اردو انگریزی شاعری کا تقابلی جائزہ
(Mushtaq Ahmad Kharal, jatoi)
تخلیق کائنات ہی سے ذوق حسن
انسان کا شیوہ رہاہے ۔محبت ونفرت کے جذبات کی ابتداء اتنی قدیم ہے جتنی و
جود انسانی کی ۔بیان حسن کے اند ازبدلتے رہے ہیں لیکن بنیادی حسن لاتغیر
رہا ہے۔ محبوب کی ہر ادا ،اس کی زلفیں، اس کی چال اور اس کی آنکھوں کو
لفظوں کا اس طرح روپ دیا گیاکہ اس کی چاشنی روح کی گہرائیوں تک اتر گئی۔
زبان کوئی بھی ہو جذبات اور احساسات تو یکساں رہتے ہیں۔ آج ہم اردو شاعری
اور انگریزی شاعری میں مماثلث اور مشابہت کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اردو ادیبوں اور شاعروں نے شاعری کی تعریف کچھ یوں کی ہے ’’شاعر ی لفظوں کا
وہ ہیرپھیر ہے جو کسی کے دل میں گھر کر جائے یا شاعری ایک خاص وجدانی کیفیت
کا نام ہے جب تخیل اوج ثریا کو چھوتا ہے ’’ورڈزوتھ نے شاعری کی تعریف اس
طرح کی ہے ‘‘ جذبات کی طاقتور رومیں خود بخود بہہ جاناA Spontaneous
overflow of powerful feeling کا لرج نے مزید اضافہ کیا ہے
And thought recollected in tranquality (خاموشی اور پر سکون ماحول میں
یکجاکئے گئے خیالات)۔
اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ شاعری دل کی آواز ہے یا دماغ کی پکار،
شاعری مشکل زبان میں ہونی چاہیے یا پھر سادہ عام فہم ، شاعری کا موضوع
انسان کی اپنی ذات ہونی چاہیے یا اس کا محور اردگرد کی دنیا ۔اس بحث میں
ہمیں اردو ادب اور انگریزی ادب میں دوادوارملتے ہیں اردو ادب میں غالب کا
دوراور مومن کا دوراور انگریزی ادب میں کلاسیک دور اور رومانوی دور۔ غالب
اور اس کے ہم عصر مشکل زبان کے قائل تھے جیسا کہ ان کی شاعری میں الفاظوں
کا چناؤ بہت مشکل کیا گیا ہے جیسے
درس عنوان تماشا، تغافل خوشتر ہے
نگہ رشتہ شیراز ہشر گان مجھ سے
مومن نے لفظوں کونکھارنے کی بجائے جذبات کی آمیزش کوزیادہ اہمیت دی ۔
تم میر ے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
انگریز ی ادب میں ڈرائڈ ن اور پوپ جن کا تعلق کلاسیک دور سے ہے شاعری میں
مشکل زبان اور دیف قافیے کی پابندی کے قائل تھے جب کہ کیٹس، شیلے اور
ورڈزورتھ آسان ،قابل فہم اور عام استعمال کی زبان اور ادب کو پابندیوں سے
آزادرکھنے کے حق میں تھے ۔
جہاں تک محبوب کی سنگ دلی اور عورت کی روائتی بے وفائی کا ذکر آیا ہے
توکیٹس کی نظمLa Belle Dam Sans Merci ’’قاتل بے رحم حسینہ ‘‘ اور اردو غزل
’’اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہواتھا ‘‘ میں کافی حدتک مماثلت پائی جاتی
ہے۔
امید کی شاعری میں انگریزی ادب میں شیلے اوراردو ادب میں اقبال کی سوچ میں
کافی حد تک یکسانیت موجود ہے۔
اب ہم محبو ب کی اداؤں کا کچھ تذکرہ کرتے ہیں ان اداؤں کے بیان میں ہمیں
ولی دکنی ملتے ہیں جو اپنے محبوب کے حسن و جمال اور اداؤں کو جس طرح بیان
کرتے ہیںیہ ملکہ شاید ہی کسی اور شاعر کو حاصل ہواہوگا ۔
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سو ں کہوں گا
جادو ہیں تیرے نین غزالاں سو ں کہوں گا
فیض احمد فیض کے نزدیک تو محبوب کی آنکھوں کے سوادنیا کی کوئی بھی چیز کوئی
وقعت نہیں رکھتی ۔
تیری آنکھوں کے سوا دنیامیں رکھا کیا ہے
محبوب کی زلفیں کبھی تو کالی گھٹائیں بن جاتی ہیں تو کبھی پھندہ اسیری ،
شاعری کی صنف میں میرید طولیٰ رکھتے ہیں ۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرہوئے
سب اس کی زلفوں کے اسیر ہوئے
ہندوستانی شاعرتو کچھ یوں مشورہ دیتے دکھائی دیتے ہیں
آپ زلف جانا ں کے خم سنواریے
زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے
انگریزی شاعری میں پوپ نے اپنی محبوب کی مسکراہٹ اور سورج کی کرنوں میں
تشبیہ کچھ یوں تلا ش کی ہے
Blinda smiles, and all the world was gay
علامتی شاعری یا Symbloism میں انگلش شاعری میں رابرٹ فراسٹ، ڈبلیو بی
ییٹس، ٹی ایس ایلیٹ ، براؤننگ اور ایس ٹی لارینس عروج کی بلندیوں کو چھوتے
ہیں ۔ انہوں نے گلاب کے پھول کو کبھی خوشبو کی علامت قرار دیاہے تو کبھی
خوبصورتی کی اور کبھی تو مختصر حیات کی ۔اردو ادب میں فراز نے اس کی
ترجمانی کچھ یوں کی ہے ۔
تیری قربت کے لمحے پھول جیسے
مگر پھولوں کی عمر بہت مختصر
علامتی شاعری کا ایک اور مقبول عنصر بلاواسطہ حوالہ جات ہیں
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
ناحق قتل پروانے کا ہو گا
اس کے علاوہ ن ۔م راشد بھی علامتی شاعری کے اعلیٰ شاعر گزرے ہیں۔ اوراسی
طرح مجید امجد لکھتے ہیں ۔
کنویں والا گادی پہ لیٹا ہے
مست اپنی بنسی کی میٹھی صدامیں
کہیں کھیت سوکھا پڑا رہ گیا ہے
اورنہ اس تک کبھی آئی پانی کی باری
عشق حقیقی اور عشق مجازی کا خوبصورت امتیاز پیدا کرنے والے شاعروں میں میر
درد ،اصغرگونڈوی اور خواجہ حیدرعلی آتش اپنا ایک خاص ممتاز رکھتے تھے ۔
تیرا جمال ہے تیرا خیال ہے تو ہے
مجھے یہ فرصت کاوش کہاں کہ کیا ہوں میں
جبکہ انگریزی شاعری میں اس طرز کا واحد شاعر جان ڈن ہی ہے۔ مذہب اور حب
الوطنی جیسے عنوانات پر شاعری کی کرنیں بکھیرنے والے شاعروں میں اقبال اور
میرانیس اپنا ثانی نہیں رکھتے جبکہ انگریزی ادب میں ملٹن اور ہیلن ماریہ
ولیم صف اول کے شاعر ہیں ۔ ڈرامائی شاعری میں انگریز ی ادب میں Spenser اور
براؤننگ نے خوب نام کمایا جبکہ اردو ادب کی شاعری اس صنف میں کافی پیچھے
ہے۔ البتہ لوک داستان، قصے کہانیوں میں میر حسن کی سحرالبیان کو کافی اہمیت
حاصل ہے ۔
الغرض اس تقابلی جائزے کو اس بات کے ساتھ سمیٹتے ہیں کہ جہاں انگریزادب
ملٹن ،کیٹس ،ورڈورتھ اور ٹی ایس ایلٹ کو تاریخ کے صفحات میں صف اول پر رکھے
گا وہاں اردو ادب فیض ، غالب ، اقبال ، میر درد ،میر تقی میر،محسن نقوی اور
پروین شاکر کو کبھی بھلانہ پائے گا ۔ہر شاعر اپنے دور کا ترجمان رہا ہے اس
دور کی ریت پر یت ،چاہتیں نفرتیں، ہجر وصال، رجحان ومیلان کو اپنے قلم کی
نوک سے لفظوں کو یوں پروتا گیا کہ کبھی وہ غزل بن گئے تو کبھی کسی کے دل کی
دھڑکن ۔اور کبھی کسی کیلئے شب تنہائی میں محفل کا ساماں۔ زبان کوئی بھی
کیوں نہ ہو دل تو ایک ہے ۔جذبات احساسات کو کبھی پابند سلاسل نہ رکھاجاسکا
۔یہ ہمیشہ اظہار کیلئے ترستے رہے اور یہی اظہار جذبات کے دھاروں سے گزرکر
شاعری کا رنگ اپنا لیتا ہے ۔ |
|