ٹونی نے کھانا کھا لیا۔۔۔۔۔؟؟؟
(Samiya Saeed , Rawalpindi)
اسلام آباد کی اس روشن صبح وہ
حسب معمول اپنے آفس میں موجود تھی اور اس کے ہاتھ مشاقی سے کمپیوٹر کے کی
بورڈ پر رواں تھے- وہ گاہے بگاہے اپنی ٹیبل پر رکھی چیک لسٹ پر بھی نگاہ
ڈالتی جاتی تھی۔ پھر اس نے سامنے رکھے کاغذات کے پلندے کا جائزہ لینا شروع
کیا اور ساتھ ساتھ کچھ دستاویزات کو علیحدہ کرتی گئی- علیحدہ کیئے ہوئے
کاغذات کو لے کر وہ اپنی نشست سے اٹھ کر اپنے آفس کےباہر ہال میں چلی گئی۔
اس ہال میں 4،5 ٹیبل سیٹ موجود تھے جہاں اس کے کولیگز اپنی انتظامی حیثیت
کے مطابق کام یا آرام میں مصروف تھے۔ وہ اس وسیع و عریض ہال کے آخری کونے
میں موجود میز پر پہنچی جہاں پرفوٹو کاپی مشین موجود تھی اور اس کے ہاتھ
دھڑا دھڑ ان کاغذات کی فوٹو کاپی کرنے لگےتھے۔ تمام کاغذات کو ترتیب سے رکھ
کرجمع کر کے وہ تیزی سے واپس مڑی، نگاہیں بدستور ان دستاویزات کا جائزہ
لینے میں مصروف تھیں اور ذہن میں چیک لسٹ کی شقیں گردش کر رہی تھیں سو اسے
عین اپنے آفس سے باہر صرف 1 گز کے فاصلے پہ رکھی ہوئی میز اور کرسی نظر نہ
آسکی اور نتیجتاُ وہ سیدھی اس میز سے جا ٹکرائی۔
۔۔۔ "اف ف ف۔۔۔" بے ساختہ اس کے منہ سے برآمد ہوا۔ "کیا ہوا میڈم؟" میز کے
دوسری طرف بیٹھے اس کے جونئیر کولیگ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اور لہجے میں
ہمدردی سموتے ہوئے ہوئے پوچھا- " کچھ نہیں- تمھاری ٹیبل سے حال احوال
دریافت کر رہی تھی"۔ اس نے چلتے چلتے تحمل سے جواب دیا- جس پر کولیگ نے
ہلکا سا قہقہ لگایا۔ "ہنہ- بس دانت نکالنے آتے ہیں- نکما کہیں کا"- یہ
تبصرہ اس نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کیا اور اندر جا کر اپنی نشست
سنبھال لی-
اب اس نے کاغذات اس ضخیم فولڈر میں لگانا شروع کیئے جو وہ تیار کر رہی تھی-
اسی اثنا ء میں ادارے کی منتظم اعلیٰ اندر تشریف لے آئیں "کتنا کام رہتا
ہے بھئی"۔ وہ اپنے مخصوص میٹھے مگر جی بھر کر تیکھے لہجے میں گویا ہوئیں-
ان کے لہجے کا دوہرا رنگ ہمیشہ ہی اسے حیران کرتا تھا- "ملٹی شیڈڈ ٹونز" یہ
اس کا ذاتی خیال تھا۔
"بس میم، چیک لسٹ کیے صرف 6 کلاز رہتے ہیں"- اس نے جواب دیا- "مائی گاڈ-
ٹائم دیکھیں ذرا- مجھے دکھائیں کیا رہتا ہے، میں آپ کی ہیلپ کر دیتی ہوں"۔
خاتون منتظم اعلیٰ کی اس پیشکش پر اس نے گہری سانس لی اور ٹائم دیکھا-
منتظم اعلیٰ نے اسے صبح دس بجے اپنے گھر سے کال کر کے مطلع کیا تھاکہ یہ
ڈاکیومنٹس ہر صورت آج شام 4بجے تک ایک بین الاقوامی ڈونر اییجنسی کے دفتر
جمع کروائے جانے تھے۔تب سے وہ دھڑا دھڑ کام کرنے میں مصروف تھی- اس وقت 11
بج کر 36 منٹ ہوئے تھے اور منتظم اعلیٰ کی کی طرف سے "ہیلپ " کی پیشکش کا
