موجودہ حالات میں پاکستان کی
عوام جن مسائل کا سامنا کر رہی ہے ان کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے
تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کو پیدا کرنے میں ہمارے حکمرانوں کا سب سے
بڑا ہاتھ ہے کیونکہ یہ مسائل وسائل کی کمی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ
ان کو بعض لوگوں نے اپنے فائدے کے لئے خود پیدا کیا جیساکہ بجلی کا بحران ،
گیس کا بحران ،پیٹرول کا بحران وغیرہ۔ ان سب بحرانوں میں ایک بات مشترک ہے
کہ ان میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر مسلط لوگ ہی ملوث پائے گئے ہیں جنھوں نے
اپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے عوام کی گردنوں پر چھری چلانے سے بلکل گریز
نہیں کیا جیسا کہ اب پی ایس او کے برے عہدیدار کو معطل کر کے اس کے خلاف
کاروائی کی سفارش کی گئی ہے پیٹرول کابحران پیدا ہوا تو میڈیا نے چیخ، چیخ
کر کہا کہ اس میں بڑے لوگ ملوث ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی
مگر جب پانی سر سے گزر چکا تو انھیں یاد آیا کہ ان کو تو جن لوگوں نے منتخب
کیاتھا ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے ایسے میں فوری طور پر اقدامات
اٹھائے گئے مگر تب تک شاید پانی سر سے گزر چکا تھا پھر عوام کو دیکھانے کے
لئے ایسے اقدامات کیے گئے جس سے یہ لگے کہ حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل
نہیں تھا مگر اب شاید عوام بھی جان چکے ہیں کہ ان حکمرانوں کی اصلیت کیا ہے
اور ان کی نظر میں عوام کی اوقات کیا ہے پیٹرول کی لائینوں میں لگے ہوئے
عوام کے چہروں پر وہ اضتراب صاف نظر آ رہا تھا جیسا اضتراب مشرف دور کے
الیکشنوں سے پہلے اور زرداری دور کے الیکشنوں سے پہلے عوام میں نظر آتا ہے
ان تمام بحرانوں کے بارے میں ہمارے بھولے حکمرانوں کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے
خلاف سازش ہے۔ آج عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب کہ آخر کا ر ان سازشیوں کے
بارے میں حکومت کو پہلے کیوں پتا نہیں چلتا اور اگر بعد ازاں تحقیقات کے
بعد کچھ بڑے لوگوں کے نام سامنے آتے ہیں تو حکومت ان کے خلاف کاروائی کیوں
نہیں کرتی یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب حکومت کو دینا ہو گا۔ عالمی منڈی
میں اگر اس وقت دیکھا جائے تو وہ تیل جو سابق پی پی پی پی کی حکومت کو ایک
سو پچاس ڈالر تک مل رہا تھا آج حکومت کو صرف پینتالیس سے پچاس ڈالر میں مل
رہا ہے اور سعودی حکومت سے اور بھی سستا مل رہا ہے مگر اس کے بر عکس اگر
عوام کو دیا جانے والا ریلیف دیکھا جائے تو ہو آٹے میں نمک کے برابر بھی
نہیں ہے بلا شبہ حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ
عوام کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ کوشش ابھی تک کارگر ثابت نہیں ہو
سکی اس کی بڑی وجہ حکومت کی وہ کمزوری ہے جو گراس روٹ لیول پر چیک اینڈ
بیلنس کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے مثال کے طور پر حکومت نے تیل کی قیمتون
میں تقریبا تیس فیصد کمی کی ہے مگر اس کے بر عکس روز مرہ کی اشیاء کی
قیمتوں میں کوئی خاص کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی ٹرانسپورٹ کے
کرایوں میں کوئی خاص کمی دیکھنے کو ملی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ تیل کی
قیمتوں میں کمی سے ہونے والا سارا فائدہ بزنس کلاس،اور اپر کلاس لوگ لے گئے
اور غریب تک اس کا فائدہ بلکل نہیں پہنچا دوسری بات اگر تیل کے اس بحران کو
سامنے رکھا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حکومت نے جو فائدہ عوام کو
دینے کی کوشش کی ہے اس کی ساری کسر اس تیل مافیا نے ایک ہی جھٹکے میں پوری
کر دی جو اس ملک کی تیل انڈسٹری پر قابض ہے پوری دنیا کی اکانومی میں تیل
وہ بنیادی جز و ہے جس کا ہر چیز پر اثر پڑتا ہے ذرا غور کیا جائے تو یہ بات
سامنے آتی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اسی فیصد تک کم ہو چکی ہے
مگر پاکستان میں کسی بھی طرح سے اسکا فائدہ دس فیصد تک بھی عوام تک نہیں
پہنچ پایا اس میں اب ناہلی کو اگر سامنے رکھا جائے تو ساری بات حکومت کے
کھاتے میں جاتی ہے جن کو عوامی مسائل کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں وہ اپنے آپ
میں اس قدر مگن ہے کہ کسی بھی بحران کی کو پیدا ہونے سے پہلے ختم کرنے کی
شاید پوزیشن میں نہیں بلکہ تمام حکومتی مشینری صرف اور صرف پی ٹی آئی کو
زیر کرنے میں مگن نظر ٓتی ہے ایسے میں قوم حکومت سے کسی خیر کی توقع تو
نہیں کر سکتی مگر ایسے نادیدہ بحرانوں کی توقع ضرور رکھے جو خود پیدا کیے
جاتے ہیں اور بعد ازاں اپنا فائدہ پورا کرنے کے بعد راتوں رات ختم کر دیے
جاتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اب اس بات کو محسوس کرئے کہ اس کو
آئے ہوئے دو سال ہونے کو ہیں اس عرصے میں عوام کو کیا کچھ دیا گیا عوامی
مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ایسے اقدامات اور پالیسیاں بنانے کی سخت ضرورت ہے
جن سے عوامی مشکلات میں کمی ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری گیس،بجلی اور
توانائی کے بحرانوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے کیونکہ یہی وہ وقت ہے جب حکومت کے
کیے گئے کاموں کا کریڈٹ حکومت کے کھاتے میں جا سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں
سابق الیکشن کی طرح اس بار ن لیگ کے ساتھ بھی وہ نہ ہوجائے جو پاکستان
پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا تھا۔ |