اس دہشت گردی کیخلاف ایکشن کب ہوگا؟
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
جب بھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو
اس کے اصل محرکات فوری سامنے نہیں آتے بلکہ تحقیق وتفتیش کے بعد ہی حقیقت
تک رسائی ممکن ہوتی ہے لیکن بعض اوقات واقعات ،سانحات رونما ہونے کے فوری
بعد تجزیہ نگاراپنی تحریروں میں ایسے حقائق افشاں کر جاتے ہیں جو حقیقت کے
آئینہ دار ہوتے ہیں پاکستان میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے جو تحقیق کے
بعدنیا رخ اختیار کر گئے ان میں تیس ماہ قبل پیش آنے والا سانحہ بلدیہ ٹاؤن
بھی ہے بلدیہ ٹاؤن میں واقعہ علی انٹرپٔراز فیکٹری میں 258سے زائد مزدور وں
کو زندہ جلائے جانے کا غمنازک ،المناک،دل کو ہلا دینے والا سانحہ جب پیش
آیا تو لوگوں نے اسے شارٹ سرکٹ کے باعث رونما ہونے والا واقعہ سمجھا مگر اس
وقت بھی کچھ قلمکارکہہ رہے تھے کہ کہیں یہ بھتہ مافیا کی کاروائی نہ ہواس
موقف کی طرف توجہ نہ دی گئی ،گذشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی گئی
رپورٹ ایسے حالات میں منظر عام پر آئی جب اس واقعہ میں ملوث سیاسی جماعت کے
قائد بڑی شدومد سے قومی ایکشن پلان پر عمل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور
ملک کو دہشت گردی سے پاک صاف کرنے کے لئے تادیبی کاروائی کرنے کا کہہ رہے
ہیں،سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سانحہ میں
کراچی کے سیاہ وسفید کی مالک معروف سیاسی جماعت ایم کیو ایم ملوث ہے اس پر
اسی قسم کے بے شمار الزامات بھی ہیں اور کراچی میں بوری بند لاشوں کو
متعارف کروانے کوبھی اسی جماعت کے ساتھ جوڑاجاتا ہے،بے گناہ مز دور و ں کو
قتل کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ بیس کروڑ بھتہ نہ دینے کے باعث مالکان
کو پہلے جماعت کے مرکزی آفس میں لیجایا گیا بات نہ بننے پر تیزاب پھینک
کرآگ لگائی گئی جس کے نتیجے میں 258 قیمتی انسانوں کو زندہ جلادیا گیا ملزم
رضوان قریشی نے اعتراف کیا ہے کہ اپنے ساتھیوں کی مددسے فیکٹری کو آگ لگائی
تھی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فیکٹری مالکان کو پندرہ کروڑ کے عوض
معاملہ دبانے کی بھی آفر جماعت کے اعلیٰ عہدے دار نے کی ۔رینجرز نے مزید
استدعا کی ہے کہ واقعے میں سیاسی جماعت کے ملوث ہونے کی وجہ سے رپورٹ کے
مندرجات کو خفیہ رکھا جائے،ایک کارکن کے قتل پر ایم کیو ایم اس قدر ایکشن
لیتی ہے کہ سارا کراچی یرغمال بنا لیتی ہے اور وزیراعظم کراچی ان کو منانے
چلے جاتے ہیں لیکن 258 افراد کے قتل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد
وزیراعظم کا ردعمل سامنے نہ آنا افسوس کن ہے میاں نواز شریف صاحب کیا زندہ
جلا دئیے جانے والے انسان کیا انسان ،مسلمان،پاکستانی نہیں تھے؟ہاں یقینا
تھے مگر آپ کی طرف سے پرسرار خاموشی کو تو مبصرین آپ کی جانب سے اپنی اس
ہمرقاب جماعت کی حمایت سمجھ رہے ہیں جس دن حقائق منظر عام پر آئے اسی روز
ہی سعودی مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز کا فتوی سامنے آیا ہے کہ انسان کو ز
ندہ جلانا خوارج کا وحشیانہ فعل ہے یہ فتوی شام اور مصر کی داعش کے خلاف
صرف ایک انسان کو زندہ جلانے جانے کے خلاف دیا گیاہے جس میں صرف ایک انسان
کو زندہ جلانے پر انھیں اسلام دشمن اورخوارج کہا گیا سعودی مفتی صاحب کراچی
میں اڑھائی سوسے زائد انسانوں کو زندہ جلانے والوں پر بھی اپنی رائے کا
اظہار فرمائیں کہ کیا سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مجرمین اور ان کے حمایتی بھی
