چاہتا ہے۔
پاکستانی حکمران اپنے عوامی بیانات میں تو ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے ہیں
اور انکو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن اپنی نجی گفتگو کے دوران وہ ڈرون
حملوں کی حمایت کرتے ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ امریکی سنیٹر کے اس بیان کے
بعد حکومت تو جیسے سانپ سونگھ گیا کہیں سے بھی اس بیان کی مخالفت نہ کی
گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کا یہ منافقانہ رویہ تبدیل ہونا
چاہئے۔ ہُل بروک نے تو وزیراعظم کے پاکستانیوں کی اسکریننگ کے بیان کو بھی
اسی دن ان کے اسمبلی کے خطاب کے بعد ہی مسترد کردیا تھا۔ جس کے بعد حکومتی
حلقوں کو سانپ سونگھ گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ بلدیاتی الیکشن کی تیاری
ہے۔ کوئی ہمارے حکمرانوں میں اتنا بہادر نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات کر سکے۔ صدر زرداری کا دورہ پنجاب اور
وزیراعظم کا اسمبلی کا خطاب دونوں ہی لگتا ہے الیکشن کمپین کا حصہ ہیں۔
پاکستانی عوام آج اتنے بےوقوف نہیں ہیں جتنا کے انہیں سمجھا جا رہا ہے۔ |