صوفیوں کی دھرتی پہ مذہبی انتہاپسندانہ سوچ

سندھ جہاں مختلف اقوام اورمتفرق عقائد کے پیروکار آباد ہیں اور یہ وہ دھرتی جہاں شاہ لطیف ،شہباز قلندر، شاہ عنایت ، سچل ، سامی کی تعلیمات مہرومحبت ، یگانگت اور امن پسندی کا درس دے رہی ہیں اورہندو مسلم ثقافتوں کی امین اس دھرتی آج بھی ان عظیم ہستیوں کے مذارات اور تعلیمات تمام عقائد کے لوگوں کے لیئے درد کا درمان بنی ہوئی ہیں اور تمام عقائد کے لوگ یہاں حاظر ہوکر اپنے اپنے عقائد کے مطابق فیض حاصل کرتے ہیں دلوں مالک جو سب کا مالک ہے وہ دلوں کے بید جانتا ہے ۔ عقیدہ بندے کا اس کے رب کے دل کا معاملہ ہے اس پر کسی کو زبردستی کرنے اور اپنے عقائد مسلط کرنے کی اجازت دنیا کا کوئی مذہب نہیں دیتا۔ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہےاور ان صوفیوں کی تعلیمات نے سندھ میں تمام عقائد سے تعلق رکھنے والوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھا اور انھوں نے آپس میں کبھی تفریق محسوس نہ کی سندھ میں شاید ہی کوئی گاوں یا شہرایسا ہو جہاں اقلیتیں آباد نہ ہو۔سندھ میں مختلف عقائد کے لوگ صدیوں سے آپس میں مہرومحبت کے ساتھ رہتے ہوئے آرہے ہیں لیکن گذشتہ کچھ سالوں سےمذہبی انتہا پسندانہ سوچ کو پروان چڑھا کر سندھ میں اقلیتوں کو عدم تحفظ کا شکار کیا گیا جسکی وجہ سے ہزاروں ہندو نقل مکانی کرکے انڈیا چلے گئے۔ سندھ کی عظیم روایات مذہبی انتہاپسندانہ سوچ کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتی یہ دو متضاد باتیں ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس پر کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اورمذہبی انتہا پسندی کے بیج جو اس صوفیوں کی دھرتی پر بوئے جارہے تھے ان سے نہ آج صوفیوں کے مذارات محفوظ ہیں نہ مساجد اور نہ ہی دوسری عبادت گاہیں اور سندھ کے شہری اپنے آج اور اپنی سندھ میں اپنے بچوں کے کل کے لیئے فکر مند ہیں۔ پہلے سندھ میں انفرادی طور پر ہندوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا انکے اغوا کے بے شمار واقعات ہوئے، انکی کم سن لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کے ساتھ شادی کے بے شمار واقعات روہنما ہوئے جس سے وہ عدم تحفظ کا شکارہوئے ان پر اُٹھنے والی آواز کو بھی طفل تسلیوں کے ساتھ دبا دیا جاتا رہا لیکن اب تو حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ انکی عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں گذشتہ سال حیدرآباد میں فتح چوک کے قریب کالی ماتا کے مندر کو آگ لگائی گئی اور یہ سلسلہ یہاں نہ رُکا پھرٹنڈو محمدخان میں ہنومان کے مندر کو نذرآتش کیا گیا ۔یہاں تک کہ بُھٹو خاندان جس کی پارٹی کی حکومت ہے اس وقت صوبے میں کہ آبائی شہرلاڑکانہ میں قدیم تاریخی مندر کو نقصان پہنچایا گیا اوراسے مسمار کیا گیا ایسے کئی دوسرے واقعات بھی رونما ہوئے جس سے ہندو برادری کے نہ صرف جذبات مجروع ہوئے بلکہ انھیں شدید نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ ابھی شکار پور میں ہونے والے خودکش دھماکے کے ذخموں کا درد ابھی باقی تھا کہ گذشتہ دنوں ٹھٹہ میں ہندو برادری کے تاریخی مندر ماتا سنگھ بھوانی میں توڑ پھوڑ کی گئی اور مورتی کو چڑھایا گیا سونے کا تاج اوردیگر جوارات سمیت چندے کی رقم بھی لیکر رفو چکر ہوگئے ۔یہ بظاہر چوری کا واقعہ تھا لیکن اس میں مندر کی مورتیوں کو نقصان پہنچانے کے خبریں بھی سامنے آئیں جس سے یہ بھی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والوں ہی کی کارستانی ظاہر ہو رہی ہے اور ہندو برادری بھی یہی کہتے ہے کہ شاہ ،قلندر اور صوفیوں کی دھرتی کے عظیم روایات کے امین اس دھرتی کے باسی کسی صورت ایسا اقدام نہیں آٹھا سکتے ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کاآئین سب شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے سب شہریوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق فراہم کرتا ہے ۔انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن یہ حقوق الفاظ سے نکل کر حقیقت میں اس ملک کے شہریوں کو کب فراہم ہوں گے۔
Asim Kazim Roonjho
About the Author: Asim Kazim Roonjho Read More Articles by Asim Kazim Roonjho: 17 Articles with 14951 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.