اشرف قدسی (ممتاز شاعر‘ محقق اور ادیب)

جناب اشرف قدسی سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے ۔ یہ 1975ء کی بات ہے جب میں اردو سٹینوٹائپسٹ کا ٹیسٹ دینے کے لیے ان کے دفتر واقع 90 ریواز گارڈن لاہور پہنچا تو مجھے درمیانی عمر کے میانہ قد کے مضبوط جسمانی ساخت کے حامل انسان سے ملاقات ہوئی ۔ مجھے بتایا گیاکہ یہ اشرف قدسی صاحب ہیں جو محکمہ تعلیم بالغاں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں ۔ یہ محکمہ لوکل گورنمنٹ کے پندرہ روزہ رسالے "خدمت " کے ایڈیٹر بھی ہیں ۔یہ آپ کا ٹیسٹ لیں گے ۔یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ صرف ایک شام پہلے میں بے روزگاری سے اس قدر تنگ آچکا تھا کہ میں نے ریواز گارڈن میں زیر تعمیر فلیٹوں کے بلڈنگ میٹریل کی چوکیداربننا بھی قبول کرلیا تھا جو ٹھیکیدار یہ فلیٹ تعمیر کررہا تھااس نے مجھے ایک دن بعد آنے کا کہا تھا کہ شام نگر میں واقع دفتر روزگار میں اردو سٹینوٹائپسٹ کی آسامی آگئی اور میں ٹیسٹ دینے کے لیے یہاں آپہنچا ۔میرے علاوہ اور بھی کچھ نوجوان انٹرویو اور ٹیسٹ دینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اشرف قدسی صاحب نے شارٹ ہینڈ کا ٹیسٹ لیا تو رفتار کے حساب سے میں سب سے اول آیا انہوں نے باقی امیدواروں کو فارغ کرکے میری اپائنمنٹ لیٹر کے لیے ایک آفس نوٹ بنا کر ڈائریکٹر تعلیم ملک محمداشرف صاحب کو بھجوا دیا ۔ مجھے اشرف قدسی صاحب نے چند دن بعد آنے کا کہا ۔ میں خوشی خوشی گھر واپس آیا اور اﷲ کا شکر اداکیاکہ ملازمت مل گئی ہے وگرنہ ساری عمر میں چوکیدار ہی رہتا ۔ چند دن کے بعد جب میں دفترپہنچا تو مجھے یہ سن کر سخت پریشانی ہوئی کہ ڈائریکٹر تعلیم بالغاں ملک محمد اشرف صاحب جن کے دستخطوں سے میرا اپائنٹمنٹ لیٹر جاری ہونا تھا ایک نوجوان ان کا سفارشی رقعہ لے کر اشرف قدسی کے پاس پہنچ گیا اس رقعے میں ڈائریکٹر صاحب نے لکھا تھا کہ سٹینوٹائپسٹ کی آسامی کے اس نوجوان کو ملازم رکھا جائے۔یہ رقعہ مجھ پر بجلی بن کر گرا اور میں پھر ذہنی پریشانیوں کی گہرائی میں اتر گیا ۔میری آنکھوں میں آنسو تھے جب میں دفتر سے گھر واپس آنے لگا ۔ میری کیفیت کو دیکھ کر اشرف قدسی صاحب نے کہا آپ فکر نہ کریں اﷲ نے چاہا تو یہ ملازمت آپ کو ہی ملے گی ۔اس کے باوجود اشرف قدسی نے مجھے دلاسہ تو دے دیاتھالیکن مجھے اس بات کا علم تھا کہ ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنے سنئیر ڈائریکٹر کے فیصلے سے کیسے اختلاف کی جرات کرسکتا ہے جبکہ ملازمت نامے پر دستخط بھی ڈائریکٹر نے ہی کرنے تھے۔چند دن اسی رسہ کشی میں گزر گئے ایک ہفتے بعد جب میں ناامید ی کے عالم پھر 90 ریوازگارڈن پہنچا تو اشرف قدسی نے اپنے ڈائریکٹر سے اختلاف کرتے ہوئے میرے ملازمت لیٹر پر ان سے یہ کہتے ہوئے دستخط کروا لیے کہ یہ سٹینو ٹائپسٹ نے میرے ساتھ کام کرنا ہے میں جسے اس کام کااہل سمجھتا ہوں میں اسے ہی اپنے ساتھ کام کرنے کاموقع دوں گا۔ نہ جانے ملک اشرف کیسے مانا لیکن اس لمحے میرے دل میں اشرف قدسی صاحب کی عزت و تکریم میں حد درجہ اضافہ ہوگیا کیونکہ وہ میرے لیے نجات دہندہ کا روپ دھار چکے تھے ۔پھر وہ وقت بھی آیا جب تعلیم بالغاں کی کتابوں میں عیسائیت کے پیوند لگانے کے لیے ایک مشینری ادارے کی خاتون ڈاکٹر مسز ستنام محمود کا راستہ روکنے کی پاداش میں اشرف قدسی صاحب کو معطل کردیا گیا ۔ اشرف قدسی صاحب اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے جب دفتر کے تمام افسر اور ملازمین ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے لیکن میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ان کے استفسار پر میں نے کہا سر جہاں آپ جائیں گے میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گے آپ نے میرے اپنے ڈائریکٹر سے جنگ کی تھی میں آپ کے لیے اپنی ملازمت قربان کرنے کو تیار ہوں ۔میری بات پر خوشی کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا مجھے خوشی ہے کہ میں نے تم جیسے اچھے انسان کاانتخاب کیا ہے ۔ پھر حالات نے کروٹ لی اور ڈائریکٹر جنرل لوکل گورنمنٹ افضل کہوٹ نے تعلیم بالغاں کی کتابوں میں عیسائیت پھیلانے والے ادارے کا کنٹریکٹ ختم کرکے اشرف قدسی صاحب کے موقف کو سچ تسلیم کرلیا ۔ اس طرح کروڑوں روپے کا جو نقصان ہونے سے بچ گیا ۔ 1975ء میں ہی جب شدید ترین سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچائی تو سروے کرنے کے لیے اشرف قدسی صاحب کے ساتھ میں ہی چکوال ٗ کلرکہار ٗ گجرات ٗ لالہ موسی کے دورے پر گیا ۔تین چار دن کے اس دورے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ باکردار ہی نہیں نہایت ایماندار انسان بھی تھے ۔دفتر میں بیٹھ کر سروے رپورٹ بنانے کی بجائے وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مجھے اپنے ساتھ لے کر خود پہنچے اور متاثرین کی حالت زار اور نقصانات کا تخمینہ لگاکر حکومت وقت کو پیش کیا ۔میں اشرف قدسی صاحب کے 1975 سے 1978ء تک رہا ۔ اس دوران میں نے دیکھاکہ وہ نہایت دیانت دار ٗ مضبوط کردار اور باصلاحیت انسان تھے ۔محکمہ تعلیم بالغا ں کو خیر باد کہنے کے باوجود ان سے والہانہ محبت کا رشتہ قائم رہا اور وہ مسلسل میری سرپرستی اور رہنمائی کرتے رہے ۔
نام کے حوالے سے بے شک اشرف قدسی صاحب کو زیادہ لوگ نہ جانتے ہوں لیکن انہوں نے گوشہ نشینی میں رہتے ہوئے شعر وادب کی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ جن کا اعتراف کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ اشرف قدسی صاحب نے ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں پانچ مرلے کے مکان میں تصنیف وتحریر کی ایک ایسی دنیا بسائے رکھی جس میں داخل ہونے والا باذوق انسان ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا تھا۔ آپ کئی کتابوں کے مرتب اور شاعری کی کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ امہات المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر تحقیقی کام کر رہے تھے۔

