اٹک میں دہشت گردوں کے خلاف پولیس کی موثر حکمت عملی

تحر یر ۔ ملک ارشد جعفری
ملک بھر میں شروع حالیہ دہشت گردی کی روک تھا م کے لیئے پنجاب پولیس اٹک کا کردار قابل تحسین نظر آرہا ہے جبکہ بدقسمتی سے اس سے پہلے یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ جب تک کوئی بڑا سانحہ رونما نہ ہو جائے پولیس روائتی سست روی کا شکا ر نظر آئی اور بھاری جانی اور مالی نقصان کے بعد سکیورٹی صورت حال کو بہتر بنایا گیا ۔جب سے اٹک میں ڈی پی او اسرار عباسی کی تعیناتی ہوئی انہوں نے شروع دن سے سکیورٹی کے حوالے سے خاطر خواہ انتظامات اُٹھائے لیکن اس کے باوجود گذشتہ کچھ عرصے سے اٹک میں ٹارگٹ کلنگ کے پے درپے واقعات کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس کا عالم چھایا ہو ا تھا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ دہشت گردوں کا تعلق کسی باہر کے علاقے کی بجائے اٹک سے ہی تھا جو کہ ہمارے اندر ہی چُھپ کر مختلف وارداتوں کا ارتکاب کر رہے تھے جس میں پولیس اور حساس اداروں کے ملازمین تک کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا ۔ڈی پی او اسرار عباسی کے لیئے ایک کھلا چیلنج تھاجس کو انہوں نے احسن طریقے سے نبھایا ۔مقامی سکیورٹی ایجنسیوں کو بھر پور طریقے سے فعا ل کیا گیا اور دہشت گردوں کے ایک گروہ کا سراغ لگالیا گیا جو اٹک میں مذہبی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی میں ملوث تھا ۔اٹک پولیس افسران نے بھر پور کاروائی کر کے اٹک میں دہشت گردی کے بڑے منصوبوں کو ناکا م بناتے ہوئے پانچ رکنی گروہ کو گرفتار کر لیا جنہوں نے انکشاف کیا کہ وہ مذہبی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے علاوہ اہم ملکی تنصیبات کو اُڑانے کا بھی ارادہ رکھتے تھے ۔علاوہ ازیں اٹک میں صحافیوں کا ٹارگٹ کیا جا نا تھا جن میں راقم الحروف کا نام بھی سر فہرست تھا ۔پچھلے کئی سالوں سے ہم اپنا قلمی جہاد سمجھتے ہوئے میڈیا کے ذریعے یہ بات منظر عام پر لا رہے تھے کہ اٹک میں بعض مدرسے فرقہ وارانہ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف فوری کاروائی کی جائے مگر بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے ہماری ان باتوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا تا رہا کیونکہ بعض مذہبی اختلافات و انتشار پیدا کرنے والے بااثر عناصر کی مقامی دہشت گردوں کی پشت پناہی کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا ۔قابل تحسین ہیں ڈی پی او اٹک اسرار عباسی جنہوں نے تمام تر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے دباؤ کے باوجود نہایت دیدہ دلیری ،بہادری اور فرض شناسی کے جذبے کے تحت مقامی دہشت گردوں کے گروہ پر ہاتھ ڈالا اور اٹک کو بڑی تباہی سے بچا لیا اس میں تما م مقامی پولیس افسران کی کارکردگی کو نہ سراہا جانا بھی زیادتی ہوگی جنہوں نے دن رات ایک کر کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا ۔

میر ی تو وزیرا علیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ اٹک پولیس افسران کی اعلیٰ کارکردگی پر ڈی پی او اسرار عباسی سمیت دیگر تمام پولیس افسران کو خصوصی ایوارڈاور نقد انعامات سے نوازیں جنہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیئے تما م خطرات کو پسِ پشت ڈال کر جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا ۔کیونکہ اس سے پہلے سابق ڈی پی او اٹک ہلا ل احمد خان شہید کو اٹک میں سنگین نوعیت کی دھمکیاں دی جاتی رہی اور بالآخر ان کو سوات میں دہشت گردوں نے شہید کر دیا ۔

