سال 2014 میں شائع ہونے والی اہم کتب

دنیا بھر میں ہر سال بے شمار کتابیں منظر عام پر آتی ہیں ، لیکن جلد ہی پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے موضوعات معاشرتی اور سماجی ضرورتوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے ۔لیکن بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو منظر عام پر آتے ہی اپنے قارئین میں پذیرائی حاصل کر لیتی ہیں اس لئے کہ ان میں جن موضوعات کااحاطہ کیا گیا ہوتا ہے ان سے قارئین ہم آہنگ ہوتے ہیں اور ان میں اپنے سوالات کے جوابات پا رہے ہوتے ہیں۔

2014ء میں چھپنے والی اُردوکتابوں میں اپنے موضوعات کے اعتبار سے چند ایسی کتابیں نظر سے گزریں جن کا تعارف کرایا جانا لازم ہے تا کہ قارئین ان سے اپنے ذوق اور جستجو کی تشفی کر سکیں۔

ریزہ ٔ الماس ۔۔ افادات ِ علمیہ ( مفتی محمدسعید خان)
مولانا محمدعلی مانگیری نے ندوۃ العلماء لکھنؤ قائم کیا جس نے برصغیر کی علمی تہذیب میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ندوۃ العلماء سے وابستہ شخصیات میں علامہ شبلی نعمانیؒ ، سیدسلیمان ندویؒ اور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو پورے برصیغیر میں ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ندوۃ العلماء کے تصور سے جنم لینے والا ایک ادارہ ندوۃ المصنفین کے نام سے قائم کیا گیا ہے جو الندوۃ ایجوکیشنل ٹرسٹ اسلام آباد کے زیرِ اہتمام اسلام آباد سے مری کی جانب جاتے ہوئے چھتر کے مقام پر واقع ہے۔ اسی ندوۃ المصنفین کے زیرِاہتمام ایک مکتبہ بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہ ندوۃ اور اس سے وابستہ دیگر ادارے مفتی محمدسعید خان کے تصور کا نتیجہ ہیں جو مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کے خلیفۂ مجاز ہیں۔

ریزۂ الماس جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، مفتی محمدسعید خان نے زندگی بھر علم و حکمت کے بکھرے ریزے جمع کیے اور انہیں ریزہ الماس کا نام دیا۔ اس میں انہوں نے عقیدہ ، علم ، اصلاح، اخلاق اور ادب پر 35سالہ مطالعے ، تجزیے اور تجربے کا نچوڑ پیش کیا ہے۔
 

image

612صفحات پر مشتمل یہ کتاب مجموعی طور پر 12ابواب پر مشتمل ہے۔

کتاب کا آغاز رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ایک نعت سے ہوتا ہے جس کا کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں۔
اب وِرد ہے ہردم صلِّ علیٰ
اب آنکھیں پرنم صلِّ علیٰ
اے نیّرِ تاباں صلِّ علیٰ
ہر درد کے درماں صلِّ علیٰ

کتاب کا آغاز عقائد کے ضمن میں اصولی گفتگو سے ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں: دو باتوں میں بہت احتیاط درکار ہے۔۔۔ ایک تواپنی طرف سے کوئی جھوٹ گھڑ کر اﷲ تعالیٰ کے ذمے لگا دینا۔مثلاً اپنے مفاد کے لیے دین کو استعمال کرنا۔۔۔ اور دوسری بات ۔۔۔ یہ ہے کہ اپنی زبان سے کوئی بات کہے اور پھر پوری نہ کرے۔

اس باب میں مفتی محمدسعید خان نے شفاعتِ کبریٰ ، حضرتِ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے’ امّی‘ہونے کا مطلب ، روضۂ مبارک پر دعا کی درخواست اور توحید ِ الہٰی کے چار مراتب ایسے موضوعات زیرِ بحث لائے ہیں۔

تفیسرالقرآن الکریم کے باب میں انہوں نے قرآن کے مختلف مقامات و مطالب پر اظہارِخیال کیا ہے۔ ان میں علامہ زمحشری کی تفسیر’’ کشاف‘‘ سے متعلق مسائل ،کل یوم ھو فی شان کی تفسیرمولانا روم ؒ کی زبانی ، حضرت شاہ ولی اﷲ کی کتاب ’’تاویل الاحادیث‘‘ سے مفسرین کی بے اعتنائی، واقعہ معراج میں حضرت نبیء پاک صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو رویت باری تعالیٰ کا شرف ملنا، علم میں اضافے کی دعا ہر حالت میں لازم شامل ہیں۔

