ایک بار دیکھا ہے بار بار دیکھنے کی خواہش ہے - چھٹا حصہ

فراق کی وادیاں اب میری قربت کی ہمراز ہوئیں اور زندگی نے موسم خزاں کی راہ تکنی شروع کردی، آہ و قاہ مسرتوں سے نا آشنا ہوئے اور ہجر کی تنی دھوپ اب سائے کو ترسنے لگی، درختوں پر پتے اب اپنا چہرہ زردی میں چھپانے لگے اور دریا کی گھاٹیاں اب پانی کی بوندوں کو ترسنے لگیں، موجوں کی جگہ اب ریت کے ننگے ٹیلوں نے لے لی اور ہواؤں کے دوش محو رقص ہونے لگے۔
اور تو پاس میرے ہجر ميں کيا رکھا ہے
اک تیرے درد کو پہلو ميں چھپا رکھا ہے

ایک پری زاد اور ایک انسان، کیا یہ محبت کی راہوں کے ہمراہی رہ سکتے ہیں؟ پیار کی کشتی میں سوار کر کے عشق کی تند و تیز موجوں کے رحم و کرم پر مجھے چھوڑ کر میری راتوں کی نیند چرانے والی نہ جانے کہاں چلی گئی؟ ہجر کی ظلمتیں، کالی گھٹاؤں کیطرح برس رہی تھیں اور پیار کے سمندر میں عشق کے مدو جزر اٹھنے لگے تو صبر نے آگے بڑھ کر تھام لیا۔ جب آنکھوں نے دل و جاں سے نظارہ جاناں کیا تھا وہ موتی پرونے ختم کئے، اب ہجر کا طوفان تھما تو معاملات معمول پر آنے لگے، وہی معمولات اور وہی سلسلہ تعلیم مگر اب طبعیت میں ایک ٹھہراؤ سا آ چکا تھا جیسے کسی سمندر میں مدو جزر آنے کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔

اس سلسلہ کے دوران مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ کوئی اور میری طرف متوجہ بھی ہے، میں اپنے آپ میں کھویا رہتا تھا لہٰذا کچھ احساس نہ ہوا کہ تم ایک "خاموش محبت" بن کر میرے سامنے آئی اور مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا، ان آنکھوں میں اپنے لیے تیرتا پیار دیکھ کر میری سوچیں تھم گئیں، آہ! مگر کبھی بھی تجھ سے اظہار محبت نہ کر سکا، نہ معلوم مجھ میں اتنی جرات کیوں نہ ہو سکی، تیری گہری نیلی آنکھوں نے میرے اندر محبت کی بجھتی چنگاریوں کو سلگا دیا اور پیار کا دریا اپنی آن و شان میں پھر سے مؤجزن ہو گیا۔

پیار اور محبت کا یہ رنگ پہلے رنگوں سے جدا تھا، الفت کی زرد مرجھاتی پتیاں اب پھر سے ہری ہونے لگیں ، مروت کی کونپلیں پھوٹنے لگیں اور مسرت کی تتلیاں پھر سے وصل کے گلوں پر آنے لگیں اور فضائیں تیرے سانسوں کی مہک سے لبریز ہونے لگیں۔

روزانہ تیرا انتظار صرف اک جھلک دیکھنے کو دل بے تاب رہتا تھا، نظروں سے نظریں ٹکراتی تو پیمانہ دل چھلک جاتا، گھنٹوں اپنے دروازے پر تیری اک جھلک دیکھنے کو کھڑا رہتا کہ کب تو کتابیں سنبھالے گھر واپس آئے اور دیدار کی اک جھلک نصیب ہو اور جب بغور دیکھا تو پری زاد میں اور تیرے چہرے میں کوئی فرق تلاش نہ کر پایا، تیری ہر ادا دلربا ہو گئی۔ چلتے چلتے جب تو اپنی سہیلیوں کے ساتھ تو خوش گپیوں میں مصروف ہوتی تو میری اشتیاق بھری نگاہیں تیرا تعاقب کرتیں نہ تھکتیں، تو نے اک نئے ولولے سے آشکار کیا ورنہ میں تو ہجر کی کھائی میں دھنستا چلا جا رہا تھا، آہ! مگر کبھی تجھ سے اپنی محبت کا اظہار نہ کر پایا۔

جاری۔۔۔
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 164716 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.