ہر صبح کو ہے انتظارِ ’’ کِرن‘‘
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
بڑا ہی عجیب نظامِ انصاف ہے
ہمارے ملک کا، کوئی عام معاملہ ہو یا کوئی سنگین تر معاملہ ، کمیٹی دَر
کمیٹی ، کمیشن دَر کمیشن قائم کئے جاتے ہیں ۔ ان کے قیام سے لے کر اختتام
تک پانی کی طرح پیسہ لگایا جاتا ہے مگر پھر بھی انصاف نہیں ملتا۔ بس یہی
اُمید لگائے اس ملک کے عوام بیٹھے ہیں کہ ’’ ہر صبح کو ہے انتظارِ
کرن‘‘ہمارا ملک یقینا ایک جمہوری ملک ہے۔ ایسا جمہوری ملک جس کا آئین اس
ملک کے ہر شہری کے جان و مال، اس کے مذہب اور اس کی عبادت گاہوں کو تحفظ
فراہم کرتا ہے، لیکن اس جمہوری ملک میں آئین کے اِن خوبصورت الفاظ کی
موجودگی کے باوجود اس ملک کی آزادی کے بعد سے آج تک عوام پر مسلسل ظلم ہی
کیا جاتا رہا ہے، آج بھی عدالت جاؤ تو ایک جمِ غفیر لگا ہوا ہے مگر فیصلہ
نہیں آتا۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جمہوری ملک میں برسرِ اقتدار آنے
والی ہر جماعت ، سابقہ جماعت کو کوستی رہتی ہے ۔ ایسے جمہوری ملک میں جہاں
جمہوریت کی آڑ میں نا انصافی ہی انصافی ہوتی رہتی ہے، احتجاج، شکوہ و
شکایات، مذمت کرنا ، نوٹس کا لے لینا، ان سب کے باوجود کیا ہر بار کسی ہ
کسی سیاسی پارٹی کے وعدے پر اس کی حمایت کا اعلان کرنا زیب دیتا ہے؟کیونکہ:
میری نگا میں منزل کے ہیں نشاں کچھ اور
دِکھا رہا ہے مجھے میرِ کارواں کچھ اور
کراچی پاکستان کا دل ہے۔ تاریخ نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہاں بابائے قوم
کا مزار بھی واقع ہے۔ جنہوں نے ’’ ایمان، اتحاد، تنظیم کو اس ملک کا حصہ
بنایا۔ پاکستان کا سب سے بڑا بندرگاہ بھی یہیں واقع ہے جس کے ذریعے پورے
پاکستان کو ترسیل کا کام سر انجام دیا جاتا ہے۔کتابوں اور نوادرات سے مالا
مال لائبریریاں، درگاہیں، جامعات، میوزیم اور کالجز قدیم کراچی کی یاد
دلاتے ہیں۔ یہاں پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے بڑے بڑے سائنسداں،
دانشور، علماء و فضلا، شاعر و ادیب اور محقق صدیوں سے آت رہے ہیں اور ہنوز
یہ سلسلہ جاری ہے ۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کنڈیکٹر ہو مسافر دونوں کو
ایمانداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کنڈیکٹر کی ایمانداری یہ ہے کہ وہ
مسافر سے اگر کرائے کے پیسے لیتے ہیں تو ان کو ٹکٹ بھی دے دیں اور مسافر کو
چاہیئے کہ اپنی منزلِ مقصود تک کا ٹکٹ ضرور لیں۔ غالباً میری بات سمجھ گئے
ہونگے آپ سب کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں۔ اس کنڈیکٹر اور مسافر میں ہی سب
راز پوشیدہ ہے کہ کب ، کیسے زندگی گزارا جائے تو ترقی مل سکتی ہے۔بدعنوانی
نہ کریں ، دھوکہ دہی نہ کریں، ویسے بھی دھوکہ دہی اور بدعنوانی کرنا جھوٹ
بول کر کسی بھی کام کو انجام دینا سراسر غلط فعل ہے۔ چاہے وہ سرکاری ادارہ
ہو یا کوئی پرائیویٹ ادارہ آپ پوری ایمانداری اور سچائی کے ساتھ اپنے فرائض
کو انجام دیں، تاکہ آپ کی ذات سے کسی نقصان نہ پہنچے اور دوسرے آپ کے پیچھے
آپ کی مثال دیں اور آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں۔ یہی وطیرہ
حکمرانوں کو بھی اپنانا چاہیئے تاکہ اُن کا وقار عوام میں بلند ہو سکے۔
آج پورے ملک میں عوام جس دورِ ابتلاء و آزمائش سے گزر رہے ہیں وہ کسی سے
