ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ.... کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان!

وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی ”کپتانی“ میں 2013ءسے کراچی میں ٹارگٹ کلرز اوردیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے، جس میں حکومت کے دعوے کے مطابق 12 ہزار دہشتگردوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، لیکن اس کے باوجود کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ کراچی کا کوئی بھی باسی دہشتگردوں کی کاررائیوں سے محفوظ نہیں ہے۔ دہشتگرد جسے، جب اور جہاں چاہیں، ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر کردیا ہے۔ پولیس نے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے۔ جبکہ جمعہ کے روز گورنر ہاﺅس میں اجلاس کے دوران وزیر اعظم میاں نوازشریف نے کراچی آپریشن کے ”کپتان“ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو کراچی میں حالات کی صورتحال پر شاباش دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے کا کریڈٹ وزیراعلیٰ سندھ کو جاتا ہے۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ نے وزیراعظم نواز شریف کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عملدرآمد کے لیے حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے، اس حوالے سے 4 کمیٹیاں بنا کرعملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ڈی جی رینجرز کا کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز آپریشن جاری ہے۔ شہریوں، تاجروں، صنعتکاروں اور ڈاکٹروں کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی۔ دوسری جانب مذہبی و سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ میں کوئی کمی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ مذہبی و سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں پر مسلسل احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام میں ناکامی پر بعض سیاسی جماعتوں نے آپریشن کے ”کپتان“ کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اتوار کے روز بھی کراچی میں اہلسنّت و الجماعت کے 3کارکنوں سمیت 4افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ہیں۔ اہلسنت و الجماعت کے رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ کراچی میں اہلسنّت پر زمین تنگ کی گئی ہے، ملزمان گرفتار نہ ہوئے تو شدید احتجاج کریں گے۔ کراچی میں فوجی آپریشن کر کے شہر کو اسلحہ سے پاک کیا جائے۔ کراچی میں بدامنی کی تازہ لہر پر گہری تشویش ہے، وقت آگیا ہے کہ مذہبی اور غیر مذہبی کی تفریق چھوڑ کر پاکستان میں دہشت گردی کے ناسور کو کچل دیا جائے، کسی بھی صورت دہشت گردی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
کراچی میں ایک سال سے زاید عرصے سے دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن کے باوجود دہشتگردی آزادی کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں سال کے پہلے مہینے جنوری میں دہشتگردوں نے انتہائی بے دردی کے ساتھ 119 افرادکوموت کے گھاٹ اتاردیا ہے، جن میںپولیس افسران واہلکار ، رینجرز جوان ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عہدیدار و کارکنان کے علاوہ ڈاکٹرز ، وکیل اور شہری شامل ہیں۔ شہر میں پولیس اور رینجرز کے ٹارگٹڈ آپریشن ، محاصروں اور چھاپہ مار کارروائیوں کے باوجود ٹارگٹ کلنگ کاسلسلہ بدستورجاری ہے۔ پولیس ورینجرزکی جانب سے ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں اورجرائم پیشہ افراد کی گرفتاریوں کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پردعوے کیے جاتے رہے، تاہم شہرمیں قتل وغارت گری کا نہ رکنے والا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یکم جنوری کو دو افراد کوفائرنگ کا نشانہ بناکر ہمیشہ کی نیند سلادیا گیا۔ 2 جنوری کو پولیس اہلکار سمیت6 افراد کوموت کے گھاٹ اتاراگیا۔ 3 جنوری کو 3 اور4 جنوری کو پولیس اہلکار سمیت5 افرادکو دہشتگردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ 5 جنوری کو پولیس اہلکار سمیت 5 افراد جاں بحق ہوئے۔ 6 جنوری کو دہشت گردوں کی فائرنگ سے رینجرز کے 2 اہلکاروں سمیت 9 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ 7 جنوری کو 3 پولیس اہلکاروں سمیت7 افراد کو ابدی نیند سلادیا گیا۔ 8 جنوری کو 3 پولیس اہلکاروں سمیت6 افراد سے جینے کا حق چھین لیاگیا۔ 9 جنوری کو 3 افراد ، 10 جنوری کو 7 افراد زندگی سے محروم کردیے گئے۔ 11 جنوری کو فائرنگ کے واقعات میں 2 افراد مارے گئے۔ 12 جنوری کو پولیس اہلکاروں سمیت 5 افرادقتل کردیے گئے۔ 13 جنوری کو 3 افراد سے زندگی چھین لی گئی۔ 14جنوری کوپولیس اہلکار سمیت 2 افراد کو مار دیا گیا۔ 15 جنوری کو 3 اور 16جنوری کو 4 افراددہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 17 جنوری کو 2 پولیس اہلکاروں سمیت 3 افرادزندگی کی بازی ہارگئے۔ 18 جنوری کو 2 پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔ 19جنوری کو2 افراد دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ 20 جنوری کو 3 افراد، جبکہ 21 جنوری کو 4 افرادسے جینے کاحق چھین لیاگیا۔ 22 جنوری کو فائرنگ کے واقعات میں 4 افراد قتل ہوئے۔ 23 جنوری کو 3 شہری جان کی بازی ہار گئے۔ 24 جنوری کوفائرنگ و تشدد کے واقعات میں 3 افرادابدی نیند سلاد دیے گئے ۔ 25 جنوری کو3 افراد دہشتگردی کا نشانہ بنے۔ 26 جنوری کو پولیس اہلکار سمیت 4 افراد دہشتگردوں کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 27 جنوری کو3 اور 28 جنوری کو3 افراد درندگی کانشانہ بنے۔ 29 جنوری کو فائرنگ سے ایک شہری جاں بحق ہوا۔ 30 جنوری کو وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی شہر میں آمد کے موقع پر شہر میں پولیس اور رینجرز انتہائی متحرک رہی اور اس دن ٹارگٹ کلنگ کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، جبکہ اگلے ہی روز31 جنوری کو فائرنگ کے واقعات میں دہشتگردوں نے 2 افرادکوموت کے گھاٹ اتاردیا۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے افراد کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے تھا، جبکہ مذہبی رہنماﺅں کے مطابق مذہبی طبقے کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے، اس لیے مذہبی جماعتوں کے کارکنان کو فوری تحفظ فراہم کیا جائے۔

کراچی میں سیاسی مخالفین اور مختلف جماعتوں کے کارکنوں کی ہلاکتوں کے بعد پیشہ ور افراد خاص طور پہ ڈاکٹروں، وکیلوں، پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہو اہے، جس سے تنگ آکر شہر کے بیشتر علاقوں میں کئی کئی عشروں سے اپنے کلینک چلانے والے کئی ڈاکٹرز گھر بیٹھ گئے ہیں یا پھر انہوں نے بیرون ملک سکونت اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ سال کے پہلے ماہ جنوری میں ہی پانچ ڈاکٹروں کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کردیا گیا ہے، جس کے باعث ڈاکٹروں میں خوف پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈیز بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بعد کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ٹارگٹ کلنگ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف شہر بھر کے ڈاکٹروں نے احتجاج کرتے ہوئے تمام سرکاری اور نجی ہسپتالوں کی او پی ڈیز میں کام بند کردیا ہے۔ کراچی میں ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن، سندھ ڈاکٹر ویلفیئر ایسوسی ایشن، پرائیویٹ ہاسپٹل اینڈ کلینکس ایسوسی ایشن اور پاکستان میڈیکل ایڈ سمیت ڈاکٹروں کی مختلف تنظیموں کی کال پر سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے او پی ڈیز میں کام مکمل طور پر بند ہے، تاہم ہسپتالوں کی ایمرجنسیز اور ان ڈور ڈیپارٹمنٹ میں ڈاکٹرز اور طبی عملہ بازوو ¿ں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ادریس ایدھی کا کہنا ہے کہ کراچی میں گزشتہ 2 دہائیوں سے ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، جس میں اب تک 200 کے قریب ڈاکٹر قتل کیے جا چکے ہیں۔ 2014 میں 17 ڈاکٹرز کو قتل کیا گیا، جبکہ رواں برس اب تک 5 مسیحاؤں کو زندگی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹروں کی تنظیموں نے ہر مقتدر شخصیت اور ادارے سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن کسی نے بھی اس معاملے پر کان نہیں دھرے، جس کی وجہ سے وہ احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں اور اگر اب بھی ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ جبکہ دوسری جانب شہر میں ڈاکٹروںکی ٹارگٹ کلنگ کی وجوہات سے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ ”بھتہ خوری اس ٹارگٹ کلنگ کی اہم اور بنیادی وجہ ہے، ڈاکٹرز بھتہ خوروں کی نظر میں آسان ٹارگٹ ہیں۔ ڈاکٹرز زیادہ آمدنی والے افراد میں شمار ہوتے ہیں، جبکہ کلینک چلانے کے لیے زیادہ سیکورٹی رکھنے کے بھی قائل نہیں ہوتے، اس لیے بھتہ خور انہیں ڈرا دھماکا کر پیسہ وصول کرتے ہیں اور نہ دینے کی صورت میں انہیں نشانہ بنادیا جاتا ہے، تاکہ دوسرے انکار سے ڈریں۔ شہر میں بدامنی، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی و مذہبی رہنماﺅں نے کہا ہے کہ حکومت امن و امان کے قیام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوگئی ہے۔ کراچی میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ کراچی میں جاری آپریشن پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت اور قانوں نافذکرنے والے ادارے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی و اضطراب اور عدم تحفظ کے احساس کو دور کریں۔ شہر میں پولیس اور رینجرز کی موجودگی اور ان اداروں پر بھاری بجٹ خرچ ہونے کے باوجود شہر میں دہشت گرد، قاتل، چور، ٹارگٹ کلرز اور لٹیرے اپنی کارروائیاں آزادانہ طور پر کر رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں حکومت اور سیکورٹی اداروں کا کوئی ڈر اور خوف نہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 642006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.