مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک
برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میر تقی میر کا یہ شعر گوپی چند نارنگ پر صادق آتا ہے۔ عہد نو کے
تغیّرنواز، نئی فکریات کے رجحان ساز، ناقد، محقق، ادیب، دانشور، مفکر،
ماہرِلسانیات، اُردو کے بے لوث خدمت گزار اور تاجدار، سیکولر اقدار و
روایات کے علمبردار، فصاحت و بلاغت کے آبشار، لفط و معنی کے رازدار، لیلائے
اُردو کے عاشقِ صادق، دُشمنانِ اُردو سے مصروفِ پیکار، متحرک بصیرت، لشکرِ
اُردو کے سپہ سالار، ہندوستانی شعریات کے سچّے بابا اور ’’بابائے ادب‘‘
گوپی چند نارنگ کی شخصیت عالمی اُردو ادب اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا
ایک جیتا، جاگتا اور جگمگاتا ہواآفتاب و ماہتاب ہے۔ گوپی چند نارنگ کی
شخصیت اکیسویں صدی میں صرف ایک فرد کی نہیں ہے بلکہ وہ بین الاقوامی سطح پر
ایک ادارہ بن چکے ہیں۔ اُن کی ہمہ جہت شخصیت اور عظمت کا اعتراف بین الا
قوامی سطح پر ہر شخص کرتا ہے جہاں جہاں اُردو بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔
یہ ہم اُردو والوں کی خوش نصیبی ہے اور باعثِ فخر ہے کہ گوپی چند نارنگ
جیسا کوہ نور ہیرا اُردو زبان کو ملا۔ جنھوں نے اپنی فکر انگیز، فکر آلود
اور فنّی شعور و آگہی کی روشنی سے اپنے پُر مغز عالمانہ خیالات و نظریات
اور اپنی غیرمعمولی ادبی خدمات سے اُردو ادب میں ایک انقلاب برپا کر دیا
اورترقی پسندی و جدیدیت کے بعد نئی نسل کے ادیبوں، شعرا، افسانہ نگاروں،
ناول نگاروں، ناقدین اور محققین کے لیے نئی راہیں روشن کی ہیں۔ شاید اسی
وجہ سے ہندی کے مشہور و معروف نا و ل نگار، افسانہ نگار، ادیب و دانشور
کملیشور نے کہا ہے کہ ہندوستان کی تہذیبی اور ثقافتی روح کو زندہ رکھنے کے
لیے ہر زبان کو ایک گوپی چند نارنگ کی ضرورت ہے۔
گوپی چند نارنگ کی ولادت 11 فروری 1931 (جنم پتری کے مُطابق 11 فروری 1930)
کو تحصیل دُکی ضلع لورالائی میں ہوئی جو بلوچستان میں واقع ہے۔ اس کے سال
ڈیڑھ سال بعد اُن کے والدین وہاں سے موسیٰ خیل چلے گئے۔ اُن کے بزرگوں کا
آبائی وطن مغربی پنجاب میں لیہ ضلع مظفرگڑھ ہے۔ جہاں اُن کے خاندان کے بزرگ
صدیوں سے آباد تھے۔ اپنے بچپن کی زندگی کی سچّی اورحقیقی تصویر کو گوپی چند
نارنگ صاحب نے نہایت ہی دلنشیں، دلکش، سادہ اورسلیس زبان میں یوں بیان کیا
ہے :
’’کچھ یاد نہیں دُکی کیسا گاؤں یا شہر تھا، البتہ موسیٰ خیل کے کچھ دھندلے
سے نقش ذہن کی سلوٹوں میں ابھی باقی ہیں۔ تحصیل کے مکانوں کے پیچھے کا بڑا
سا باغ جس میں انار، ناشپاتی اور شفتالو کے درخت اور انگور کی بیلیں تھیں۔
چاروں طرف چھوٹے بڑے پہاڑ، مختصر سا بازار جس میں ڈاک کی لاری رکا کرتی
تھی۔ سب بچّے اسی میں چڑھ جاتے اور ڈاک گھر سے بازار تک کی سیر کرتے۔ مغرب
میں پتھریلی سڑک تھی جو فورٹ سنڈے من کو جاتی تھی۔ اسی کے راستے میں ندی پر
وہ پُل تھا جس کے نیچے گہرے نیلے پانی میں ہم کنکر پھینکتے تو مچھلیوں کے
سنہرے پر چمکنے لگتے۔ ‘‘
(’’فن اور شخصیت‘‘ آپ بیتی نمبر: ص 383)
گوپی چند نارنگ کا گوتر کشیپ ہے اور یہ کشتری ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن
کے خاندانی بزرگ علاقہ کے معزز زمیندار گھرانوں میں شمار ہوتے تھے۔ اُن کے
دادا کا نام چمن لال نارنگ تھا۔ نارنگ صاحب کے والد کا پورا نام دھرم چند
نارنگ اور والدہ کا نام ٹیکا بائی تھا۔ گوپی چند نارنگ صاحب چھ بھائی اور
چار بہنیں ہیں۔ اُن کے والد بلوچستان میں ریو نیوسروس میں افسر خزانہ کے
عہدہ پر فائز تھے۔ اُن کے خاندان کا بلوچستان میں فائز ہونے کی ایک خاص وجہ
یہ تھی کہ گوپی چند نارنگ کے مامو متوال چند ڈھینگرا نواب قلّات کے وزیر
خزانہ تھے اور برسوں سے بلوچستان میں آباد تھے۔ نارنگ صاحب کے والد کے مامو
ٹوپن لعل بلوچستان میں ہی اکسائز کمشنر کے عہدے پر فائز تھے۔ وہاں ایک
چھوٹا سا اسکول تھا۔ چوتھے درجے میں جب نارنگ صاحب کا داخلہ اسکول میں ہوا
تو نیا فارم بھرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اُن کے والد نے تاریخ پیدائش یکم
جنوری 1931 لکھوا دی۔ اُس دن سے نارنگ صاحب کی تاریخِ پیدائش یہی چلی آ رہی
ہے۔ انھوں نے اُردو کا پہلا قاعدہ عبدلعزیز صاحب سے پڑھا۔ حکومت ِ ہند
بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں بے دریغ لٹریچرتقسیم کرتی تھی۔ یہ سارا
لٹریچرپشتو اور اُردو میں ہوا کرتا تھا۔ اُردو پڑھنے کا چسکا گوپی چند
نارنگ کو یہیں سے پڑا۔ دہلی سے جو رسالہ’’ آجکل ‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔
اس کا ابتدائی نام ’’نن پرون‘‘ تھا اور یہ پشتو رسالے کے ضمیمے کے طور پر
شائع کیا جاتا تھا۔ اسے سب سے پہلے نارنگ صاحب نے اسی زمانے میں دیکھا، اُس
کے بعد ’’پھول‘‘ اور ’’غنچہ‘‘ جرائد سے اُن کی شناسائی ہوئی۔ پرائمری کی
تعلیم حاصل کرنے کے بعد لیہ ضلع مظفرگڑھ چلے گئے کیونکہ جن علاقوں میں اُن
کے والد کی ملازمت تھی وہاں بعض جگہ ہائی اسکول نہیں تھے۔ اُردو اُن کا
لازمی مضمون تھا اور سنسکرت اختیاری۔ مڈل کا امتحان انھوں نے اچھے نمبروں
سے پاس کیا اور یہاں پراُردو کی تعلیم انھوں نے مولوی مرید حسین صاحب سے
حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ اُس اسکول
کے ہال کمرے میں سامنے کی دیوار پر آنرز بورڈ تھا۔ اس پر ہر سال میٹرک
کولیشن امتحان میں اوّل آنے والے طالب علم کا نام اور نمبر لکھے جاتے تھے۔
بہر حال اوّل آنے کی حسرت 1946 میں پوری ہوئی۔ اس کے بعدسب سے پہلے نارنگ
صاحب سنڈے کالج کوئٹہ میں داخلہ لینے پہنچے۔ یہاں اچھّے نمبروں سے پاس ہونے
کی وجہ سے فیس تو معاف ہوگئی لیکن وظیفہ نہ ملا۔ اس کے بعد وہ لائل پو ر کے
زراعتی کالج کی طرف راغب ہوئے لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے ہی داخلہ نمٹ چکا
تھا۔ جب داخلہ کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو 1947 میں وہ اپنی والدہ اور
بھائی بہنوں کے ساتھ دہلی چلے آئے لیکن اُن کے والد ریٹائیر ہونے کے بعد
1956 میں دہلی آئے۔ کسی طرح سے انھوں نے ایف اے اور بی اے کی تعلیم حاصل
کی۔ 1952 میں گوپی چند نارنگ نے دہلی کالج میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا
اور اُس کے بعد انھوں نے دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
1955 میں اُن کی شادی شریمتی تارا نارنگ سے ہوئی لیکن یہ رشتہ زیادہ مدت تک
قائم نہ رہ سکا اور آخر کار یہ رشتہ 1970 میں ٹوٹ گیا۔ اُن سے بڑا بیٹا
ارون نارنگ ہے جو کنیڈا میں مقیم ہے اور پیشے سے ڈاکٹر ہے۔ پہلی بیوی سے
طلاق ہونے کے ایک سال کے بعد 1972 میں نارنگ صاحب نے شریمتی منورما نارنگ
صاحبہ کو اپنا شریکِ حیات بنایا اور انھوں نے گوپی چند نارنگ کی ادبی اور
غیر ادبی زندگی کو سجانے، سنوارنے اور نکھارنے میں بڑی مدد کی۔ دوسری شادی
سے بھی ایک بیٹا ترون نارنگ ہے اور وہ بھی ڈاکٹر ہے۔ دہلی میں ڈاکٹر خواجہ
احمد فاروقی سے اُن کی ملاقات ہوئی اور اُن کی تعلیم میں انھوں نے دلچسپی
لی۔ اُن کی محنت کوشی، ذوق مطالعہ اور کام کی دھن نے نارنگ صاحب کے ادبی
ذوق کو مہمیز کیا۔ 1957 میں انھوں نے درس و تدریس کی ابتدا کیمپ کالج اور
سینٹ اسٹفینز کالج سے ہوئی۔ 1959 میں گوپی چند نارنگ دہلی یونیورسٹی میں
باقائدہ شعبۂ اُردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1961 سے 1974 تک وہ شعبۂ اُردو کے
ریڈر کے عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران 1963 سے 1965 تک وسکانسن یونیورسٹی
(میڈیسن) اور 1969 میں منی سوٹا یونیورسٹی مینیا پلس اور 1968 سے 1970 کے
دوران پھر وسکانسن یونیورسٹی کے وزٹنگ پروفیسر رہے۔ 1974 سے 1981 تک جامعہ
ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اُردو کے پروفیسر، صدر شعبۂ اور 1984 اور 1985 میں
اُردو کا رسپانڈنس کورس کے ڈائریکٹر کے فرائض کو بخوبی انجام دیا۔ 1981 اور
1982 میں نارنگ صاحب جامعہ ملیہ یونیورسٹی دہلی کے قائم مقام وائس چانسلر
بھی رہے۔ 1986 میں دہلی یونیورسٹی میں شعبۂ اُردو میں پروفیسر ہو گئے۔ 1987
سے 1990 کے درمیان نیشنل فیلو یو جی سی اور 1997 میں ناروے کی اوسلو
یونیورسٹی اور راک فیلر یونیورسٹی اٹلی کے وزٹنگ فیلو کے عہدے پر فائز رہے۔
دہلی یونیورسٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد 1996 سے 1999 تک اُردو اکیڈمی دہلی
کے وائس چیرمین رہے۔ 2002 میں دو سال کے لیے اندرا گاندھی فیلو شپ بھی ملی۔
فروری 2002 میں ساہتیہ اکادمی کی صدارت کے لیے اُن کے اور بنگلہ زبان کی
مشہور و معروف ناول نگار مہاشویتا دیوی کے درمیان معرکہ ہوا جس میں جنرل
کونسل کے ممبران کے کُل 96 ووٹ پڑے۔ جس میں گوپی چند نارنگ صاحب کو 66 اور
مہاشویتا دیوی کو صرف 30 ووٹ حاصل ہوئے۔ مہا شویتا دیوی کا مشہور ناول
’ہزار چوراسی کی ماں‘ ہے جس کے تراجم ہندوستان کی تمام بڑی زبانوں میں
ہوچکے ہیں اور اُن کو ہندوستان کے سب سے بڑا ادبی ایوارد ’گیان پیٹھ‘ سے
بھی نوازا جا چکا ہے۔ نارنگ صاحب کی شاندار جیت سب اُردو والوں کی جیت تھی۔
یہ اُردو والوں کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ ساہتیہ اکادمی دہلی میں گوپی
چند نارنگ اُردو زبان کے پہلے صدر ہوئے۔ اُن سے قبل آج تک اُردو زبان کا
کوئی بھی ادیب یا فنکار ساہتیہ اکادمی دہلی کا صدر نہیں ہوا تھا۔ اُردو کے
جتنے سیمینار نارنگ صاحب نے ساہتیہ اکادمی دہلی میں کرائے اُتنے سیمینار
نارنگ صاحب سے قبل کبھی بھی نہیں ہوئے۔ ان سیمیناروں کی تاریخی اور ادبی
حیثیت ہے اور یہ اُردو ادب کا سرمایہ ہے۔ اُن کے عہد میں یہاں سے زیادہ سے
زیادہ کتابیں اُردو میں شائع ہوئیں۔ وہ اُردو زبان کی ترقی اور بقا کے لیے
ہمیشہ کوشاں رہے۔ 20 فروری 2008 کو گوپی چند نارنگ صاحب ساہتیہ اکادمی کے
صدر کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔ ساہتیہ اکادمی کا صدر منتخب ہونے پرگوپی
چندنارنگ صاحب کو اُردو کے مشہور و معروف ادیب، ناقد، محقق، ناول نگار،
مترجم اور جدیدیت کے سپہ سالار جناب شمس الرحمن فاروقی نے ’’شب خون‘‘ کے
شمارہ نمبر 265 میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار
کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’تمام دُنیا کے اُردو کے ادبی حلقوں میں یہ خبر انتہائی مسرت سے سنی جائے
گی کہ اُردو کے معروف دانشور، مفکر، ماہرِ لسانیات، نقاد اور اُردو کی خدمت
میں ہمیشہ سینہ سپر رہنے والے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو بھاری اکثریت سے
ساہتیہ اکادمی کا صدر نبتخب کیا گیا ہے۔ اُردو کے کسی ادیب کا ایسے بین
اللسانی قومی ادارے کا سربراہ منتخب ہونا اس توقیر کی بھی دلیل ہے جو اُردو
کو ہمارے معاشرے میں حاصل ہے۔ ہم اپنے دوست کو اس کامیابی پر مبارکباد دیتے
ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ان کے زمانہ انتظام میں ساہتیہ اکادمی کا رشتہ
اُردو سے اور بھی استوار ہوگا۔ ‘‘
اُردو سے اُن کی محبوبیت روز بروز بڑھتی گئی۔ اُردو اُن کی مادری زبان نہ
تھی لیکن اُردو کو وہ مادری زبان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ اُن کے ددھیال
اور ننھیال میں سرائیکی زبان بولی جاتی تھی۔ اُردو زبان میں اتنی کشش اور
ایسا جادوئی اثر ہے کہ دھیرے دھیرے اُردو زبان گوپی چند نارنگ کی رگوں تک
اُترتی چلی گئی اور آج اُردو زبان اُن کے خون میں جاری و ساری ہے۔ اُردو
صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ ایک تہذیب ہے۔ میں اس بات کو ہمیشہ کہتا ہوں کہ
اُردو زبان کی زندہ اور دھڑکتی ہوئی جڑ ویدک ثقافت میں موجود ہے اور اُس کی
حقیقی جڑ کی تلاش میں ہم کو ویدک تہذیب کی گہرائیوں اور اُونچائیوں میں
مستغرق ہونا پڑے گا۔ لفظ ’اُردو‘ مسلسل سفر کرتا ہوا جو کبھی ہندوی، ریختہ،
ہندوستانی اور ہندی وغیرہ ناموں سے جانا جاتا تھا اور آخر میں اپنی اوریجنل
شکل اُردو میں موجود ہے۔ غیرملکیوں نے اس خوبصورت اور حسین زبان کو کیمپ
(Camp) کی زبان کہا۔ دراصل اُردوکے معنی لشکر، فوج یا بازار کے نہیں ہیں
اور نہ ہی یہ ترکی نژاد لفظ ہے بلکہ ’اُردو‘ خالص ویدک لفظ ہے۔ ’اُردو‘ دو
الفاظ ’اُر‘ اور ’دُو‘ کا مجموعہ ہے۔ ’اُر‘ معنی دِل اور ’دُو‘ کے معنی
جاننا ہے۔ عارف لوگ تمثیلاً دل کو روح اور جان کے لیے استعمال کرتے تھے۔
دراصل ’اُردو‘ کے لفظی معنی ہیں کہ روح اور جاں کو جاننا۔ اس طرح یہ کہا جا
سکتا ہے کہ خود شناسی خُدا شناسی ہے۔ اس کے ایک معنی دِل دینا اور دِل لینا
بھی ہے۔ Love begets love دِل دو، دِل لو یا محبّت دو، محبّت لو وغیرہ
مُراد لیے جا سکتے ہیں۔ اس قدیم ترین ویدی پس منظر سے اکیسویں صدی کے اس ما
بعد جدید تناظر میں نئے عہد کی تخلیقیت تک اُردو کی یہ ہر دلعزیز جوڑنے
والی گنگا جمنی روح ہر عالم میں غیر مشروط انسانیت کی ہمیشہ علمبردار تھی،
ہے اور رہے گی۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اُردو زبان ہماری
صدیوں کی تہذیبی کمائی ہے اوریہ گنگا جمنی یعنی مشترکہ تہذیب کی دین ہے جس
میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت موجود ہے۔ جو انسان اپنی تہذیب و ثقافت کھو
بیٹھتا ہے یا اپنی تہذیب و ثقافت کو بھول جاتا ہے تووہ انسان گونگا، بہرا
اور بے ادب ہو جاتا ہے۔ نارمگ صاحب کی نظر میں تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے
لیکن اُردو زبانوں کا تاج محل ہے۔ اس ضمن میں گوپی چند نارنگ اپنے عالمانہ
خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اُردو ہماری صدیوں کی تہذیبی کمائی ہے، یہ ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کا وہ
ہاتھ ہے، جس نے ہمیں گڑھا، بنایا اور سنوارا ہے، یہ ہماری ثقافتی شناخت ہے
جس کے بغیر نہ صرف ہم گونگے بہرے ہیں بلکہ بے ادب بھی۔ میں نے بارہا کہا ہے
کہ اُردو کو محض ایک زبان کہنا اُردو کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے، یہ ایک