اٹک میں مختلف مقامات پر ایک مخصوص مسلک کے دینی مدارس ہیں ان کو بھی خصوصی طور پر چیک کرنے کی ضرورت ہے یہ بات درست ہے کہ تما م مدارس دہشت گردی کے واقعات میں ملوث نہیں لیکن ایسے مدارس جو دیگر مدارس کی بد نامی کا باعث بن رہے ہیں ان کو خود احتسابی نظام کے ذریعے مذہبی حلقے خود منظر عام پر لائیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں نہ کہ پولیس مدارس کو خود چیک کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس کو ایک سیاسی اور مذہبی مسئلہ بنا لیا جائے ۔دہشت گردی کو کسی ایک فرقہ سے جوڑنا بھی نامناسب ہوگا تاہم ضروری ہے کہ ایسے علماء اورفقہاء اور خطیبوں پر نظر رکھی جائے جو ایک دوسرے کے مسلک پر کیچڑ اُچھالنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور اختلافی مسائل کو ہو ا دے کر وہ قوت تقریر و تحریر کو جلا بخشتے ہیں ایسے علماء کا تعلق چاہے کسی بھی مکاتب فکر سے ہو ان کو مانیٹرنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

اٹک میں مضاربہ اسکینڈل میں ملوث بعض مفتی اور امام مسجد صاحبان پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے مضاربہ (شرعی کاروبار) کے نام پر سادہ لوح افراد سے اربوں روپے ہتھیا لیے تھے اور یہ پیسہ کہا ں گیا ابھی تک اس کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ۔بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ پیسہ دہشت گر د تنظیموں کی آبیاری میں خرچ ہوتا رہا ہے اور تما م مفتی صاحبان کا تعلق بھی ایک ہی مسلک سے بتایا جاتا ہے ان میں سے کچھ گرفتا ر بھی ہو چکے ہیں تاہم اٹک مضاربہ اسکینڈل کا کوئی کردار ابھی تک گرفتار نہیں ہوا یہ کام ایف آئی اے کا ہے کہ وہ اس سلسلے میں فوری کاروائی کرے اور اربوں روپے کہا ں گئے اس کی مکمل چھان بین کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان مفتی صاحبان کا پاکستان میں کوئی بظاہر کاروبار نظر نہیں آتا ۔

مضاربہ اسکینڈل میں سینکڑوں متاثرین بھی ابھی تک در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔اٹک جیسے حساس علاقے میں بیس سے تیس ہزار غیر ملکی افغان مہاجرین کی موجودگی ہمارے ارباب اختیار کے لیئے ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔ذرائع کے مطابق بیس ہزار کے قریب افغان مہاجرین کی رجسٹریشن نادرہ کے پاس موجود ہے تاہم دس ہزار کے قریب افغان مہاجرین غیر قانونی طریقے سے اٹک میں مقیم ہیں جن کا کوئی ریکارڈ کسی کے پاس نہیں ایسے افراد آزادانہ طور پر افغانستان اور پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں جو کہ ایک بڑا سکیورٹی رِسک ہے افغان مہاجرین کو فوری طور پر اٹک کی شہری اور دیہاتی آبادیوں سے کیمپوں میں منتقل کیا جانا اشد ضروری ہے تاکہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو محفوظ پاکستان دے سکیں۔جرائم پیشہ کرایے کے دہشت گردوں کی دھمکیاں ہمیں حق گوئی سے نہ پہلے روک سکی ہیں نہ اب روک سکیں گی ۔زندگی ایک فانی شے ہے انسان کے اختیار میں نہیں اور پتہ نہیں کہ سانس کے آنے جانے کا یہ سلسلہ کب منقطع ہو جائے جب آئے گی تو انسان کو اس سے کوئی بھی نہیں بچا سکے گا موت تو زندگی کے تعاقب میں ہے گویا موت نا گزیر ہے پھر کیوں ملک دشمن قوتوں کے خوف سے حق کا دامن چھوڑ دیا جائے موت وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کے راستے میں آئے وہ بہترین ہے وہ شہادت ہے ۔شہادت کا مطلب ہے گواہی دینا اور مسلمان جان دے کر یہ گواہی دیتا ہے کہ محبوب حقیقی کی رضاکے لیئے اس کا سب کچھ حاضر ہے ۔
میرے لیے ہے فقط زورحیدری ؓ کافی
تیرے نصیب ا فلاطون کی تیزیِ ادراک
Iqbal Zarqash
About the Author: Iqbal Zarqash Read More Articles by Iqbal Zarqash: 69 Articles with 61595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.