صحافت عربی لفظ ’’صحیفہ‘‘ سے اخذ
کیا گیا ہے جس کے لغوی معنی ہیں مطبوعہ صفحات۔ اس لئے تمام اخبارات، رسائل
، جرائد صحیفہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ صحافت کوئی شاعری نہیں، کوئی داستان
سرائی نہیں، خطابت یا سیاست نہیں لیکن بیک وقت یہ ساری خوبیاں جس انسان میں
یکجا ہوجائیں وہ صحافی ہے۔ صحافت کا کینوس وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا
ہے۔ اس کی سماجی، سیاسی، معاشرتی ، تہذیبی، تمدنی اور اخلاقی ہمہ گیری ،
وسعت و معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جیسے جیسے انسان کے ذہن و فکر
میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، صحافت بھی اپنا قدم بڑھاتی جارہی ہے ۔ کل تک جو
صحافت سرکار کی محتاج نظر آتی تھی آج وہ سرکار کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی
بن چکی ہے۔
ماجرا۔ دی اسٹوری ۱۱۲؍ صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جسے ڈاکٹر منصور
خوشتر نے ترتیب دے کر منظر عام پر لانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ مضامین
کے اعتبار سے اپنے نوع کی ایک منفرد کتاب نظر آتی ہے۔ منصور خوشتر اس دور
کے ایک فعال اور سرگرم صحافی ہیں۔ یہ عمر عام طور سے موج مستی اور گپ شپ
میں گذارنے کی ہوتی ہے لیکن انہوں نے ان سب سے الگ روش اختیار کرتے ہوئے
اردو صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔ صحافت کی پرپیچ راہوں سے گزرتے
ہوئے انہوں نے اپنا تعلیمی سفر بھی جاری رکھا۔ اکیڈمک تعلیم کے ساتھ ساتھ
فیزیوتھیراپی میں ڈگری حاصل کی۔ آج وہ صحافت کی بلندیوں تک پہنچنے کی ہر
ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ایک صحافی کی نظر چھوٹے بڑے سارے واقعات پر ہوتی ہے
۔ معمولی واقعہ بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ صحافی کی نظر اس بات
کے لئے سرگرداں رہتی ہے کہ انسانیت کس جگہ کراہ رہی ہے۔ کراہنے کی وجہ کیا
ہے ؟ اس سے نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ کوئی اس کا ہمدرد ومددگار ہے یا
نہیں؟ منصور خوشتر کی یہ کتاب ماجرا۔ دی اسٹوری ایسے ہی فکر و نظر کا نتیجہ
ہے۔اس کتاب کے قبل انہوں نے دو اور کتابیں ’’لمعات طرزی‘‘ اور ’’نثر نگاران
دربھنگہ‘‘ کو ترتیب دیا۔ ان کی ایک اور ترتیب ’’بہار میں اردو صحافت۔ مسائل
وامکانات‘‘اور ایک شعری مجموعہ ’’کچھ محفل خوباں کی‘‘بہت جلد منظر عام پر
آنے والی ہیں۔اس کتاب یعنی ماجرا۔ دی اسٹوری میں روزنامہ’’ قومی تنظیم‘‘
میں شائع ہونے والے سیدایس ایم اشرف فرید صاحب کے ایسے مضامین ہیں جو وقتاً
فوقتاً قارئین کی نظروں سے گزرتے رہے ہیں۔ قومی تنظیم بہت سارے قارئین کے
ذریعہ پڑھی جاتی ہیں لیکن ان سے ان قیمتی موضوعات کو جمع کرکے کتابی صورت
میں ڈھال دینا بڑے حوصلہ کا کام ہے اور یہ کام ڈاکٹر منصور خوشتر نے کر
دکھایا ہے۔ ان کی شریفانہ روش ،شوقِ صحافت اور دیگر سرگرمیوں کا تذکرہ
دربھنگہ کے مشہور و معروف شاعر،صدر جمہوریہ ہند سے اعزاز یافتہ پروفیسر
عبدالمنان طرزی نے ان الفاظ میں کیا ہے:
اک عزیزِ نیک خو منصور خوشتر جو ہوئے
دل ہوا مائل مرا کچھ اُن پہ لکھنے کے لئے
اعتراف اُن کی سعادت مندیوں کا ہے مجھے
احترام ایسا ہمیشہ وہ مرا کرتے رہے
جو شریفانہ روش ورثے میں ہے اُن کو ملی
اُس کی کرتے ہیں نگہ داری عمل سے خوب ہی
آپ نے فیزیاتھراپی میں ہے ڈپلومہ کیا