طرز حیات، ایک اسلوب ِ زیست، ایک اندازِ نظر یا جینے کا ایک سلیقہ و طریقہ
بھی ہے، اس لیے کہ اُردو صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی
جاگتی زندہ تہذیب کا ایک ایسا روشن استعارہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال کم از
کم بر صغیر کی زبانوں میں نہیں…
اُردو میری مادری زبان نہیں، میری ددھیال اور ننھیال میں سرائکی بولی جاتی
تھی، میری ماں دہلی ہجرت کے بعد بھی سرائکی بولتی تھیں جو نہایت میٹھی، نرم
اور رسیلی زبان ہے۔ لیکن مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اُردو میری مادری
زبان سے دور ہے۔ اُردو نے شروع ہی سے دوئی کا نقش میرے لاشعور سے مٹا دیا۔
مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اُردو میرے خون میں جاری و ساری نہیں۔ یہ میں
آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اُردو میری ہڈیوں کے گودے تک کیسے اُترتی چلی گئی،
یقیناً کچھ تو جادو ہوگا۔ تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے، میں اُردو کو ’زبانوں
کا تاج محل‘ کہتا ہوں اور اکثر میں محسوس کرتا ہوں۔ زبان میرے لیے رازوں
بھرا بستہ ہے۔ کیسے ہند آریائی کے بستے میں عربی فارسی ترکی کے رنگ گھلتے
چلے گئے اور کیسے ایک رنگا رنگ دھنک بنتی چلی گئی کہ جنوبی ایشیا کے اکثر
ممالک کے طول و عرض میں وہ آج ’لنگوافرینکا‘ بھی ہے اور ایک ایسا ادبی
اظہار بھی جس کے رس اور بالیدگی کو دوسری زبانیں رشک کی نطر سے دیکھتی ہیں۔
‘‘
(اُردو زبان اور لسانیات، ص 11 و 12)
اُردو زبان میں گوپی چند نارنگ کا تخلیقی سفرکا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔
اُن کا پہلا افسانہ کوئٹہ شہر کے ہفتہ وار اخبار ’’بلوچستان سماچار ‘‘ میں
اُس وقت شائع ہو ا تھا جب وہ اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ رسائل میں لکھنے کی
لت لڑکپن میں پڑ چکی تھی۔ جب 1947 میں وہ دہلی آئے تو یہاں پر بھی اُن کے
متعدد افسانے ’بیسویں صدی‘ اور ’ریاست‘ جیسے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے
رہے۔ 1953 کے بعد گوپی چند نارنگ نے افسانہ نگاری کی دُنیا کو ترک کرکے
تحقیق و تنقید کی دُنیا میں قدم رکھا۔ اُن کا اوّلین مضمون ’اکبر الٰہ
آبادی سخن فہموں اور طرفداروں کے درمیان‘ رسالہ ’نگار‘ میں جون 1953 میں
شائع ہوا اور اُن کا تخلیقی و تنقیدی سفر آج تک جاری و ساری ہے۔ اُن کی
پہلی تصنیف ’ہندوستانی قصّوں سے ماخوذ اُردو مثنویاں‘ ہے جو پہلی بار 1959
اور دوسری بار 1961 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب پر نارنگ صاحب کو 1962 میں
’غالب ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک نارنگ صاحب کی تقریباً
پانچ درجن سے زیادہ کتابیں منظرِعام پر آکر ادبی حلقوں میں اپنا جلوہ بکھیر
چکی ہیں۔ 2014 میں گوپی چند نارنگ نے ’غالب : معنی آفرینی، جدلیاتی وضع،
شونیتا اور شعریات‘ ایک بے مثال تحقیقی اور تنقیدی کتاب غالب شناسی کے ضمن
میں پیش کر دی ہے۔ جو اندھیرے میں سب سے بڑا جگمگاتا ہوا قدم ہے۔ جو آنے
والی صدیوں تک غالبیات میں ایک ذہنی راہ نما قدم ثابت ہوگا۔ پروفیسر گوپی
چند نارنگ پوری زندگی تصنیفات و تالیفات میں سرگرم رہے۔ اُن کی تنقیدی
وتحقیقی اور مرتب شدہ نگارشات کی تعداد حسب ذیل ہے:
1 ہندوستانی قصّوں سے ماخوذ اُردو مثنویاں (1959 اور 1961)
2 کرخنداری اُردو کا لسانیاتی مطالعہ(انگریزی) (1961)
3 اُردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو (1962 اور 1964)
4 ریڈنگز ان اُردو پروز(انگریزی) (1966 اور 1968)
5 منثورات کیفی (1968)
6 آثارِ محروم (1969)
7 کربل کتھا کا لسانی مطالعہ(بہ اشتراک) (1970)
8 ارمغانِ مالک (جلد اوّل و دوم) (1972)
9 املا نامہ (سفارشات املا کمیٹی اُردو بورڈ) (1974)
10 پُرانوں کی کہانیاں(برائے نیشنل بُک ٹرسٹ) (1976)
11 اقبال جامعہ کے مصنّفین کی نظر میں (1979)
12 وضاحتی کتابیات (1976)(جلد اوّل)
(بہ اشتراک) (1980)
13 سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ (1980 اور 1990)
14 اُردو افسانہ : روایت اور مسائل (1981 اور 1988)
15 انیس شناسی (1981)
16 سفر آشنا (1982)
17 اقبال کا فن (1983)
18 نئی کرن (برائے این۔ سی۔ آر۔ ٹی، بہ اشتراک) (1983)
19 نئی روشنی(برائے این۔ سی۔ آر۔ ٹی، بہ اشتراک) (1983)
20 پڑھو اور بڑھو(برائے این۔ سی۔ آر۔ ٹی، بہ اشتراک) (1983)
21 وضاحتی کتابیات (جلد دوم)(بہ اشتراک) (1984)
22 لغت نویسی کے مسائل (1985)
23 اسلوبیات میر (1985)
24 اُردو کی نئی کتاب(درجہ 9)(بہ اشتراک) (1986)
25 انتظار حسین کے بہترین افسانے (1986)
26 نیا اُردو افسانہ : تجزیہ و مباحث (1988)
27 اُردو کی نئی کتاب (درجہ 10) (1988)
28 راجندر سنگھ بیدی
(انگریزی انتھالوجی برائے ساہتیہ اکادمی) (1988)
29 اُردو کی نئی کتاب (پہلے درجہ کے لیے) (1989)
30 ادبی تنقید اور اسلوبیات (1989 اور 1991)
31 اُردو کی نئی کتاب (پانچویں درجہ کے لیے)(بہ اشتراک) (1990)
32 کرشن چندر (انگریزی انتھالوجی برائے ساہتیہ اکادمی) (1990)
33 امیر خسرو کا ہندوی کلام (1990 اور 2002)
(ہندی ایڈیشن) (2006)
34 املا نامہ (اضافہ و نظرثانی) (1990)
35 اُرود کی نئی کتاب (درجہ چہارم) (1991)
36 لینگویز اینڈ لٹریچر (انگریزی) (1991)
37 اُردو کی نئی کتاب (درجہ دوم) (1992)
38 قاری اساس تنقید (1992)
39 ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (1993 و 2007)
(ترجمے پندرہ زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں اور مسلسل آرہے ہیں)
40 بلونت سنگھ کے بہترین افسانے (1996)
41 ڈائریکٹری اُردو شعرا و مصنّفین(بہ اشتراک) (1996)
42 بلونت سنگھ (انگریزی انتھالوجی برائے ساہتیہ اکادمی) (1996)
43 ذاکر حسین: حیات و خدمات (1998)
44 مابعد جدیدیت پر مکالمہ (1999 و 2012)
45 اُردو پر کھلتا دریچہ (ہندی) (2000)
46 سم رچنا واد، اُتّر سم رچنا واد ایوم پراچیہ کاویہ شاستر(ہندی) (2000)
47 اُردو کیسے لکھیں(ہندی) (2001)
48 اُردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب (2002)
49 بیسویں صدی میں اُردو ادب (2002)
50 اطلاقی تنقید : نئے تناظر (2003)
51 ہندوستان کی تحریک آزادی اور اُردو شاعری (2004)
52 ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت (2004)
53 جدیدیت کے بعد (2005)
54 انیس و دبیر (دو سو سالہ سیمینار) (2005)
55 ولی دکنی : تصوف، انسانیت اور محبّت کا شاعر (2005)
56 اُردو کی نئی بستیاں (2005)
57 اُردو زبان و لسانیات (2006)
58 سجا دظہیر: ادبی خدمات اور ترقی پسند تحریک (2007)
59۔ فکشن شعریات: تشکیل و تنقید (2008)
60 فراق گورکھپوری شاعر، نقاد، دانشور (2008)
61 خواجہ احمد فاروقی کے خطوط گوپی چند نارنگ کے نام (2010)
62 کاغذ ِآتش زدہ (2011)
63 تپش نامہ تمنّا (2012)
64 آج کی کہانیاں (2013)
65 غالب معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات (2014)
مندرجہ بالا تصنیفات و تالیفات سے گوپی چند نارنگ صاحب کی تحقیقی اور
تنقیدی بصیرت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نارنگ صاحب دل و جان سے
پوری زندگی اُردو ادب کے لیے کوشاں رہے۔ بیسویں صدی کے رُبع آخر سے اکیسویں
صدی کی دوسری دہائی تک گوپی چند نارنگ کے علاوہ دور دور تک اُردو زبان کے
اُفق پرکوئی دوسری عظیم شخصیت نظر نہیں آتی ہے جس نے اُردو زبان میں گراں
قدر اضافہ کیا ہو۔ اُن کی اس ادبی خدمات کے لیے ہندوستان کے علاوہ بیرون
ممالک میں بین الاقوامی سطح پر بیسیوں ایوارڈ و اعزازات سے نوازا جا چکا
ہے۔ اُن کی عظمت اور شخصیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ
جتنے ایوارڈگوپی چند نارنگ صاحب کو مل چکے ہیں اُتنے ایوارڈ آج تک اُردو
کیا کسی بھی زبان و ادب میں کسی بھی شخصیت کے حصّے میں نہیں آئے۔ آئیے ایک
نظر اُن کو ملے ہوئے کچھ خاص ایوارڈ و اعزازات کی فہرست پر بھی نظر ڈالی
جائے، جو حسب ذیل ہیں:
1 غالب پرائز، حکومت اُتّر پردیش 1962
2 فیلو، رائل ایشیاٹک سوسائٹی، لندن 1963 سے 1970 تک
3 کامن ویلتھ فیلو شپ برائے لندن یونیورسٹی 1963
4 اُردو اکادمی اُتّر پردیش انعام 1972
5 میر ایوارڈ، میر اکادمی، لکھنؤ 1977
6 نیشنل ایوارڈ (این۔ سی۔ ای۔ آرْٹی) نئی دہلی 1977
7 صدر پاکستان کی جانب سے اقبال صدی طلائی تمغۂ امتیاز 1977
8 بہا راُردو اکادمی انعام 1979
9 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی واشنگٹن خصوصی ایوارڈ 1982
10 ایسوسی ایشن آف ایشین اسٹڈیز، پنسل و ینیا ایوارڈ 1982
11 خصوصی ایوارڈ بہار اُردو اکادمی 1983
12 ساہتیہ کلا پریشد دہلی ایوارڈ 1984
13 غالب ایوارڈ، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی 1985
14 ہندی ساہتیہ کمیٹی ایوارڈ، لکھنؤ 1985
15 انٹر نیشنل اُردوایوارڈ، اُردو سوسائٹی، ٹورنٹو، کنیڈا 1987
16 نذرِ خسرو ایوارڈ، امیر خسرو سوسائٹی، شکاگو 1987
17 صدر جمہورئیہ ہند کی جانب سے ’پدم شری‘ کا قومی اعزاز 1990
18 خصوصی ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید، دہلی اُردو اکادمی 1991
19 اعزاز میر، میر اکادمی، لکھنؤ 1993
20 راجیوگاندھی ایوارڈ برائے سیکولرزم 1994
21 ساہتیہ اکادمی ایوارڈ
(’’ساختیات پس ساختیات مغربی شعریات‘‘پر) 1995
22 وائس چیرمین، دہلی، اُردو اکادمی، دہلی 1996 سے 1999 تک
23 راک فیلر فاؤنڈیشن فیلو شپ، اٹلی 1997
24 وائس چیرمین، قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی 1998 سے 2002
تک
25 سراج اورنگ آبادی ایوارڈ، مہاراشٹر اُردو اکادمی، مُمبئی 1999
26 میکش اکبرآبادی ایوارڈ، آگرہ 2000
27 اُردو مرکز انٹر نیشنل ایوارڈ، لاس اینجلز 2000
28 جشن گوپی چند نارنگ ایوارڈ
29 نیویارک، واشنگٹن شکاگو، ٹورنٹو 2001
30 قطر دوحہ فروغ اردو ادب ایوارڈ 2002
31 اندرا گاندھی میموریل فیلو شپ 2002 سے 2004 تک
32 باپو ریڈی فاؤنڈیشن ایوارڈ، حیدرآباد 2003
33 زینبیہ ٹرسٹ ایوارڈ 2003
34 سنت گیانیشور ایوارڈ، مہاراشٹر اُردو اکادمی، مُمبئی 2004
35 صدر جمہورئیہ ہند کی جانب سے پدم بھوشن کا قومی اعزاز 2004
36 پرویز شاہدی ایوارڈ، مغربی بنگال اپردو اکادمی، کولکاتا 2005
37 میزنی صدی ایوارڈ، حکومت اٹلی 2005
38 ساحر لدھیانوی ایوارڈ، ساحر کلچر اکیڈمی کی جانب سے 2005
39 یوروپین اُردو رائٹرس ایوارڈ، لندن 2005
