پنجاب انسداد دہشت گردی فورس کے
پہلے دستے کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ حکومت نے ملک
سے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لئے جن اقدامات کا عزم اور تہیہ کیا تھا
ان پر وہ سنجیدگی سے عمل پیرا ہے۔ اس سے قبل سزائے موت پر عائد پابندی کا
خاتمہ، 21آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام بھی اس ضمن میں اہم ترین
اقدامات تھے۔ موبائل سموں کی بائیومیٹرک تصدیق، نفرت انگیز کتب و رسائل پر
پابندی اور ان کی خریداری و فروخت کے سلسلے میں کڑی نگرانی، لاؤڈ سپیکر
ایکٹ پر عملدرآمد ، آمدورفت پر سخت چھان بین اور تلاشی ایسے اقدامات ہیں جو
اب عام آدمی کو بھی نظر آرہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی
میں اضافے اور ان کی اہلیت اور استعداد کے لئے انہیں تربیت اور جدید اسلحہ
و سازو سامان بھی مہیا کیا جارہاہے۔ پنجاب انسداد دہشت گردی فورس کی تشکیل
بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اس کے پہلے بیج میں 421ا ہلکارپاس آؤٹ ہوئے جن
میں16 خواتین بھی شامل ہیں۔ ان اہلکاروں کی فوج کے سپیشل سروس گروپ یعنی
کمانڈوز کی طرز پر تربیت دی گئی ہے ۔ اس طرح یہ بہترین صلاحیتوں ،جدید
اسلحے اور سازوسامان سے لیس ہوکر میدان عمل میں اتریں گے۔
ایلیٹ ٹریننگ سکول لاہور میں انسدد دہشت گردی فورس کے پہلے بیج کی پاسنگ
آؤٹ پریڈ کے موقع پر وزیراعظم میاں نوازشریف مہمان خصوصی تھے ۔ انہوں نے
پریڈ کا معائنہ کیا اور چاق چوبند دستوں سے سلامی لی۔اس موقع پرچیف آف آرمی
سٹاف جنرل راحیل شریف کی موجودگی خوش آئند تھی جس سے نہ صرف پاس آؤٹ ہونے
والے اہلکاروں کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ ان کے اس عزم کا اعادہ بھی ہوا کہ
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سول اداروں کی تربیت ، ان کی اہلیت سازی اور
استعداد بڑھانے میں وہ ان کے ساتھ ہیں۔ پنجاب انسداد دہشت گردی فورس کی
تربیت بھی افواج پاکستان کے کمانڈوز نے کی جو یقینا اس فورس کے لئے اعزاز
ہے اور یہی خوبی اس کے اہلکاروں کی تربیت کے اعلیٰ معیار پر مہر ثبت کرتی
ہے۔ پریڈ سے خطاب میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دہشت گردی کے خاتمے
کا عزم دہراتے ہوئے کہا کہ جب تک اس دھرتی کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک
نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت
گردی کیخلاف قوم ، فوج اور تمام ادارے متحد ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ بحیثیت
قوم ہم نے دہشت گردی کیخلاف جنگ ہر حال میں جیتنی ہے کیونکہ یہ ہماری معاشی
اور معاشرتی بقاء کیلئے ناگزیر ہے۔ جس طرح کی دہشت گردی کا سامنا ہے اس
حوالے سے ایسی فورس کی ضرورت تھی جو دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار
اداکر سکے۔ انہوں نے نے انسداد دہشت گردی فورس کی عملی تربیت میں پاک فوج
کے اہم کردارکو سراہا ۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف سیاسی جماعتوں، صوبائی
حکومتوں اور افواج پاکستان کے عزم اوراتحادکی بھی تعریف کی اور ہر صوبے میں
اسی طرح کی فورس تشکیل دینے کا اعلان کیا۔میاں نوازشریف نے پاس آؤٹ ہونے
والے کارپورلز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کندھوں پر ایک اہم ذمہ داری
عائد ہوتی ہے۔ امید ہے کہ دہشت گردوں کو عبرت ناک سزا دینے کے لئے وہ کسی
قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ پشاور میں معصوم بچوں کی شہادت نے پوری قوم
کو یہ احساس دلایا کہ دہشت گردی پاکستان کی بقاء کو سب سے بڑا خطرہ ہے اور
