انسپیکشن

انسپیکشن کالفظ آتے ہی بڑے بڑوں کے ہوش اُڑجاتے ہیں وہ بھی اگر کسی اسکول کا ہوتو سارے اسکول میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوجاتاہے۔ عام طور پر اسکولوں میں انسپیکشن پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت ہوتاہے، اس کے لیے اسکول میں مہینوں پہلے تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں۔ اسکول کی بلڈنگ نئے رنگ روغن و سفیدی سے چمچماتی نئی خریدی ہوئی کار کی طرح ہوجاتی ہے۔ اسکو ل کے درودیوار نئے نئے چارٹس سے سجادئیے جاتے ہیں۔ طلباء کی اخلاقی تعلیم کے لیے مختلف قسم کے سلوگن پینٹ کردیے جاتے ہیں۔ جیسے ’’ایک اسکول کھولنا ایک جیل خانہ بند کرنے جیسا ہے‘‘۔ ’’․․․․․ بلیہاری گرو آپ کے جو گووندیو بتائے‘‘۔ ’’با ادب بانصیب، بے ادب بے نصیب‘‘۔ ’’علم سے انسان بنتاہے․․․․‘‘۔ ’’آنا تیرا مبارک تشریف لانے والے، خوشیاں منارہے ہیں تعلیم پانے والے‘‘ وغیرہ وغیرہ، غرض انسپیکشن سے قبل کی تیاری دیکھنے لائق ہوتی ہیں۔ مخصوص بچوں کو مخصوص سوالات کے جوابات یاد کرادیے جاتے ہیں۔ ہوشیار بچوں کو جو عام طور پر کلاس میں اوّل بینچ پر بیٹھتے ہیں۔ مختلف مقامات پر پھیلادیاجاتاہے تاکہ انسپیکٹر صاحب سوال پوچھیں تو کلاس میں تقریباً ہر کونے سے جواب آئے اورا نسپیکٹرصاحب یہ تاثر لیں کہ پوری کلاس ہوشیارہے۔

ایک اسکول میں ایک انسپیکشن سے قبل بچوں کو سوالات کے جواب تیارکرائے گئے۔ ماسٹر صاحب نے بچوں کو مخصوص نشستوں پر بٹھادیا ، ایک بچے سے جس کا نام بلال تھا کہا: ’’میں سوال پوچھوں گا کہ ہمیں کس نے پیداکیا تو تم جواب دینا خدانے ۔‘‘ اسی طرح ایک دوسرے بچے امین سے کہا: ’’میں جب پوچھوں گا ہمارے دیش کے جھنڈے کا کیا نام ہے تم کہنا، ترنگا۔‘‘ اسی طرح کچھ دوسرے بچوں کو بھی مختلف سوالات کے جوابات یاد کرادیے گئے۔ اتفاق سے انسپیکشن کی مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے ہی انسپیکٹرصاحب اسکول تشریف لے آئے۔ پھربھی پرنسپل صاحب اور اساتذہ کرام نے ان کا نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اُن کی یہ گرم جوشی اس گرماگرم چائے، پکوڑوں و دیگرلوازمات سے بھی جھلک رہی تھی جو انسپکٹر صاحب کی خاطرداری میں موجود تھیں۔ پرنسپل صاحب کے آفس میں معقول ناشتہ کرنے کے بعد انسپکٹر صاحب کو اسمبلی ہال میں لے جایاگیا جہاں بچوں نے مختلف نظموں، ڈراموں اور تقریروں سے معزز انسپکٹر صاحب کا خیرمقدم کیا، پھر انسپکٹر صاحب کو تمام اسکول کی بلڈنگ کا معائنہ کرایاگیا جہاں وہ مختلف چارٹ اور ڈرائنگز کو دیکھ کر نہایت متاثرہوئے اور پرنسپل صاحب کو مبارکباد دی۔ آخر میں نمونے کے طور پر ایک کلاس میں انسپکٹر صاحب کو معائنے کے لیے لیجایاگیا جہاں بچے باتوں میں مشغول تھے۔ کوئی کچھ کھارہاتھا، کوئی باتیں کررہاتھا، کوئی فلمی گانوں کی مشق کررہاتھا تو کوئی ڈیسک پر سر رکھے سورہاتھا۔ انسپکٹر صاحب کے کلاس میں داخل ہوتے ہی ہلچل مچ گئی، ایک بچہ جو مونگ پھلی کھارہاتھا جلدی سے مونگ پھلی مع چھلکوں کے بیگ میں ٹھونس دیں۔ دوسرا بچہ جو طبلے کی تال درست کررہاتھا ، اُس کا ہاتھ اُٹھا کا اٹھا رہ گیا۔ گانے والے کی آواز اُس کے حلق میں ہی اٹک گئی۔ غرض تھوڑی دیربعد کلاس نارمل حالت میں آئی، تب ماسٹر صاحب نے کھنکار کر گلا صاف کیااور بچوں سے انسپکٹر صاحب کا تعارف کرایا۔ سب بچوں نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔ چند لمحوں بعد ماسٹر صاحب نے بچوں کو سبق پڑھانا شروع کیا۔ آخرکار ماسٹر صاحب نے اپنا مخصوص سوال بچوں کے سامنے کیا:
’’بچوں ہمارے دیش کے جھنڈے کو کس نام سے پکارا جاتاہے؟‘‘

جس بچے کو وہ سوال یاد کرایاگیاتھا وہ بمشکل تمام کھڑاہوا۔ اُس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑرہی تھیں کیونکہ رٹنے کے باوجودوہ جواب بھول گیاتھا۔ جب ماسٹر صاحب نے دوتین مرتبہ پیار سے پوچھا تو وہ بولا: ’’جی ․․․․ ننگا‘‘۔ پوری کلاس قہقہوں سے گونج اٹھی۔ ماسٹر صاحب کا چہرہ دیکھنے لائق تھا۔ پھرماسٹر صاحب نے پوچھا: ’’اچھا بتاؤ․․․․ ہمیں کس نے پیداکیا؟‘‘

کلاس میں سنّاٹا چھاگیا۔ کسی نے جواب کے لیے ہاتھ کھڑا نہ کیا۔ ماسٹرصاحب کو پسینے چھوٹنے لگے۔ آخرمیں بہت دیر بعد ایک بچہ کھڑا ہوگیا، وہ بولا سر جس بچے کو خدا نے پیداکیا تھا وہ آج اسکول نہیں آیا۔‘‘ اب ہنسنے کی انسپکٹر صاحب کی باری تھی جبکہ ماسٹر صاحب دائیں بائیں گردن ہلاکر جھینپ مٹانے کی کوشش کررہے تھے۔

ماسٹرصاحب کے پڑھانے اور بچوں کے جوابات سے انسپکٹر صاحب کو بچوں کی تعلیمی قابلیت کا خوب اندازہ ہوگیا تھا پھربھی انسپکٹر صاحب نے سوچا کہ اب بچوں کی انگلش کا امتحان لیا جائے۔
انسپکٹر صاحب: بچوں بتاؤ جلیبی کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟
ایک بچہ : سر راؤنڈ، راؤنڈ، اسٹاپ۔
انسپکٹر صاحب: اچھا بتاؤ آؤٹ اسٹینڈنگ سائنٹسٹ سے کیا مطلب سمجھتے ہو؟
ایک بچہ لپک کر: سرجی ․․․․ باہر کھڑے ہوئے سائنس دان۔
انسپکٹر صاحب: تمہارا نام؟
بچہ: ایس․ این (S.N.)
انسپکٹر صاحب: کیا مطلب؟
بچہ: ساجد ندیم سر۔
انسپکٹر صاحب: باپ کا نام؟
بچہ: ایس․ این (S.N.)
انسپکٹر صاحب: کیا مطلب؟
بچہ: صابر ندیم سر۔
انسپکٹر صاحب: تعلیمی قابلیت کیا ہے؟
بچہ: ایس․ این (S.N.)
انسپکٹر صاحب: کیا مطلب؟
بچہ: ساتویں میں نو بار فیل۔
انسپکٹر صاحب: اپنا رزلٹ بھی سن لو۔
بچہ: وہ کیا سر؟
انسپکٹرصاحب: ایس․ این (S.N.)
بچہ: کیامطلب سر؟
انسپکٹرصاحب: ستیاناس۔