2003ء میں ان کی شخصیت اور فن پر پنجاب یونیورسٹی (اورینٹل کالج) کی جانب سے ایم اے کی ایک طالبہ عائشہ صوفی نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ عائشہ صوفی‘ ادبی اور صحافتی حلقوں میں نیا نام نہیں ہے۔ وہ سیارہ ڈائجسٹ کے لئے قصص القرآن نمبر‘ اسلامی حکایات نمبر اور صحابیات نمبر تحریر کر چکی ہیں۔ سیارہ ڈائجسٹ نے ان کا شعری مجموعہ ’’کتنے لمحے بیت گئے‘‘ بھی شائع کیا ہے۔ یہ مقالہ جناب اشرف قدسی کی زندگی اور ان کے فن کا کماحقہ احاطہ کرتا ہے۔

ذیل میں ان کی زندگی کا ایک خوبصورت گوشہ ادب کی دنیا کے لئے وا کیا جا رہا ہے جو ان کی کتاب ’’شب گل‘‘ سے لیا گیا ہے۔ خودنوشت کے انداز میں کی گئی گفتگو کا لطف آپ بھی اٹھائیں جو اس گمنام ادیب‘ شاعر اور عظیم محب وطن پاکستانی کی زندگی کے مختلف نشیب وفراز دکھاتا ہے۔ اس داستان کو پڑھ کے ان کٹھن راہوں کا تعین ہوتا ہے جن پر چل کر اشرف قدسی اس مقام پر فائز ہوئے۔ آیئے ہم سب اس سے لطف اندوز ہوں۔
اقرار جہل کر کہ تجھے عافیت ملے
دانشوری تو خیر سے ہر گھر میں آ گئی

’’شب گل‘‘ میرا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ میں گزشتہ 35 برس سے خاموشی سے شعر کہہ رہا ہوں۔ آج تک یہ حوصلہ نہیں ہوا کہ کسی مدیر گرامی سے اپنی غزل شائع کرنے کی درخواست کروں یا کسی رسالہ یا اخبار کے دفتر میں اس مقصد کے لئے جاؤں۔ اس کی وجہ احساس کمتری بھی نہیں دراصل میں نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں نام ونمود کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ہمیشہ ایسے شعرائے کرام کے قدموں میں بیٹھنے کے مواقع میسر آئے جو شہرت سے ہمیشہ دور بھاگتے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں ان درویش صفات شعرائے کرام کا تذکرہ کروں سب سے پہلے مجھے اپنے والد مرحوم کا ذکر کرنا ہے جن کی ابتدائی تربیت نے مجھے شعری ذوق عطا کیا۔ میرے والد ماجد کا اسم گرامی چوہدری غلام محمد تھا وہ مضطر (مضطر جالندھری) تخلص کرتے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ابو نعیم عبدالحکیم خاں نشتر جالندھری مرحوم کے والد گرامی مولانا اشرف علی خاں صاحب سے حاصل کی تھی اور یہ ہم قافیہ تخلص بھی شاید نشتر جالندھری کی تقلید میں رکھا تھا۔ بھارتی پنجاب کے ضلع جالندھر کا ایک گاؤں تھا میاں وال الراعیاں ٗ میں اسی گاؤں میں 1938ء میں پیدا ہوا۔ اس گاؤں کے دو حصے تھے۔ ایک میاں وال الراعیاں اور دوسرا میانوال مولویاں‘ نشتر جالندھری مرحوم دوسرے حصے کے رہنے والے تھے۔ اس حصے کی بنیاد اورنگزیب عالمگیر کے مرشد حضرت بدر الدین اولیاء نے اس وقت رکھی تھی جب وہ کابل سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔

والد گرامی کی بیاض تو 1947ء کی ہجرت کی نذر ہو گئی تھی۔ آخری دنوں میں وہ صرف حمدیہ اور نعتیہ اشعار کہتے تھے اور تہجد کے بعد بآواز بلند گڑگڑا کر اﷲ تعالیٰ سے ایک ہی التجاء کیا کرتے ’’خداوند کریم اپنے گھر بلا لے‘‘ اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ 1973ء میں فریضہ حج ادا کرنے گئے اور وہیں مکہ معظمہ میں جنت المعلیٰ میں آسودہ خاک ہیں۔ گاؤں کا ماحول بھی کچھ شاعرانہ سا تھا البتہ مڈل سکول ہڑپہ میں لے دے کے پڑھائی ہی پڑھائی تھی۔ 1952ء میں ورنیکلر مڈل کا امتحان سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول میں جونیئر کلاس میں داخلہ لیا ۔