مطلب کیا ہوتا تھا یہ وہ بخوبی جانتی تھی- لیکن اب کیا ہو سکتا تھا- منتظم
صاحبہ نے ایک کرسی گھسیٹ کر اس کی کرسی کے پاس رکھی اور اس پر براجمان ہو
گئیں- اس نے اپنا اب تک کا کیا ہوا کام ایک ترتیب دیئے ہوئے فولڈر کی شکل
میں ان کے سامنے پیش کیا ، جس کا وہ جائیزہ لینا شروع ہوگئیں۔" اس میں آپ
نے فنانشل رپورٹس کتنے سالوں کی لگائی ہیں؟ انہوں نے فولڈر کا جائزہ لیتے
ہوئے پوچھا "۔ "تین سالوں کی "۔ اس نے نظریں سکرین پہ جمائے اور کی بورڈ پہ
انگلیاں چلاتے ہوئے جواب دیا- "ڈونر کی یہی شرط تھی کیا؟" اگلا سوال آیا-
"جی ہاں"۔ اس نے اپنے ذہن کو کمپیوٹر سکرین پر مرکوز رکھتے ہوئے جواب دیا-
وقت کم تھا اور یہ کام شدت سے ذہنی توجہ چاہتا تھا۔ "اچھا-- "باقی تو ٹھیک
ہے لیکن ایسا کریں آپ سیکشن نمبر 3 کے ہر حصے کو علیحدہ کر دیں تا کہ ان
کو صحیح سے پتا چل سکے"۔ منتظم اعلیٰ نے آخر کار غلطی دریافت کر ہی لی- اس
نے گہری سانس لیتے ہوئے سوچا، جیسے کہ آپ کاڈونرتو زیور تعلیم سے محروم
ہےنا۔ اب اس نےاپنا رخ ان کی طرف موڑا اور فولڈر کو اپنے ہاتھ سے کھولتے
ہوئے سیکشن نمبر 3 کے پہلے سے تقسیم شدہ حصے ان کو دکھائے جہاں باقاعدہ
ٹائٹل پیجز موجود تھے۔ "اوہ، اچھا-- گڈ- ویری گڈ- اب ایسا کریں ان کے سمری
پیجز بھی بنا لیں"۔ ان کو ایک نیا خیال سوجھا- اف ف-- اس سیکشن میں موجود
2، 2 صفحات کے ڈاکیومنٹس کے کس چیز کے سمری پیجز بنائوں؟؟ اس نے کسی قدر
جھنجھلا کر سوچا- پھر " اوکے " بول کر دوبارہ اپنی سکرین کی طرف متوجہ ہو
گئی۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب منتظم اعلیٰ بھی اس کے کمپیوٹر کی سکرین کی
طرف متوجہ ہو گئیں جہاں وہ سیکشن نمبر 12 میں دی گئی شقوں کو حل کرنے میں
مصروف تھی- ایک بار پھر اس نے گہرا سانس لیا- اب وہ اچھی طرح سے جانتی تھی
اگلے مزید نجانے کتنے قیمتی منٹ ان کے سوالات کا جواب دینے، مختلف الفاظ کی
تراکیب کو تبدیل کرنے، فونٹ سائز وغیرہ کم یا زیادہ کرنے میں صرف ہونے والے
تھے اوراب وہ ایسی باتوں کا برا ماننے کی عادی بھی نہیں رہی تھی۔مگر اصل
مسئلہ وقت کا تھااور اس سے بھی بڑھ کر منتظم اعلیٰ کی متلون مزاجی کا
کیونکہ کہ اس کے بعد اچانک ان کو کسی بھی لمحے یہ خیال آ سکتا تھاکہ اوہو،
ابھی تک یہ کام ختم کیوں نہیں ہوا تھا، قطع نظر اپنی اس مداخلت اور غیر
ضروری ترامیم کا شغل پورا کرنے کے۔
اب اس نے سکرین پر روشن الفاظ کو میم کی فرمائش پر پڑھ کر سنانا شروع کیا،
ساتھ ساتھ اس کی انگلیاں اپنے پہلے سے کئے گئے کام میں ان کی بتائی ہوئی
چھوٹی چھوٹی سی ترامیم کرنے میں مصروف تھیں۔ 12 بج کر 10 منٹ پر منتظم
اعلیٰ کے سیل فون پر آنے والی کال پر یہ سلسہ ختم ہوا، جب وہ فون ہاتھہ
میں لئے، فولڈر ٹیبل پر رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور اسے کام جاری رکھنے کا
اشارہ کرتے ہوئے اس کے آفس سے رخصت ہوگئیں۔ ان کی رخصتی پر اس نے سکھ کا
سانس لیا اور کام کا سلسہ وہیں سے جوڑا جہاں پہ ٹوٹا تھا- جلدی جلدی اس نے
اس سیکشن کو نمٹایا اور اوریجنل فائل سےاس کی متعلقہ دستاویزات برآمد کیں
جن کی نقول درکار تھیں۔ اب ایک بار پھراس کا رخ باہر ہال میں موجود فوٹو
کاپیئر مشین کی طرف تھا جہاں اس نے مشین میں پہلا پیپر رکھ کر ایک بٹن
دبایا۔ لیکن یہ کیا، مشین تو آف تھی۔ اس نے سٹارٹ کا بٹن دبایا، نتیجہ پھر
بھی کچھ نہیں۔ "اوہ۔اس کو کیا ہو گیا" اس نے باآواز بلند خود کلامی کی۔ جس
کا دل جلا دینے والا جواب ایک کولیگ کی طرف سے آیا۔"یہ مشین بجلی سے چلتی
ہے جو اس وقت موجود نہیں ہے اور اس مشین کا کنکشن یو پی ایس کے ساتھ نہیں
ہے "۔ اس کے دل سے آہ اور منہ سے خواہش نکلی۔ "کاش انہوں نے میری "ہیلپ"
نہ کی ہوتی تو میں اب تک یہ کام کر چکی ہوتی"۔"کس نے ہیلپ نہ کی ہوتی
میڈم؟" اس کے ایک جونئیر کولیگ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا۔ منتظم اعلی کے اس
چہیتے اور چمچے کو اس نے کھا جانے والی نگاہوں سے گھورتے ہوئے جواب دیا
"کسی نے نہیں- یہاں کون کس کی مدد کرتا ہے بھلا، بڑی خود غرض دنیا ہے یہ۔۔
یہاں اپنے مسئلوں کا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے "۔ بات کے آخر میں اس کا
لہجہ اور جملہ فلسفیانہ سے ہوگئے تھے، مگر وہ اس کو ٹالنے میں کامیاب ہو ہی
چکی تھی۔ جانتی تھی ذرا سا کوئی شکائیتی جملہ اس کے کان میں پڑا تو منتظم
اعلی کے اس چمچے نے اس کو 10 سے ضرب دے کر ان کے گوش گزار کر دینا تھا۔
12:30..
۔۔اس نے وقت دیکھا اور واپس آکر اپنی نشست سنبھالتے ہوئے با قی ماندہ کام
نمٹانے لگی۔ تقریباُ سوا گھنٹے کے بعد اس نے چیک لسٹ کا جائیزہ لے کر قدرے
سکون کا سانس لیا۔ تمام شقیں حل ہو چکی تھیں۔ اب اس نے اپنے تیار کردہ نئے
ڈاکیومنٹس کے پرنٹس لینا شروع کیئے پھران کے ٹیگز وغیرہ کا کام نمٹانے لگی-
2 بج چکے تھے جب جونئیر کولیگ اس کے آفس میں داخل ہوا۔ "میڈم، لنچ بریک کب
ہو گی؟"۔ اس نے مسکرا تے ہوئے جواب دیا "گستاخ لڑکے!! منتظم اعلیٰ کی
موجودگی میں ایسا سوال؟" ۔ اب یہ وہ نقطہ تھا جہاں پہ یہ موصوف خود شاکی
رہتے تھے کہ منتظم اعلی جب بھی آفس کو رونق بخشتیں، کبھی بھی وقت پر لنچ
بریک ہوتی نہ ہی آف۔ وجہ یہ تھی کہ قوم و ملک کی غربت و افلاس کے غم سے
نڈھال وہ عظیم خاتون صبح جلدی آفس نہیں پہنچ پاتی تھیں کہ دیر سے اٹھنے کی
عادی تھیں۔ سو جب وہ تسلی سے اٹھ کر ناشتا کر کے آفس پہنچتیں، تو ظاہر ہے
اتنی جلدی ان کو بھوک تو نہ لگ سکتی تھی اور سٹاف کو وہ اپنی مرضی کے اوقات
میں مصروف رکھنے کی عادی تھیں چاہے جو مرضی ہو جائے۔ اور یہ بات وہ موصوف
