چین سے دوستی ہماری طاقت، لیکن...‎

دو کِشتیوں میں سواری کی کوشش لے ڈوبتی ہے مگر بھارتی بڑی مہارت سے ایک پاؤں اس کِشتی اور دوسرا دوسری کشتی پر رکھ کر سفر کرلیتے ہیں۔ جس دور میں دنیا کمیونسٹ اور امریکی بلاگ میں بٹی ہوئی تھی اور امریکا اور سوویت یونین اپنی پوری خونخواری کے ساتھ اور کسی برفستان کے بھوکے بھیڑیوں کی طرح ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سامنے والے کی ذرا پلک جھپکنے کے منتظر، آمنے سامنے کھڑے تھے، اقوام متحدہ کے ایوانوں سے مختلف ممالک کے داراؒلحکومتوں تک سفارت کاری، معیشت، تجارت، ثقافت، حکومتیں گرانے اور بچانے اور پراکسی وار سمیت ہر میدان میں یہ دونوں عالمی طاقتیں مدمقابل اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے کوشاں تھیں، اس وقت بھی دہلی سرکار نے ایک ہاتھ سے ماسکو کی انگلی تھام رکھی تھی تو دوسرے ہاتھ سے واشنگٹن کا دامن۔ اب اسے آپ دوغلاپن کہیں، حکمت عملی یا کام یاب خارجہ پالیسی، بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو اور ان کے پیش رو بھارتی حکم رانوں نے ”ناوابستگی“ کا پُرکشش اور خوب صورت نعرہ لگا کر امریکا اور سوویت یونین دونوں سے خوب فائدہ اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اندراگاندھی مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کرنے کی سازش میں مصروف تھیں تو روس ان کا پشت پناہ تھا اور امریکا خاموش تماشائی۔
بھارت آج بھی اپنی اسی روش پر قائم ہے، اس بار وہ جن دو باہم مخالف طاقتوں کے ساتھ چلنے اور دونوں سے فائدہ اٹھانے کی پالیسی پر گام زن ہے وہ ہیں امریکا اور چین۔

امریکا کے صدر باراک اوباما نے گذشتہ دنوں بھارت کا دورہ کیا تو وزیراعظم نریندرمودی سفارتی قواعد کو بالائے طاق رکھ کر ان سے یوں گلے ملے یا گلے پڑے کہ اوباما کو حیرانی پریشانی کی حالت میں انھیں سنبھالنا پڑا۔ اور پھر امریکی صدر کے قدموں میں نظریں بچھانے کا سلسلہ ان کی روانگی تک چلتا رہا۔ اس دورے نے جہاں بھارت کو بہت سے معاشی، سیاسی اور عسکری فوائد سے ہم کنار کیا وہیں اسے اپنے ہم سائے اور امریکا کے حریف چین کی خفگی سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے، جو پاکستان کی طرح بھارت اور امریکا کے تعلقات اور امریکا کی جانب سے بھارت کی پیٹ ٹھونک کر اسے چین کے مقابل لانے کی کوششوں کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس دورے کے حوالے سے چین کا ردعمل بھارت کے لیے تشویش ناک ہے، جو فی الوقت چین کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، چناں چہ بھارتی وزیراعظم مئی میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں، جس کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔ ظاہر ہے یہ دورہ بیجنگ کو مطمئن کرنے اور امریکی صدر کے دورہئ بھارت اور اس دورے میں ہونے والی سرگرمیوں پر چینی قیادت کی تشویش دور کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔

چین اور بھارت کے باہمی تعلقات کی تاریخ بین الاقوامی رشتوں کی پیچیدگیوں اور ان کے نشیب وفراز کی ایک کلاسیکی مثال ہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم اور تحریک آزادی کے راہ نما پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک سوشلسٹ لیڈر کے طور پر حکومت سنبھالی اور اپنے ملک میں سوشلسٹ اصلاحات کیں، جب کہ اس کے کچھ عرصے بعد عوامی جمہوریہ چین ایک کمیونسٹ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ایک نئی پہچان
کے ساتھ ابھرا۔ یوں شروع دن سے دونوں ملکوں میں نظریاتی تال میل نظر آیا۔ یہاں تک کہ فضا ہندی چینی بھائی بھائی کے نعروں سے گونج اٹھی، لیکن جلد ہی یہ رومان حقائق کی تلخیوں کی نذر ہوگیا۔ تبت کا تنازعہ، سرحدوں کے تعین کا معاملہ اورتبت کے بدھسٹ کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو بھارتی سرزمین پر پناہ دینے کا ایشو دونوں ممالک کے تعلقات کو خراب خراب کرتے کرتے انھیں باہمی ٹکراؤ کی صورت حال پر منتج ہوا، یہاں تک کہ 1962میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔

دشمنی کے اس پس منظر کے ساتھ بھارت کی امریکا اور روس سے وابستگی اور چین کی پاکستان سے قربت نے بھی دہلی اور بیجنگ میں فاصلے پیدا کیے، لیکن اس سب کے باوجود سرد جنگ کے خاتمے کی بعد کی دنیا کے حقائق دونوں ریاستوں نے تسلیم کیے اور معیشت اور تجارت کو پہلی ترجیح دینے کی حکمت عملی اپنائی۔ چناں چہ 80 کی دہائی میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات نے فروغ پانا شروع کیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، ساتھ ہی ایک ایک ارب نفوس سے زیادہ آبادی رکھنے والی یہ دونوں قومیں اپنے اسٹریجک اور عسکری تعلقات کو بھی فروغ دے چکی ہیں۔ ان تعلقات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ چین اور بھارت کی باہمی تجارت مسلسل فروغ پذیر ہے تاہم باہمی تجارت کے شعبے میں عدم توازن پایا جاتا ہے اور پلڑا چین کے حق میں ہے۔ اس صورت حال میں دہلی سے اپنے تمام تر تنازعات اور تلخیوں کے باوجود بھارت کو نظرانداز کرنا یا اس سے تعلقات بگاڑنا زیرک اور ٹھنڈے دل ودماغ کی حامل چینی قیادت کے لیے ممکن نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس خدشے کے پیش نظر کہ امریکا بھارت اور مشرقِ بعید میں اپنے حلیف ممالک سے مل کر چین کی معاشی طاقت تباہ کرنے کے لیے تبت، سنکیانگ یاانسانی حقوق کی پامالی کوجوازبناتے ہوئے چین پر سمندری راستے بند کردے، بیجنگ کی قیادت پاکستان سے اپنے دیرینہ تعلقات استوار رکھنا اور انھیں مضبوط بنانا چاہتی ہے۔ گوادر پورٹ کا قیام اور چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور چین کے اسی خدشے کے باعث وجود میں آنے والے منصوبے ہیں۔

یعنی یہ ہمالہ اونچی اور سمندر سے گہری دوستی نہیں، بل کہ وہ زمینی حقائق ہیں جن کی بنا پر چین ہمارے قریب ہے، جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ضرورت اور مفاد ہی بین الاقوامی تعلقات میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، ورنہ جس چین کے دورے پر نریندرمودی جارہے ہیں اور جو چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی حلیف ہے، اس کے 45 فی صد باشندے، گذشتہ سال کیے جانے والے بی بی سی کے سروے کے مطابق بھارت کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، جب کہ صرف 23 فی صد چینیوں کی رائے بھارت کے بارے میں مثبت ہے۔

اس سارے پس منظر میں یہ جان کر افسوس ہوتا ہے کہ ہماری جغرافیائی پوزیشن اور قدرتی وسائل ہماری طاقت ہیں، لیکن ہمارے حکم رانوں، سیاست دانوں اور ملک کے دیگر بااثر افراد نے اپنے حکمت عملیوں اور طرز عمل سے اس طاقت کو بے اثر بناکر رکھ دیا ہے۔ چین کا پاکستان سے مفاد یا دوستی ہمارے لیے بہت سے فوائد کا حامل ہوسکتا ہے، لیکن بدعنوانی، دہشت گردی، بلوچستان میں بدامنی، بجلی اور گیس کا بحران جیسے مسائل اس راہ کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، اور یہ مسائل کسی اور کے نہیں ہمارے ہی پیداکردہ ہیں۔ ان مسائل سے نکل کر ہی ہم چین کی دوستی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ورنہ پاک چین دوستی کے نعرے سے صرف دل خوش کیا جاسکتا ہے-
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311998 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.