ادھر سکول میں دسویں جماعت کے چاروں سیکشنوں میں اشرف نام کے ہم پانچ چھ طالب علم جمع ہو گئے تھے اس لئے اساتذہ کرام نے چاہا کہ ہر اشرف شناخت کے لئے اپنے نام کے ساتھ چودھری میاں وغیرہ لکھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ پرائمری کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف نے اسی ہدایت کے پیش نظر چوہدری لکھنا شروع کر دیا تھا۔ انہی دنوں کسی مشاعرے میں اس بات کا بھی ذکر چھڑا۔ حکیم صاحب نے مشورہ دیا کہ آئندہ میں اپنا نام اشرف قدسی لکھا کروں۔ ایک مشورہ ان کا اور بھی تھا اور وہ یہ کہ میں شعر کہنے کی بجائے نثر لکھنے کی طرف توجہ دوں۔ یہ مشورہ میں اس لئے قبول نہ کر سکا کہ ایک مشاعرے کے بعد جب لسان العرفان علامہ شیخ عطاء اﷲ جنوں اپنے گھر جانے لگے تو میں بھی ان کے پیچھے چل دیا۔ راستے میں میں نے ان سے عرض کیا کہ میں ایک ضروری مشورے کے لئے آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔ فرمانے لگے آیئے۔ گھر جا کر میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے ایک بزرگ نے یہ مشورہ دیا ہے کہ میں شعر نہ لکھا کروں۔ آپ نے میری ایک دو غزلیں سنی ہیں۔ اگر واقعی آپ بھی سمجھتے ہیں کہ مجھے شعر نہیں کہنا چاہیے تو پھر میں اس پر عمل کروں گا۔ آپ نے پوچھا یہ کس نے مشورہ دیا ہے؟ عرض کیا حکیم صاحب نے۔ فرمانے لگے اگر تم شعر کہنا چھوڑ دو گے تو ظلم کرو گے۔ شعر ضرور کہتے رہنا اور مجھے دکھاتے رہنا۔ حضرت جنوں کے اس فقرے نے میرے اندر موجود شاعر کو توانا کر دیا پھر میں باقاعدگی سے حضرت جنوں کے گھر پہنچ جاتا؂
جنوں بدوش بہاروں نے مجھ کو لوٹ لیا

یہ وہ پہلی غزل تھی جو میں نے حضرت جنوں کو دکھائی اور اس پر انہوں نے اصلاح بھی فرمائی۔ 1956ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تو گورنمنٹ کالج ساہیوال میں داخلہ لیا۔ یہاں کی فضا ہی کچھ اور تھی۔ کالج کا اپنا رسالہ ساہیوال تھا۔ بزم ادب تھی جس کے موسم سرما میں پندرہ روزہ ادبی اجلاس ہوتے اور موسم گرما میں ہفتہ وار اجلاس ہوتے تھے۔ اس وقت پرنسپل میاں اصغر علی مرحوم تھے جو کہ مثالی منتظم اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ وائس پرنسپل ڈاکٹر محمد ضیاء الحق صوفی تھے۔

ہمارے بعد آنے والوں میں مجیب الرحمن شامی‘ سجاد میر‘ اقبال جوزی‘ مولوی محمد امین اور قیوم صبا شامل ہیں۔ انہی دنوں پروفیسر انور شبنم دل نے کہا کہ لاہور سے ہفت روزہ نصرت نکلنا شروع ہوا ہے اس کے لئے انٹرویو اور ڈائری وغیرہ لکھو۔ سات روپے فی صفحہ ملیں گے۔ میں فوراً آمادہ ہو گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب حضرت مجید امجد بھی تبادلے کے بعد دوبارہ ساہیوال میں آ گئے تھے۔ وہ بھی گاہے گاہے کالج کے مشاعرہ میں تشریف لے آتے۔ شہر کے دیگر شعرا میں سے حاجی بشیر احمد بشیر اور حاجی اکرم قمر بھی باقاعدگی سے کالج کی بزم ادب کو نوازتے رہتے۔ میں اور ناصر شہزاد شام کو اپنا زیادہ وقت حضرت مجید امجد مرحوم کی خدمت میں گزارتے ۔ میں ویسے بھی ساہیوال شہر سے فرید ٹاؤن میں منتقل ہو چکا تھا اس لئے حضرت جنوں کی بجائے مجید امجد مرحوم کو اپنے شعر دکھانے لگا۔ ناصر شہزاد اور مراتب اختر مرحوم بھی آ نکلتے۔ ناصر شہزاد روزانہ میرے ساتھ ہوتے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب برادر گرامی بشیر احمد بشیر نے ہم پر پھبتی کسی تھی ع
وہ رہی امجد کے بزغالوں کی ڈار

اس زمانے میں سید اسرار زیدی‘ مفتی ضیاء الحسن مرحوم کے روزنامہ خدمت کے ایڈیٹر ہوتے تھے۔ ہفتہ میں ایک بار خدمت کا ادبی ایڈیشن نکلتا۔ غزلیں تو اس میں میری چھپ ہی رہی تھیں۔ زیدی صاحب کے کہنے پر میں نے سنگریزے کے عنوان سے ایک ادبی کالم بھی شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ لاہور کے جرائد واخبارات میں چیزیں چھپنے لگیں۔ اس حسین ادبی ماحول نے میرے اندر کے شاعر کو جگا دیا اور طالب علم کو ہمیشہ کے لئے سلا دیا۔ ایف اے کا نتیجہ نکلا تو میں اور ناصر شہزاد انگریزی میں بری طرح فیل ہو گئے اور برادرم طارق عزیز اس مرحلے سے پہلے ہی گزر چکے تھے۔ لاہور کی ابتدائی چند راتیں پلیٹ فارم پر گزاریں اور چند راتیں روزنامہ آزاد کے دفتر کی بغیر بازو کی کرسیوں پر بسر ہوئیں۔ تقریباً ایک مہینہ جناب زیب ملیح آبادی کا مہمان رہا اور تقریباً سال بھر عبدالقدیر رشک کا۔

لاہور میں مجھے سب سے پہلے روزنامہ آزاد اور پھر روزنامہ سفینہ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ انہی اخبارات میں علامہ لطیف انور مرحوم اور مولانا وقار انبالوی مرحوم کی نگرانی میں کام کیا اور سچی بات تو یہ ہے کہ انہی دونوں بزرگوں کی تربیت تھی کہ مستقل میں منٹگمری گزٹ اور فردا کی ادارت میں کامیاب ہو سکا۔ گوہر ہوشیار پوری ان دنوں لاہور میں ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھے۔ بعد میں ان کا تبادلہ ریلوے ہیڈکوارٹر میں ہو گیا۔ طارق عزیز‘ گوہر ہوشیار پوری اور میں شام کو لاہور کی سڑکوں پر گھومتے ایک دوسرے کو تازہ اشعار سناتے۔ گوہر ہوشیار پوری کی معرفت ہی سید عابد علی عابد مرحوم کے نیاز حاصل ہوئے۔ یونس جاوید اور اظہر جاوید سے بھی انہی ایام میں دوستی ہوئی۔ جناب احسان دانش کے دولت کدہ پر بھی بارہا حاضری دی۔ اسی زمانے میں مرزا ادیب سے ملنے کا موقع ملا۔ افضل احسن رندھاوا‘ عباس اطہر‘ خواجہ محمد زکریا اور ممتاز منگلوری سے اسی زمانے میں یارانہ ہوا۔ 1961ء میں میری طویل نظم آہنگ وطن کتابی صورت میں طبع ہوئی۔ اسی سال ایک بار پھر میں واپس ساہیوال چلا گیا۔ ضلع کونسل ساہیوال ایک ہفت روزہ رسالہ منٹگمری گزٹ کے نام سے نکالنے والی تھی۔ جناب مجید امجد اور حاجی بشیر احمد بشیر اور شیخ ظفر علی کی کوششوں سے میں اس کا ایڈیٹر مقرر ہوا۔ اس کے پہلے چیف ایڈیٹر مسعود نبی نور تھے۔ بعد میں مصطفی زیدی جب ڈپٹی کمشنر اور چیئرمین ضلع کونسل ساہیوال مقرر ہوئے تو انہوں نے اس رسالہ کا نام" فردا " رکھ دیا۔ انہی کے زمانے میں اس رسالے نے ایک ادبی رسالے کی حیثیت سے شہرت حاصل کی اور بڑے معرکے کے نمبر نکالے۔ 1964ء میں مجھے بزم فکر وادب ساہیوال کا سیکرٹری منتخب کیا گیا اور میں دسمبر 1969ء تک ان دونوں عہدوں پر کام کرتا رہا۔ اس مدت میں پورے ملک کے مشہور شعرائے کرام سے ملنے کے مواقع ملے۔ بزم کے سالانہ اور ماہانہ مشاعروں کا انتظام میرے سپرد تھا۔ جناب مصطفی زیدی مرحوم کے 1966ء میں تبادلے کے بعد جناب مظفر قادر مرحوم بزم فکر وادب کے صدر اور فردا کے چیف ایڈیٹر رہے۔ اس دوران میں نے ساہیوال سے متعلق متعدد کتابیں بھی تالیف کیں۔