خوارج ،ظالم،قابل گرفت ہیں یا نہیں ؟ یاجمہوریت کا کوٹ پہننے کے باعث ان پر
یہ فتویٰ فٹ نہیں آتا، قومی ایکشن پلان پر عمل تیزی سے جاری ہے ابتدائی
رپورٹ بھی وزیراعظم کو پیش کردی گئی ہے ،حالیہ حقائق منظر عام پرآنے کے بعد
ملزمان اور ان کے سر غنہ جماعت کے خلاف کاروائی حکومت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس
ہے کہ ایسے ظالموں کے خلاف کاروائی عمل میں لاتی ہے کہ نہیں،آرمی چیف
،وفاقی،صوبائی حکومتوں،تما م جمہوری سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اس جماعت سے
منسوب کاروائیوں،واقعات کا مکمل از سرنو جائزہ لے اور مزید حقائق قوم کے
سامنے لائے گرفتار ملزمان اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کاروائی کو قو می
ایکشن پلان تحت عمل میں لایا جائے تاکہ شہر قائد کو بھتہ خوروں سے آزادی مل
سکے اور پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی ایشیاء کی
سب سے بڑی معاشی مارکیٹ کراچی بھی آزادی سے ملکی معیشت کو سپورٹ فراہم
سکے،اس واقعہ میں ملوث سیاسی جماعت کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا
ماضی ایسے واقعات سے داغدار ہے اس لئے اس جماعت پر پابندی لگائی جائے اگر
واقعی یہ جماعت ایسے واقعات میں ملوث ہے توبعد از تحقیق کسی عجلت میں جائے
بغیر حکومت اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردے تو ملک کی یہ بہت بڑی
خدمت ہوگی جس طرح مذہب کی ا ٓڑ میں دہشت گردی کسی قیمت پر برداشت نہیں
بالکل اسی طرح جمہوریت کے گھوڑے پر سوار ہوکر بھتہ نہ دینے والے بے گناہ
محب وطن پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا،انھیں زندہ جلا دینا بدترین دہشت
گردی بھی کسی قیمت پر برداشت نہیں ہے ، دیکھتے ہیں جمہوری جماعتیں اپنی
صفوں سے ایسے وطن،ملک وملت دشمن عناصر الگ کرتی ہیں یا نہیں اگر نہیں کرتیں
تو عوام یہ یقین کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ جمہوریت کا صل چہرہ ہی یہ ہے
،دولت اکھٹی کرنے کے لئے ہمارے ملک میں جمہوریت کے چمپیئن لوگوں نے کیا کچھ
نہیں کیا؟ اس پر اگر قلم اٹھا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے، جب میں نے
یہ خبر پڑھی کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں ایک سیاسی جماعت ملوث ہے تو تب سے ذہن
میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ جمہوریت کی کشتی میں سوار جماعتوں میں سے ایک
جماعت کی طرف سے ایسا مزموم،انسانیت سوز واقعہ اہل جمہوریت کے ماتھے پر
بدنما داغ ہے جسے صاف کرنا اہل جموریت پر فرض عین ہے ،اگر حکومت نے اس
جماعت کو جمہوریت کے لبادے میں ہونے کے باعث نظریہ ضرورت کے تحت بخش دیا تو
یہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن سے بڑھ کر سانحہ ہوگا ایسی حرکت پر کبھی مفادپرست
سیاست دانوں کو معاف نہیں کرے گی ،قوم اس سانحہ کے مجرمین کو پھانسی کے
پھندوں پر دیکھنا چاہتی ہے ریاستی دہشت گردی میں ملوث افراد جتنے بھی بااثر
ہوں ان کا تعلق کسی بھی جماعت یا گروہ سے ہو ان کے خلاف بلاتفریق کاروائی
کی جائے اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے کہ جتنابھی معروف معزز کیوں نہ ہو ااس
سے جرم سر زد ہو جائے تو اسے ہر حال میں سزا دی جائے ، قوم جمہوریت کی آڑ
میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث طاقت ور لابی کے خلاف بھی ایکشن کی
منتظر ہے دیکھتے ہیں حکمران کب مصلحت کی چادر اتار کر ان کے خلاف کاروائی
شروع کرتی ہے؟؟؟ |
|