حدیث مبارکہ کے ضمن میں انہوں نے اہل مدینہ کو ستانے والے کے لیے بددعا اور اس کی فوری قبولیت ، دوسروں کو کھانا کھلانے کی فضیلت ، موت کی آزمائش اور ابن عربی کی تشریح، سادات کرام کے ساتھ نیکی کا صلہ، حضرت عائشہ ؓ اور ذوق ِ شعر و شاعری اور فتح الباری اور علم حدیث میں فقہ کا امتزاج اور مؤرخین کے تحریر کردہ واقعات ضروری نہیں کہ سچائی پر ہی مبنی ہوں کے موضوعات پر اظہار ِ خیال کیا ہے۔

سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے ضمن میں انہوں نے حضرت رسالت مآب ؐ سے پہلے ’’محمد‘‘ نام کے چار افراد ، شاہِ حبشہ سے متعلق عام تحقیق ، گھروں میں سلام کی اہمیت ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا تنہائی میں اﷲ تعالیٰ کو یاد کرنے کا اہتمام، ذرائع معاش کی تحقیق وغیرہ پر اظہارِ خیال کیا ہے۔

صحابۂ کرام ؓ کے بارے میں خصوصی باب میں مقام ِ ابراہیم علیہ السلام اور اس کی تنصیب، خلفائے اربعہ کے بعد امت کے سب سے بڑے فقیہ ، سیدنا علی کرم الہ وجہہ کے’’ مولیٰ‘‘ ہونے کی متواتر احادیث اور صحابۂ کرام میں سے مفتیان کرام کا تذکرہ کیا ہے۔

فقہ کے ضمن میں مختلف موضوعات کو زیرِ بحث لائے ہیں جن میں قدیم وجدید مسائل شامل ہیں۔ ایک خاص بات جو انہوں نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ بدعت جب اہل بدعت کا شعار نہ رہے تو اسے اختیار کرنے میں قباحت نہیں ہے۔

تصوف کا باب اس کتاب کا سب سے اہم باب شمار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں انہوں نے اس نازک موضوع پر نہایت تفصیل کے ساتھ بات کی ہے۔ ان میں ابن عربی ؒ ، حضرت خواجہ صابر کلیری ، حضرت امام غزالیؒ ، واحدۃ الوجود ، مشائخ چشت کا شیوہ اور دیگر اہم موضوعات شامل ہیں۔

تاریخ کے باب میں وہ واقعہ حرہ اور اہل بیت نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی دو راندیشی، خارجیت اور ناصبیت،شیخ فریدالدین شکرگنج کا فیض روحانی اور حضرت نظام الدین اولیاءؒ ، قرامطہ کی تاریخ، شیعہ سنی اتحادکے لیے شرائط اور خانقاہوں میں مجاوررہ گئے یا گور کن ایسے موضوعات کو زیرِ بحث لائے ہیں۔

شخصیات کے ضمن میں مفتی محمد سعید خان کے ہاں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ انہوں نے متعدد شخصیات پر اظہار خیال کیا ہے۔ان میں وہ صحابہ کرامؓ جو یزید کے دور حکومت میں باعثِ تشویش بن سکتے تھے؟، حجاج بن یوسف ، ملّا صدرا اور ان کی کتابیں، علامہ سید سلیمان ندوی ، ابن حزم ظاہری اور ابن عربی، خواجہ الطاف حسین حالی ، میر انیس ، مولانا آزاداور جوش ملیح آبادی، جواہرلال نہرو، مہیند سنگھ، اورنگزیب عالمگیر، داغ دہلوی ، علامہ اقبال اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔

ادب کے باب میں مفتی محمدسعید خان نے اپنے وسیع مطالعے کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ اس باب میں انہوں نے جن شعراء اور ادباء کے بارے میں لکھا ہے ان میں : مولانا تمنا عمادی، خواجہ میر درد، مرزا غالب، میر بہادر علی حسینی، خواجہ حیدر علی آتش، انشاء اﷲ خان انشاء، میر تقی میر اور دیگر شامل ہیں۔