جنوری 1970ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر میں ساہیوال سے ایک بار پھر لاہور چلا آیا۔ اگست 1973ء تک مظفر قادر مرحوم کے پرنٹنگ پریس میں بطور منیجر کام کرتا رہا۔ اس دوران میں نے مصطفی زیدی پر ایک ضخیم کتاب" المرحوم " ترتیب دی۔ ستمبر 1973ء میں جناب محمد حنیف رامے نے برادرم اطہر ندیم کے ذریعے مجھے اسمبلی چیمبر میں بلا بھیجا۔ رامے صاحب ان دنوں صوبائی وزیر خزانہ تھے۔ فرمانے لگے محکمہ بلدیات کے پیپلز ورکس پروگرام کے تحت سپاہ خدمت کی رہنمائی کے لئے اور اجتماعی ترقی کے کاموں کے لئے ایک رسالہ" خدمت "کے نام سے جاری ہو رہا ہے اس کے ایڈیٹر کے طور پر تمہارا نام بھی زیرغور ہے۔ ڈائریکٹر جنرل عبداللطیف مرزا سے جا کر ملو۔ میں مرزا صاحب سے ملا۔ فرمانے لگے ایک ہفتے کے بعد آ کر تقررنامہ لے جانا اور میں ایک بار پھر سرکاری صحافت سے وابستہ ہو گیا۔ مرزا صاحب بعد میں سیکرٹری لوکل گورنمنٹ ہو گئے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ انجینئر تھے۔ خاموش انقلابی قسم کے انسان‘ پیپلزپارٹی کے منشور میں شمولیت عوام کا باب انہی کا تحریر کردہ تھا۔

مرزا صاحب مرحوم ادب نواز شخصیت تھے۔ ان کے بعد میں آنے والے بعض حضرات کا شکریہ بھی میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں جن کی محبت اور شفقت اگر میرے شریک حال نہ ہوتی تو مجھ جیسا سر پھرا ایک روز بھی ملازمت نہ کر سکتا اس لئے کہ ان دنوں بغیر تاریخ کے ہر وقت استعفیٰ میری جیب میں موجود ہوا کرتا تھا لیکن جناب تنویر احمد ٗجناب چوہدری محمد اشرف ٗجناب فرید الدین احمداور جناب امتیاز مسرور نے مجھے ہمیشہ آزاد فضا میں کام کرنے دیا اور اسی محکمہ میں تھوڑی مدت کے لئے مشہور افسانہ نویس جناب طارق محمود‘ مشہور شاعر جناب غلام رسول ازہر اور مشہور ادیب ونقاد اور شاعر ڈاکٹر انیس ناگی کے ساتھ بھی مجھے کام کرنے کا موقع ملا۔ ان سب حضرات کا ادب میں اپنا مقام ہے۔اسی محکمہ میں برادرم اسلم کمال سے میری دوستی کا آغاز ہوا۔

اس محکمہ میں میں نے تقریباً سوا گیارہ برس تک ایڈیٹر پندرہ روزہ خدمت‘ ایڈیٹر ماہنامہ مقامی قیادت‘ انفارمیشن افسر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر مطبوعات کی حیثیت سے 31 دسمبر 1984ء تک کام کیا۔ یکم جنوری 1985ء کو میں نے پاسکو میں سینئر پبلک ریلیشنز افسر کی حیثیت سے کام شروع کر دیا اور اپنی ریٹائرمنٹ (1997ء تک) پاسکو میں اس ملازمت کو جاری رکھا۔
.............................
ممتاز شاعر ٗ محقق اورادیب اشرف قدسی صاحب 7 فروری 2015ء کی صبح گیارہ بجے اپنی رہائش گاہ 218 ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں انتقال فرما گئے ہیں۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔ بے ہم شک اپنے رب کے بندے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔

مجھے ان کے ماتحت تین سال تک کام کرنے کا موقع ملا ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے پختہ اصولو ں پر کاربند رہتے ہوئے دیکھا ہے وہ کسی بھی غلط بات یا اختیارات سے تجاوز کرنے والے بڑے سے بڑے افسروں کے لیے بھی لوہے کا چنا ثابت ہوتے اور یہ بھی درست ہے کہ استعفی ہر وقت ان کی جیب میں ہوا کرتا تھا جب بھی کوئی اعلی سرکاری افسر انہیں ناجائز کام کرنے کے لیے کہتا وہ فوری طور پر جیب سے نکال کر اپنا استعفی پیش کردیتے۔ ایسے باصلاحیت ٗ غیور اور جرات مند لوگ میری زندگی میں بہت کم ہی نظر آتے ہیں ۔بلکہ ایسے لوگ اپنے پختہ عزائم اور وضع کردہ اصولوں کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں انسان خود زندہ نہیں رہتا بلکہ اس کے اصول اور کردار زندہ رہتاہے ۔ اشرف قدسی صاحب انتہائی باضمیر اور شفاف کردار کے حامل ایک عظیم شاعر ٗ بہترین ادیب اور صالح انسان تھے ۔بے شک انہوں77 سال کی عمر پائی لیکن یہ عمر انہوں نے اپنے کردار اور گفتار سے نیکی اور فلاح پھیلانے میں ہی صرف کیے رکھی ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.