آج دنیا کاروباری معاملات میں
جدت کا شکار ہے۔کاروباری مسائل اور ان کے حل کے لئے دنیا بھر کی
یونیورسٹیوں میں کام ہو رہا ہے۔کاروباری حضرات کو ہر طرح کا کام انجام دینے
کے لئے اہل افراد دستیاب ہیں۔مگر جب یہ سب کچھ نہیں تھاتب بھی لوگ کاروبار
چلاتے تھے اور فقط ذاتی ذہانت کے بل بوتے پر اسے بلندیوں پر لے جاتے
تھے۔دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں جو آج انتہائی جدید انداز میں کام کر رہی ہیں
ان میں بہت سی ایسی نظر آئیں گی جو آج سے کئی دہائیوں پہلے کسی فرد واحدنے
شروع کیں اور اپنی محنت سے اسے اس مقام تک لے گئے کہ قدیم ہونے کے باوجود
جدت اور بزنس میں آج بھی صف اول میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
پنجاب میں کاروبار کے حوالے سے جب بھی بات ہو، کہتے ہیں کہ ہٹی ۔ چٹی اور
کھٹی ۔ ہٹی یعنی پہلے دکان بنائی جائے۔چٹی یعنی پھر دکان کے اخرجات
اورگھاٹا اٹھایا جائے پھر کھٹی یعنی اس کے بعد کہیں جا کر انسان کمانا شروع
کرتا ہے۔ تاریخ میں بہت سے واقعات کچھ ایسے عجیب سے بھی ہیں کہ لوگوں نے
کچھ شروع کیا۔ ان کا مقصد کچھ اور تھا مگران کی فہم وفراست نے انہیں نئے
راستے فراہم کئے اور حادثانی طور پر ان کاکاروبار ایک نئی ڈگر پر چل نکلا۔
وہ کاروبار جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سو چا بھی نہ تھا۔ کسی حادثے
یاکسی اور پس منظر میں اتفاق سے چلنے والا کاروبار انہیں زندگی میں انتہائی
کامیاب کر گیا۔ وہ ایک عظیم کاروبار کے بانی قرار پائے اور دنیامیں نامور
ٹھہرے۔
کوکا کولا اس وقت دنیا کاسب سے زیادہ بکنے والا مشروب ہے کوئی دوسرا مشروب
فروخت کے لحاظ سے اس کے قریب بھی نظر نہیں آتا۔ 1886 ء میں جب کوکا کولا
پہلی دفعہ متعارف کرایا گیا تو اس پر کل 75 ڈالر سالانہ خرچ آیا ۔ مگر اس
کی سال بھر کی کل فروخت فقط 50 ڈالر تھی ۔اگلے سال کچھ لوگوں نے ان کے ساتھ
شراکت کر لی اور انہیں ان کے فارمولے کے 220 ڈالر دئیے ۔بہت کم لوگوں کو یہ
معلوم ہے کہ ابتدا میں یہ ایک مشروب نہیں تھا بلکہ ایک درد کو دور کرنے
والی دواکے طورپر مارکیٹ میں متعارف کرایا گیاتھا۔کولمبیا میں خانہ جنگی
جاری تھی کرنل جان پمبرٹن(John Pemberton) اس جنگ میں شدید زخمی ہوگیا۔
سینے پر زخموں کی درد کو دور کرنے کے لئے اس نے مارفین کا استعمال شروع
کیا۔وہ بنیادی طور پر ایک فارماسسٹ تھا۔اور فوج میں شامل ہونے سے پہلے اس
نے فارمسٹ کا لائسنس حاصل کیا ہو ا تھا چنانچہ اس نے مارفین کے خطرناک
اثرات سے پاک درد کو دور کرنے والی ایسی دوا جس میں افیون شامل نہ ہو، کی
تیاری کا کام شروع کیا اورایک نیامشروب بنانے کے تجربات شروع کئے۔ جلد ہی
کافی محنت کے بعد انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق مارفین کے خطرناک اثرات سے
پاک شراب نما ایک ایسا مشروب تیارکرلیاجس کا مقصد سکون دینا تھا۔ اس مشروب
کی 8 مئی 1886 ء کو درد کود ور کرنے والی دوائی کے طور پر
اٹلانٹاجورجیا(Atlanta Georgia) کی ایک دکان جیکب فارمیسی پر فروخت شروع کی
گئی۔ اس کی ابتدائی قیمت فقط پانچ سینٹ فی گلاس تھی ۔کافی عرصے تک یہ مشروب
درد کو دور کرنے اور جنسی طاقت بڑھانے کے لئے استعمال ہوتا رہا۔ 1893 میں
کرنل جان پمبرٹن کے ایک دوست نے اس مشروب کا نام کوکا کولا رکھا جو آج تک
اسی نام سے موسوم ہے۔1905 سے اس کی فروخت گلاسوں کی بجائے بوتلوں میں شروع
ہو گئی۔آج دنیا بھر کے 500بڑے مشروبات میں کوکا کولا پہلے نمبر پر ہے اور
دنیا کے 200 ممالک میں فروخت کے لحاظ سے مشروبات میں اس کا حصہ 47 فیصد ہے
۔ یعنی تقریباٍ آدھا۔ دنیا کے تمام مشروب جس قدر بکتے ہیں، کوکاکولا اکیلے
کی فروخت تقریباً اتنی ہے۔ کوکا کولا کمپنی امریکہ میں رجسٹر ہے مگر اس کی
آمدن کا 80 فیصد امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک سے حاصل ہوتاہے۔
