ان لوگوں کی تنظیم اس قدر مضبوط،
خفیہ، اور تہہ در تہہ الجھی ہوئی تھی کہ کسی کو ان کے اندر جھانکنے، حالات
معلوم کرنے یا ان کے اندر پائی جانے والی اس قدر مضبوط وفاداری کی وجہ
جاننے میں کامیابی نہ ہوسکی۔ بس لوگوں کی زبانی خبریں ملتی رہتیں کہ انہوں
نے فلاں کو اغواء کرلیا، تشدد کر کے ہلاک کردیا، لاش پر اپنی تنظیم کا نشان
کھرچ دیا، کسی بڑے سرمایہ دار سے تاوان وصول کرلیا۔ لیکن جب بیسویں صدی کے
آغاز میں ایک تاریخ دان سپی پیڑے ان کے علاقے میں پہنچا تو وہ حیران رہ گیا۔
جو لوگ پوری دنیا کی نظر میں مافیا کی صورت میں جانے جاتے تھے، جرائم پیشہ
لوگوں کا ایک گروہ، انہیں تو علاقے کے لوگ نجات دہندہ، امن و امان قائم
کرنے والے معاشرتی ذمہ داریاں نبھانے والے، لوگوں کے خیر خواہ اور آئیڈئیل
کی حیثیت سے جانتے تھے۔ جب اس نے عام لوگوں سے سوال کرنے شروع کئے تو کوئی
اسے جواب نہ دیتا۔ بس ہر کوئی یہ کہتا کہ ہم ان کی وجہ سے امن کی زندگی
گزار رہے ہیں۔ چین سے اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ نہ پولیس تنگ کرتی ہے اور نہ
ہی کوئی چور ڈاکو ہمارا سامان لوٹتا ہے۔ اس نے لوگوں سے بھتہ خوری کے بارے
میں سوال کیا تو لوگوں نے دبے لفظوں میں جواب دیا کہ اپنی آمدنی میں سے
تھوڑی سی رقم اگر ہم مافیا کو دے دیں اور بدلے میں ہمیں سکون اور اطمینان
مل جائے تو کیا یہ بُرا سودا ہے؟
سسلی کا یہ مافیا سب سے پہلے ایک لسانی تنظیم کے طور پر وجود میں آیا جو
ہسپانوی نژاد باشندوں کے سیاسی اور معاشی اقتدار کے خلاف بنی۔ ان کی شروع
شروع کی کاروائیاں خفیہ تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ایک سیاسی تنظیم کے
طور پر پیش کیا جو سسلی کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہو۔ ان لوگوں نے
اپنی صفوں میں ایسے غنڈے بھرتی کر رکے تھے جو حکومت، سرمایہ داروں اور
جاگیرداروں کے خلاف استعمال ہوتے۔ کیونکہ یہ لوگ ایک ایسے شہر میں اپنی
سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے جو تجارتی مرکز بھی تھا اور بحیرہ قلزم کی ایک
اہم ترین بندرگاہ بھی۔ اس لئے انہیں حکومتوں کو دباؤ میں لانا بہت آسان تھا۔
یہ وہ دور تھا جب اس علاقے میں انارکی، قانون کی عدم موجودگی اور حکومتی
اختیار کی بے بسی نمایاں تھی۔١٨٤٨ سے ١٨٦٠ تک مافیا نے اپنے آپ کو سسلی کا
بلاشرکت غیرے مالک بنائے رکھا۔ لیکن جب اٹلی کی فوج نے اس بد امن علاقے کو
جو عملی طور پر آزاد اور خود مختار ہوگیا تھا اور وہاں حکومت نام کی کوئی
چیز نظر نہیں آتی تھی ایکشن کر کے اپنے ساتھ ملانا چاہا۔ جیری بالڈی نے ١١
مئی ١٨٦٠ کو ایک ہزار رضاکاروں کے ساتھ اس شہر کا گھیراؤ کیا۔ مافیا کو علم