اوراد و وظائف کے لیے مفتی محمدسعید خان نے ایک باب مختص کیا ہے ۔ اس میں انہوں نے حضرت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم، سیدنا ابوبکر ؓ ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ اور دیگر شخصیات کے اوراد و وظائف کا ذکر کیا ہے۔ مفتی محمدسعید خان نے خصوصی طور پر سید الاستغفار کی تلقین بھی کی ہے۔
کتاب کا آخری باب متفرقات کے عنوان سے ہے۔اس میں انہوں نے معاصر اور قدیم مسائل کو زیرِ بحث لایا ہے۔ باب کے آغاز میں انہوں نے بیسیویں صدی کا سب سے بڑا تحفہ بھوک کو قرار دیا ہے۔ دیگر موضوعات میں: استعماری راج، قریش کی فصاحت و بلاغت، ابن خلدون اور ڈاکٹر طہ ٰ حسین ، قصیدہ درمدح حضرت امام زین العابدین ؓ ، عربوں کے معاہدے ، گاندھی جی، چراغ حسن حسرت، شورش کاشمیری اور دیگرموضوعات شامل ہیں۔کتاب کے آخر میں انہوں نے فارسی اور اردو کے بعض منتخب اشعار بھی نقل کیے ہیں۔ کتاب بھرپور اشاریے سے متصف ہے۔

کتاب بہترین سرورق ، پس ورق اور بہترین کتاب و طباعت سے مزین ہے۔ اس کی قیمت 1500/-روپے مقرر کی گئی ہے۔

برصغیر میں مطالعۂ قرآن (علوم القرآن، تفاسیر، مفسرین) مرتّبہ : ڈاکٹرصاحبزادہ ساجدالرحمن
قرآن مجید اپنے تلاوت کرنے والوں اور ماننے والوں کے سامنے بہت سے مطالبات اور تقاضے پیش کرتا ہ ے: اولاً یہ کہ اس قرآن مجید کو وحی حق پر مشتمل اور منزل من اﷲ تسلیم کیا جائے، اس پر شرح صدر کے ساتھ ایمان لایا جائے، اس کے متن میں جن صفات المومنین کو بیان کیا گیا ہے ان پر صدق دل سے عمل کیا جائے اور انہی کی روشنی میں سیرت سازی کی جائے، اس لیے اس کے ادب و احترام کے بہت سے لوازم بیان کیے گئے ہیں، آج انسانیت کے پاس یہ واحد صحیفۂ آسمانی ہے جس سے منشائے الہٰی معلوم کیا جا سکتا ہے۔
 

image

ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے1999ء میں برصغیر میں مطالعۂ قرآن کے عنوان سے اپنے تحقیقی مجلے ’’فکرونظر‘‘ کا ایک خصوصی شمارہ شائع کیا تھاجسے ڈاکٹرصاحبزادہ ساجد الرحمان نے مرتب کیا تھا۔ 2014ء میں ادارہ ٔ تحقیقاتِ اسلامی نے اسی خصوصی شمارے کو نئی آب و تاب کے ساتھ ایک بار پھر کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ اس میں مجموعی طور پر تین ابواب ہیں ۔ پہلا باب : علو م القرآن ، دوسرا باب: اردو تفاسیر اور مفسرین اور تیسرا باب: مخطوطات کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ علوم القرآن کے عنوان سے پہلے باب میں قرآن فہمی کے اصول (علمی کام کا جائزہ) از ڈاکٹر عبدالرشید رحمت، برصغیر میں مطالعہ قران : تراجم و تفاسیر، از ڈاکٹراعجاز فاروق اکرم، برصغیر کے حوالے سے خدمات لغات القرآن کا تحقیقی جائزہ ، از ڈاکٹر فضل احمد، برصغیرمیں مطالعہ ٔ قرآن ۔بحوالہ شیعیت، از سید حسین عارف نقوی، اعجاز القرآن ، از شگفتہ خانم اور مضامین ِ قران کے اشارے ، از عبدالعزیز عرفی۔
دوسرے باب میں جو اُردو تفاسیر اور مفسرین کے عنوان سے قائم کیا گیا ہے میں بیان القرآن کے جائزے ، از پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی اور ڈاکٹرسیدابوالخیر کشفی، التفسیرات الاحمدیہ از ڈاکٹر محمد طفیل، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ۔ بحیثیت مفسر ، از ڈاکٹرخالدعلوی، تفسیر ثنائی اور ردِّ مذاہب ِ باطلہ، از ڈاکٹرتاج الدین الازہری، تفسیر ضیا ء القرآن کا خصوصی مطالعہ ، از ڈاکٹرافتخارالحسن میاں، برصغیر کی چند اہم تفاسیر، از خورشید احمد ندیم اور بلوچستان میں قرآن مجید کے تراجم و تفاسیر از پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر شامل ہیں۔

