ننگے سر پھرنا ہمیں منظور ہے
لیکن کبھی ! خون میں ڈوبی ہوئی دستار ہم رکھتے نہیں
فطرتاً ہی ہے دشمنی مشہورہے ہماری ڈھال رکھتے ہیں ، تلوار ہم رکھتے نہیں
کسی ریاست میں عوام جب اس خوف سے مبرا ہو کر اپناے روز مرہ کے معمو لات سر
انجام دیں کہ جب وہ گھر سے نکلیں گے تو سلامت گھر لوتیں گے کہ نہیں ؟کوئی
خاتون اپنے زیورات اور دوسری ضروری قیمتی اشیاء کے ساتھ گھر لوٹے گی ؟؟
سکول جانے والے بچے بلا خوف و خطر اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں گے ؟؟
محرم میں عزاء دار محفوظ رہیں گے ؟؟ْہم پاکستانی ،بلکہ پاکستانی ،مسلمان
دنیا کے جس ملک میں بھی ہوں ، خواہ عراق ہو ،پاکستان ہو ، بحرین ہو ، ہر
جگہ بدقسمتی کا عفریت ھمارے ساتھ ہے۔ہم کسی خطے مع ب محفوظ نہیں ہیں ، خواہ
ہم بھاگ کر کسی بھی اسلامی ملک میں چلے جائیں ۔دوسری طرف اگر دیکھا جائے ،تمام
یہود و انصار نہ صرف محفوظ ہیں ،بلکہ ان کے ملک میں اگر کتے کا بچہ بھی مر
جائے تو انسانی حقوق کی تنظیمیں واویلا مچا دیتی ہیں ۔این جی اوز حرکت میں
آ جاتی ہیں اور دن رات اس معمے کے حل میں لگ جاتی ہیں کہ کتے کا بچہ مرا
کیوں ؟؟؟ اس کو خوراک دینے میں کوتاہی کی گئی ؟؟؟ اس کو دوا نہیں دی گئی ؟؟
اس کے برعکس ہمارے ملک میں اگر دہشت گردی کے نتیجے میں،ہزاروں قیمتی جانیں
ضائع ہو جاتی ہیں تو حکمران کا غذی کاروا ئی کرتے ہیں جی ہاں محض کاغذی
کاروائی ، جو کاغذ کی طرح دیر پا ثابت ہوتی ہے ۔مغرب میں کتے کے بچے کے
حقوق زیادہ ہیں ، مشرقی ممالک میں انسانی خون کی وقعت پانی سے بھی سستی ہے
۔اور یہ خون مسلسل بہہ رہا ہے ، اس کے کوئی اٹھ کھڑا نہیں ہوتا ہے ۔ اس خون
بہا کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ اس خون بہا کے پیچھے کیا خطرہ ہے جو اہلِِ
مغرب کے دلوں میں ہے ؟اس خطرے کے پیش نظر دنیا کے مانے ہوئے شیطان اکھٹے
ہوتے ہیں ،ان کے اجلاس میں حکمت ِ عملی ترتیب دی جاتی ہے کہ دنیا میں جہاں
بھی عقیدہ تو حید کے پیروکار جہاں بھی ہیں ان کو کیسے کچلا جائے ؟ان کی نسل
کشی کیسے کی جائے ؟ کیسے ان کو مسائل میں الجھا کر اصل مسائل سے کیسے ان کی
توجہ ہٹائی جائے ۔پاکستان، بحرین، کشمیر،فلسطین ، عراق پارہ چنار ،ایسی
بدقسمت سرز مینیں ہیں جو ان کے شیطانی عزائم کو تکمیل پہنچانے کے لیے
زرخیزثابت ہو رہی ہے۔
فلسطین ،پاکستان ، عراق میں جب یہ بربریت دکھاتے ہیں تو پھر منصف بن کر ان
ممالک میں امن و امان نافذ کترے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ ان و امان کے لیے
گوسالہ منصوبے بناتے ہیں ۔اپنی عیاری پر ایک دوسرے کو سراہتے ہیں ، نو بل
انعام دیتے ہیں ۔ امدادی سامان لے کر وہاں پہنچ جاتے ہیں اس امدادی سامان
میں کیا ہوتا ہے ، کیا واقعی امدادی سامان ہوتا ہے؟ جی ہاں امدادی سامان ہی
ہوتا ہے جو ان کے اگلے دہشت گردی کے منصوبے میں کام آتا ہے ۔یہ ٹرکوں میں
امدادی سامان نہیں لاتے بلکہ مزید اسلحہ ، مزید تباہی لے کر آتے ہیں ۔لیکن
ہمیں اس سے کیا ملک میں کیا ہو رہا ہے ۔ ہم ترکی کے سلطان دیکھ کر، کرکٹ
میچ میں دھمال ڈال کر آرام سے سو جاتے ہیں۔کیوں کہ ہمیں دھمالی قوم بنانے
کے لیے مسلسل محنت ہو رہی ہے ۔ ہمیں کسی صورت بیدار قوم نہیں بننے دیا جاتا