بھی جانتے تھے۔ کام مکمل ہو چکا تھا اور اب محض بائنڈنگ کا کام رہتا تھا سو
وہ تمام کاغذات اور فولڈر لے کر ہال میں نکل آئی۔ جونیئر کولیگ اس کے
پیچھے تھا۔
اسی دوران آفس بوائے نے آکر اس سے پوچھا "میڈم لنچ کا کیا کرنا ہے؟"۔۔
"میں تو ابھی مصروف ہوں، آپ باقی سب سے پوچھ لیں"۔ اس نے جواب دیا۔
اب جیسے ہی اس نے مطلوبہ میز پر وہ سارا پلندہ رکھا، منتظم اعلی اپنے آفس
سے باہر ہال میں تشریف لے آئیں۔ "میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنی ایونٹس رپورٹس
بھی ساتھ بھیجنی چاہئیں، اچھا تاثر پڑے گا"۔ ان کا آئیڈیا سن کر اس کے ہوش
اڑ گئے، "لیکن میم، یہ رپورٹس ان کی چیک لسٹ میں شامل نہیں ہیں، غیر ضروری
مواد شامل کرنے سے کہیں تاثر خراب نہ ہوجائے"۔ اس نے تحمل سے ان کو سمجھانے
کی کوشش کی۔ "نہیں نہیں۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ بلکہ اچھا ہے ان کو پتا
چلے کہ ہم کتنا کام کر رہے ہیں۔آپ ایسا کریں کہ گزشتہ دو سالوں کے ایونٹس
کی رپورٹس شامل کریں ، جلدی سے پرنٹس لے لیں شاباش- اور ہاں، جن رپورٹس میں
تصاویر زیادہ ہیں، یا تاریخ، جگہ یا تھیم کا ایشو ہے، ان کو ایڈٹ کر لیں
پہلے "۔ منتظم اعلیٰ نے اس کی دلیل کو رد کرتے ہوئے حکم جاری کیا تو ناچا ر
وہ سب کچھ وہیں چھوڑ کر واپس اپنے روم میں چلی آئی۔ "ہاں بھئی۔۔ آپ کیا
کر رہے ہیں؟ اندر جا کر میڈم کی"ہیلپ" کروا دیں کیونکہ جب تک یہ کام ختم
نہیں ہو جاتا، لنچ بریک نہیں ہو گی"۔ باہر منتظم اعلیٰ نے جونئیر کولیگ کو
جھاڑ پلا دی تھی۔ آفس بوائےکے کانوں میں بھی یہ معلومات یقیناُ پہنچ چکی
تھیں۔ جونئیر کولیگ بیچارہ جھکے ہوئے سر کے ساتھ اند ر اس کے آفس میں د
ااخل ہوا، تو اس کی زرد رنگت دیکھ کر اسے ترس آ گیا۔ صبح 8 بجے کیا جانے
والا ناشتا یقیناُکب کا ہضم ہو چکا تھا- اس کی اپنی حالت بھی اب قابل رحم
ہو رہی تھی۔ اس نے جونئیر کو تسلی دی۔"دیکھو بس یہ صرف کچھ پرنٹس لینے ہیں،
پھر لنچ کرتے ہیں، تب تک رونا نہیں پلیز"۔ جونئیر کو ہنسی آ گئی۔ اس نے
تمام مطلوبہ رپورٹس نکال کر ان کی مطلوبہ ایڈیٹنگ شروع کر دی - پھر اس نے
جلدی جلدی ان مطلوبہ رپورٹس کے پرنٹس لینا شروع کیئے۔ جونئیر کولیگ نے
مختلف رپورٹس کے صفحات ترتیب دینے میں مدد کی۔ درمیان میں ایک بار پرنٹر
ساتھ چھوڑ گیا تو جونئیر نے اس کو کھول کر چیک کیا۔ خدا خدا کر کے پرنٹر
چلا تو باقی ماندہ ڈاکیومنٹس کے پرنٹس نکالے گئے۔ اسی اثنا میں فیلڈ پہ
جانے والے باقی سب کولیگز واپس آفس پہنچ گئے- وہ خود جونئیر کولیگ کے
ہمراہ واپس ہال میں آئی اور اب بائنڈنگ کا مرحلہ شروع ہوا۔ ادھر ان لوگوں
نے آفس بوائے کو بلوا کر لنچ کا آرڈر دیا لیکن منتظم اعلیٰ فوراُ اپنے
آفس کے ہال میں کھلنے والے داخلی دروازے سے باہر تشریف لے آئیں۔" آفس
