’’شریفانہ ‘‘اجتماع
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
گزشتہ دنوں مناواں ٹریننگ
سینٹرمیں نئی تشکیل پانے والی’’ کاؤنٹرٹیررازم فورس ‘‘ کی پاسنگ آؤٹ پریڈکے
موقعے پروزیرِاعظم پاکستان میاں’’نوازشریف‘‘ ،چیف آف آرمی سٹاف جنرل
’’راحیل شریف ‘‘اوروزیرِاعلیٰ پنجاب میاں’’شہباز شریف‘‘سٹیج پرکندھے سے
کندھا ملاکر بیٹھے تھے ۔جب ایک ہی جگہ پرتینوں اعلیٰ ترین ’’شریف‘‘ موجود
ہوں توپھر’’ اَنہونی‘‘ کو ’’ہونی‘‘میں بدلناکونسا مشکل کام ہے۔دہشت گردی کے
خلاف ’’شریفوں‘‘کے اِس اجتماع کودیکھ کرہمیں بھی یقین ہوچلاہے کہ اب دہشت
گردوں کے ’’کھُنے‘‘سینکنے میں تیزی آجائے گی اور یہ’’شریفانہ
اجتماع‘‘بالآخر ’’بدمعاشانہ دہشت گردی‘‘کا خاتمہ کرکے ہی دَم لے گا ۔اِس سے
پہلے صرف ایک’’شریف‘‘نے دہشت گردوں کو ’’وَخت‘‘میں ڈالاہواتھا لیکن اب
توتین تین شریف اکٹھے ہوگئے ۔ویسے بھی ’’شریفوں‘‘کی عملداری
میں’’بدمعاشوں‘‘کا کیاکام ۔
کاؤنٹرٹیررازم فورس کے قیام کاتصور تو وزیرِاعظم صاحب کے ذہن میں پہلے ہی
موجودتھا لیکن اِس تصوّرکو حقیقت میں بدلنے کے لیے اُنہیں کچھ عرصہ لگ
گیا۔اُنہوں نے جب اِس فورس کے قیام کے لیے میاں شہبازشریف صاحب کوکہا تووہ
فوراََ تیار ہوگئے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے خادمِ اعلیٰ کوتو ایسے
’’اوکھے اوکھے‘‘ کام کرنے میں مزہ ہی بہت آتاہے ۔اُنہوں نے 9 ماہ پہلے اِس
فورس کے لیے نوجوانوں کا انتخاب کیااور پاک فوج کی زیرِنگرانی ٹریننگ شروع
کروادی ۔کاؤنٹرٹیررازم فورس کے پہلے بیچ میں405 جوان اور16 لڑکیاں شامل
ہیں۔میاں شہبازشریف صاحب کے مطابق اِس بیچ میں اکثریت ایم اے ،ایم فِل ،ڈاکٹرزاور
انجینئرز اور ماہرینِ نفسیات کی ہے جواُس ناسورکوختم کرنے کے لیے پُرعزم
دکھائی دیتی ہے جوانسانیت کے نام پر بدنما داغ ہے ۔یہ سنگ دِل ،عیار ،مکار
اورابلیسیت کے علمبرداروں کا ایساگروہ ہے جو معصوم بچوں تک کونہیں چھوڑتا ۔اُس
کے نزدیک مسجدکا کوئی تقدس ہے نہ مدرسے کا۔وہ مسجدوں ،امام بارگاہوں
اورسکولوں پرحملے کرکے اسے جہادکا نام دے کردینِ مبیں کو بدنام کرنے کی
ناپاک کوشش کررہے ہیں۔یہ امر اب روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ بیرونی قوتوں
کے خفیہ ہاتھ اِن دہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں ۔اِن حالات میں ڈاکٹرز ،انجینئرز
اوراعلیٰ تعلیم یافتہ افرادکا کاؤنٹرٹیررازم فورس میں شامل ہونااُن کے عزم
بالجزم کی دلیل ہے اوروثوق سے کہاجاسکتاہے کہ یہ فورس انشاء اﷲ پاک وطن کی
مٹی کواِن دہشت گردوں کے ناپاک وجودسے پاک کردے گی ۔پاکستان میں دہشت گردی
تو2007ء سے جاری ہے لیکن اِس دہشت گردی کے خلاف صرف افواجِ پاکستان ہی
کارروائیاں کرتی رہی لیکن اندرونی دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے سوائے پولیس
کے کوئی فورس موجودنہیں تھی ۔ پولیس کوکاؤنٹرٹیررازم کی کوئی ٹریننگ تھی ،نہ
اُس کے پاس مناسب اسلحہ اور دیگرسہولیات ۔موجودہ حکومت نے اسی کمی کومحسوس
کرتے ہوئے ایسے اداروں کا قیام ضروری سمجھاجو اندرونی دہشت گردی کاخاتمہ
کریں تاکہ فوج یکسوہوکر سرحدوں کی حفاظت کرسکے۔ کاؤنٹرٹیررازم فورس کے جوان
جب پاسنگ آؤٹ کے لیے میدان میں اُترے تواُن کے چہروں پر عزمِ صمیم کی ایسی
جھلک نمایاں تھی جسے دیکھ کراقبال کے ’’شاہیں‘‘کا تصورتازہ ہوگیا۔اِن
نوجوانوں کی چُستی اورپھرتی دیکھ کرہمیں یقین ہوگیا کہ اقبال کے یہ پُردَم
شاہیں ہر میدان میں کامیاب ہوں گے کیونکہ
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
ہمیں یقین ہے کہ یہ پُرعزم جوان دہشت گردی کے سامنے سدّ ِ سکندری بن جائیں
گے لیکن اِس کے لیے جس قومی یکجہتی کی ضرورت ہے ،وہ کہیں نظرنہیں آتی ۔وزیرِاعظم
صاحب توکہتے ہی رہتے ہیں کہ چیلنجز سے نپٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو
متحدہونا ہوگا کیونکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیاسی استحکام ناگزیرہے
لیکن ہمیں یہ سیاسی استحکام کہیں نظر نہیں آتا ۔ہرکسی کی اپنی اپنی ڈفلی
اور اپنااپنا راگ ۔محترم عمران خاں اب بھی وہی رٹی رٹائی باتیں دہرا رہے
ہیں اورجوابِ آں غزل کے طورپر وزیرِاطلاعات جناب پرویزرشید بھی وہی کچھ کہہ
رہے ہیں جسے سُن سُن کرکان پَک گئے ہیں ۔اُنہوں نے فرمایا’’عمران خاں جھوٹ
بولتے رہیں ،ہم سچ سامنے لاتے رہیں گے ۔پاکستان کوسکون سے نہ رہنے دینا
عمران خاں کی سیاست کا حصہ ہے ۔شیشے کے گھرمیں بیٹھ کردوسروں کوپتھر مارنے
کی عادت اُن کومہنگی پڑے گی ‘‘۔ہم نے باربار عرض کیا کہ کپتان صاحب کے پاس
گنوانے کوکچھ نہیں،جو نقصان ہوگا ،حکومت کاہی ہوگا لیکن ہماری کون سُنتاہے
۔کیا پرویزرشیدصاحب کویہ بھی ادراک نہیں کہ ’’شیشے کے گھر‘‘میں ہمیشہ حکومت
ہی ہوتی ہے ،اپوزیشن نہیں۔اپوزیشن کاکام توشیشے کے گھرکے مکینوں کو
پتھرمارنا ہی ہوتاہے پھربھلا یہ پتھرمارنے کی ’’عادت‘‘ خاں صاحب کوکیسے
مہنگی پڑ سکتی ہے ؟۔ویسے صرف خاں صاحب ہی نہیں،حکومت پرتو چاروں طرف سے
پتھروں کی برسات ہورہی ہے ۔خاں صاحب اگرجھوٹ بولتے ہیں تو ساراسچ
پرویزرشیدصاحب بھی نہیں بولتے ۔اِس باہمی چپقلش سے قوم پریشان اورسوچنے
پرمجبورکہ آخرکس راہ کاانتخاب کرے کہ اِس گھوراندھیرے میں کوئی راہ دکھائی
دیتی ہے نہ سجھائی ۔یہی عالم ہمارے سیاستدانوں کاہے ۔عوام توہر پانچ سال
بعدبڑے شوق سے قطاراندرقطار خوشیاں خریدنے نکلتے ہیں لیکن اُن کے ساتھ
عشروں سے یہی ہوتا چلاآرہاہے کہ
کَل دھوپ کے میلے سے خریدے تھے کھلونے
جو موم کا پُتلا تھا ، گھر تک نہیں پہنچا ہے
اُن کی اُمیدیں نا اُمیدیوں اور سُکھ ،دُکھ میں ڈھلتے رہتے ہیں ۔پرویزرشیدصاحب
کہتے ہیں کہ پاکستان کوسکون سے نہ رہنے دیناعمران خاں کی سیاست کاحصہ ہے
لیکن سچ تو یہ ہے کہ قومی مایوسی اوربے سکونی میں کچھ حصہ حکومت کابھی ہے ۔پرویزرشیدصاحب
سے سوال کیا جاسکتاہے کہ پونے دوسال میں حکومت نے کون سے ایسے کارنامے
سرانجام دیئے ہیں جن پرفخر کیاجاسکے ؟۔سانحہ ماڈل ٹاؤن سے لے کرپٹرول کی
قلت تک حماقتوں کی ایک طویل فہرست ہے جواِس حکومت کے کھاتے میں ہی جاتی ہے
۔پیپلزپارٹی کے گزشتہ دورمیں خادمِ اعلیٰ صاحب نے دوسال کے اندرلوڈشیڈنگ کے
مکمل خاتمے کامتعددباراعلان کیالیکن اب ہمارے پانی بجلی کے وزیرخواجہ آصف
صاحب فرماتے ہیں کہ 2018ء سے پہلے لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ممکن نہیں۔بجا کہ تاحال
حکومت پرکرپشن کاکوئی الزام نہیں لگا لیکن قوم سے تویہ وعدہ کیاگیاتھا کہ
کرپشن کے مگرمچھوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا۔اُس وعدے کاکیا ہوا؟۔کیا قوم
یہ یقین کرلے کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مَر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا
اورحرف ِ آخریہ کہ ہمیں میاں برادران کی خلوصِ نیت پرکوئی شک ہے نہ اُن کے
’’میڈ اِن پاکستان‘‘ہونے پرلیکن اُن کا جن لوگوں نے گھیراؤ کررکھاہے ،ہمیں
اُن کی صلاحیتوں پر اعتبارہے نہ نیتوں پر ۔کیا میاں صاحب اِس طرف بھی توجہ
فرمائیں گے؟۔ |
|