جعلی جمہوریت اور جعلی آمریت

5 فروری کویکجہتی کشمیرکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خاں صاحب نے فرمایا’’پے درپے آمریتوں اور جعلی جمہوریتوں کی وجہ سے ہمیں ابھی تک آزادی میسرنہ آسکی ۔ہمیں جمہوریت کے ساتھ آمربھی جعلی ملے ،اگرکوئی اچھاڈکٹیٹرمل جاتاتو ملک آگے نکل جاتا‘‘۔ دراصل ہمارے خاں صاحب جس ’’انگلیسی جمہوریت‘‘ کی تلاش میں ہیں ،وہ توجمہوریت کی ’’نانی،پڑنانی‘‘ہے جبکہ پاکستانی جمہوریت ’’نَومولود‘‘۔ دو عشرے انگلستان میں گزارنے والے کپتان صاحب مغربی جمہوریت سے متاثرہیں۔ خارزارِسیاست میں قدم رکھتے ہی اُن کا واسطہ ’’پاکستانی جمہوریت‘‘سے پڑاجس سے وہ بجا طور پربَددل ہوگئے ۔پھر جب ’’مشرفی آمریت‘‘مسلط ہوئی تو خاں صاحب کواِس میں کشش نظرآئی اوروہ تحریکِ انصاف کاجھنڈا اٹھاکرپرویزمشرف کے جلسوں میں شریک ہونے لگے ۔اُس زمانے میں وہ پرویزمشرف کے ہراقدام کی بھرپورتحسین کرتے نظرآئے ۔تمام سیاسی جماعتوں نے مشرف کے ریفرنڈم کابائیکاٹ کیالیکن خاں صاحب نے بھرپور ساتھ دیا ۔گَڑبڑ تو 2002ء کے الیکشن کے بعدہوئی جب ’’بے وفاڈکٹیٹر‘‘ طوطاچشم نکلا۔خاں صاحب تونیا پاکستان بہت پہلے بناچکے ہوتے اگر پرویزمشرف خاں صاحب سے کیاگیا وعدہ وفاکرتے ہوئے اُنہیں وزیرِاعظم بنادیتے لیکن اُس ’’جعلی آمر‘‘نے تو کئی لوگوں سے وزارتِ عظمیٰ کا وعدہ کیاہواتھا مگر قرعہ فال نکلا ڈیرہ مرادجمالی کے میرظفراﷲ جمالی کے نام ،جنکے بارے میں کسی نے سوچاتک نہ تھا ۔تب خاں صاحب کو سوفیصد یقین ہوگیا کہ یہ ڈکٹیٹرجعلی ہے ۔دوسری بار خاں صاحب کے ساتھ پھر’’ہَتھ‘‘ اُس وقت ہوا جب اُنہیں یقین دلادیا گیاکہ اِدھر وہ ڈی چوک اسلام آبادپہنچے اوراُدھر’’ اچھّے ڈکٹیٹر‘‘کی انگلی کھڑی ہوئی ۔خاں صاحب تو حسبِ وعدہ بڑے طمطراق سے ڈی چوک پہنچے لیکن طویل انتظارکے باوجود ’’انگلی‘‘کھڑی نہ ہوسکی ۔اِس ’’سانحے‘‘کے بعدتو یہ خاں صاحب کا جزوِایمانی بَن گیاکہ پاکستان میں جمہوریت توجعلی تھی ہی ،ڈکٹیٹربھی جعلی ہی ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں جمہورت جعلی ،آمریت جعلی ،الیکشن کمیشن جعلی ،نگران حکومتیں جعلی ،تحقیقاتی کمیشن جعلی ،عدلیہ جعلی اور سب سے بڑھ کرحکومت جعلی ۔ایسے میں یہ خاں صاحب ہی کی ہمت اورحوصلہ ہے کہ وہ اِن ’’جعلی فضاؤں‘‘میں بذریعہ ڈی جے بٹ قوم کویہ پیغام دے رہے ہیں کہ
حق کا پرچم لے کر اُٹھو
باطل سے ٹکراؤ
مارو یا مر جاؤ

ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر انتھک محنت کرنے والے جرّی ،پُرعزم اور وطن کی مٹی سے والہانہ محبت کرنے والے جنرل راحیل شریف ایک ’’اچھے ڈکٹیٹر‘‘بن کرملک کی باگ ڈورسنبھال لیتے تو کپتان صاحب خوش ہوجاتے اورلندن میں بیٹھے الطاف بھائی بھی ۔ جنرل صاحب کودَس بار وردی میں منتخب کروانے والے بھی ڈھیروں ڈھیر مل جاتے اورلال حویلی بھی روشنیوں سے جگمگا اُٹھتی لیکن ’’نشانِ حیدر‘‘گھرانے کے سپوت جنرل راحیل شریف صاحب اِس کے لیے مطلق تیارنہیں۔ اِس لیے خاں صاحب کو جنرل صاحب کے ریٹائرہونے کا انتظار کرناہوگا ۔اُن کے جانے کے بعدہو سکتاہے کہ خاں صاحب کی اُمید بَرآئے ۔ویسے بھی جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ تک اتنا عرصہ توگزر چکاہوگا کہ جمہوریت کو’’سستانے ‘‘ کے لیے گھربھیج دیاجائے ۔خاں صاحب کا عزمِ صمیم اُنہیں اتنا عرصہ توانتظار کرواہی سکتاہے کیونکہ اُنہوں نے خودہی فرمایا’’ہم حکومت پر محمودغزنوی کی طرح حملے کرتے رہیں گے ‘‘ محمودغزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کیے تھے اِس لیے ہم خوش تھے کہ ابھی پاکستانی ’’محمودغزنوی‘‘کے سولہ حملے باقی ہیں جن کے لیے پچیس سال درکار ہوں گے۔اِس دَوران چینی صدرکا دَورہ بخیروخوبی انجام پاجائے گااور حکمرانوں کو بھی یہ کہنے کاموقع نہیں ملے گاکہ اُنہیں کام نہیں کرنے دیاگیا لیکن ہمارے ’’شریر‘‘وزیرِاطلاعات فرماتے ہیں کہ ’’عمران خاں صاحب بات تو وزیرِاعظم کے استعفے سے شروع کرتے ہیں لیکن مان SHO کے استعفے پر جاتے ہیں‘‘اگر وزیرِاطلاعات پرویزرشیدصاحب طنزکے ایسے ہی تیربرساتے رہے توبات وزیرِاعظم کے استعفے تک بھی پہنچ ہی جائے گی ۔

اگر خاں صاحب یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی جمہوریت جعلی ہے توکچھ غلط بھی نہیں کہتے کیونکہ پاکستان میں آمریت اور جمہوریت میں بس نام ہی کافرق ہے ۔قوم کا واسطہ ہمیشہ ’’جمہوری آمروں‘‘سے پڑتارہا اِس کے باوجودبھی یہی سمجھا جاتارہا کہ ’’بدترین جمہوریت ،بہترین آمریت سے بہترہے ‘‘لیکن آج خاں صاحب نے یہ انکشاف کرکے ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈال دیاکہ آمربھی جعلی ہوسکتاہے۔ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ آمرصرف آمر ہوتاہے ،اصلی نہ نقلی۔ اِس لیے اگر خاں صاحب نے آمر پرویزمشرف کاساتھ اِس لیے دیاکہ وہ ’’اچھّاڈکٹیٹر‘‘تھا ،توغلط کیا۔ وزیرِاطلاعات ونشریات نے کپتان صاحب کے بیان کے بعد فرمایا’’عمران خاں کشمیر ایشوپر بات کرنے کی بجائے اپنی جھوٹ اور فریب پرمبنی داستان لوگوں کو سنارہے ہیں ۔ریفرنڈم کے حامیوں کو آج بھی ڈکٹیٹریاد آرہے ہیں ۔خاں صاحب یومِ کشمیرپر بھی وزیرِاعظم کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے سے باز نہیں آئے ۔وہ نہ جانے کب ذاتیات سے باہر نکلیں گے‘‘ ۔پرویزرشیدصاحب نے باقی باتیں تو بس ’’ایویں ای ‘‘کی ہیں اصل بات وہ چھپاہی گئے ۔اُنہیں اصل غصّہ کپتان صاحب کے اِس بیان پرہے کہ ’’نوازشریف اورزرداری اِس طرح ملے ہوئے ہیں جیسے بچھڑے ہوئے بھائی ہوں ‘‘۔اب پرویزرشیدصاحب کو کون سمجھائے کہ کپتان صاحب کے بھی ایک بھائی ہواکرتے تھے جو خاں صاحب کو ’’بیچ منجدھار‘‘ چھوڑکر کینیڈاسدھارگئے اور ہمارے کپتان اکیلے رہ گئے۔اب خاں صاحب جب بھی کسی کوگلے ملتا دیکھتے ہیں تو اُنہیں ’’اپنے بھائی‘‘کی یادستانے لگتی ہے ۔ میاں صاحب اورزرداری صاحب کی الفت ،محبت اور یگانگت کودیکھ کرخاں صاحب کا ’’دُکھ‘‘سمجھ میں آتاہے اوربقول عبد الحمیدعدم
گلے ملتے ہیں جب آپس میں دو بچھڑے ہوئے ساتھی
عدم اِن بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے

اینٹ کاجواب پتھرسے دینے والے پرویزرشید صاحب نے جب یہ سُناکہ خاں صاحب نے اپنے آپ کو محمودغزنوی سے تشبیہ دی ہے تو اُنہوں نے آؤ دیکھانہ تاؤ اپنے آپ کو پنڈت جواہرلال نہروہی سمجھ لیا ۔ایک دفعہ نہرونے کہاتھا کہ ’’میں اتنے پائجامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیرِاعظم بدلتے ہیں‘‘۔ پرویزرشیدصاحب چونکہ’’ پائجامہ‘‘ پہنتے ہی نہیں اِس لیے اُنہوں نے خاں صاحب کے جواب میں یہ کہہ دیا ’’میں اتنے کوٹ نہیں بدلتا جتنے خاں صاحب بیان بدلتے ہیں ‘‘۔خاں صاحب کے بیانات بدلنے کوتو رکھیے ایک طرف ،پہلے یہ پتہ چلاناچاہیے کہ قوم کوکڑوی گولی کھانے کادرس دینے والے پرویزرشیدصاحب کے پاس کوٹ ہیں کتنے اور آئے کہاں سے ؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643367 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More