ہوگیا کہ جیری بالڈی جیت جائے گا۔ وہ ہارے ہوئے لوگوں کے ساتھ رہنا اپنی
موت سمجھتے تھے اس لئے وہ بالڈی کی فوج کے ساتھ مل گئے، اب ان کا شہر اٹلی
کی حکومت کا ایک ناقابل تنسیخ حصہ تھا۔
لیکن اس وقت تک مافیا ایک مضبوط معاشرہ اور جینے کا ایک رنگ ڈھنگ بن چکا
تھا۔ ایک مضبوط مرکز اور سیاسی حکومت میں اس طرح افراتفری پیدا کر کے اپنا
مقصد حاصل نہیں کرسکتے۔ اب انہوں نے رنگ ڈھنگ بدل دئے۔ نئے قواعد و ضوابط
بنالئے۔ انہوں نے غنڈہ ٹیکس کا نام محافظ ٹیکس رکھ لیا۔ انہوں نے ایک مضبوط
قبضہ گروپ بنا لیا۔ جہاں کہیں زمین کا مالک زمین پر موجود نہ ہوتا۔ کمزور
ہوتا یا مخالف ہوتا اس کی زمین پر قبضہ کرتے اور اپنے منظور نظر افراد کو
دے دیتے علاقے کے جج اور پولیس افسران ان سے شدید خوفزدہ تھے ججوں اور
پولیس افسروں کو ٹارگٹ کلنگ سے مارنا ان کا معمول تھا۔ انہوں نے خوف کو
اپنے حق میں استعمال کیا۔
اکثر اہلکار خوف سے ان کے ساتھ ہوگئے اور اور پھر ان سے باقاعدہ رشوت بھی
لینے لگے۔ مافیا کا ایک اور طریقہ کار زبان بندی بھی تھا۔ انہوںنے قانون
اومڑا جاری کیا، جس کے تحت کوئی شخص مجرم کی نشاندہی نہیں کرے گا خواہ اس
نے اپنے سامنے قتل ہوتے دیکھا ہو اور خواہ مقتول اس کا بھائی، بیٹا یا
خاوند ہی کیوں نہ ہو، یہی قانون مافیا کی صفوں میں آج بھی جاری ہے۔ کیمروں
سے مجرموں کی تصویریں تک میڈیا پر آجائیں لیکن ان کے لوگ اور ان سے خوفزدہ
عوام ان کو شناخت نہیں کرتے۔ ڈیڑھ سو سال پرانا بنایا گیا یہ َ َ اومڑا َ َ
سسلی ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر اس شہر میں نظر آتا ہے جہاں مافیا کا راج
ہوتا ہے کیوں کہ ایک دفعہ مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت اگر پولیس کو دے
دی گئی تو پھر وہ ان لوگوں تک بھی پہنچ جائے گی۔ اس لئے خواہ یہ لوگ خود
مریں یا دوسروں کو ماریں مجرم کی نشاندہی نہیں کرتے۔ اپنے اسکور خود پورے
کرتے ہیں۔
یہ مافیا امریکہ اور سی آئی اے کا بھی ہمیشہ منظور نظر رہا۔ ان کے اکثر
جلاوطن رہنما برطانیہ اور امریکہ کے شہر نیو اورلینز میں جاکر آباد ہوئے
جہاں ان کے رابطے سی آئی اے کے ساتھ مستحکم ہوگئے۔١٩٧٢ میں سی آئی اے کے
افراد کے انکشافات کے مطابق سسلی کا یہ مافیا مشرقِ بعید کے ممالک میں
ہیروئین اور چرس کے کاروبار کا ایک بہترین ذریعہ بن گیا جسے جاسوسی زبان
میں فرنچ کنکشن کہا جاتا ہے، سسلی کا یہ مافیا عموماً ایک کارپوریٹ کلچر کی
طرح منظم ہوتا ہے جس میں ایک شخص کے ساتھ وفاداری ایمان کی حد تک کی جاتی
ہے، تاریخی طور پر ایسے شخص کو Capudi tutti capi کہا جاتا تھا یعنی پوری
تنظیم یا تحریک کا قائد۔ ان دنوں اسے capofamiglia یا پھر ڈان کہا جاتا ہے۔
یہ شخص عموماً اپنی تنظیم یا علاقے سے دور کسی دوسرے ملک میں بیٹھا ایک
