چارہ گر میں تمہیں کس طرح کہوں ؟

پاکستانی تاریخ کا لہو رنگ باب ،2014 اختتام پذیر ہوکر، رواں سال کا ایک ماہ بھی گزر چکا ،مگرگذشتہ برس میں جس کشت و خون کا جو لرزہ خیز سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تاحال جاری ہے حتی کہ ہمارے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ جیسے جاری دگر گوں حالات اور موجودہ بحرانوں کا انبار وطن عزیز کا نصیب بن چکا ہے ۔بہتری کے امکانات کے جھروکے میں رکھے دئیے مخالف ہواؤں کی زد میں ہیں ،ہر آفتاب ایک اندیشہ اور خدشہ لیکر طلوع ہوتا ہے کہ آج نا جانے کیا ہو جائے گا ؟ خون کی رنگت اور بارود کی بو فضاؤں میں رچ بس چکی ہے ،درد والم کی داستانیں رقم کرتے کرتے شبد ختم ہو چکے ہیں ۔ذرا سوچئیے !کتنے گھروں کے چراغ گل ہو گئے ،کتنے پھول کھلنے سے پہلے مرجھاگئے ، کتنے خواب امر اور حسرتیں پوری ہونے کی بجائے خاک میں پنہا ہوگئیں ۔ذرّہ ذرّہ کہہ اٹھا ہے!
ابن مریم ہوا کرے کوئی
مرے درد کی دوا کرے کوئی

مگر یوں لگتا ہے کہ جیسے حقیقی اور یقینی طور پر ہماری پیشانی پر ایک بھی پریشانی کی لکیر نہیں ہے کیونکہ درد کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو اس اندوہناکیوں سے گزرتا ہے ،ہم چند اشک بہا سکتے ہیں ،چند ہمدردی کے بول بول سکتے ہیں ،چند لاکھ روپے دے سکتے ہیں اور انکوائری کروا سکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے ۔آج سوال صرف یہ ہے کہ ہم کیوں کچھ نہیں کر سکتے ؟

اگرہم اس انتشار و افراتفری کو ختم نہیں کر سکتے ، بحرانوں پر قابو نہیں پا سکتے ، دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکتے ، ملکی فلاح و بہبود اور ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی نہیں بنا سکتے اور عوام کو کچھ بھی نہیں دے سکتے ،تواس پارلیمینٹ ،کابینہ ،پولیس اور تمام محکموں کا کام کیا ہے ؟ یعنی کابینہ کی قیمتی مشاورت اور کار کردگی ،پارلیمینٹ کی قانون سازیاں عمل میں آنے کے با وجود اگر عملی طور پر قانون نا فذ کرنے والے اداروں اور دیگر محکموں نے عملدر آمد کو یقینی نہیں بنانا تو پارلیمینٹ اور کابینہ کی بسیار کاوشیں نا کارہ ہیں ۔کیا آئندہ آنے والی حکومت یہی کہے گی کہ جانے والی حکومت سب سمیٹ کر لے گئی اور ہم خالی ہاتھ رہ گئے ہیں ،صرف مسائل ہمارے حصے میں آئے ہیں ؟

