پیٹرول سستا....مہنگائی برقرار
(عابد محمود عزام, karachi)
اکتوبر 2014ءسے پیٹرولیم مصنوعات
کی قیمتوں میں مسلسل چار بار کمی ہوئی ہے۔ فی لیٹر پیٹرول 107.9 روپے سے کم
ہوکر 70.21 روپے فی لیٹر دستیاب ہے، اس طرح چند ماہ میں مجموعی طور پر فی
لیٹر پیٹرول کی قیمت میں 37.68 روپے کمی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود صوبائی
حکومتیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے میں
ناکام ہیں، حالانکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بیشی سے تمام اشیا
کی قیمتیں متاثر ہوتی ہیں، جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ
سے تمام اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے، تو اسی طرح پیٹرولیم
مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے تمام اشیاءکی قیمتوں میں کمی بھی ہونی
چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے
باوجود بھی مہنگائی میں کمی واقع نہ ہوسکی۔ حالانکہ وزیر اعظم میاں
نوازشریف کئی بار انتظامیہ اور متعلقہ افسران کو اشیاءضروریہ کی قیمتوں کو
کنٹرول کرنے کے احکامات جاری کر چکے ہیں، پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو بھی
قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی ہدایات دی جاچکی ہیں، لیکن اس کے باوجود مہنگائی
کا جن بے قابو اور گراں فروش و بے لگام منافع خور آزادی کے ساتھ عوام کو
لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے انتہائی مستحسن اقدام کرتے
ہوئے اتوار کے روز روز مرہ استعمال کی اشیاءخورد و نوش کی قیمتیں ذاتی طور
پر معلوم کرنے کے لیے وفاقی دارالحکومت کی مارکیٹوں آبپارہ اور جی ٹین مرکز
کا اچانک دورہ کیا، جسے عوام اور سماجی حلقوں نے بے حد سراہا ہے۔ شہریوں نے
حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے
باوجود ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی نہ ہونے کی شکایت کی اور وزیراعظم سے نوٹس
لینے کا مطالبہ کیا۔ عوام کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا قیمتیں معلوم کرنے کے
لیے بذات خود مارکیٹوں کا دورہ کرنا اچھا اقدام ہے۔ اگر وزیر اعظم ایسے
اقدامات کا سلسلہ جاری رکھیں تو عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔ وزیراعظم نے
دورے کے موقع پر لوگوں میں گھل مل کر صارفین سے سبزیوں اور پھلوں سمیت روز
مرہ استعمال کی اشیاءکی قیمتوں سے متعلق استفسار کیا۔ لوگوں سے بات کرتے
ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ” آج میں اس لیے آیا ہوں کہ معلوم کر سکوں پٹرولیم
مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد دیگر اشیاءکی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں یا
نہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ پاکستان کو بجلی اور گیس کی قلت جیسے سنگین
بحرانوں کا سامنا ہے، لیکن ان کی خواہش ہے کہ تمام مسائل پر کم سے کم عرصہ
میں قابو پا لیا جائے۔“
افسوس ناک بات یہ ہے کہ وزیر اعظم جس مقصد کے لیے مارکیٹ آئے تھے، وہ مقصد
انتظامیہ اور دکانداروں کے جھوٹ اور دھوکا دہی کی نذر ہوگیا اور وزیراعظم
نواز شریف اشیاءکی درست قیمتیں معلوم کرنے میں ناکام رہے، کیونکہ اتوار کو
آبپارہ مارکیٹ اور جی ٹین مرکز میں سبزیوں کی دکانوں کے دورے کے موقع پر
انتظامیہ طے شدہ پروگرام کے تحت وزیراعظم کو مخصوص دکانوں پر لے کر گئی، ان
دکانوں کے دکاندار وزیراعظم کو سبزیوں کے مارکیٹ نرخ کے مقابلے میں کم قیمت
بتاتے رہے۔ ایک دکان پر سبزی فروش نے وزیراعظم کو بتایا کہ آلو کی قیمت
پہلے 80 روپے کلو تھی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد اب 40
روپے کلو ہے اور اتنے پر ہی بیچ رہے ہیں، جبکہ ایک دوسرے دکاندار نے
وزیراعظم کو بتایا کہ آلو کی قیمت پہلے 50 روپے تھی، اب 30 روپے میں بیچ
رہے ہیں۔ دکانداروں سے پھلوں اور سبزیوں کی کم قیمتیں سن کر وزیراعظم نے
ملک میں مہنگائی نہ ہونے پرخوشی کا اظہار کیا اور اشیاءکی قیمتوں میں کمی
ہونے پر مطمئن بھی ہوئے، لیکن حقیقت میں وزیراعظم کو دکانداروں کی جانب سے
بتائی جانے والی قیمت حقیقت کے منافی اور جھوٹ پر مبنی تھی۔ اس دوران شہری
موقع پر ہی دکانداروں کے جھوٹ کا پول بھی کھولتے رہے۔ آلو کے علاوہ ٹماٹر
کی قیمت بھی وزیراعظم کو 60 اور 70 روپے بتائی گئی، جبکہ دونوں سبزیاں
جڑواں شہروں میں 80 روپے میں فروخت ہورہی ہیں۔ جبکہ ذرائع کے مطابق عوام نے
دکانداروں کی جانب سے وزیراعظم کو بتائی جانے والی قیمتیں دھوکا دہی پر
مبنی قرار دیں، کیونکہ ان کے مطابق وزیراعظم کے آبپارہ مارکیٹ سے جاتے ہی
سبزیوں اور پھلوں کے نرخ بڑھا دیے گئے۔ وزیراعظم کو سبزیوں اور پھلوں کے جو
