سیکولر آئین کا غلغلہ اور ہندوراشٹر کا ولولہ

ہندستان کا 66واں یوم جمہوریہ اس بار کچھ نرالا نظر آیا۔مہمان امریکی صدر کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی مرکزی حیثیت میں نمایاں رہے۔ مسٹرمودی پہلے وزیر اعظم ہیں جو ملک کی آزادی کے بعدپید ا ہوئے۔ ان کی ذہن آرایس ایس کے سانچے میں ڈھلا ہے، جس نے خود کو تحریک آزادی سے الگ تھلگ رکھا ۔ اس نظریہ سازوں کو ’سرو دھرم سنبھاؤ‘ یعنی ’مذہبی رواداری ‘کا ’سیکولر‘ویدک نظریہ راس نہیں آتا، بلکہ اکثریت کی بنیاد پر بالادستی اور دیگر فرقوں کی بیخ کنی پرقائم ’ہندوراشٹرا‘ بنانا اس کا ہدف ہے۔سنگھ کے پرچارک کی حیثیت سے مودی جی نے اپنی بہترین صلاحیتیں اسی نظریہ کی تبلیغ میں لگائی ہیں، جس کے لئے اپنی شریف بیوی کو بھی چھوڑ دیا۔ اس کے باوجود وہ 26جنوری کو بڑے جوش وخروش کے ساتھ سیکولر ہندستان کے سیکولر آئین کی سالگرہ تقریب میں مگن نظرآئے۔ان کے ظاہر اور باطن کا یہ تضاد کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ ان کی وفاداری کس نظریہ کے ساتھ ہے؟ ’سیکولر‘ ہندستان کے ساتھ یا ’ہندو راشٹرا‘ کے نظریہ کے ساتھ؟ بقول غالب:
ایمان مجھے روکے ہے، تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے آگے ہے تو کلیسہ میرے پیچھے

مودی جی کے انداز میں اس کو یوں کہنا چاہئے: ’بھائیو اوربہنو! وچارکرویہ سوچ اور عمل میں تضاد ہے کہ نہیں؟ایسا ہونا چاہئے کیا ؟ نہیں ہونا چاہئے نا؟ مگر صاف نظرآتا ہے کہ یہ فرق ہے؟یہ تضادبھائیو اوربہنو! اس لئے ہے کہ دعوا تو اصول پسند ہونے کاہے، مگر اصلی پسند کرسی ہے ؟‘

معلوم نہیں اس تضاد اور ٹکراؤ سے مودی کے دل میں کچھ چبھن ہوتی ہے یا چانکیہ نیتی کی دبیز تہہ نے اس تضاد کو دبا لیا ہے؟ لیکن یہ ناانصافی ہوگی اگراس طرح کے تضادات کے لئے صرف ان پر انگلی اٹھائی جائے اور باقی لیڈروں کا ذکر نہ کیا جائے۔

اس یوم جمہوریہ میں امریکا کے صدربارک اوبانا بطور مہمان خصوصی تشریف لائے۔ انہوں نے اپنے دوناموں کے درمیان سے اسم ’حسین‘ نکال دیا ہے۔ یہ نام ان کو اپنے والد سے ملا تھا جو کینیا کے ایک بڑے افسر تھے اور ہوائی میں تعلیم کے دوران ایک عیسائی خاتون سے دوسری شادی کرلی تھی۔ان سے ہی بارک اوباما کی ولادت ہوئی۔ انہوں نے اپنے نام سے اسم حسین کو ہی نہیں نکالا،بلکہ صفت’حسینیت‘ سے بھی کنارہ کردیا لگتا ہے۔’ حسینیت ‘ حق کے لئے شہادت کی صفت ہے۔ یہ صفت ذاتی یا قومی مفاد کے لئے ڈرون حملوں سے معصوم انسانوں کی لاشوں کے انبار لگانا نہیں جانتی۔

کہا جارہا ہے کہ پی ایم مودی کے ایک فون پر وہ تشریف آوری کے لئے آمادہ ہوگئے۔لیکن ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے مشیروں سے مشورہ کرلیا ہوگا، جن میں اسرائیل نواز بھی ہونگے۔ مودی سرکار کا بیک وقت اسرائیل اور امریکا سے قریب آنا ، کچھ کہتا ضرور ہے۔ امریکی صدراحتیاط کے خلاف ڈھائی گھنٹہ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے رہے اور پریڈ کا نظارہ کرتے رہے۔ ہمارے اسلحہ کی نمائش توان کو کھلونوں کی نمائش لگی ہوگی البتہ بائک سواروں کے کرتبوں سے وہ خوب لطف اندوز ہوئے۔

اپنی شرکت سے یوم جمہوریہ کی رونق بڑھاکر یقینا امریکی صدر نے بڑا کرم فرمایا۔انہوں نے ہمارے ملک کو اہمیت دی تبھی تو یہ زحمت اٹھائی۔ لیکن ہند کو یہ اہمیت چند ماہ قبل مودی کے وزیراعظم چن لئے جانے سے نہیں مل گئی۔اس مقام تک پہنچنے میں ہماری سات دہائیوں کی کارگزاریاں شامل ہیں۔جب ہم آزاد ہوئے، ہم مفلوک الحال تھے۔بھکمری کا شکار تھے۔آج ہم دنیا کی ایک بڑی معیشت بن جانے کے قریب ہیں۔یہ ترقی ہم نے پلاننگ کمیشن کے تحت پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کے نفاذ سے حاصل کی ہے۔ حالیہ برسوں میں معیشت میں جو اچھال آیا، اور جس نے عالمی مندی کو جھیل لیا، اس میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔چند دہائی قبل تک ہمارے یہاں صرف یا توایمبسڈرہوتی تھی یا فئٹ کار۔ایک کار’ہندستان‘ بھی تھی مگربہت کم۔ ایک موٹر سایکل تھی ’راجدوت‘۔ہم نے میرٹھ میں پہلا ٹووہیلر اسکوٹر لمبریٹا 1964یا 1965 میں دیکھا تھا، جس کودیکھنے کے لئے میرٹھ کالج میں ایک ہجوم آگیا تھا ۔ امپورٹڈ کارشاید ہی کسی کے پاس ہوتی تھی۔ آج ملک میں درجنوں چھوٹی بڑی گاڑیاں بن رہی ہیں اور ایکسپورٹ ہورہی ہیں۔ آزادی کے وقت تک چند ہزار کلومیٹر پختہ سڑکیں تھیں۔ آج اکثر سڑکیں پختہ ہیں ۔ فورلین ہیں۔ہم نے بچپن میں اپنے گاؤں میں کئی لوگوں کو کرتا اور لنگوٹی میں دیکھا ۔ آج ان کے پوتے، پوتیاں جینس اور شرٹ میں نظرآتے ہیں اور موٹر سائکل پرگھر سے نکلتے ہیں۔ کسان بھی بائک پر کھیت کھلیان جاتے ہیں۔ کھیتی کا اکثرکام مشینوں سے ہورہا ہے اور زمین سونا اگل رہی ہے۔کل تک اسی امریکا سے PL-480 کے تحت نہایت ناقص اناج خریدنے پر مجبور تھے۔ آج ہم ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ عام طور سے عوام کی یادداشت کمزورہوتی ہے۔بھول جاتے ہیں کل ہمارا حال کیا تھا اور آج کیا ہے اور کھوکھلے نعروں میں بہہ جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ صدراوباما نے ملک کو یہ اہمیت دی تو یہ ہماری سات دہائیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اس کا سہرا چند ماہ کی سرکار کے سر نہیں جاتا۔