سلسلہ رکھا ہے قائم کچھ حصولِ علم کا
کام یہ ڈپلومہ شاید اُن کو آیا بھی نہیں
حل معاشی مسئلے کا اِس کو ٹھہرایا نہیں
روزنامہ ’’قومیٔ تنظیم‘‘ سے وابستگی
ایک مدت سے ہے گویا آپ کی پہچان بھی
اُردو سہ ماہی بھی اک ’’دربھنگہ ٹائمس‘‘ نام کا
چند برسوں سے ادارت میں ہے اُن کی چھپ رہا
ہے ’’ایجوکیشنل ٹرسٹ‘‘ اِن کا جو ’’المنصور‘‘ہی
اُردو کی ترویج کا لیتے ہیں اُس سے کام بھی
کرتے ہیں اردو زباں سے یہ محبت بھی بہت
کام آیا ہے انہیں شوقِ صحافت بھی بہت
واقعی ڈاکٹر منصور خوشتر اردو کی ترقی و ترویج کے لئے کئی طرح کی سرگرمیوں
میں لگے رہتے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ قبل ایک کل ہند مشاعرہ کا انعقاد کیا اور
بہت ہی کامیاب مشاعرہ ثابت ہوا جس کی ہر عام و خاص نے پذیرائی کی۔
’’دربھنگہ ٹائمس‘‘ کی اشاعت بھی ان کے کارناموں کی فہرست میں اضافہ کرتا
ہے۔ صحافت کے شوق کی ایک عمدہ مثال ان کے ذریعہ منعقد کیا جانے والا وہ
سیمینار ہے جس کا موضوع تھا ’’بہار میں اردو صحافت: سمت و رفتار‘‘۔
’’قومی تنظیم ‘‘ کے بانی سید عمر فرید تھے جو نہایت ذہین اور باصلاحیت
صحافی تھے۔ آپ کا د ل ملک و قوم کی فلاح و بہبود اور انسانوں کے دکھ درد کے
مداوا کے لئے تڑپتا رہتا تھا۔ اپنی باتیں اس خوبصورتی اور مثبت انداز میں
بیان کرتے کہ قاری کے دل میں ان کی باتیں گھر کر جاتی تھیں۔ یکم مارچ ۱۹۸۶ء
سے قومی تنظیم کو منظر عام پر لانے کی ذمہ داری سید عمر فرید صاحب کے
صاحبزادے سید اشرف فرید اور اجمل فرید کے کے کندھوں پر آئی۔ اپنی ذمہ
داریوں کو دونوں بھائیوں نے بخوبی انجام دیا۔ اردو قارئین کے ذوق و شوق کو
دیکھتے ہوئے اس میں ادب، کھیل کود، صحت، خواتین ، اسلامیات، فلم کے لئے
فیچر دیا جانے لگا۔ طرح طرح کے مضامین شائع ہونے لگے جو ملک و ملت کے لئے
کافی سود مند ثابت ہوئے۔ ماجرا۔ دی اسٹوری سید اشرف فرید صاحب کے ایسے ہی
مضامین پر مشتمل کتاب ہے۔
ایس ایم اشرف فرید روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ آپ ایسے ذہین
اور باشعور صحافی ہیں جن کے اندر قوم و ملت کا درد پنہاں ہے۔ مسلمانوں کی
زبوں حالی پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنے قلم کی قوت سے اسے عوام کے سامنے
لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ذہن کی پختگی اور بالیدگی کا یہ عالم ہے کہ
ان کی نگاہیں ایسے جگہوں تک پہنچ جاتی ہیں جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں ہے۔
اردو زبان کے فروغ کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ میں نے بارہا ان کی
زبان سے سنا ہے کہ اردو زبان و اد ب کو فروغ دیجئے اور اپنے بچوں کو دیگر
زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کی تعلیم ضرور دیجئے۔
ماجر۔ دی اسٹوری ملت اسلامیہ اور اردو زبان کے سیاسی اور سماجی منظر نامے
کا ایک حسین اظہار ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نے اس کتاب کے مصنف کے بارے میں
اپنے پیش لفظ میں فرماتے ہیں:
’’سید اشرف فرید صاحب ان صحافیوں میں ہیں جنہوں نے ملت اسلامیہ کے مسائل پر
کھل کر لکھا ہے۔ ملک کے مؤقر روزنامہ، قومی تنظیم میں انہوں نے لگاتار
مسلمانوں کی زبوں حالی کی داستان رقم کی ہے اور مسلم سماج کو بیدار کرنے کی
کوشش کی ہے۔ ‘‘
پیش نظر کتاب ماجرا۔ دی اسٹوری میں کل ۴۴؍ مضامین ہیں ۔ ان میں چند مضامین
مثلاً بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں: وفاقی ڈھانچے پر حملہ، پورے ملک
کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش، اسلام: انسانی حقوق کا سب سے
بڑا علم بردار، بٹلہ انکاؤنٹر زخم ابھی تازہ ہے، اردو پر ستم کیوں؟، مسلکی
اختلافات :مسلمانوں کی ترقی میں سب سے اہم رکاوٹ، گجرات کا درد:آنسو ہیں کہ
تھمتے ہی نہیں ، نوجوانوں کے دل و دماغ کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں۔ ان
مضامین میں اسی تلخ حقیقوں کو سامنے لایا گیا ہے جس میں آج کا ہر نوجوان
کسی نہ کسی شکل میں مبتلا نظر آتا ہے اور اس سے نجات چاہتا ہے۔ آج مسلمانوں
کو کمزور کرنے میں سب سے اہم رول مسلکی اختلافات کا ہے۔ اس پر سید اشرف
فرید صاحب نے بڑی بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
’’مسلمان جہاں کہیں بھی آباد ہیں سخت دشواریوں ، پریشانیوں اور آزمائشوں
میں مبتلا ہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے اہم وجہ مسلکی
اختلاف ہے۔ حالانکہ ہم سب کے سب اسی ایک اﷲ ، اسی رسولﷺ ، اسی قرآن اور اسی
قیادت کے ماننے والے کلمہ گو لوگ ہیں اور اس اعتبار سے ہمارے اندر مثالی
اتحاد ہونا چاہئے ۔ ماضی میں ہمارے یہاں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ‘‘
مسلکی اختلافات کی ان خرابیوں سے ایس ایم اشرف فرید صاحب کافی پریشان نظر
آتے ہیں اور قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ وقت ہے کہ تم آج بھی ایک
پلیٹ فارم پر آجاؤ ۔ اگر تم متحد ہوگئے تو بہت سارے پریشانیوں سے خود بخود
نجات پاجاؤگے۔
’’اسلام: انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ‘‘میں سید اشرف فرید نے
مسلمانوں کو اسلام کا صحیح پیغام دے کر راستے پر لانے کی کوشش کی ہے ۔ وہ
اس مضمون میں یوں رقم طراز ہیں:
’’حقیقت بھی یہی ہے کہ جب ہم تاریخ اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو
یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام پر سراسر بہتان ہے کہ یہ تلوار کے زور پر
پھیلا ہے۔ اسلام میں خدمت خلق کا جو پیغام ہے اور رسول اﷲ اور صحابہ کرام
نے اس کا جو عملی نمونہ پیش کیا ہے اس کی وجہ لوگ صدق دل سے اس سے متاثر
ہوئے ۔ اسلام وہ پہلا مذہب بن کر سامنے آیا جس نے ظلم کو بہر صور ت ظلم
قراردیا اور اس معاملے میں کوئی تفریق یا شرط نہیں رکھی۔ ‘‘
ان مضامین کے مطالعے سے سید اشرف فرید صاحب کی ذہنی وسعت و فکر کا اندازہ
ہوتا ہے۔ آپ انسانی زندگی کے نکتہ پر باریکی سے نظر رکھتے ہیں۔ مضامین کو
اگر غور سے پڑھا جائے تو تمام مضمون ان کی علمی، ادبی، صحافتی صلاحیتوں کی
علامت ہیں۔
ماجر۔ دی اسٹوری کے تمام ۴۴؍ مضامین کو ترتیب دے کر ڈاکٹر منصور خوشتر نے
ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ ، دربھنگہ سے شائع کیا ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض
کیا ہے کہ قومی تنظیم کے ان ۴۴؍ مضامین کو صوبہ بہار یا بیرون بہار کے
لاکھوں قارئین نے پڑھا ہوگا لیکن اسے کتابی صورت دینے کی بات صرف اور صرف
منصور خوشتر کے ذہن میں ہی کیوں آئی۔ یہ ان کے وسیع ذہن و فکر کا نتیجہ ہے۔
وہ سرزمین دربھنگہ کے باشعور اور ذہن صحافی ہیں جو اعلیٰ مقام پر پہنچے کے
لئے کوشاں ہیں۔ اگر ان کی لگن اسی طرح برقرار رہی تو وہ دن دور نہیں جب وہ
پوری ریاست کا نام ملک اور بیرون ملک میں روشن کریں گے ۔ اپنے کارناموں کے
لئے وہ یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ |