ایک بار دیکھا ہے بار بار دیکھنے کی خواہش ہے-حصہ پنجم

ہر دوپہر شام کی گود میں اپنا سر رکھ کر رات کا انتظار کرتی اور ہر رات اپنا چہرہ میرے محبوب کے چہرے کے پیچھے چھپائے گزر جاتی، وقت جست لگا کر ہماری قربتوں کے ہمراہ اڑنے لگا، اگر دوپہر وصال کی چھاؤں میں گزرتی تو رات قربتوں کی مہک سے لبریز ہوتی جبکہ زمین و آسماں ہمارے لئیے دو قدم کی مسافت پہ آ گئے۔ ہر رات پری زاد مجھے اپنی آغوش میں لیے آسمانوں میں محو پرواز ہوتا، جبکہ صبح تھکان کے باعث آرام البتہ کالج و پڑھائی کا سلسلہ تقریباً منقطع ہونا شروع ہو گیا اور کھیل کود سے بھی بیزاری محسوس ہونے لگی، ہر رات اک نئی دنیا دریافت ہوتی اور ہر صبح اک نئے انتظار سے ہمکنار ہوتا۔ محبت کے تمام رنگ جلوہ افروز ہوئے، اگر ہوائیں شادمانی کے راگ جپتیں تو فضائیں محبت کے نغمے گاتیں اور بہتا پانی الفت کی پرچھائیوں میں مچلتا، لہلہاتا کسی مست ناگن کیطرح جھومتا جاتا جبکہ جھکی شاخوں کے پتے پانی کو بوسے دیتے تو بادلوں کی اوٹ سے خورشید اپنی کرنیں نچھاور کرتا۔ دریائے جہلم سے جدا ہوتی نہر میرے گھر کے پاس سے گزرتی تھی اور اسکے کنارے گھنٹوں بیٹھے سرد اور گنگناتے پانی پہ نظر ڈالو تو مجھے صرف اپنے محبوب کی جھلک دکھائی دیتی۔ یہ نہر کچھ فاصلہ طے کر کے ایک دوسری نہر میں مدغم ہو جاتی جبکہ دونوں نہروں کا سنگم رفتہ رفتہ سفر طے کر کے "کھڑی شریف" میں میاں محمد بخش صاحب کی چوکھٹ پہ بوسے دیتا گزر جاتا۔

جس دل اندر عشق سمانا ہو تے اوس نی فر جانا
بڑے سونے ملن ہزاراں اساں نی او یار وٹانا

عشق کیا میں بن بن کھڑیاں دودھ تھیں پلیاں پلیاں
ماھی بابل پٹ پٹ تھکے تے واہاں مول نا چلیاں

اک رات پری زاد مجھے کہنے لگا، "کیا تجھے معلوم ہے کہ انسان چاہے تو کسی کی مدد کے بغیر زمین و آسمان دو قدم کر سکتا ہے" ، میں نے حیرت سے پوچھا کیسے، تو گویا ہوا ، " اس کائنات کی تمام مخلوقات کی طاقت انسان کی قوتوں کے سامنے ہیچ ہیں، مگر جب وہ اپنی اصلیت کو پا لیتا ہے " ، مجھے کچھ بات سمجھ نہ آئی تو پوچھا " کہنا کیا چاہتے ہو؟" ، تو مسکرا کر گویا ہوا " تم میرے بغیر بھی فضاؤں اور ہواؤں کی ہمراہی کر سکتے ہو " ، وہ کیسے ، میں نے فوراً حیرت سے پوچھا ، تو کہنے لگا " انسان جب رات کو سو جاتا ہے تو اسکی لطافت٬ روح اپنی کثافت٬ جسم کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور جاگنے پر دوبارہ پھر آ موجود ہوتی ہے تو اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں " ،اس بات نے مجھے حیرت کے سمندر میں گم کر دیا ۔

"اب تم اپنی طاقت سے میرے ہمراہی بنو گے "، اور یہ کہہ کر اس نے مجھے اک نئے تجربے سے گزرنے پر مجبور کر دیا، " مگر میں کیسے یہ سب کچھ کر سکتا ہوں ؟" میں نے پوچھا تو پری زاد پھر مسکرا کر بولا " آنکھیں بند کر کے دیدہ دل وا کرو اور مجھے تلاش کرو "، میں کسی بچے کیطرح ہر حکم مان رہا تھا ، "جب کھلی آنکھوں تم میرے پاس ہو تو آنکھیں بند کیوں کروں؟" ، تو گویا ہوا، جو کہا ہے اس پر عمل کرو، میں نے آنکھیں بند کر کے "تصور جاناں" میں کھو گیا، اچانک کمر میں اک حرارت سی اٹھی اور ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی کندھوں سے اوپر گردن تک پہنچی، پھر ایسے محسوس ہوا کہ ایک طوفانی شور ہے اور خوف کے مارے ماتھے پر پسینہ سا آگیا، اچانک ایک جھٹکے سے میں اٹھ کھڑا ہوا، اب مجھے سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ پری زاد میرے پاس کھڑے انتظار کر رہا تھا، گویا ہوا " آؤ چلیں " مگر کیسے، تو بولا "صرف سوچو تو وہاں جا پہنچیں گے، اب دنیائیں تیرے اک تصور اور سوچ کے فاصلے پر آگیں ہیں" اور واقعی جہاں چاہ وہاں راہ ۔ اس رات اگر نئی دنیائیں دریافت کیں تو اسی رات میرے محبوب نے اپنی اداؤں کی چادر سمیٹ لی، مجھے نئی دنیائیں دکھا کر چلا گیا۔

اس موسم بہار کی رتیں اچانک بدل گیں، پیار کا لیل و نہار نقطہ عروج پر تھا کہ وہ صیاد فراق کی سولی پر لٹکا کر اور نئی راہیں دکھا کر چلا گیا، ہر دن کاٹنے کو دوڑتا تو رات ڈسنے کو تیار ہوتی اگر دیدہ دل وا کرتا تو ہواؤں کا ہمراہی ہوتا، کیا زمین و آسمان وسعتوں نے اسے سمیٹ لیا یا پھر مجھے بھول چکا؟ اسکے فراق کا عالم تھا اور تنہائی تھی، اس نے میرے من کی دنیا جو جوت جگائی تھی اسکی وسعتوں کو ماپنا ناممکن لگتا، چاندنی کے جمال میں کھوئی موجیں اب طوفان بن کر کناروں سے سر ٹکرانے لگیں، اور پیار کی شمع سلگتے ہوئے موتیوں کی مالائیں جپنے لگیں،

تے پاٹی لیر پرانی وانگوں ٹنگ گیاں وچ ککراں
جناں تنا عشق سمانا ہو تے رونا کم اناں
جاری ۔۔
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 164709 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.