نرخ بتائے گئے تھے بعد میں ان سے مہنگے داموں ان کی فروخت ہوتی رہی۔
دکانداروں نے مارکیٹ میں دستیاب بھارتی کیلے کا نرخ 160 روپے بتایا تھا،
بعد میں 180 روپے فی درجن فروخت ہوتا رہا۔ وزیراعظم کو گاجر کا نرخ 30 روپے
فی کلوگرام بتایا گیا، بعد میں گاجر 40 روپے میں فروخت ہوتی رہی۔ اسی طرح
وزیراعظم کو بھنڈی اور کریلے کا نرخ 200 روپے بتایا گیا تھا، کریلا 280
روپے جبکہ بھنڈی 140 روپے میں فروخت ہوتی رہی۔ وزیراعظم کی آمد کے موقع پر
دکانداروں نے کینو کا نرخ فی درجن 120 روپے بتایا تھا، جبکہ وزیراعظم کے
چلے جانے کے بعد 150 سے 160 روپے میںفروخت ہوتا رہا۔ سماجی حلقوں کا کہنا
ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں متعدد بار نمایاں کمی کے باوجود عوام
تک کمی کے ثمرات پہنچ سکے او ر نہ ہی حکومت وانتظامیہ کی جانب سے اشیائے
ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کرانے کے حوالے سے کوئی عملی کردار اداکیا گیا
ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے اس حوالے سے فکر مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مارکیٹ
کا دورہ کیا ہے، لیکن وزیر اعظم کے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہورہا،
مہنگائی جوں کی توں ہے۔ مہنگائی کے منہ زور گھوڑے نے موسم سرما کی سبزیاں
اورپھل بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور کردیے ہیں، کیونکہ غریب وسفید پوش طبقہ
بہت سی ضرورت کی اشیا کو خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتا۔ان دنوں مختلف شہروں
میں اعلیٰ کوالٹی کے کینو، مالٹے 160روپے، عام کوالٹی کے کینو مالٹے
120روپے درجن، امردود 100روپے کلو، کیلے 100روپے درجن ، فروٹر 80 روپے
درجن، سیب اعلیٰ کوالٹی 160، عام سیب 100روپے کلو، انار 250 روپے کلو،
ٹماٹر 80 روپے کلو، مٹر 100 روپے کلو، گاجر 40 روپے کلو، شیور انڈے 120
روپے درجن، دیسی انڈے 200 روپے درجن، تازہ دودھ 110 روپے لٹر، پیکٹ کا
دودوھ 120 روپے لٹر، پیاز 40 روپے کلو، پھول گوبھی 40 روپے تک فروخت کیے جا
رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب چینی 60 روپے، دال مسور 160 روپے، دال مونگ 180
روپے، دال چنا 80 روپے کلو اور بیس کلو آٹے کا تھیلا 850 روپے، اعلیٰ
کوالٹی کا گھی 210 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے، اتنی مہنگی اشیاءکو
خریدنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں
مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے۔ حالانکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی
کے بعد اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے تھی۔ تیل کی مصنوعات کی
قیمتوں میں کمی کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اس کمی کے ثمرات عوام تک
بھی پہنچیں گے، مگرقیمتوں میں کمی کے باوجود عوام تاحال اس کے فوائد سے
محروم ہےں۔ حکومت اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانے میں بری طرح ناکام نظر آ
رہی ہے۔ ٹرانسپورٹرز اور تاجر گزشتہ کئی سالوں سے پیٹرولیم مصنوعات میں
اضافے کو جواز بناکر کرایوں اور اشیا کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرتے رہے
ہیں، اب جب کہ حکومت نے گزشتہ 4 ماہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
واضح کمی کی ہے، ٹرانسپورٹ مافیا اور منافع خور تاجر عوام کو ریلیف دینے کے
لیے تیار نہیں ہیں۔ تیل کی قیمتوں کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت
ٹرانسپورٹ کے کرائے کم کراتی اور قیمتوں میں کمی کے اثرات اشیاءضرورت کی
قیمتوں میں کمی کی صورت میں سامنے آتے، تاہم ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں
آیا۔ نہ تو ٹرانسپورٹروں نے کرائے کم کیے اور نہ ہی اشیاءضرورت کی قیمتوں
میں کوئی کمی واقع ہوئی۔ اشیاءکی قیمتوں کو معلوم کرنے کے لیے کیا گیا
وزیرزاعظم کا مارکیٹ دورہ اگرچہ ایک اچھاا قدام ہے، لیکن اس دورے کے ثمرات
اسی وقت سامنے آتے، جب وزیر اعظم میاں نوازشریف اشیاءکی درست قیمتیں معلوم
کر کے موقع پر ہی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے احکامات صادر کرتے ہوئے گراں
فروشوں کو سزا دینے کے احکامات بھی جاری کرتے، تاکہ عوام کو دھوکا دینے
والے گراں فروشوں کی سزا دیکھ کر باقی گراں فروش بھی سبق حاصل کر لیتے۔ اگر
وزیراعظم میاں نوازشریف واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ
پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک کیا جائے، جو قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی حتی
الامکان کوشش کر کے حکومت کی مقرر کی گئی قیمتوں سے زاید پر فروخت کرنے
والے افراد کو بے نقاب کریں،تاکہ قیمتوں کے کنٹرول سے عوام کو ریلیف مل
سکے۔
|
|