صدر اوباما کے اس دورے کے موقع پر سرکار کی ساری کوشش یہ رہی کہ یوپی اے سرکار نے 2008 امریکا کے ساتھ جو نیوکلئر معاہدہ کیاتھا، اس پر عمل درامد میں حائل رکاوٹیں دور ہوں۔جو معمولی پیش رفت ہوئی اس کا سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے وزیراعظم مودی نے قبول کیا کہ’ 2008 کا یہ معاہدہ ہندامریکا رشتوں میں مثبت تبدیلی لایا ہے۔‘ لیکن ہم یہ کیسے بھول جائیں کہ اسی بھاجپا نے جس کی سرکار کے وہ سربراہ ہیں اس معاہدہ کو ’قومی مفادات اور قومی خود مختاری ‘ کی خود سپردگی کہہ کر اس کے خلاف ملک گیرمہم چلائی تھی اور نفاذمیں رکاوٹیں کھڑی کی تھی۔ سب سے زیادہ شور آڈوانی جی اورمحترمہ سشما سوراج نے مچایا تھا۔ اڈوانی جی تو خیرپس منظر میں چلے گئے ہیں، سشماجی کو بتانا چاہئے کہ وہ اب کیوں خاموش ہیں؟ یہ حیرت کی بات ہے امریکی صدر کی آمد پر محترمہ وزیر خارجہ سرگرم نظر نہیں آئیں ۔ آج بھاجپا کے کسی لیڈر کو یاد نہیں آرہا کہ کل تک جو معاہدہ قومی مفاد اور وقار کے خلاف تھا، اس کی تکمیل میں معمولی سی پیش رفت بھی مودی سرکارکے لئے عزت اوروقار کا سودا کیونکر بن گئی؟

بھائیوں اور بہنو ! یہ دوغلہ پن ہے کہ نہیں؟یہ دوغلہ ’اصولوں‘ پر چلنے کا دعوا کرنے والی پارٹی کا حصہ بن گیا ہے کہ نہیں؟کاش بھاجپا نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے مثبت کردار ادا کیا ہوتا اور معاہدہ کا نفاذ ہوگیا ہوتا تو نیوکلیائی بجلی گھروں کے قیام میں خاصی پیش رفت ہوگئی ہوتی جو ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ترقیاتی پروجیکٹوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والی اور گلے گلے کرپشن میں ڈوبی ہوئی پارٹی ترقی کے وعدے اورکرپشن کے خلاف مہم کی لہر پر سوار ہوکر مرکز میں اقتدار پر قابض ہوگئی اور ذہنی ونظریاتی طور پر کرپٹ، آئین کی سیکولر روح سے برگشتہ لوگوں کو کابینہ میں شامل کرلیا گیاہے۔

اس موقع پر ہمیں سعودی شاہ مرحوم عبداﷲ بھی یاد آگئے۔ وہ پہلے سعودی شاہ تھے جو 51سال کے طویل وقفہ کے ہندستان تشریف لائے اورسنہ 2006 میں 57 ویں یوم جمہوریہ کے مہمان خصوصی بنے۔ سارے پروٹوکال بالائے طاق رکھ کر انکا استقبال کرنے وزیر اعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ خود ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ جس طرح آج یہ قیاس آرائی ہورہی ہے کہ صدر اوباما کے آجانے سے ہند امریکی رشتوں میں کوئی بڑاانقلاب آجائیگا اسی طرح اس وقت بھی یہ قیاس کیا جارہا تھا عرب ممالک کے ساتھ ہندکے رشتوں میں بڑا پھیر بدل ہوجائیگا۔ اس کے بعد وزیراعظم من موہن سنگھ بھی سعودی عرب گئے۔ مگر دوطرفہ رشتوں میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ چنانچہ صدر اوباما کے دورے کو اپنی پبلسٹی کے لئے اچھالنا اور ملک کو خواب پر خواب دکھاتے رہنا کوئی حقیقی کامیابی کی دلیل نہیں۔

درحقیقت آج کے دور میں کوئی ملک کسی کو کچھ دیتا نہیں۔ اگر شاہ ہونے کے باجود مرحوم عبداﷲ ہند کے جمہوری جشن میں تشریف لائے تو ان کے پیش نظر سعودی مفاد رہا ہوگا ۔ صدر اوباما آئے ہیں اور امریکی تاجروں کو ساتھ لائے ہیں تو وہ یہاں ڈالر بکھیرنے نہیں آئے، بلکہ اس ارادے سے آئے ہیں کہ سرزمین ہند سے ان کو اپنے ملک کے لئے کیا ہاتھ آسکتا ہے؟امریکا کے ساتھ تاریخی نیوکلیائی معاہدے کے فوری بعدچند ماہ کے دوران فرانس، جرمنی، روس، چین ،امریکا ، برطانیہ اورآسٹریلیا کے سربراہان تشریف لائے تھے۔ سب اپنے لئے بازار کی ٹوہ میں آئے۔ اس طرح کے دوروں کا کچھ فائدہ ضرور ہوتا ہے مگر کوئی انقلاب نہیں آجاتا جیسا کہ صدرامریکا کی آمد پر شور مچایا جارہا ہے۔ توجہ اس پر دی جانی چاہئے کہ ہم دنیا کو کیا دے سکتے ہیں ؟ جب ہم سوالی ہوتے ہیں تو معاہدہ ہماری شرطوں پر ہونہیں سکتا۔ سوالی دوسرا بن کر آئیگا تو ہمارا پلڑابھاری ہوگا۔