آج ہمارے وعدے اورنعرے پاپولر پالیٹیکس سے بھرپور منصوبوں کی نظر ہو گئے ہیں ،اور وہ بھی عوام سے وصول کردہ ،باقی ماندہ ریونیوز سے اور عوام کو تکلیف پہنچا کر کئے گئے کام جو کہ با لآخر پھر حکومت وقت پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں ۔پچھلی بار خارجہ پالیسی میں ناکامی کی بات ہوئی تھی کہ اس کی بنیادی وجہ کسی اہل وزیر خا رجہ کا منصب پر براجمان نہ ہونا ہے ،اس لیے ہم بیرونی دنیا سے اور بیرونی دنیا ہم سے پوری طرح مستفید ہونے میں ناکام ہیں، اب حال ہی میں پٹرول بحران نے سب کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ،سولہ سترہ روزہ جاری رہنے والے بحران میں عوام کے اربوں روپے طاقتور مافیا نے ہڑپ کر لیے اورلوگوں کو جن مشکلات سے گزرنا پڑا وہ ایک الگ کہانی ہے ۔الغرض ہر بحران کے پس پردہ کچھ حقائق اور عوامل لازماً موجودہوتے ہیں ۔پٹرول بحران میں ڈیڈھ سال گزرنے جانے کے باوجود حکومت اوگرا کے معاملات کو شفاف طریقے سے چلانے میں ناکام ہے دوسری جانب پی ایس او کے کلیدی عہدے پر اپنی مرضی کا بندہ لانے کے لیے بیس سال کی تجربہ کاری کی ضروری پابندی گھٹا کر دس سال کر دی گئی ہے ،اور اب آبی بحران سر اٹھا رہا ہے ،اسی سبب سے حزب اختلاف کی جماعتیں آج مسلم لیگ کی حکومت پریہ تنقید کرتے ہوئے نظر آتی ہیں کہ اگر آپ کے پاس اہل لوگ نہیں ہیں تو ہم سے ادھار لے لیں ۔معلوم نہیں کہ میاں صاحب کی تجربہ کار ٹیم کا تجربہ کہاں گیا کہ آج ان کے حلیف بھی یہ کہہ گئے ہیں کہ یہاں ’’سچ کا قحط ‘‘ہے اور مافیا کا راج ہے ۔اس بات کا ڈر ہے کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے الفاظ تاریخ کے ابواب میں اس دور حکومت کا خلاصہ بیان کرنے کے لیے کافی نہ ٹھہر جائیں ۔انھوں نے مستعفی ہوتے وقت ملکی تشویشناک صورتحال کی جو تصویر کشی کی ہے ہر ذی شعور اس کو مانتا اور جانتا ہے ،انھوں نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ موجودہ حکومت کے لیے بھی قابل فکر ہونا چاہیئے تھا مگر یوں لگا جیسا حکومت کو اس سے بھی کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑا ،چوہدری محمد سرور ایک ایسا پاکستانی ہے جو اپنی محنت سے برطانوی پارلیمینٹ کا رکن منتخب ہواتھا، ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا مگر ہمارے حکمرانوں کو مبینہ ذاتی مفادات اور اقربا پروری نے کبھی دور رس فیصلہ کرنے کا موقع ہی نہیں دیا اسی لیے مذکور موصوف کو تمام امور سے دور رکھا گیا ،آخرکار وہ اس بے بسی کے نظام سے تنگ آگئے یعنی وہ نظام وہ ماڈل آف گورننس کہ جس کا نعرہ لگا کر میاں صاحب نے یہ اقتدار سنبھالا تھا ۔مجھے آج بھی میاں صاحب کا 2013 کا خطاب یاد ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ’’ ہمیں بھاری مینڈیٹ دینا تاکہ ہمیں بیساکھیوں کی ضرورت نہ پڑے اور یہ کہ ہم ایک نئے دور کا آغاز کریں گے سب کا احتساب کریں گے‘‘ اورمیاں شہباز شریف کے پرجوش انداز سے تو بچہ بچہ واقف ہے جب انھوں نے حبیب جالبؔ کی انقلابی نظموں کو اپنے منشور کی بنیاد بنایا اور سب کو اپنے گرویدہ کر لیا
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ (ن) لیگ کو کئی بحران ورثے میں ملے تھے مگر اس حقیقت سے بھی انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ بحرانوں کا سبب نا قص حکمت عملیاں ،کرپشن ،اقربا پروری اور بے تدبیری ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج یورپی اقوام اور دشمنان پاکستان کھلم کھلا یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ آج پاکستان میں اخلاقی اور بنیادی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے اور اسلام انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے ،اور اس جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے وہ آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا گھناؤنا وار کرتے ہیں کہ جس کی کڑیاں مذہبی اور سیاسی چپقلشوں سے ملتی ہیں ،کیونکہ حریف ہماری اس کمزوری سے واقف ہو چکا ہے کہ اگر ہمیں کوئی بھی کہہ دے کہ کان کتا لے گیا ہے تو ہم کتے کو مارنے چل پڑتے ہیں ،پہلے یہ نہیں دیکھتے کان اپنی جگہ پرہے یا کہ نہیں ۔ہماری عقل و فہم کو سامراجی نظام کی دیمک چاٹ گئی ہے ۔حریف ممکنہ ا ہداف بھی حاصل کر لیتا ہے اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی ۔کیونکہ یہ نوشتہ ء دیوار ہے کہ دہشت گردی اس سوچ کا نام ہے جو کسی اور سوچ کو قبول نہیں کرتی اور یہ سوچ آج ڈینگی وائرس کی طرح پورے پاکستان میں پھیل چکی ہے اور اس کا خاتمہ صرف عزم ، اتحاد اور پر خلوص حکمت عملیوں سے ہی ہوسکتا ہے۔