40 ’ڈی لِٹ‘ حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد 2007
41 انیس و دبیر ایوارڈ
حدیث دل ٹرسٹ اور شیعہ اکیڈمی آف انڈیا کی جانب سے 2007
42 پنجابی بھوشن ایوارڈ، پنجابی کلا سنگم 2007
43 ’ڈی لِٹ‘ مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی، حیدرآباد 2008
44 ’ڈی لِٹ‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ 2009
45 بہادر شاہ ظفر ایوارڈ 2010
46 بھاشا پریشد ایوارڈ 2010
47 اقبال سمّان، مدھیہ پردیش اُردو اکادمی 2011
48 مورتی دیوی ایوارڈ، گیان پیٹھ، نئی دہلی 2012
49 صدر جمہورئیہ پاکستان کی جانب سے ’ستارۂ امتیاز‘ 2012
50 کُشمانجلی ایوارڈ، نئی دہلی 2013
مندرجہ بالا اعزاز و ایوارڈ کی فہرست سے گوپی چند نارنگ کی ادبی شخصیت، اُن
کی ادبی خدمات اور اُن کی عظمت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور انھوں
نے پوری زندگی جو ادبی خدمات انجام دی ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ اگر ہم اس
بات کا اعتراف کریں کہ یہ صدی ’نارنگ صدی‘ ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ آج اس
بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اور اُردو کی نئی
بستیوں میں بھی گوپی چند نارنگ کا ڈنکا بج رہا ہے۔ گوپی چند نارنگ اپنی
ادبی خدمات کے ضمن میں مشتاق صدف کو دیے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:
’’میں اُردو کا خادم ہوں۔ اُردو میری ضرورت ہے، میں اُردو کی ضرورت نہیں۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو کسی بھی کام کو شہرت کے لیے نہیں کرتے۔ اگر لوگ
میری باتوں پر دھیان دیتے ہیں یا جو کچھ میں کہتا ہوں اس کا کچھ نہ کچھ اثر
ہوتا ہے تو یہ میرے قارئین کی محبّت ہے۔ اُردو سے میرا معاملہ عشق کا ہے
اور عشق میں سود و زیاں نہیں ہوتا، آپ اسے شہرت کہتے ہیں۔ میں یہ بھی جانتا
ہوں کہ بہت سے امور میں میری مخالفت بھی ہوتی ہے اور کئی بار بغض و عناد کا
سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ اگر آپ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں
اور اس کی پروا نہیں کرتے کہ آپ کے علمی موقف سے کون خوش ہوگا اور کون
ناخوش تو دوسروں کی مصلحتوں پر ضرب بھی پڑتی ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ
مسئلہ علمی ہے لیکن لوگ ذاتی سطح پر اُترآتے ہیں لیکن میں پیچھے مڑ کر نہیں
دیکھتا۔ ‘‘
(جدیدیت کے بعد، ص 550)
مختصر یہ کہ اکیسویں صدی کے اس ما بعد جدید منظر نامہ میں گوپی چند نارنگ
نے اپنے فکر انگیز اور بصیرت افروز خیالات و نظریات اور فکری و فنّی شعور و
آگہی سے مملو و روشن اپنی تحقیقی و تنقیدی تصنیفات و تالیفات سے اُردو ادب
میں ایک تغیّر برپا کر دیا ہے اور اُن کا ادبی سرمایہ اُردو ادب میں ایک بے
بہا اضافہ ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس ما بعد جدید
دور میں اُردو کی نئی بستیوں کو آباد کرنے میں انھوں نے ایک اہم رول ادا
کیا ہے اور جب بھی اُردو زبان و ادب کا ذکر ہوگا تو گوپی چند نارنگ صاحب کا
نام ضرور لیا جائے گا کیونکہ اُن کے تذکرے کے بغیر اُردو زبان و ادب کی
تاریخ مرتّب نہیں ہو سکتی ہے۔ اس طرح صحیح معنوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ گوپی
چند نارنگ اُردو زبان و ادب کے خدمت گزار تو ہیں، تاجدار بھی ہیں۔
٭٭٭
1278/1مالوی نگر، الٰہ آباد(یو۔پی) انڈیا
موبائل نمبر :09451762890
|