اس کتاب کے تیسرے باب میں جو مخطوطات کے لیے مختص کیا گیا ہے میں ڈاکٹراحمد خان نے مبہمات القرآن میں ایک اہم خطی کتاب کا تعارف کرایا ہے جب کہ اسی باب میں علوم القرآن پر چند نادر فارسی؍ عربی مخطوطات کا تعارف ، از ڈاکٹرمحمد شریف سیالوی شامل ہے جو انہوں نے مسعود جھنڈیل اسلامیہ لائبریری میلسی کے دورے کے بعد مرتب کیا۔ کتاب خوبصورت کتابت اور تزئین سے آراستہ ہے۔ یہ کتاب 436صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت500روپے ہے اور یہ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی فیصل مسجد سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

بینک کا انٹرسٹ ۔منافع یا ربا؟ (محمدانور عباسی)
یہ کتاب محمد انور عباسی نے تالیف کی ہے ۔ کتاب سے پہلے مؤلف کا تعارف:
محمد انور عباسی ، 1940ء میں ضلع باغ ، آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے ، میٹرک کے بعد حصول تعلیم کے لئے کراچی چلے گئے۔ کراچی یونیورسٹی سے بی کام، ایم اے (معاشیات) اور ایم اے (اسلامیات) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ عرصہ دراز تک سعودی عرب میں ایک غیر ملکی بینک (ABN Amro)سے بیس سال تک بطور چیف اکاؤنٹنٹ وابستہ رہے۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی ؒکی کتب کا اشاریہ شامل ہے۔
 

image

زیر نظر کتاب ان کے زندگی بھر کے مطالعے کا نچوڑ ہے اس میں انہوں نے بینک کے سود کے بارے میں کھل کر بات کی ہے ۔ عموماً بینک کے سود کے بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں ۔ بہت سے لوگ اسے مطلقاً حرام سمجھتے ہیں اور کئی لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ مطلقاً حرام سمجھنے والے قرآن و حدیث کی نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا خیال کرتے ہیں اور جو لوگ جواز کے قائل ہیں وہ معاصر معاشی تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔

محمد انور عباسی نے کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ باب اول رویہ صارف اور ارتقاء زر کے بارے میں ہے، باب دوم سرمایہ داری اور سوشلزم ، باب سوم فلسفہ حیات کے بنیادی تصورات ، باب چہارم معاشرہ اور معیشت ،باب پنجم اسلامی بینکنگ جبکہ باب ششم سود اور حقیقت ربا کے بارے میں ہے۔ یہ ابواب مختلف ذیلی فصول میں تقسیم کیے گئے ہیں جن میں پورا معاشی نظام زیر بحث لایا گیا ہے۔

