درخواست بنام سرکار’ ’ شیر ‘‘

بعداز سلامِ مسنون باخدمتِ عالی مرتبت جناب عزت معاب شیر صاحب!
حضورِوالا کیا عرض کروں حال کی کہ اب کوئی حال ہی نہیں رہا ، حال تو حال ماضی بھی حال جیسا تھا، اب مستقبل بھی حال جیسا معلوم پڑتا ہے۔پریشانی کا یہ عالم ہے کہ راتوں کی نیندیں اُڑ گئی ہیں، تمام جاندار پریشان ہیں،کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔آپ کی سلطنت میں صحت ،تعلیم ،عدل وانصاف نا پید ہو چکا ہے ،ہر روز سینکڑوں جانداروں کو جنگلی بھیڑئے ہلاک کر ڈالتے ہیں بڑے تو بڑے بچے بھی اُن کے شر سے محفوظ نہیں،جہاں دل کرتا ہے جب دل کرتا ہے ہمارے بھائیوں کو مار دیا جاتا ہے اور بچوں کوہلاک کردیا جاتا ہے، نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال۔سب سے بڑھ کر ایک اور مسئلہ ہے اور وہ یہ کی جنگل میں قحط کا سماں ہے نہ صاف پانی ملتا ہے نہ خالص خوراک اور جو ملتا ہے اُس کی قیمت آسماں سے باتیں کرتی نظر آتی ہے جوکہ تقریباََ سب کی پہنچ سے باہر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کو غیر محفوظ سمجھنے والے والدین اس بات سے زیادہ پریشان نظر آتے ہیں کہ اب اساتذہ کے ہاتھ میں بھی بندوق ہوگی۔ یہ تو گھر سے باہر کے حالات تھے اب گھر کے بھی ملاحظہ ہوں مجھے یقین ہے کے یہ سننے کے بعد آپ دھاڑیں مارمار کر رو پڑیں گے۔حضورِوالا آپ کے ہر دل عزیز ووٹران کے گھروں میں نہ تیل ہے نہ پانی نہ گیس، بجلی کبھی کبھی آتی ہے تو ہم دل بہلانے کو ٹی وی لگالیتے ہیں مگر کیا کریں صاحب اس میں بھی چند شر پند صبح شام آپ کو کوستے نظر آتے ہیں(کوسنا صرف اس لئے کہا کے آپ کو برا نہ لگے)۔ایک شر پسند تو یہاں تک کہ گیا کہ آپ سے پہلے پانچ سال جو تیر سے زخمی ہوئے تھے اب شیر کا شکار بن رہے ہیں۔ میں نے آپ کو ووٹ ڈالا تھا جب یہ بات میرے بیوی کو معلوم ہوئی تو میری جان کو بن پڑی ،نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ بیلن سے میرا سرپھاڑا اور گئی اپنے والدین کے ہاں۔سارا کام اُس شکاری نے خراب کیا ہے سرکار ۔سب کو آپ کی ایسی ایسی باتیں بتا گیا ہے کہ کچھ نہ پوچھیں،بچہ بچہ اُسی کے گن گاتا نظر آتا ہے ۔سونے پہ سہاگہ ! بلّی اماں پرانے جنگل والی نے خواب بھی دیکھ لیا ہے
کہ’’ حضور کاانجام بھیانک دکھتاہے‘‘ ۔

ہوتا نہ ہوتا یہ نہ ہوتا،کیوں کہ ویسے تو کہا جاتا ہے کی ’’بلّی کو چھچھڑوں کے خواب ‘‘ جو پورے نہیں ہوتے، مگر بلّی اماں کا ہر خواب پورا ہو تا ہے ۔ تعبیر پوچھی تو بولی کہ پہلے جنگل میں سپاہی آئے تھے شیر بھاگ گیا تھا ،مگر اب کے شکاری آیا ہے ۔۔۔ پتا نہیں اِس کا کیا مطلب ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ حالات اچھے نہیں۔اماں سے پوچھا کے شیر نے ایسا کیا کیا ہے تو بولی کے شیر سب کھا گیا ہے اور اسی وجہ سے حالات خراب ہیں ۔ اور اب آخری جھٹکے کی دیر ہے اور اماں کے مطابق شکاری آخری وار کرنے پھر سے آرہا ہے ۔حضور مجھے تو ان سب کی باتوں سے آپ کی حالت اُس بادشاہ کی سی معلوم ہوتی ہے کہ جس کا نام بطورعلامتِ عبرت لیا جاتا ہو ۔حضور کچھ کریں کیوں کہ اس جنگل کی بھلائی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور اس کی بقاء میں ہماری بقاء ۔ اب سارے جنگل میں من کا مسمی میں ہی آپ کا واحد گرویدہ باقی رہ گیا ہوں اور وہ بھی پتہ نہیں کب تک مگر خدارا کچھ کریں رعایا کے دل سے محبت کا نکل جاناایک بات مگر اس کی جگہ نفرت کا پیدا ہونا بہت خطرے والی بات ہے ۔

ایک کسان اور گلہری کی دوستی ہو گئی ، ایک دن کسان اپنے دو بیل گلہری کی نگرانی میں دے کر کہیں کام چلاگیا واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ گلہری کبھی اُپر جاتی اور کبھی نیچے ، کسان نے پوچھا کے میرے بیل کہاں ہیں ۔گلہری بولی’’ بیلوں کو چھوڑو یاراںآنیاں جانیاں دیکھو‘‘ آپ کے رفقاء کی آنیاں جانیاں آپ کو مروادیں گی ۔میرا تو آپ کو یہ ہی مشورہ ہے کہ یا تو اپنے رفیق بدل لیں یا اپنا پیشہ۔
العارض
مملکتِ شیر کا باسی
muhammad sibghatullah shah
About the Author: muhammad sibghatullah shah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.