مئرے نیو لینڈ ایک نوجوان بزنس مین ہے۔ وہ نئے کاروباری
افراد کے لیے، جنھیں انٹرپرینیور بھی کہا جاتا ہے، مختلف ویب سائٹس پر
مضامین بھی لکھتا ہے۔ نیولینڈ کا بنیادی شعبہ تعلقات عامہ(پی آر) ہے اور
وہ اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھ چکا ہے۔ اپنی کاروباری سرگرمیوں کے سلسلے
میں نیولینڈ دنیا کے کئی امیر ترین افراد سے رابطے میں رہا ہے، اسے ان کے
روز و شب دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ افراد صرف دولت اور اثاثوں کے اعتبار ہی
سے خوش قسمت نہیں بلکہ ان میں سے اکثر جدوجہد اور کام یابیوں کی داستانیں
رکھتے ہیں۔ نیو لینڈ نے جب ان افراد کو قریب سے دیکھا تو یہ جاننے کی کوشش
کی کہ ایسے افراد کی عادات میں کیا باتیں مشترک ہیں۔ اس نے ان افراد میں
چند ایسی عادات مشترک دیکھیں۔دنیا میگزین کی رپورٹ کے مطابق نیو لینڈ کا
کہنا ہے کہ ’’امید ہے کہ آپ بھی ان باتوں پر عمل کر کے اپنی زندگی اور
کاروبار کو اس سطح پر لے جاسکتے ہیں جس جادوئی دنیا کا آپ خواب دیکھتے ہیں۔‘‘
|
صبح سویرے
نیولینڈ کا شرطیہ کہنا ہے کہ ہم اگر اپنا موازنہ دنیا بھر کے سو ارب پتی
افراد سے کریں تو ہمیں بڑا فرق یہ نظر آئے گا کہ جس وقت ہم اپنی تھکان دور
کرنے کے لیے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں، رات کا کھانا کھانے کے بعد گپ شپ یا
کسی اور سرگرمی میں مصروف ہونے کے بعد ہمارا جی ’’کچھ کھانے‘‘ کو چاہ رہا
ہوتا ہے، یہ افراد جنھیں دنیا کی ہر آسائش دست یاب ہے، سو چکے ہوتے ہیں۔
وہ اپنی توانائی اور وقت کے بھرپور استعمال کے لیے ہی ایسا کرتے ہیں۔ اگر
ہم بھی چاہتے ہیں کہ کام یاب زندگی کی طرف قدم بڑھائیں تو سب سے پہلے ہمیں
سحر خیزی کی عادت ڈالنا ہوگی۔ ہمارے ہاں تو یہ مثل مشہور ہے ہی ’’جو سوتا
ہے وہ کھوتا ہے۔‘‘ دن ہی جب دیر سے شروع ہوگا تو پھر رات کو جلدی آنے سے
کون روک سکتا ہے۔ |
|
’’فٹنس‘‘ شرط ہے!