کتاب پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ محمد انور عباسی بینک کے سود کی ممانعت کے قائل نہیں رہے اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
ـ’’ میرے فہم کے مطابق رِ با کا اطلاق بینک کے سود پر نہیں ہو سکتا۔ قرآن نے سورہ البقرہ کی آیات ۲۶۱ تا ۲۸۰ میں صراحت کے ساتھ ربا کی حرمت کا اعلان فرمایا۔ ان آیات مبارکہ میں ربا کی تعریف بھی ہے اور اس کو مٹانے کی خدائی سکیم کی وضاحت بھی۔ قرآن نے صاف صاف الفاظ میں حکم دیا کہ محتاج و غریب اور بے کس و بے سہارا بالخصوص ایسے سفید پوش افراد، جو لپٹ لپٹ کر تو پیچھے نہیں پڑتے ، تا ہم ان کے چہرے مہرے یہ ضرور بتا دیتے ہیں کہ ان کے پاس بمشکل ہی دو وقت کی روٹی میسر ہو گی، کو صدقات دو نہ کہ قرض دے کر اضافے پر اضافہ سمیٹتے جاؤ۔ میرا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن کے سیاق و سباق نے یہاں شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہنے دی کہ کس قسم کے قرض پر اضافے کو رِبا قرار دیا گیا ہے۔ میری تعریف کے مطابق ربا اس بڑھوتری ، اضافے یا زیادتی کا نام ہے جو مفلس، بے کس و بے سہارا افراد کو قرض دے کر اس قرض پر حاصل کی جائے۔ بینک کے سود پر چونکہ اس کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا ، اس لیے یہ رِبا کے مفہوم میں داخل نہیں ہے‘‘ (صفحہ 321 )

کتاب پر ملک کے ممتاز ماہرین علم و دانش و معاشیات نے بھی اظہار خیال کیا ہے ان میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے سابق قائم مقام صدر ڈاکٹر ممتاز احمد ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ، ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن ، مذہبی اسکالر اور مولانا زاہد الراشدی کے صاحبزادے محمد عمار خان ناصر ، امیر جماعتِ اسلامی ، آزادجموں و کشمیر عبد الرشید ترابی اور ممتاز مصنف و دانشور بیرسٹر ظفر اﷲ خان شامل ہیں۔ محمد انور عباسی نے مجموعی طور پر 78 اردو اور انگریزی کتب کو زیر بحث لایا ہے۔یہ بات خوش آئندہے کہ انہوں نے ہر باب کے آخر میں حوالہ جات کا بھرپور التزام کیا ہے۔ یہ کتاب 330 صفحات پر مشتمل ہے اور بہترین کتابت و طباعت اور خوبصورت سر ورق کے ساتھ ایمل مطبوعات ، اسلام آباد نے شائع کی ہے جس کی قیمت 750/- روپے ہے ۔

سچ کا سفر (صدرالدین ہاشوانی)
جناب صدر الدین ہاشوانی کی پہلی کتاب (سچ کا سفر) کے مندرجات نے مجبور کر دیا کہ اس پر کچھ لکھا جائے۔ لیکن اس بات کا خوف ہے کہ ہاشوانی صاحب ایک بڑے سرمایہ دار ہیں، مبادا کہ میری تحریر کو فرمائشی سمجھ لیا جائے۔ دراصل ہاشوانی صاحب نے اپنی کتاب میں اپنی زندکی کے جو نشیب و فراز دبیان کیے ہیں اور جس طرح کہ مسائل سے پر داستان بیان کی ہے اور جس حوصلے اور ہمت سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنی دنیا آپ تعمیر کی اس میں پوری پاکستانی قوم خصوصاً اس کی نوجوان نسل کے لیے ایک راہِ عمل موجود ہے۔
 

image

بادی ٔ النظر میں یہ کہا جائے گا کہ صدرالدین ہاشوانی سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ۔ یہ ایک مجموعی تاثر ہو سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ وہ ایک خاص مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شاید اسی مکتب فکر کے لوگوں نے انہیں اتنے بلند مقام تک پہنچا دیا۔ ایسا بھی نہیں ہے۔ لگتا یوں ہے کہ صدرالدین ہاشوانی نے کہیں بچپن میں ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر‘‘ قبیل کی کوئی چیز پڑھ لی تھی اور اسے تاحال نہ صرف اپنائے ہوئے ہیں بلکہ اس پر مکمل طور پر عمل پیرا بھی ہیں۔

صدرالدین ہاشوانی کو ان کے اپنوں اور غیروں کی مخالفت کا بلکہ جانی دشمنی تک کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مراحل ایسے آئے کہ ان کے لوگ ان کی جان کے درپے ہو گئے۔ ان کے اہل خانہ کو اغوا کرنے اور تاوان وصول کرنے تک کی سازشیں کی گئیں۔ لیکن صدرالدین ہاشوانی نے ہر مرحلے پر بلند ہمتی اور عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ کتاب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ توکل علی اﷲ کے نہایت اعلیٰ منصب پر فائز رہے ہیں ۔

صدرالدین ہاشوانی کی یہ کتاب نئی نسل کے لیے اس لیے بھی ایک رہنما کتاب قرار پائے گی کہ اس میں زندگی گزارنے کے اصول بتائے گئے ہیں۔ جن میں سب سے اہم اصول یہ ہے کہ نوجوانوں کو کبھی دوسروں کا دست نگر نہیں بننا چاہیئے۔ میں تو صدرالدین ہاشوانی کی کتاب پڑھ کر یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ وہ نوجوان جو کچھ نہیں کرتے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہتے ہیں انہیں صدرالدین ہاشوانی کو اپنا مرشد مان لینا چاہیے اور ان کی کتاب سے استفادہ کرنا چاہیے۔

اس کتاب میں ملک کے بعض حکمرانوں کے چہروں پر سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ وہ حکمران جو قوم کی امانتوں کے امین ہوتے ہیں انہوں نے صدرالدین ہاشوانی سے نہ صرف ان کی دولت لوٹنا چاہی بلکہ بے شرمی کی آخری حد تک جاتے ہوئے ان کے اہلِ خانہ کو بھی ہتک آمیز سلوک سے دوچار کیا۔ صدرالدین ہاشوانی کے خاندان کے مظلوم ترین افراد میں ان کی معمر والدہ بھی شامل تھیں جنہیں دھکے دیئے گئے اور اپنے گھر میں بند رکھا گیا۔ صدرالدین ہاشوانی کا اپنی والدہ سے محبت و عقیدت کا عالم یہ تھا کہ ازدواجی زندگی کے آغاز پر والدہ کی خواہش کو اپنی محبت پر ترجیح دی۔ صدرالدین ہاشوانی کی زندگی میں ایک مرحلہ وہ آیا کہ جب انہوں نے اپنی اہلیہ کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا لیکن کتاب میں انہوں نے اپنی اہلیہ کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں لکھا۔ اس سے بھی ان کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔

سردار شمس خان شہید۔ تاریخ پونچھ کا درخشاں کردار (محمدصدیق خان چغتائی)
تاریخ پونچھ کشمیر کے درخشاں کردار سردار شمس خان شہید کے بارے میں ہے یہ محمد صدیق خان چغتائی کی زندگی بھر کی محنت کا ثمر ہے ۔ محمد انور عباسی کی طرح محمد صدیق خان چغتائی کا تعلق بھی ضلع باغ، آزاد کشمیر سے ہے ۔ صدیق چغتائی نے آنکھ کھولی تو دیکھا کہ تحریک آزادی کشمیر کے ایک اہم کردار سردار شمس خان کے بارے میں قبیلائی کھینچا تانی جاری تھی ۔ بہت سے لوگ سردار شمس خان کو سدھن قبیلے کا فرد خیال کرتے تھے جبکہ بے شمار لوگوں کا دعویٰ تھا کہ سردار شمس خان ملدیال قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔وہ جو بھی تھے ایک عظیم شخصیت تھے اور آزادی کی تحریک کی پاداش میں ڈوگرہ حکمرانوں نے ان کا سر قلم کر دیا تھا۔ محمدصدیق چغتائی نے فیصلہ کیا کہ وہ حقیقت کی تلاش کریں گے اس کے لئے انہوں نے طویل عرصہ تک کتابیں اور حوالہ جات جمع کرنے کاسلسلہ جاری رکھا ۔ بہت سے لوگ انہیں جنونی خیال کرتے رہے لیکن کسی بھی بڑے کام کے لئے جنون کا ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ یہ جنون ہی تھا کہ عمران خان نے شدید سردی میں 126دن تک اپنے کارکنان کو کھلے آسمان تلے بٹھائے رکھا ۔ خیر یہ ایک جملہ معترضہ تھا ۔
 

image

محمد صدیق چغتائی نے اپنی کتاب کو9 ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔پہلے باب میں انہوں نے ان کتابوں کا جائزہ لیا ہے جو 1947ء سے پہلے لکھی گئیں اور جن میں کسی نہ کسی طرح سردار شمس خان شہیدکا تذکرہ موجود تھا۔ دوسرے باب میں محمد صدیق چغتائی نے مقبوضہ کشمیر، بھارت، ، امریکہ اور یورپ میں لکھی گئی کتب کو زیر بحث لایا ہے ۔ کتاب کا تیسرا باب 1947ء کے بعد پاکستان اور آزاد کشمیر کے مصنفین کی آراء پر مشتمل ہے ، کتاب کے چوتھے باب میں انہوں نے مغلیہ خاندان کے مصنفین کی تحریریں شامل کی ہیں۔ پانچویں باب میں سدوزئی (سدھن)مصنفین کی کتابوں کا احاطہ کیا ہے ۔ کتاب کے چھٹے باب میں انہوں نے متفرق مضامین زیر بحث لائے ہیں کتاب کا ساتواں باب سابق ریاست پونچھ کی اہم شخصیات کی آراء پر مشتمل ہے ، کتاب کے آٹھویں باب میں انہوں نے اپنا حاصل تحقیق بیان کیا ہے جبکہ کتاب کے نویں باب میں انہوں نے کتاب پر مختلف مصنفین اور کالم نگار حضرات کی قبل از طباعت آراء شامل کی ہیں۔

کتاب میں جن اہم شخصیات کی تحریریں یا آراء شامل ہیں ان میں دیوان کرپا رام، منشی محمد دین فوق، خوش دیو، یوسف ٹینگ، سید محمود آزاد، پریم ناتھ بزاز، جی ایم میر، کیپٹن نبی بخش نظامی ، جسٹس محمد اکرم خان ، جسٹس محمد یوسف صراف ، سید بشیر حسین جعفری، کرشن دیو سیٹھی ، خواجہ عبد الصمد وانی ، سردار مختار خان ایڈووکیٹ، غازی محمد امیر خان، غلام حسین اظہر، ڈاکٹر صغیر خان، ڈاکٹر کرنل فقیر محمد ، ڈاکٹر محمد اسلم خان، محترمہ عصمت اقبال چغتائی ، مولانا عبد الغنی ؒ ، سید محمد اکرم شاہ، رابعہ رحمان، سید سلیم گردیزی ، محمد سعید اسد اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔

کشمیرکی تاریخ کا انسائیکلو پیڈیا کہلانے والی شخصیت سید بشیر حسین جعفری نے اپنے ایک خط میں محمد صدیق چغتائی کی کاوشوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
’’آپ نے گذشتہ دس برسوں کے دوران میں ایک تاریخی موضوع پر بے حد دلچسپی اور لگن سے کام کیا اور وہ یہ تھا کہ ’ سر زمین پونچھ کا نامور ہیرو سردار شمس خان ملدیال یا سدھن تھا ‘ ۔۔۔۔ ‘‘ ۔ بشیر حسین جعفری نے انہیں مزید لکھا : ’’کسی اورعلمی تاریخی موضوع پر اتنابڑا کام کرتے ۔۔۔۔؟ سردار شمس خان ملدیال جو بھی تھے مسلمانوں کے ایک محسن قائد اور جانباز تھے ۔۔۔۔‘‘ ۔اس پر چغتائی صاحب نے جواب دیا ’’دراصل مجھے ان کے شجرہ نسب کا معاملہ تحقیق کے بعد ہمیشہ کے لئے طے کرنا مطلوب تھا‘‘۔

کتابیات کے ضمن میں انہوں نے 55 اردو اور انگریزی کتب کا ذکر کیا ہے تا ہم حوالہ جات کے ضمن میں وہ تحقیقی اسلوب کا کما حقہ حق ادا نہیں کر سکے ۔ یہ کتاب چار سو صفحات پر مشتمل ہے اور اسے میر پور آزاد کشمیر میں قائم ادارہ ۔۔۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کشمیر اسٹڈیز (NIKS)نے شائع کیا ہے۔ کتاب کا سر ورق انتہائی خوبصورت ہے اور اس کی قیمت 500/-روپے مقرر کی گئی ہے۔
Syed Muzzamil Hussain
About the Author: Syed Muzzamil Hussain Read More Articles by Syed Muzzamil Hussain: 41 Articles with 68729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.