سوئی سدرن گیس کے سیاہ گڑھے، جو ادارے کے نام پر کالک مل رہے ہیں
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
پاکستان میں اچھے اچھے منافع بخش
ادارے کیسے تباہ ہوتے ہیں، اس کی ایک زندہ مثال سوئی سدرن گیس کمپنی ہے۔
کبھی یہ کمپنی اپنی دیانت، سروس، سہولیات کی فراہمی، قیمت، اور بلنگ کے لئے
مثالی کہی جاتی تھی۔ اس کے ملازمین کی اکثریت ایماندار، بے لوث، ادارے سے
کمنٹمنٹ کے لئے مشہورتھی۔ اس کے لئے ادارے کے سابقہ افسران اور انظامیہ نے
بہت محنت بھی کی تھی۔ لیکن اب یہ ادارہ بھی دیگر اداروں کی طرح روبہ زوال
ہے۔ اب اس کا کام یا تو گیس کی لوڈ شیڈنگ یا گیس کی چوری روکنا، یا اپنے
صارفین کو گیس کے پریسر میں کمی کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا ہے۔ کراچی
حیدرآباد میں ہزاروں گھروں کے چولھے گیس کے انتظارمیں رہتے ہیں۔ بہت سے بچے
اور کمانے والے افراد صبح سویرے گھر کے ناشتے سے محروم رہتے ہیں۔ کچھ عرصے
پہلے سوئی سدرن نے ایسا ہی ڈراوا دیتے ہوئے صارفین کو نوید سنائی تھی کہ
سندھ میں سی این جی کی مسلسل فراہمی کیلیے صنعتوں کے گیس استعمال میں کمی
ضروری ہے،کمپنی کا کہنا تھا کہ گیس استعمال میں کمی سے پٹرول بحران پر قابو
پانے میں مدد ملے گی۔سوئی سدرن نے صنعتوں سے اپیل کی تھی کہ وہ رضاکارانہ
طور پرگیس کے استعمال میں 30 فیصد تک کمی کریں.۔ اب پیٹرول کا بحران تو اس
کے سستے ہونے سے کم ہوگیا ہے۔ جانے گیس کے بحران کا کیا ہوگا۔ سوئی سدرن
گیس کمپنی کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں گیس کی فراہمی میں شدید حد
تک کمی اور بندش نے شہریوں کی اذیت میں کئی گناہ اضافہ کر رکھا ہے۔ دنیا
بھرمیں بجلی، پانی ، گیس کی فراہمی کے ادارے عوامی خدمت کیلئے اولین سمجھے
جاتے ہیں جو عوام کو ہر ممکن سہولت فراہم کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے
ملک میں عوامی خدمت کے ادارے عوام کے لئے زحمت بن چکے ہیں۔ عوام کو بنیادی
سہو لتوں سے محروم رکھنے کا عمل کسی ملک کی تعمیرو ترقی میں فائدہ مند نہیں
ہوتا بلکہ اس قسم کے عمل سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ حکومت
اپنے چکر میں ہے، وہ عوام کی بنیادی ضروریات پر انھیں بلیک میلنگ کر رہی
ہے، پیٹرول سستا ہونے پر پنجاب اور سرحد میں پیٹرول کی مصنوعی قلت کرکے جس
طرح عوام کو لوٹ گیا ہے، اس نے ایک بار پھر ڈالر اکاونٹ منجمد کرنے، اور
ڈالر کی قیمتوں کو اوپر نیچے کرکے عوام کو لٹنے کی ساری کہانیاں یاد دلا دی
ہیں۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں گیس کے ذخائربس اب ختم ہواچاہتے
ہیں اور ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے فوری طور پر اس کی درامد یا
کوئی اور متبادل راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ کچھ عرصے پہلے تک قطر سے گیس کی
درامد کرنے کا شور تھا۔ یہ منصوبہ کس کے ذہن کی پیداوار تھا، اور کون کون
اس سے مال کمانا چاہتے ہیں، اس بارے میں بھی حقائق منظر عام پر آہی جائیں
گے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ یہ ملک کو مستقل طور پر گروی رکھنے کا سامان
ہے۔اس کی ڈیل مشکوک ہے، کہا جارہا ہے کہ یہ ڈیل قطر کی حکومت کے ساتھ نہیں
کی جارہی بلکہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کونوکو فلپس کے ساتھ کی جارہی ہے۔ اس
ڈیل کو پاکستان میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی اینگروہینڈل کرے گی۔ اس طرح یہ دو
ملٹی نیشنل کمپنیاں آپس میں کاروبار کریں گی جس کی قیمت پاکستانی عوام ادا
کرے گی۔ مڈوے ٹائمز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے یومیہ پانچ
سو ملین کیوبک فیٹ گیس خریدنے کا بیس برس تک کا معاہدہ کیا ہے۔ اب پاکستانی
حکومت یہ گیس لے یا نہ لے ، اس کو اس کی ادائیگی جو تقریبا پچاس لاکھ ڈالر
روزانہ ہے وہ کرنی پڑے گی۔ اس معاہدہ کی رو سے حکومت پاکستان یہ گیس کسی
دوسرے ملک کو فروخت نہیں کرسکے گی اور اس کی قیمت پندرہ ڈالر فی ملین بی ٹی
یو بتائی جارہی ہے جو پاکستان میں سوئی سدرن گیس کے نظام میں داخل ہونے کے
بعد چوبیس ڈالر فی ملین بی ٹی یو تک پڑے گی۔جس سے پاکستان میں گیس کے نرخ
کئی گنا بڑھنے کا امکان ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس قیمت میں بیس سال
تک کوئی ردوبدل نہیں کیا جاسکے گا۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اس پورے کھیل
میں پاکستانی سیاستدانوں اور دیگر کھلاڑیوں کو تقریبا چار سو ارب روپے کا
کمیشن ملے گا۔اب رہا یہ سوال کہ گیس ختم ہوگئی توکیا کیا جائے گا۔ تو کیا
واقعی پاکستان میں گیس کے ذخائر ختم ہورہے ہیں۔ یہ ایک مفروضہ ہے۔ ہم نے
ابھی تک گیس کے موجودہ ذخائر کو استعمال ہی نہیں کیا ہے۔ سندھ میں سانگھڑ
کے مقام پر قدرتی گیس کے جووافر ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ اس پر ابھی کام ہی
نہیں ہوا۔ سندھ میں کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں شیل یا ٹائٹ گیس کے ذخائر
وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ شیل یا ٹائٹ گیس کا کیمیائی فارمولا قدرتی
گیس سے ذرا ہی مختلف ہوتا ہے مگر اس کا کام اور استعمال قدرتی گیس جیسا ہی
ہوتا ہے۔ امریکا ، کینیڈا ور چین یہ ذخائر نہ صرف نکال رہے ہیں بلکہ ملکی
ترقی کے لئے بھرپور استعمال بھی کررہے ہیں۔ مڈوے ٹائمز کی رپورٹ میں ایک
امریکی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق یہ ذخائر پاکستان میں کینیڈا
سے بھی زیادہ ہیں۔امریکہ نے حال ہی میں ان ذخائر کو استعمال کرنا شروع کیا
ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان میں گیس کی موجودہ کھپت کو آئندہ
بیس سال میں تین گنا بھی بڑھا لیا جائے تو بھی یہ ذخائر آئندہ بیس برس تک
ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں۔مستقبل میں ٹیکنالوجی کہا ں
پہنچے گی، اور مزید کیا امکانات ہوں گے اس بارے ہمیں اچھی امید رکھنے
چاہیئے۔ حکمرانوں کی نیت ٹھیک ہوگی تو وسائل بھی قدرت مہیا کرے گی۔ سجاول
میں ایسے ہی ایک کنوئیں سے سوئی سدرن گیس یہی ٹائٹ یا شیل گیس حاصل کررہی
ہے اور چھ ڈالر فی ملین ایم بی ٹی یو کی ادائیگی کررہی ہے۔ اس اندازہ کر
لیں ۔ کہاں چھ ڈالر اور کہاں چوبیس ڈالر۔ دوسری جانب سوئی گیس اوگرا کے
ذریعہ گیس کی قیمت میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔ گذشتہ سال اوگرا سے جاری
نوٹیفیکیشن کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی کے ٹیرف میں73روپے ایم ایم بی ٹی
یو جبکہ سوئی ناردرن کے ٹیرف میں 50.62پیسے ایم ایم بی ٹی یو کا اضافہ کیا
گیا تھا۔۔ٹیرف میں اضافے کی منظوری مالی سال 2014-2015 کے بجٹ میں دی گئی
تھی۔اوگرا کے ترجمان نے اس اضافے پر یہ کہ کر تسلی دی تھی کہ دونوں کمپنیوں
کے ٹیرف میں اضافے کا عوام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ32ارب روپے سرچارج
کی مد میں صوبوں کی مد میں سے کٹوتی کی جائے گی اوراس سے سوئی ناردرن اور
سوئی سدرن گیس کمپنیوں کے پیداوری اثاثوں میں اضافے کی توقع ہے۔ دوسری جانب
سوئی سدرن گیس اپنے واجبات کی وصولی میں بھی کمزور یا تسائل کا شکار ہے،
اور اب اس سلسلے میں مقدمات کا بوجھ برداشت کر ہی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں
سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے واجبات کی وصولی کے لیے کے ای ایس سی کے
خلاف 55 ارب 70 کروڑ سے زائد کا دعویٰ دائر ہے، سوئی سدرن گیس کمپنی کے ای
ایس سی کو پاور جنریشن یونٹس کی مد میں بلاتعطل گیس فراہم کرتی رہی ہے لیکن
اس نے وصولیوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اب کے ای ایس سی کے اوپر 55 ارب 70
کروڑ سے زائد روپے واجب الادا ہیں لیکن ان کی ادائیگی نہیں ہورہی ہے، اب کے
ای ایس سی نے بغیر کسی منظوری اپنا نام تبدیل کرکے کے الیکٹرک کردیا ہے ،
جس سے اور مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ مثلا یہ کہ گیس کی فراہمی کامعاہدہ سوئی
سدرن گیس کمپنی اور کے ای ایس سی کے درمیان ہوا تھا۔ اب کے الیکٹرک سے یہ
واجبات کیسے ملیں گے۔ سوئی سدرن والے عام صارف کے تو چند ہزار ہوجائیں تو
گیس کاٹنے آجاتے ہیں۔ بڑے اور بااثر اداروں سے وصولی میں ناکام رہتے ہیں۔
جانے ایسے کتنے واجبات ہیں۔ سوئی سدرن کی تباہی کا ایک اور سوئی سدرن گیس
کمپنی کے منافع میں کمی کا ہے۔ اس ساک کی رپورٹ تو ابھی منظر عام پر نہیں
آئی تاہم گذشتہ سال کمپنی کو منافع میں 45 فیصد سے زائد کمی ہوئی تھی۔ اس
کی وجہ گیس چوری اور بلوں کی عدم ریکوری قرار دی گئی تھی۔ سوئی سدرن گیس
کمپنی نے سال 2010-11 میں 4.724 ارب روپے کا خالص منافع کمایا تھا
جو2011-12 میں کم ہوکر 2.581 ارب روپے رہ گیا تھا۔یہ ایک عضیب بات ہے کہ
ایک جانب تو صارفین کی تعداد2.37 ملین سے بڑھ کر 2.49 ملین تک پہنچی ۔اور
آمدنی 126 ارب روپے سے بڑھ کر153 ارب روپے ہوئی۔ لیکن گیس فروخت اور صارفین
کی تعداد میں اضافے کے باوجود کمپنی کے خالص منافع کو گیس چوری اور گیس کے
ضیاع نے چاٹ لیا۔ اب دونوں گیس کمپنیوں سوئی ناردرن اور سدرن میں بھاری گیس
نقصانات اور چوری سے معاملات وگر گوں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں
سالانہ 35ارب روپے سے زیادہ کی گیس چوری اور نقصانات کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہ
بات اوگرا نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال 13-2012 میں تسلیم کی ہے۔اس
رپورٹ میں بھاری گیس نقصانات اور گیس چوری کو کمپنیوں کی ناقص کارکردگی
بتایا گیا ہے۔ اور یہ نقصانات صارفین پر گیس قیمت میں اضافے کی صورت میں بو
جھ ہوں گے۔اور کمپنیوں کے منافع میں بھی کمی ہوگی۔ گیس کی چوری کتنی بڑھ
چکی ہے اس کا اندازہ اس خبر سے کیا جاسکتا ہے کہ گذشتہ سال سوئی سدرن گیس
نے کراچی میں کارروائی کرکے چار ہزار سے زائد گیس چوروں کے کنکشن منقطع
کیئے تھے۔ اندازے کے مطابق صرف کراچی میں سالانہ پچاس سے پینتالیس کروڑ
روپے کی گیس چوری کی جارہی ہے۔ سوئی سدرن گیس کی ٹاسک فورس کے بھی بہت سے
علاقوں میں جاتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ سوئی سدرن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ
سوئی سدرن گیس کو سالانہ دوسو ستر ایم ایم سی ایف ڈی گیس چوری کا سامنا ہے۔
یہ گیس کی چوری ہزاروں میٹر لمبے پائپوں سے ہوتی ہے۔ سوئی سدرن گیس کے نئے
ایم ڈی خالد رحمان اور کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر شیعب وارثی کے لئے یہ
صورتحال ایک چیلنج ہے۔ گو انھیں اپنی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے زیادہ دن
نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن انھیں ان سیاہ گڑھوں پر توجہ کرنی ہوگی، جس اس اچھے
بھلے ادارے کے نام پر کالک مل رہے ہیں۔ |
|