انسپکٹرصاحب تھکی سی آواز سے مخاطب ہوئے— بچوں بتاؤ انسان کے جسم میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں۔
ایک بچہ ہاتھ کھڑاکرتاہے۔
انسپکٹرصاحب: ہاں شاباش ! تم بتاؤ۔
بچہ: جی 105۔
انسپکٹرصاحب: شاباش! اچھا بتاؤ سب سے چھوٹی ہڈی کون سی ہوتی ہے؟
بچہ چپ کھڑا رہتاہے۔ اُدھر پیچھے سے ماسٹر صاحب منہ بناکر اس کو بتاتے ہیں ’’کان‘‘ بچہ جھٹ سے کہتاہے ’’ٹانگ‘‘۔
اب انسپکٹرصاحب نے مایوسی کے عالم میں حساب کا امتحان لینے کے ارادے سے سوال کیا۔
انسپکٹرصاحب: بچوں بتاؤ بارہ کو چھ سے کتنی بار تقسیم کیا جاسکتاہے؟
بچے خاموش رہتے ہیں۔ کئی بار پوچھنے پر بھی خاموشی چھائی رہتی ہے۔ اِدھر ماسٹرصاحب انسپکٹرصاحب کے پیچھے سے بچوں کو دواُنگلیوں کو اُٹھاکر بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دو ۲ ۔ ایک بچہ ماسٹر صاحب کے اشارے کو دیکھ لیتاہے جھٹ سے ہاتھ کھڑا کرتاہے۔
انسپکٹرصاحب: ہاں شاباش تم بتاؤ۔
بچہ: ’وی‘ یعنی وکٹری۔
انسپکٹرصاحب مایوسی سے گردن ہلاتے ہوئے اچھا بچوں بتاؤ پانڈو کتنے بھائی تھے؟
ایک بچہ: سر․․․․ پانچ۔
انسپکٹرصاحب: شاباش! اچھا ان کے نام تو بتاؤ۔
ہال میں پھر سنّاٹا چھاگیا۔ انسپکٹر صاحب نے ایک بچہ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا: ’’تم بتاؤ‘‘۔
بچہ: خاموش کھڑارہتاہے۔
انسپکٹرصاحب: اور کوئی بتائے گا؟
آخرکار ایک کونے سے ایک بچے نے ہاتھ اُٹھایا۔
انسپکٹرصاحب: شاباش ! دیکھو اس بچے کو بھی تو معلوم ہے ․․․․ ہاں بیٹے پانچوں بھائیوں کے نام بتاؤ۔
بچہ: جی․․․․ ایک بھیم، دوسرے ارجن․․․․ ایک اور ․․․․․ ایک اور․․․․ اور․․․․ایک ․․․․یاد نہیں۔
انسپکٹرصاحب حیران ہوکر استاد کی طرف دیکھتے ہیں— پھراگلا سوال کرتے ہیں۔
انسپکٹرصاحب: اچھا بچوں بتاؤ سیتاجی کے سوئمبر میں دھنش کس نے توڑا تھا؟
کلاس میں پھر سنّاٹا چھا جاتاہے۔ انسپکٹر صاحب سوال دوہراتے ہیں۔ پھربھی کوئی بچہ جواب نہیں دیتا۔ کچھ دیر بعد وہ ایک بچہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
انسپکٹرصاحب: ہاں بیٹا ! تم بتاؤ؟ وہ بچہ سرجھکائے کھڑا رہتاہے۔ پھر انسپکٹرصاحب دوسرے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھتے ہیں۔ وہ بھی اسی طرح چپ سادھے کھڑارہتاہے۔ آخرکار انسپکٹرصاحب ایک تیسرے بچے سے وہی سوال پوچھتے ہیں۔ وہ بچہ بھی کہتاہے: ’’جی مجھے نہیں معلوم‘‘۔ ایک اور چوتھے بچے کو کھڑا کرکے اُس سے سخت لہجے میں پوچھتے ہیں: ’’تم بتاؤ دھنش کس نے توڑا؟‘‘ وہ اور زیادہ گھبراجاتاہے اور جلدی سے کہتاہے:
بچہ: جی میں نے نہیں توڑا۔
انسپکٹرصاحب: کیا بکتے ہو ؟
بچہ: بھگوان قسم میں نے نہیں توڑا ․․․․جی۔
انسپکٹرصاحب: یہ بچہ کیا کہہ رہاہے؟
ماسٹر صاحب: جی صحیح کہہ رہاہوگا، یہ کلاس کا بہت شریف بچہ ہے، اس نے نہیں توڑا ہوگا۔
انسپکٹرصاحب: پرنسپل صاحب یہ کیا مذاق ہے ․․․․؟
پرنسپل صاحب: جی ․․․․بچے ہیں․․․․ کھیل کھیل میں توڑدیا ہوگا، آپ ناراض نہ ہوں ہم دوسرا منگوادیں گے۔
انسپکٹرصاحب: ہائے کہتے ہوئے بے ہوش ہوکر گرپڑتے ہیں۔
Rahat Ravish
About the Author: Rahat Ravish Read More Articles by Rahat Ravish: 4 Articles with 3416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.