تندرستی ہزار نعمت جیسی کہاوتیں ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ اس حقیقت کو
سمجھنا ہرگز مشکل نہیں۔ روپے پیسے کمائے جاسکتے ہیں مگر صحت نہیں۔ یہ تو
ممکن ہے کہ آپ کے دل پر بنی جیب پیسوں سے بھری ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ
یہ علاجِ دل کے لیے مددگار ثابت ہو۔ اس لیے جو چیز دوبارہ حاصل کی ہی نہ
جاسکتی ہو، اس پر کسی دوسری چیز کو ترجیح کیسے دی جاسکتی ہے۔ وقت اور صحت
ایسے ہی اثاثے ہیں، جن کے گنوانے کا احساس ہمیں ہوتا نہیں لیکن جب یہ مٹھی
سے پھسلتی ریت کی طرح ہماری دست رس میں نہیں رہتے تو ہمیں ان کی اہمیت کا
اندازہ ہوتا ہے۔ نیو لینڈ کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ ذمے داریاں اپنی جگہ
لیکن ہمارے سر پر اربوں ڈالر کی منصوبہ بندی کا بوجھ نہیں ہوتا، کاروباری
افراد سے پیچیدہ ڈیلنگ اور نت نئے کاروباری مسائل کا سامنا نہیں ہوتا لیکن
اس کے باوجود ہم میں سے کتنے افراد ہیں جو ورزش کے لیے وقت نکالتے ہیں۔
لیکن کامیاب فرد کی حیثیت سے دنیا میں پہچان بنانے والے افراد کی غالب
اکثریت کے روز مرہ معمول میں ورزش شامل ہوتی ہے۔ صحت مند دماغ کے لیے صحت
مند جسم ضروری ہے اور کامیابی کی دوڑ میں شریک ہونے کے لیے بھی ’’فٹنس‘‘
شرط ہے۔
|
|
ہمیشہ دل کی نہیں مانی جاتی
مستقبل کے حوالے سے خدشات اور اندیشوں کا شکار کون نہیں ہوتا۔ انسان
اندیشوں میں گھر کر سوچنے سمجھنے کے بجائے ایک ان جانے خوف کا شکار ہوجاتا
ہے اور ہر کوئی اس کیفیت سے دور رہنا چاہتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ خوف سے
چھٹکارا ممکن نہیں لیکن آپ ڈرنے کی ’’مہارت‘‘ حاصل کرسکتے ہیں۔ مراد اس سے
یہ ہے کہ جو اندیشے اور خدشات آپ کو درپیش ہوں ان سے گھبرانے کے بجائے ان
کا ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لے کر حل کی طرف بڑھنا ہی مہارت ہے۔ نیو لینڈ
کے مطابق ایسا نہیں کہ کام یاب افراد کو مستقبل کے خدشات کا سامنا نہیں
ہوتا، وہ تذبذب کا شکار بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کی کام یابی یہی ہے کہ وہ اس
کیفیت کو زیادہ دیر خود پر طاری نہیں رہنے دیتے۔ جب شکوک حد سے زیادہ بڑھ
جائیں تبھی تو فیصلہ سازی کا امتحان ہوتا ہے۔
|
|
نیا آئیڈیا ضروری نہیں!
انٹرنیٹ کی دنیا میں نت نئے آئیڈیاز کی بھرمار ملتی ہے۔ آپ کوئی کاروبار
شروع کرنے جارہے ہوں تو انٹرنیٹ ایک ایسا مشیر ہے جو آپ کو راہ سجھانے کے
بجائے راستہ بُھلا بھی سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر نیا آئیڈیا قابل عمل بھی
ہو۔ اسی طرح کاروباری ’’داؤ پیچ‘‘ آپ کتابوں یا اس موضوع پر انٹرنیٹ سے
ملنے والے مواد سے نہیں سیکھ سکتے۔ کئی مرتبہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ فلاں
کاروبار کے لیے مواقع زیادہ ہیں، جلد ترقی ممکن ہے لیکن انسان کام تو وہی
کرتا ہے جو وہ کرنا جانتا ہو۔ اس لیے کام یاب ترین افراد نے ہمیشہ وہی کام
کیا جو وہ کرنا جانتے تھے۔ کسی دانشور کا قول ہے ’’اگر بہت سا کام کرنا
چاہتے ہو تو ایک کام کرو اور وہ یہ کہ ’’ایک‘‘ کام کرو۔‘‘ اسی اصول کو اپنا
کر ہم کام یابی کی منزل حاصل کرسکتے ہیں۔ نیولینڈ کا کہنا ہے کہ اس نے
جدوجہد کر کے ترقی کی منزلیں طے کرنے والے ان افراد میں یہی خصوصیت دیکھی
کہ وہ مسلسل کوشش سے جس کام کی مہارت حاصل کرتے ہیں اسے ہی اپنا کرئیر
بناتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ کسی تالاب کے تہہ میں قیمتی موتی ہوں مگر آپ
تیرنا نہیں جانتے اورآپ کو معلوم ہو کہ اس کی گہرائی بھی اتنی ہے کہ آپ
کا اس کی تہہ میں جا کر لوٹ آنا ممکن نہیں ہوگا تو آپ کیا کریں گے۔۔۔؟
اُس تالاب کی تہہ سے قیمتی خزانہ لانے کا ارادہ ترک کردیں گے۔۔۔؟ نہیں ،
بلکہ ایک ایسا با اعتماد تیراک ڈھونڈیں گے جو یہ کام کردے، یا خود غوطہ
خوری سیکھیں گے ورنہ تالاب میں لگائی گئی چھلانگ آپ کی آخری چھلانگ ثابت
ہوگی۔
|
|
لنچ کا ایک گھنٹہ
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا شمار عالمی سطح کے زیرک اور کام
یاب سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں ان کی ایک دوست نے لکھا تھا
کہ’’میں نے کبھی چرچل کو قیلولے کا ناغہ کرتے نہیں دیکھا اور ہمیشہ جب وہ
قیلولہ کر کے دوبارہ کام کی طرف لوٹتے تھے تو میں سمجھ جاتی تھی کہ اب چرچل
کے پاس کوئی نیا آئیڈیا ضرور ہوگا۔‘‘ نیولینڈ نے لکھا ہے کہ دنیا کے جن
کام یاب ترین افراد کو اُسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ان میں سے اکثر
دوپہر کے کھانے کے لیے کم از کم ایک گھنٹے کا وقفہ کرتے ہیں۔ اس ایک گھنٹہ
کے وقفے کا مقصد اچھی طرح کھانے پینے یا ادھر اُدھر مٹر گشت نہیں ہوتا بلکہ
انھیں یہ بات معلوم ہے کہ یہ ان کی بہتر کارکردگی کے لیے کتنا ضروری ہے۔
اگر آپ مستقل نظریں جمائیں اور ذہن کو یکسو کیے کوئی کام کرتے رہیں گے تو
رفتہ رفتہ آپ کی طبیعت اُوب جائے گی ، مزاج میں تلخی تحلیل ہونے لگے گی
اور دماغ کا یہ جنجال سر کے درد میں تبدیل ہوجائے گا۔ یہ وقفہ یکسوئی
برقرار رکھنے کے لیے بھی کارآمد ہے۔ آرام بہرحال ضروری ہے۔ کام کے طویل
دورانیے میں ہلکی پھلکی چہل قدمی ، سورج کی روشنی اور تازہ ہوا میں گزرے
چند لمحات آپ کی توانائی کو دوبارہ جمع کردیتے ہیں۔
|
|
کام ختم کرنے کا صحیح وقت
ہم سمجھتے ہیں کہ دیر تک کام کرتے ہوئے ہم زیادہ کام کررہے ہوتے ہیں، ہم
زیادہ سے زیادہ کام مکمل کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن درحقیقت ایسا ہوتا نہیں۔ دیر
تک کام میں الجھے رہنے والے افراد کے لیے اگلا دن سکون کا نہیں ہوتا بلکہ
انھیں یہ احساس گھیر لیتا ہے کہ شاید گزشتہ روز کی جانے والی ساری محنت
رائیگاں گئی اور کام جوں کا توں ان کے سامنے پڑا ہوتا ہے۔ کام کے اس ناتمام
سلسلے کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اس کا وقت مقرر کر دیجیے۔
مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد نہ تو کام اور نہ ہی اس سے متعلقہ کوئی چیز آپ
کی مصروفیت کا حصہ ہونی چاہیے۔ وقت کی اس حد بندی سے آپ زیادہ منظم انداز
میں اپنے امور انجام دینے کے قابل ہوجائیں گے۔ یاد رکھیے، جو دیر تک کام
کرتے ہیں وہ دراصل وقت پر کام نہیں کررہے ہوتے۔ اس لیے زیادہ وقت دینے کے
بجائے پورا وقت دینے کا طریقہ آزمائیں۔
|
|
بڑھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہے
ملازمت یا کاروبار کی شروعات کرنے والے عام طور پر جس عادت کو سب سے زیادہ
نظر انداز کرتے ہیں وہ ہے پڑھنا۔ تعلیم مکمل کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ
آپ نے کالج یا اسکول میں ایک خاص دورانیے تک تعلیم حاصل کی، مختلف درجے
پاس کیے اور اس کے بعد کتابوں کو خیر باد کہہ دیا۔ پڑھتے رہنے کا مطلب ہے
مسلسل جانتے رہنا، یہ عمل اس وقت نہیں رکھنا چاہیے جب آپ اپنے لیے سال بھر
کے لیے کم سے کم آمدنی کا ہدف حاصل کرچکے ہوں۔ انسان ہر دم کچھ نہ کچھ
سیکھتا ہے۔ سیکھنے کے اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے ذہنی سرگرمی کی ضرورت
ہوتی ہے اور مطالعہ ایک ایسی ذہنی سرگرمی ہے جو نہ صرف آپ کی معلومات میں
اضافہ کرتی ہے بلکہ آپ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی پروان چڑھاتی ہے۔
اگر آپ کاروبار کررہے ہیں تو ماضی میں اپنے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد
کی غلطیوں پر نظر رکھیں۔ ایسی سوانح اور خود نوشت تلاش کیجیے جس میں کسی نے
اپنی ناکامیوں سے حاصل ہونے والے سبق بیان کیے ہوں، تاکہ وہ غلطیاں آپ نہ
دہرائیں۔ مطالعے کی مدد سے آپ یہ جان پاتے ہیں کہ کون سا قدم آپ کے لیے
فائدہ مند ثابت ہوگا اور کون سی راہ منزل کی طرف نہیں جاتی۔ مطالعے کی مدد
سے آپ زندگی کی بہترین اقدار سے روشناس ہوتے ہیں، دوسروں پر گزرنے والے
تجربوں میں شریک ہوتے ہیں اور آپ کو زندگی کی وسعتوں کا اندازہ ہوتا۔ آپ
کی زندگی بامعنی ہونے لگتی ہے اور یہ بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر زندگی کو
معنی ملنے ہی سے ان چیزوں کی حیثیت بنتی ہیں جنھیں ہم زندگی کے لیے ضروری
سمجھتے ہیں۔ ان عادتوں کے ساتھ ایک ہم ترین بات یہ بھی ذہن نشیں رکھنے کی
ضرورت ہے کہ جب تک ہم دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا نہیں کرتے، شاید
دولت تو ہم حاصل کرلیں لیکن کام یابی کسی اور ہی دنیا کا نام ہے۔ یہ جذبہ
پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی فیملی سے محبت کے رشتوں کو مضبوط
کرنا ہوگا۔ ایک مشہور انگریزی ناول کا مکالمہ ہے’’اپنی فیملی کی قدر کرنے
والا ہی دراصل آدمی ہوتا ہے۔‘‘ تو بڑا آدمی بننے کی خواہش رکھنے سے پہلے
آدمی بننے کی جستجو بہت ضروری ہے۔ زندگی کو یہ معنویت مطالعے ہی سے ملتی
ہے۔
|
|
زندگی کا وسیع تر مفہوم اور غلطیوں کا
اعتراف
جو اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے ،کامیابی ان کے قدم نہیں چومتی۔غلطیاں
وہی کرتا ہے جو کچھ کرنے کی لگن رکھتا ہے اور کامیاب بھی وہی ہوتا ہے جو
اپنی غلطی کو غلطی سمجھتا ہے۔اپنی غلطی کو غلطی سمجھنا ،انتہائی دانش مندی
کا ثبوت ہوتا ہے ۔زندگی کا مکمل ادراک خوبیوں اور خامیوں میں فرق کو جہاں
واضح کرتا ہے وہاں اپنی خامیوں کو تسلیم بھی کرواتا ہے۔جس پر زندگی اپنے
وسیع تر مفہوم سمیت آشکار ہو جائے وہ کامیابی کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو
جاتا ہے۔جن پر زندگی اپنے مکمل مفہوم سمیت آشکار نہیں ہوتی وہ بے شمار
غلطیاں کرتے ہیں اور ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے انہی کو بار بار
دہراتے رہتے ہیں۔ سب سے بڑی غلطی تو یہی ہے کہ ہم وہ نہیں کرتے جو ہمیں
کرنا چاہئے بلکہ ہم وہ کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے۔ پائیلو
کوہلو ایک عظیم ناول نگار ہیں ،اُن کے ناول الکیمسٹ کا ایک کردار کہتا ہے
کہ ’’تمہیں ہمیشہ علم ہونا چاہیے کہ وہ کیا ہے ،جو تم چاہتے ہو‘‘یہ سچ ہے
کہ جو اپنی حیات میں یہ نہیں جان پاتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ زندگی اُنہیں
دھتکار دیتی ہے ۔وہ ناکام زندگی بسر کر کے موت کی وادی میں اُتر جاتے ہیں۔
کامیاب زندگی کے لیے جہاں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے اُن کی اصلاح ضروری
ہے ،وہیں اپنے مقصد سے آگاہی بھی ضروری ہے ۔ برطانیہ کی سابق وزیراعظم
مارگریٹ تھیچر سے کسی نے ان کی کامیاب زندگی کا راز پوچھا تو وہ دیر تک
مسکراتی رہیں اور پھر بولیں’’میں ہر روز رات سونے سے پہلے دن بھر کے کام کے
بارے میں سوچتی ہوں کہ آیا میں نے اپنا کام احسن طریقے سے کیا ہے یا نہیں،
تھوڑے سے تجزیے کے بعد میں سمجھتی ہوں ، ہاں میں نے فرض ادا کیا ہے۔ پھر
آرام سے سو جاتی ہوں ، صبح اٹھ کر سب سے پہلے گزشتہ روز کے کام میں نقائص
نکالتی ہوں اور عہد کرتی ہوں کہ مجھے آج گزشتہ روز کے مقابلے میں بہتر کام
کرنا ہے ‘‘۔ اپنی غلطیوں پر نظر رکھنا دَرحقیقت بڑے حوصلے کا کام ہے ۔بہت
کم لوگ اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتے ہیں۔ لیکن جن کے اندر یہ حوصلہ پیدا ہو
جائے تو وہ سربلندی کی سیڑھیوں پر چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لوگوں سے بڑی
غلطی سرزد ہو جاتی ہے مگر وہ اُسے قبول نہیں کرتے، اس کے ساتھ ہی پیچیدہ
صورتِ حال جنم لے اُٹھتی ہے ۔معاملہ طول پکڑ جاتا ہے ۔پھر ایک غلطی کی
بدولت کئی غلطیاں رُونما ہونے لگتی ہیں اور نتیجہ تباہی پر منتج ہو تا
ہے۔ہمیشہ غلطیاں ہی تباہی کے دہانے تک لے کر جاتی ہیں؟یا آدھی حقیقت ہے
پوری حقیقت یہ ہے کہ غلطیوں سے نہ سیکھا جائے۔ کامیاب زندگی کے لیے جہدِ
مسلسل کی عادت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ جہدِ مسلسل اُس وقت ثمرات دے گی جب
اُس جہد وجہد کے عمل میں کم سے کم غلطیاں کی جائیں اور غلطیوں سے سیکھا
جائے۔ کامیاب زندگی کے راز بے شمار ہیں۔ مگر ایک بات بہت ہی روشن ہے اور وہ
یہ کہ مقصد کا ادراک ہونا چاہیے اور اپنی غلطیوں کو قبول کر کے اُس سے
سیکھنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ |
|