کمیٹی یا کونسل کے ارکان کے ذریعے پوری تنظیم اور علاقے پر حکومت کررہا
ہوتا ہے، اس کا خوف اس کی طاقت ہوتا ہے۔ اس کی کمیٹی یا کونسل کے ارکان تک
کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ان میں سے کون، کس طرح، اور کب ڈان کو خبر
پہنچا دے اور پھر ان کی زندگی کا چراغ گل کرنے کا حکم آجائے۔
یہ صرف اٹلی کے علاقے سسلی کی کہانی نہیں بلکہ دنیا کے ہر اس شہر کی داستان
ہے جہاں مافیا نے لوگوں کے حقوق کی جنگ کے نام پر اکٹھا ہونا شروع کیا۔
عوام کے جذبات ابھارنے کے لئے نچلے طبقے یا مڈل کلاس کی بالادستی کی بات کی،
لوگوں کے حصے اور انتقام کی اس حد تک بڑھایا کہ اگر کسی امیر آدمی سے تاوان
کی رقم وصول کر کے خدمت خلق کے نام پر لوگوں میں تقسیم کیا جاتا تو لوگوں
کو اس جرم سے نفرت تک نہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب شکاگو کے مافیا چیف کلو
سیمو کا جنازہ اٹھا تو ہزاروں کی تعداد میں افراد اس میں شریک تھے۔١٩٢٠ میں
لندن شہر دو سیسے گروہوں میں تقسیم ہوگیا تھا جن کے اپنے اپنے علاقے تھے
اور وہ اپنے علاقوں سے بھتہ وصول کر کے وہاں امن کی ضمانت دیا کرتے تھے۔
مافیا اپنے آپ کو سیاست سے الگ نہیں کرسکتا۔ دنیا کے جن شہروں میں بھی
مافیا کا راج ہوتا ہے وہاں کے سینیٹر، اسمبلی کے ارکان حتیٰ کہ شہری اداروں
کے سربراہ تک انہی کی آشیر باد سے یا پھر انکی سیاسی تنظیم سے منسلک ہوتے
ہیں۔ شکاگو ہو یانیو اورلینز، سسلی ہو یا کولمبیا مافیا کبھی اپوزیشن میں
نہیں بیٹھتا۔ اسے ہر حال مٰن حکومت کی پشت پناہی چاہئے ہوتی ہے۔ لیکن مافیا
کی موت کی بھی اپنی تاریخ ہے۔ جب لوگ قتل ہوتے ہیں اور کوئی مجرم کی شناخت
کو تیار نہ ہو مظلوموں کی آہوں اور اشکوں سے صرف گھروں کے اندھیرے ہی آباد
ہوں اور باہر ان کی صدا تک نہ آئے، تو ایسے میں میرے اللہ کا ایک دستور ہے
کہ وہ ظالموں کی ظالموں سے ہلاک کرواتا ہے، دنیا کا ہر مافیا اسی وقت تباہی
کے دہانے پر پہنچا جب بھتہ خوری، لالچ اور اقتدار کی جنگ نے ان کے مقابل
کسی اور لاکھڑا کردیا، پھر کیا تھا سسلی میں بڑے بڑے ڈان چیختے رہے کہ
ہماری ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، ہمیں مارا جارہا ہے اور لوگ خاموش تماشائی بنے
دیکھتے رہ گئے، کیونکہ ظلم پر خاموش رہنے کا دستور “ اومڑا “ تو انہوں نے
ہی لوگوں کو سکھایا تھا۔
قارئین اوریا مقبول جان صاحب کا یہ کالم روزنامہ ایکسپریس کی بیس جنوری کی
اشاعت میں اومڑا کے نام سے شامل تھا۔ ہمیں یہ مضمون پسند آیا اس لئے سوچا
کہ آپ کے ساتھ بھی اس کو شئیر کیا جائے۔ اس لئے ہم نے اس کالم کو ہماری ویب
کے قارئین کے لئے یہاں پیش کیا۔ آپ کو یہ کتنا پسند آیا آپ کی رائے کا
انتظار رہے گا۔ |