آج وہ وقت آگیا ہے کہ میاں صاحب تما م دانشوران کی بات تسلیم کر لیں کہ ان کے ماڈل آف گورننس ناکام ہو چکے ہیں ،ان کے عہدے داران ،وزراء ان بحرانوں سے نپٹنے سے قاصر ہیں ،کیونکہ نا اہل اور من مرضی کے لوگوں کو آگے لایا گیا ہے جنھوں نے گڈ گورنس کے فقدان کو اجاگر ہی نہیں کیا بلکہ ناقص کارکردگیوں سے اقوام عالم کو بھی تنقید کا موقع فراہم کر دیا ہے ۔اگر یہ سچ نہیں ہے تو پھر ہو سکتا ہے (ن) لیگ کی ناکامی میں کو ئی خفیہ سازش کارفرما ہو ،تو اس سازش کو بھی بے نقاب ہونا چاہیئے ،اگر بے نقابی ممکن نہیں ہوتی تو اس کا کھوج ضرور لگانا چاہیئے کیونکہ دنیا بھر میں آج ہمیں جس طرح دیکھا جا رہا ہے وہ قابل فکر ہے ۔موجودہ حکومت کا ڈیڈھ سال گزرچکا ہے مگر ملکی مسائل میں کمی یا ان کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ،کیا قوانین کی اصل روح بحال بھی ہو سکے گی یا نہیں یا یہ دور حکومت ماضی کی طرح سیاہ ابواب کی زینت بن جائے گا ،(ن) لیگ کو سوچنا ہوگا کہ آج ہر طرح سے عوام خالی ہاتھ ہیں اور یہی کہا جارہا ہے کہ سیاست زدہ بیوروکرسی اور اقربا پروری اس ملک کو کھا گئی ہے ،اورایسے میں یہ دعوی کہ ہم نکھاریں گے رخ برگ گلاب ۔۔۔ عقل و دانش اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے ۔

کیونکہ تاحال عوامی مسائل کا انبار اور اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ،(ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کو اس خطۂ پاک کے مکینوں کیلئے اقوام عالم میں اس وطن پاک کی ناموس کے لیے ایسی حکمت عملیاں اختیار کرنا ہونگی کہ جس سے قائد اعظم کا خواب پوری طرح شرمندۂ تعبیر ہو سکے ورنہ عوام ہمیں چارہ گر ماننے کی بجائے یہی کہیں گے !
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارافسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح کہوں
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

آج ہر پاکستانی افواج پاکستان کی عظمت کو سلام پیش کر رہا ہے ۔کیونکہ نظم و ضبط اور امن عامہ کے بعد اب وہ تیز ترین اور یقینی انصاف اور داد رسی جیسے اہم امور بھی سر انجام دینے پر مامور ہو گئے ہیں ،جبکہ پاک سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بالآخر ایسے امور کی انجام دہی پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں مگر ایسا سب کچھ موجودہ حکومت پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔
Ruqquya Ghazal
About the Author: Ruqquya Ghazal Read More Articles by Ruqquya Ghazal: 50 Articles with 37878 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.