اگر اس کی بیخ کنی میں تھوڑی سی اور دیر کی گئی تو یہ ہماری سلامتی کو نگل
لے گا۔ اس احساس کے پیش نظر قومی لائحہ عمل مرتب کیا گیا اور سیاسی اور
عسکری قیادت نے اتفاق کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے 10ہزار جوانوں پر
مشتمل خصوصی فورس قائم کی جائے گی۔یقینا وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف
اس سلسلے میں بازی لے گئے اور انہوں نے قومی ایکشن پلان کی منظوری کے ایک
ماہ کے اندراندر انسداد دہشت گردی فورس قائم کردی جو دوسرے صوبوں کے لئے
بھی قابل تقلید مثال ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بہترین تربیت
اور جدید ہتھیاروں سے لیس فورس کے فوری قیام پر توجہ دے کر اس سلسلے میں
قوم کے اطمینان اور سکون کا سامان کیا ہے۔
دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں، آزادکشمیر
اورگلگت بلتستان میں بھی اسی طرز کے قیام کی اشد ضرورت ہے ۔اس وقت صوبے
دہشت گردی کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی خصوصی فورس نہیں رکھتے اور نہ ہی
ربط کے سلسلے میں ان کا کوئی موثر کردار ہے۔ افواج پاکستان ہی دہشت گردی کے
خلاف اس وقت براہ راست نبردآزماء ہیں اور جب بھی کہیں ضرورت پڑتی ہے اس کے
کمانڈوز ہی وہاں ایکشن کے لئے طلب کئے جاتے ہیں۔ قوم کے لئے یہ باعث
اطمینان ہے کہ افواج پاکستان یہ کردار بخوبی نبھا رہی ہیں اور ضرب عضب
آپریشن میں انہوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ تاہم ان کے ساتھ ساتھ
ضرورت اس امر کی ہے کہ سول اداروں خاص طور پر صوبائی حکومتوں اور ان کے
ماتحت اداروں کو اس حوالے سے مضبوط اور موثر کیا جائے تاکہ مشترکہ کوششوں
سے اس عفریت کا مکمل خاتمہ اور پھر اسے دوبارہ پنپنے سے روکا جاسکے۔ سریع
الحرکت انسداد دہشت گردی فورس کا ہر صوبے میں قیام اور متعلقہ صلاحیتوں سے
لیس ہونا ہماری بقاء کے لئے بے حد ضروری ہے۔ ایسی فورسز دنیا کے دیگر ممالک
میں کام کررہی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں دہشت گردی پر ان کا مکمل کنٹرول ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے اس دور میں ،ان
ممالک کے دہشت گردی سے محفوظ رہنے کی وجہ ہی ان کی انسداد دہشت گردی کی
فورسز ہیں ، جن کی عقابی نگاہیں چوبیس گھنٹے گلیوں بازاروں، اہم تنصیبات
اور رہائشی علاقوں کی نگہبانی کرتی ہیں ، جن کے کارندے ہر وقت مستعد رہتے
اور جاگتے ہیں اور ان کے عوام سکھ اور بے فکری کی نیند سوتے ہیں۔سانحہ
پشاور کے بعد راولپنڈی اور شکارپور میں ہونے والے خود کش حملے اس بات کا
اشارہ دے رہے ہیں کہ دہشت گرددیگر علاقوں میں ردعمل دکھا رہے ہیں جن کے پیش
نظر ایسی فورسز کے قیام کے عمل میں مزید تیزی کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف جنرل
راحیل شریف، پولیس اور قانون نافذکرنے والے تمام اداروں کی استعداد
کاربڑھانے کے لئے تیزرفتا ر اقدامات کررہے ہیں۔ ان کا انسداددہشت گردی فورس
کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے متعلق بیان بھی ان کے عزم کا آئینہ دار ہے کہ قومی
ایکشن پلان کے تحت پولیس کی استعداد کار بڑھانے کا عمل جاری رہے گا۔وزیر
اعظم میاں نوازشریف اس حوالے سے اگلے مرحلے کا بھی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ
جنرل راحیل کے ہمراہ جلد کراچی اور کوئٹہ کادورہ کرینگے اور وہاں بھی
انسداد دہشت گردی فورس سمیت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا جائزہ لیں گے۔
ان اقدامات سے یقینا دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی اوران کے تسلسل سے
یقینا ہم بہت جلد اس عفریت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ |