پاکستان کو تنہا سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا
(Sardar Attique Ahmed Khan, )
کالم نویسی بذات خودمشکل کام ہے
اور اُس پر طرہ یہ کہ کسی نئی سوچ ،فکر ،نظام یا فلسفے کا متعارف کروانا
کسی بھی دور میں آسان نہیں رہا ۔
بقول علامہ اقبالؒ ـ
’’ آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں ‘‘
جو لوگ اس موضوع پر میرے خیالات سے واقف نہیں اُن کا اِس عنوان سے خوف زدہ
ہونا فطری بات ہے البتہ جو لوگ ماضی میں میرے خیالات سے آگاہ ہیں اُن کے
لیے اطمینان کا یہ پہلو موجود ہے کہ جس بات کی اخباری بیانات، انٹرویوز اور
گفتگو سے پوری وضاحت نہیں ہو سکی تھی اُس کا اہتمام موجود ہے ۔کئی احباب نے
دبے اور کھلے الفاظ میں اس کا اظہار کیا کہ مجھے اس موضوع اور دوسرے
موضوعات پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے تحریر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے
۔ ایک جواں سال دانشور اور شاعر حبیب ملک سے لے کر یونیورسٹی کے ایک ذہین
وفتین اور مطالعے کے شائیق نوجوان حسنات خورشید شیخ تک اسرار کیا گیا کہ اس
موضوع کی کھل کر وضاحت کی جانی چاہیے ۔ دنیا میں کئی قسم کے نظام ہائے
حکومت و سیاست موجود ہیں۔ ہر ایک کے اندر قوت اور کمزوریاں دونوں موجود ہیں
لیکن کوئی بھی نظام جہاں کامیاب ہے اُس کا دارومدار اُس کے چلانے والوں پر
ہے ۔ کئی دفعہ اچھا شکاری کمزور ہتھیار سے بھی بڑا شکار کر لیتا ہے جبکہ
اکثر اوقات نا اہل شکاری بڑے ہتھیار سے بھی چھوٹا شکار کرنے میں کامیاب
نہیں ہوتا ۔ دنیا میں موجود ہر نظام کو اُس ملک و ملت کے حالات اور ضروریات
کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے ۔ صدارتی جمہوریت ، پارلیمانی جمہوریت ،سیکولر
نظام حکومت، بلدیاتی جمہوریت ، سوشلسٹ جمہوریت ، کمیونسٹ نظام حکومت ،
بادشاہت، مطلق العنانیت ، مارشل لاء، سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر شپ ، نیم
مارشل لائی حکومت اور متناسب نمائندگی کانظام اور اسی طرح بعض دیگر نظام
بھی دنیا میں موجود ہیں تو ایسے میں کسی نئے نظام کا جائزہ لیناکسی صورت
بھی کلمہ کفر نہیں ٹھہرایا جاناچاہیے۔جمہوریت کے ساتھ فوج اور ملٹری کا لفط
کئی فیشن زدہ جمہوریت پسندوں کے لیے انتہائی قابل اعتراض ہو سکتا ہے لیکن
اُنہیں کبھی یہ بھی تو غور کرنا چاہیے کہ ہم نے بہت سے ایسے متضادات کو
پہلے سے یکجا بلکہ قابل برداشت کر رکھا ہے ۔مثلاً قیادت اور نا اہلی،
انتخابات اور دھاندلی، جمہوریت کے پردے میں جماعتی اور شخصی آمریت، اتحاد و
یکجہتی کے دعووں کے نیچے تفریق و تقسیم،امن و امان کے مطالبات لیکن بدامنی
اور تشدددیگر کئی ایسے باہم متضاد و متصادم افوال و اقدامات عملاً موجود
ہیں تو ملٹری اور ڈیموکریسی کے قابل عمل اور قابل قبول پہلووں کو اجاگر
کرنے میں مجھے کچھ امر معنی نہیں لگتا۔
بعض ممالک میں ایک نظام کامیاب ہے تو بعض میں دوسرا۔مختلف نظام ہائے حکومت
کی موجودگی بذاتِ خود اس بات کا بڑا ثبوت ہے کہ اس میدان میں اجتہادکا
دروازہ کھلا رکھا جائے اور وقت کے ساتھ دنیا بھر میں نظام حکومت میں
تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں البتہ ہر ملک کی قیادت اپنے ہاں موجود نظام کو ملک
کی سلامتی و بقا، ،دفاع، یکجہتی اور اپنے عوام الناس کی زیادہ سے زیادہ
امکانی خدمت کا ذریعہ بناتی ہے ۔ پاکستان کے حالات کا سرسری جائزہ لینے سے
معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کئی ممالک کے مقابلے میں روز اوّل سے ہی اس ملک کو
زیادہ مشکلات اور سازشوں سے واسطہ رہا ہے حالانکہ ہونا اس کے برعکس چاہیے
تھا اس لیے کہ ہماری آزادی میدان جنگ کے بجائے سہ فریقی مذاکرات اور اتفاق
رائے NEGOTIATED CONSENSUS کا نتیجہ ہے ۔
بدقسمتی سے ہندوستان نے روز اوّل سے اسے دل سے قبول نہیں کیا جس کے نتیجے
میں سازشوں کا جال بچھتا ہی چلا گیا ۔ آزادی ہند کے وقت سے باقی ماندہ
چندکروڑروپے آج بھی ہندوستان کے ذمے واجب الادا ہیں ۔ بات رقم یا اُس کی
مقدار کی نہیں بلکہ ایک خاص سوچ اور فکر کی عکاسی ہے ۔ اسی طرح کی دیگر کئی
باتوں نے ملکر پاکستان کو کئی خطرات سے دوچار کر دیا ہے ۔ خود مسئلہ کشمیر
کے حل میں ہندوستان کی ہٹ دھرمی کے باعث ہونے والی تاخیر نے سارے خطے کو
ایٹمی جنگ کے خطرات سے دوچار کردیاہے۔اس لئے ماضی کے تجربات دہرانے کے
بجائے لازم ہے کہ پاکستان کی ضروریات سے ہم آہنگ نظام وضع کریں۔
سقراط سے کسی نے عالم اور جاہل کے درمیان فرق پوچھا تو اُس نے جواب میں کہا
کہ ’’ جو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کر سکے وہ عالم ہے اور جو اُن کی
موجودگی میں نیا تجربہ کرنا چاہے وہ جاہل ہے‘‘۔ سقراط کا فتویٰ یقینا ہمارے
حق میں نہیں۔
(جاری ہے ) |
|