پوشیدہ نہیں ہے۔ جدھر دیکھو ان کی عزت و ناموس سے کھلواڑ ہو رہا ہے، ان کے
گھروں اور محلوں کو دنگائی چشمِ زدن سے دیکھا جا رہا ہے۔ کراچی سے پشاور تک
جس کی سینکڑوں زندہ مثالیں موجود ہیں۔ عوام کی امن پسندی و وطن دوستی کا
مذاق اڑایا جاتا ہے، یہ تو محض اﷲ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے کہ اس ملک میں اب
تک یہ ملت زندہ ہے ورنہ اس کو نیست و نابود کرنے لوگوں نے کیا کیا جتن نہ
کئے ہیں اور کیسی کیسی سازشیں نہ رچائی ہیں۔ ان سب معاملات کو عوام کی
بدنصیبی سے ہی تشبیح دیا جا سکتا ہے کہ فسطائی طاقتیں اور شر پسند عناصر
عزت و ناموس اور جان و مال پر دست دراز کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ان کی
نگاہ میں من حیث القوم ملتِ اسلامیہ ہی کیوں ہوتی ہے۔ مگر حکمران صرف وعدے
کرتے نظر آتے ہیں عملی طور پر ابھی تک عوامی بھلائی نظر نہیں آ رہی۔ اگر
کوئی یہ تہیہ کرکے ہی بیٹھا ہو کہ حالات سے اسے سبق نہیں سیکھنا ہے تو اس
کے لئے سوائے دعا کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔شاعری کی زبان میں کچھ
عرض کرنا چاہوں گا کہ:
تم نے بھی اپنے چہرے پر اک چہرہ رکھ لیا
ایسے ہی لوگوں کی بڑی عزت ہے کیا کروں
سارے وکیل اس کے ہیں، سارے گواہ بھی
منصف وہی، اُسی کی عدالت ہے کیا کروں
میں میر کے زمانے میں رہتا ہوں کیا جاوید
کراچی کے جیسی دل کی بھی حالت ہے کیا کروں
جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہوتی ہے جس کا وجود عوام کے ذریعہ اور عوام
کے لئے اصول کا مرہونِ منت ہے۔ یہی سبب ہے کہ عوام کی شراکت داری سے کسی
حکومت کے وجود میں آنے کے باوجود جب عوام ہی کے کسی حلقہ سے حکومت کے کسی
کام کرنے یا کام نہ کرنے کے سبب عوامی غیظ نمودار ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ
احتجاج ہوتا ہے۔ اس پر دو باتیں ہی حکومت کو کرنا ہوتا ہے ایک تو نوٹس لینا
اور کئی مرتبہ پس روی بھی اختیار کر لیا جاتا ہے۔ یہی جمہوریت ہے اور اس کی
روشنی میں حکومت عوام کے مزاج اور رد عمل کو دیکھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملی
میں ضروری اصلاح و تطہیر کرتی ہے۔ مگر کیا بدلیاتی الیکشن ہوئے؟ نہیں اور
کب ہونگے اس کا پتہ نہیں تو عوامی سطح پر ابھی تک طرزِ حکمرانی نہیں اپنائی
گئی۔بہرحال حکومت کے ارباب بست و کشاد اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ کون سا
فیصلہ کب لینا ہے۔ مگر یہ یاد دہانی کرانی ضروری ہے کہ فی الفور بلدیاتی
الیکشن کراکے اقتدار نچلی سطح تک پہنچایا جائے تاکہ عوام اس سے مستفید ہو
سکیں۔
اگر ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیاں انتخابی اصلاحات کے لئے واقعی سنجیدہ ہیں
تو انہیں اصلاحات کی طرف فوری توجہ دینا چاہیئے اور کمیٹی بنا کر اس کی
سفارشات پر عمل پیرا ہونا چاہیئے۔ اس وقت ملک کے پارلیمانی نظام کو سب سے
بڑا خطرہ جرائم پیشہ عناصر اور ٹارگٹ کلنگ سمیت لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، گیس کی
لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، پیٹرول کی طرح بنیادی ضروری اشیاء پر قیمتوں میں کمی
کا اطلاق اور روزگار کا مہیا کرنا لازمی امر ہے۔ یہ چند چیزیں اگر فوری طور
پر لاگو ہوگئیں تو عوام کی خاطر خواہ دا د رسی ہو جائے گی۔ اسی لئے تو کہتا
ہوں کہ ’’ ہر صبح کو ہے انتظارِ کرن۔ |
|