بوائے پہلے ڈونر ایجنسی جا کر یہ ڈاکیومنٹس جمع کروائے گا، لنچ واپسی پر لے
کر آئے گا"۔ منتظم اعلی نے اپنے شیریں ترین لہجے میں سفاکی کی حدوں کو
چھوتا ہوا یہ حکم سنایا اور وہیں ہال میں کام کے اس آخری مرحلے کی نگرانی
کرنے کے لئے ایک نشست سنبھال لی۔ اور اسی لمحے ان کے سیل فون کی گھنٹی
بجی۔ان کی گفتگو سے سب کو اندازہ ہو گیا کہ ان کے گھر سے فون تھا۔
وہ جونئیر کولیگ کے ساتھ تندہی سے ان ضخیم دستاویزات کی بائنڈنگ میں مصروف
تھی ، جب ایک کولیگ اٹھ کر ان دونوں کے پاس آیا۔ "میڈم! آپ لوگوں نے آج
ہمیں بھوکا مروا دیا ہے۔ آپ کو پتا ہے فیلڈ میں کتنی خواری ہوتی ہے- آپ
لوگ تو مزے سے آفس میں "بیٹھے" رہتے ہیں، اس لئے کسی کا احساس ہی
نہیں۔میری بھوک سے جان نکل رہی ہے" ۔ بھوک سے اس کی اپنی جان بھی آدھی تو
نکل ہی چکی تھی لیکن اس نے کولیگ کو دبی زبان میں سمجھایا کہ دیکھو آپس
میں بلاوجہ لڑنا بری بات ہوتی ہے، ہمارا اور آپ کا مشترکہ مجرم وہ سامنے
مزے سے بیٹھا ہے، ہمت ہے تو اس پہ جا کر غصہ نکالو، ورنہ چپ رہو کیونکہ ہم
بھی صبر سے کام لے ہی رہے ہیں ۔ اور عین اس وقت اس کے کانوں میں منتظم
اعلیٰ کی تشویش سے لبریز آواز آئی ۔۔"کرامت!!ٹونی نے کھانا کھا
لیا؟؟؟؟؟"۔۔۔۔ آواز تھی کہ گویا کوئی تازینا جو اس کی سماعت پر برسا تھا
اور وہ ایک لمحے کے لئے اپنی جگہ پہ ساکت سی رہ گئی۔ 2:50 پر تمام مواد
آفس بوائے کے حوالے کرتےاور ٹیبل سے اپنا باقی سامان لے کر واپس پہنچانے
تک اس کے کانوں میں اسی آواز کی بازگشت گونجتی رہی۔ ۔"کرامت!!ٹونی نے
کھانا کھا لیا؟؟؟؟؟" "
جی ہاں۔۔کرامت منتظم اعلیٰ کے نوکر کا نام تھا اور "ٹونی" ان کے پالتو کتے
کا۔۔۔
ڈونر ایجنسی کا آفس قریب ہی واقع تھا سو آفس بوائے 20 منٹ کے بعد اچھا سا
لنچ لے کر واپس آگیا منتظم اعلیٰ کی ہدایات کے عین مطابق "بچوں نے بڑا
اچھا کام کیا ہے، ان کو اچھا سا لنچ کروانا ہے"، یہ سوچے بغیر کہ ان سب کو
اچھے کھانے سے زیادہ وقت پر کھانے کی ضرورت تھی، کہ اچھا کھانا ان سب کے
گھروں میں بہت اچھا سا ملتا تھا۔
منتظم اعلیٰ نے لنچ اپنے گھر جا کر کرنا تھا، سو انہوں نے آفس بوائے کے
آنے سے پہلے ہی رخصت لے لی تھی۔ لیکن وہ مسلسل یہی سوچتی رہی کہ کیا
انسانی حقوق کا نعرہ ہمہ وقت بلند رکھنے والی این جی اوز کے کرتا دھرتائوں
کی نظر میں درحقیقت انسان کی حیثیت ان کے پالتو کتے سے بھی گئی گزری ہوتی
ہے؟
ہیومین رائٹس جیسا مقدس مشن ایسا غیر انسانی رویہ اور سخت دل رکھنے والے
لوگ کیونکر چلا سکتے ہیں؟
آپ ہی بتایئے، جو انسان اپنے ساتھی انسانوں پر مہربانی سے محروم ہو مگر
جانوروں پہ شفقت کرتا ہو، اس کو ہم کیا نام دیں؟ اور قول وفعل کے اس دوہرے
معیار کو آپ کیا نام دینا مناسب سمجھیں گے؟
بتایئے گا ضرور۔۔۔ |
|