۔اگر کہیں سانحہ ہو جاتا ہے تو قوم دوسرے دن کسی کرکٹ میچ میں بھنگھڑا ڈال
رہی ہوتی ہے ۔ہم یہ سوچتے ہیں کہ مرنے والوں کی قسمت میں لکھا تھا اس طرح
سے مرنا ۔ذرا سوچئے ان کی قسمت میں کس نے لکھا تھا اس طر ح مرنا ؟ان کی
قسمتوں میں انہوں نے ہی لکھا تھا مرنا جنکی پرو ڈکٹس استعمال کر کے ان کی
اکونومی کو آسمان پر پہنچا رہے ہیں۔
امن و امان کے نفاذکے لیے کیا جاتا ہے ؟ عام شہری کی ہر چیک پوسٹ پر چیکنگ
کی جاتی ہے ۔ڈاکیو منٹس کی چیکنگ، گاڑی کی چیکنگ، یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا
ہے کہ ہمارے ملک میں قانون توڑنا تو درکنار ، قانون توڑنے کے بارے میں کوئی
سوچ بھی نہیں سکتا۔سوچنے کی بات ہے اگر اتنی سخت چیکنگ ہوتی ہے تو مجرم
کیسے بچ نکلتے ہیں ؟؟ کگتا ہے مجر م سفر کے لیے ہوائی راستے استعمال کرتے
ہیں ۔یا پھر وہ اپنے مادی وجود کو ہوا میں تحلیل کر لیتے ہوں گے ۔ یہ ایسے
ھی تجزیے ہو تے ہیں جو قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے دن رات وقم کو سنوائے
جاتے ہیں۔
شکار پور کی مسجد میں تکفیر یوں نے معصوم نمازیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر
جنت کی حور کے مالک بن گئے۔ روز خون بہہ رہا ہے ۔عوام کو سلا دیا جاتا ہے ۔
ملک جل رہا ہے ۔ سکولوں میں بچے محفوظ نہیں ہیں ۔ چلیں شکر ہے حکمرانوں کی
کرسیاں محفو ظ ہیں ۔عوام کی توجہ ان امور سے ہٹانے کے لیے کبھی گیس کا
بحران، کبھی پیٹرول کا بحران ،کبھی کوئی اور ڈرامہ ، پیدا کر دیا جاتا ہے
۔پالیسی یہ ہے کہ عوام کو اتنی مصیبتوں میں الجھائے رکھو کہ وہ بیدار نہ
ہونے پائیں۔دنیا میں جہاں کہیں بھی بیداری کی تحریک زور پکڑ رہی ہے ،وہاں
ظلم کی تحریک بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔بحرین میں صدیوں پرانی
بادشاہت کے خاتمے کے لیے اور نظامِ ولایت کے نفاظ کے لیے بہتر ہزار عوام
سڑکوں پر ہیں ۔ان کے پاس نوکریاں نہیں ہیں ۔اس تحریک کو کچلنے کے لیے ہر
ممکن ظلم کیا جا رہا ہے ۔لیکن عوامی بیداری کو کچلا نہیں جا رہا۔طاغوتی
طاقتیں اسی بیداری کو کچلنے کے لیے معصوم لوگوں کا خون بہا رہی ہیں تا کہ
سرکوب شدہ ملت کی سرکوبی کو برقرار کھا جائے
موجودہ پرآشوب حالات سے ملت کو نکالنے کے لیے حکومت پر انحصار بہت ہی
بیوقوفانہ عمل ہو گا ۔شکارپور کے سانحے میں کوئی حکومتی نمائندہ اپنی رنگین
مصروفیات سے وقت نکال کراس جائے حادثہ پر نہیں پہنچا۔ ہمیں اپنا دفاع خود
کرنا ہو گا ۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا دشمن موجود ہے۔ہمیں اپنی
حفاظت خود کرنی ہو گی۔بیداری سے ، ہوشیاری سے۔ سیاسی پارٹیاں، علاقائی سیا
ست دان،امر یکہ ہماری حفاظت کیا کریں گے۔پاکستان کا قانون بھی ہمیں اس بات
کا حق دیتا ہے کہ ہم اپنا دفاع کریں۔خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ہمیں یہ کام
کرنا ہے۔پارہ چنار کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔پارہ چنار میں نوجوان اپنی
دفاعی ذمہ داریاں خود سرانجام دے رہے ہیں۔ہمیں بھی ایسے ہی کرنا ہے ۔ اپنی
حفاظت بھی کرنی ہے ،فوج کی حفاظت بھی کرنی ہے، پو لیس کی حفاظت بھی کرنی
ہے۔ خدا ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں محفوظ رکھے انشاء اﷲ۔ |