مودی صاحب جاپان گئے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا مژدہ سنایا۔ چین کے صدر تشریف لائے تو بھی بڑھا چڑھاکر سرمایہ کاری کی خوشخبریاں سنائی گئیں۔ مگر ابھی تک ایک دھیلا سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ اب امریکی صدر نے بھی بڑی رقم کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ اس پر عمل اسی صورت ہوگا جب ایک ڈالر لگاکر چار کمانے کی امید ہوگی ۔ لیکن اس سے پہلے مودی جی کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جس سیکولرآئین کے نفاذ کی سالگرہ تقریب کے موقع پر انہوں نے صدراوباما کا مہمان بنایا، وہ آئین ان کے دل کے زیادہ قریب ہے یا ہندوراشٹر ا کا وہ نظریہ جس کی گھٹی انہوں نے اوران کے سنگھی ساتھیوں نے پی ہے اور جس کے اثر سے کبھی’ لوو جہاد‘ کا نعرہ لگتا ہے، کبھی ’گھرواپسی‘ کی بڑ ہانکی جاتی ہے، کبھی مندر مسجد کے تنازعہ کو ہوا دی جاتی ہے ، کبھی ملک کی 80 فیصد آبادی کویہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ یہ جو 18فیصد مسلمان ہیں، عنقریب ان کا غلبہ ہوجانے والا ہے۔ ان حرکتوں سے ملک کا ماحول مکدرہوتا ہے اور ترقیاتی کاموں کو بریک لگ جاتا ہے۔ مودی جی کو فیصلہ کرنا ہوگا اور اشاروں کناروں میں نہیں علی الاعلان ملک اور قوم کو یہ بتا دینا ہوگا کہ وہ ملک کو کدھر لیجاجا ناچاہتے ہیں؟ مذہبی شدت پسندی کی طرف جانے دیں گے جس سے صدراوباما نے کھل کر خبردار کیا ہے یا روائیتی مذہبی رواداری اور حقیقی آزادی کے ضامن بنیں گے؟

صدراوباما کے اس دورے کے کچھ دیگرمقاصد بھی ہیں۔ سات سمندر پار سے ان کو فکر چین کو گھیرنے کی ہے اوراس کے لئے وہ ہندستان کو اپنا شریک بنانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ چین ہمارا پڑوسی ہے۔وہ تمہاری نظر میں خار پاکستان کا قریبی دوست بھی ہے۔ صدرامریکا کے دورے کے موقعہ پر پاکستانی فوج کے سربراہ جرنل راہیل شریف چین پہنچے اور دونوں ممالک نے ایک مرتبہ پھر اپنے عہد دوستی کو دوہرایا اور افغانستان میں ہند کے مفادات پر شک کو اور گہراکیا۔ اپنی خارجہ پالیسی میں ہمیں اپنے پڑوسی اورعلاقائی طاقتوں کے خلاف امریکاکا آلہ کار بن جانا کیسے راس آجائیگا؟اس وقت امریکا کی قیادت میں روس کے خلاف بھی محاذآرائی ہورہی ہے جبکہ روس اور چین قریب آرہے ہیں۔ روس ہند کا دہائیوں پرانا دوست رہا ہے۔ ہماراوسیع ترمفادکا تقاضا ہے کہ امریکا سے پینگیں بڑھاتے ہوئے توازن کو برقرار رکھیں اور چین، روس، پاکستان ،افغانستان، میانمار، سری لنکا اوردیگر پڑوسی ملکوں سے اپنے رشتوں کو اور مضبوط کریں اور سافٹا و سارک معاہدوں کے نفاذ کی راہیں کھولیں۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180494 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.