ڈیوڈ مکنل(David H Mc Conell) کی یونین پبلشنگ کمپنی کے نام سے ایک کمپنی
تھی اور وہ چل پھر کر کتابیں بیچتا تھا۔ وہ صبح کو شیکسپئر کی کتابیں
اٹھائے نکلتااور گلیوں اور بازاروں میں بیچ کر شام کو گھر واپس آجاتا۔ سارا
دن فروخت کے دوران اسے دو مشکلات کا سامنا ہوتا۔ ایک چونکہ گھروں میں صبح
کے وقت مرد نہیں ہوتے تھے اسلئے عورتیں دروازہ ہی نہیں کھولتی تھیں او ر جو
دروازہ کھو لتیں وہ عورتیں کتابیں دیکھ کر خریدے بغیر واپس دے دیتی تھیں۔
اس لئے مکنل نے انتہائی سوچ بچار کے بعدپہلے تو ہر کتاب کی خرید پر عورتوں
کو خوشبو (Perfume) کی ایک چھوٹی سی شیشی دینی شروع کی۔ اس کی یہ تدبیر
کامیاب رہی اور خواتین نے خوشبو کے لالچ میں اس کی کتابیں خریدنا شروع
کردیں۔ دوسری مشکل کے ازالے کے لئے کہ صبح کو عورتیں گھر میں اکیلی ہوتی
تھیں اور بہت سی عورتیں اکیلی ہونے کے سبب دروازہ کھولنا اور با ت کرنا
پسند نہیں کرتی تھیں۔ اس نے کچھ خواتین کو اپنے ساتھ فروخت کے لئے مدد گار
کے طور پر رکھ لیا۔ اس وقت جب کہ خواتین کا کام کرنامعاشرے کا نا پسندیدہ
فعل اور ایک محال کا م تھا۔بلکہ اس دور میں خواتین کو ملازمت ملتی ہی نہ
تھی کیونکہ عورت کو ملازم رکھنے کا رحجان ہی نہیں تھا، مکنل کا یہ اقدام
ایک انتہائی انقلابی قدم تھا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد عورتوں کی دلچسپی دیکھتے
ہوئے مکنل نے خوشبو کی شیشیوں کی باقاعدہ فروخت شروع کر دی۔ یہ فیصلہ
انتہائی سود مند ثابت ہوا اورعملاً مکنل کا تمام کاروبار خوشبو کی شیشیوں
تک سمٹ گیا۔ یونین پبلشنگ کمپنی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ ایک نئی
کیلیفورنیا پرفیوم کمپنی وجود میں آ گئی۔ عورتوں کے حوالے سے بات کی جائے
تو مکنل کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے عورتوں کو عملی زندگی کا حصہ
بنانے میں پہل کی۔ 1902 میں کمپنی کی ملازم خواتین کی تعداد دس ہزار تھی
اور خواتین کو ملازمت مہیا کرنے والی یہ پہلی کمپنی تھی۔اس سے پہلے خواتین
گھر کے کاموں تک محدود تھیں اور گھر سے باہر کسی جگہ کام کرنا ان کے لئے
ایک خواب سے کم نہ تھا۔
اے ون (Avon)کے نام سے کمپنی کی پہلی پروڈکٹ 1902 میں منظر عام پرآئی۔ 1932
میں کیلیفورنیا پرفیوم کمپنی نے اے ون (Avon)کو ٹریڈ مارک کے طور پر
استعمال کرنے کی ابتدا کیاور اس ٹریڈ مارک کے ساتھ اپنی پہلی پروڈکٹ مارکیٹ
میں متعارف کرائی۔1939 میں کمپنی نے اپنا نام بدل کر اے ون (Avon)رکھ لیا۔
1946 میں یہ سٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہوئی اور اس کا کاروباردن بدن پھیلتا
گیا۔2011 میں کمپنی نے اپنے125 سال مکمل ہونے کا جشن منایا۔ اس وقت دنیا کے
100 سے زیادہ ممالک میں کمپنی کے ساٹھ (60) لاکھ سے زیادہ نمائندے کام کر
رہے ہیں جو کمپنی کی 202 مختلف خوشبویات کی فروخت کے ذمہ دار ہیں آج اے
ون(Avon)دنیا کا قدیم ترین اور جدید ترین پرفیوم ہاؤس ہے۔
دنیا بھر میں ہر وقت اور ہر دور میں ایسے لو گ موجود ہوتے ہیں جواپنی محنت
اور ہمت کے بل بوتے پر کسی بھی وقت کوئی کاروبار شروع کرکے اسے کامیابی سے
ہمکنار کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں مگر یہاں
کاروبار کو سیاست سے منسلک کر دیا گیا ہے۔سیاسی لٹیرے سیاست کو کاروبار بنا
چکے ہیں۔ یہ لوگ ذہانت اور محنت کے دشمن ہیں۔اسی لئے پاکستانی نوجوان بہت
بڑی تعداد میں اس ملک کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔یہ حالت اس وقت تک برقرار رہے
گی جب تک سیا ست کاروباری لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔کاش اس ملک کی سیاست میں وہ
لوگ سامنے آئیں جو سیاست کو خدمت جانتے اور جواب دہی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ |