افسانہ اردو ادب کی نثری صنف،زندگی کے کسی ایک واقعہ کی
تفصیل ،کسی خاص مقصد ،خیال ،تجربے، جذبے ،واقعہ کو سامنے رکھ کر اسے کہانی
کی صورت میں پیش کرنے کو کہتے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب اردو ادب میں بہت اچھے
افسانہ نگار تھے ۔پھر ہوا یہ کہ قاری کا کتاب سے رشتہ کمزور ہوا اس کے کئی
اور بھی اسباب ہوں گے ،لیکن اچھا افسانہ بھی کم لکھا گیا ، ہر عہد کے کچھ
تقاضے ہوتے ہیں،ایسے افسانے کم لکھے گئے جن کی بنیاد عہد موجودہ کے مسائل و
واقعات پر ہو ،یا اسے موجودہ زمانے کی بصیرت کو سامنے رکھ کر لکھا گیا
ہو۔نئی پیڑھی (نئی نسل) کے مسائل اور تھے ،حالات اور تھے ان کی ضرورت اور
تھی جسے پورا کرنے کی غرض سے کہا جا سکتا ہے کہ افسانہ بھی وقت کے ساتھ
بدلا ،اس کا انداز بدلا ۔مجھے افسانے پڑھنے کا شوق شروع سے ہی تھا ،پہلے
صرف افسانے سے غرض ہوتی تھی ہم لکھاری کا نام بھی نہیں پڑھتے تھے یا اسے
بھول جاتے تھے ۔لیکن اچھا افسانہ یاد رہتا تھا خاص کر ایسا افسانہ جس کا
پلاٹ ،کہانی ،اور انجام چونکا دے ۔ جو منفرد ہو ۔
|
|
جاوید اختر چودھری کا شمار ان ادبا ء میں ہوتا ہے جنہوں نے زمانے کی بصیرت
کو سامنے رکھ کر افسانے لکھے ہیں ۔ان کی ایک کتاب بعنوان 'ٹھوکا' پڑھنے کا
موقع ملا جس میں کل 15 افسانے ہیں ۔سب سے مختصر افسانہ " وزیٹنگ کارڈ" جو
کہ 4 صفحات پر اور سب سے طویل " اپنی اصل کی طرف" جو کہ 28 صفحات پر مشتمل
ہے ۔ان دو میں سے مجھے " وزیٹنگ کارڈ" نے بہت متاثر کیا ،اس کا انجام ایسا
ہے جو قاری کو مدتوں یاد رہے گا ۔یہ بہت ہی نفیس ،حسین ،وفادار، اور خاص
عورت کی مختصر کہانی جسے اپنے عام سے شکل و صورت خاوند سے اعتبار و پیار
تھا ۔ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں وہ خاوند کے ساتھ شریک ہوئیں سب اس سے
باتیں کرنے ،قرب حاصل کرنے کو بے چین تھے وہ جب صاحب کتاب سے آٹو گراف دینے
کا کہتی ہے تو وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے وزیٹنگ کارڈ پر بین
السطور اس کے حسن کی تعریف اور ملاقات کی خواہش کا اظہار لیے دو شعر لکھ کر
دیتے ہیں ۔وہ صاحب کتاب سے کہتی ہیں ۔وزٹینگ کارڈ کا استعمال آپ نے خوب کیا
ہے ۔آپ بھی موقع سے فائدہ اٹھانے والوں سے مختلف نہیں نکلے ۔ اس کہانی کا
انجام چونکا دینے والا ہے ۔پاکستان کے مشہور و معروف صحافی جناب عبدالقادر
حسن نے ایک بار کہا تھا کہ مختصر لکھنا انتہائی مشکل کام ہے یہ ایک فن ہے ،جاوید
اختر چودھری کے بہت سے افسانوں کے علاوہ خاص کر اس افسانے سے ظاہر ہوتا ہے
کہ جاوید صاحب اس فن سے آشنا ہیں ۔"اپنی اصل کی طرف "ایسی کہانی ہے جس کا
انجام کیا ہو گا اس کا علم قاری کو پہلے سے ہو جاتا ہے ۔اس کی اس خامی نے
مجھ پر وہ تاثر نہیں چھوڑا ،حالانکہ اس کا پلاٹ بہت اچھا تھا ۔اس کہانی پر
تو کوئی ٹی وی ڈرامہ بنانا چاہیے ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک بہت
خوبصورت کردار اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔
ان کے دو افسانے 7 ،سات صفحات پر مشتمل ہیں جن کے نام ہیں " زلزلے کے بعد"
اور" ہوا میں نہ غرق دریا" ،اول الذکر افسانہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کے
رکھ دیتا ہے ۔اس میں پانچ مناظر دیکھائے گئے ہیں ۔مظفر آباد میں زلزلہ آتا
ہے ،خریدار خیمے لینے کے لیے ایک حاجی ،نمازی ،کی دکان پر جاتا ہے فی خیمہ
پانچ ہزار کا ہوتا ہے ،جب حاجی صاحب کو علم ہوتا ہے کہ زلزلہ آیا ہے تو
خیموں کی قیمت ڈبل کر دیتا ہے ۔ایسے لوگ جو نماز ادا کرتے ہیں ،حج کرتے ہیں
،ہر وقت تسبیح کرتے رہتے ہیں پورے کے پورے اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہوتے ،اسلام
صرف عبادات کا نام نہیں ہے معاملات اور حقوق العباد کا بھی نام ہے ،ذخیرہ
اندوزی ،ملاوٹ ،ناجائز منافع کرنے والوں کا اسلام سے کیا تعلق ہے ۔ہمارے
ہاں بدقسمتی سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔اور ایسا کرنے والے مسلمانوں کو اس پر
شرمندگی بھی نہیں ہے ۔زلزلے کے بعد کے دوسرے منظر میں برطانیہ میں چندہ
اکٹھا کیا جاتا ہے زلزلے کے متاثرین کے لیے سامان لے کر خیرات علی اسلام
آباد پہنچتا ہے ٹرک ڈرائیور سے مظفر آباد جانے کا کرایہ اس سے تیں ہزار
مانگا جاتا ہے جو کہ زلزلے سے پہلے دس ہزار ہوتا ہے ۔خیرات علی ڈرائیور کو
شرم دلاتا ہے اور خوف خدا کرنے کا کہتا ہے جس پر ڈرائیور پورے یقین سے کہتا
ہے کہ تم نے کون سے اپنے پاس سے دینے ہیں تم بھی تو چندہ اکٹھا کر کے لائے
ہو ۔حکمرانوں کے منہ پرطمائچہ تیسرے منظر میں ہے جس میں ایک وزیر زلزلے کے
دو دن بعد مظفر آباد جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایک قبرستان کا وزیر اعظم
ہوں ،اس سے پہلے وہ چلتی پھرتی لاشوں کا وزیر اعظم تھا ،قبرستان کے وزیر
اعظم نہیں مجاور ہوتے ہیں اور آج کے یہ مجاور تو ایسے ہیں کہ بن مانگے ان
کے کشکول میں ہر ملک اور ہر قوم کی خیرات کے سکے جمع ہو رہے ہیں اور اس کا
بھی یقین نہیں کہ یہ حقدار تک بھی پہنچ رہے ہوں گے ۔چوتھی جھلک میں بریڈ
فورڈ میں امدادی سامان کی اپیل کی جاتی ہے تو لوگ اپنا کاٹھ کباڑ اٹھا لائے
بجائے اس کے قابل استعمال سامان دیتے ۔پانچواں منظر ایسا ہے اسے ایسے الفاظ
سے بیاں کیا گیا ہے کہ اگر بے توجہی سے نہ پڑھا جائے تو جسم پر کپکپی طاری
ہو جاتی ہے ۔باپ بیٹا عید کا سامان لانے کے لیے گاؤں سے شہر کی طرف جاتے
ہیں ابھی ایک کلومیٹر کا ہی سفر طے کرتے ہیں کہ زلزلہ آتا ہے اور ان کی
بستی ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے ۔وہ واپس گاؤں آتے ہیں ان کو کوئی امدادی
سامان نہیں مل رہا ہوتا عید قریب آ رہی ہوتی ہے ،بھوک ،پیاس سردی سے تنگ
آکر بیٹا باپ سے کہتا ہے ۔ابا اچھا ہوتا ہم عید کا سامان لینے کے لیے گاؤں
سے باہر نہ جاتے ۔باپ بیٹے کو تسلی دیتا ہے اور سینے سے لگا لیتا ہے ۔اس
منظر کو دیکھ کر حساس طبع قاری کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔چھٹے منظر میں
ہلال احمر پاک فوج کے جوان امدادی کاموں میں مصروف ہوتے ہیں کہ ریڈیو پر
خبریں نشر ہو رہی ہوتی ہیں ایک خبر ہوتی ہے کہ عید کا چاند نظر آ گیا ہے کل
عید ہوگی ۔اس لمحے ان کی نظر ایک بوڑھی عورت پر پڑی جو دور بیٹھی منہ
ڈھانپے مدھم آواز میں سسکیاں لے رہی تھی دونوں جوان اس کے پاس جاتے ہیں اسے
عید کی خوشخبری سناتے ہیں کہ" مطلع" صاف ہے،چاند نظر آگیا ہے کل عید ہو گی
۔بوڑھی خاتون نے حسرت و یاس سے ان کی طرف دیکھا اور زمین بوس بستی کی طرف
انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ،ابھی" ملبہ" کہاں صاف ہوا ہے ،اور میں کون
سا چاند دیکھوں گی ۔میرا چاند تو پتھروں کے نیچے دبا ہوا ہے ۔سات صفحات پر
مشتمل دوسرا افسانہ" ہوا نہ میں غرق دریا" جس کا ہیرو ایک کمپنی کا مالک
ہوتا ہے وہ اپنی کمپنی میں کام کرنے والے ایک آدمی سے ملتا ہے جو اسے نہیں
جانتا ہوتا ۔لیکن وہ اپنی گرل فرینڈ سے لمبی لمبی چھوڑ رہا ہوتا ہے ۔لڑکی
اسے دھوکہ دے کر غائب ہو جاتی ہے تو کمپنی کا مالک اس سے کہتا ہے کیا تم
کبھی چیف سے ملے ہو وہ کہتا ہاں آج صبح ہی ملا ہوں تب اﷲ دتہ عرف اے ڈی
گورا جو کہ چیف ایگزیکٹیوہوتا ہے اسے اپنا کارڈ دیتا ہے تو اس کا شرمندگی
سے برا حال ہو جاتا ہے ۔تجسس لیے ہوئے ایک عام سے کردار کی خاص کہانی ۔
|
|
تین افسانے ایسے ہیں جن کے صفحات کی تعداد فی افسانہ 8 صفحات ہیں ان میں "ٹھوکا"
،"بوکہاں سے"،اور" نمبر "271 شامل ہیں ۔تینوں کہانیاں اس معیار پر پوری
اترتی ہیں کہ اگر آپ آدھے سے زیادہ بھی افسانہ پڑھ کر اس کے انجام کا
اندازہ لگانا چاہیں تو جو بھی آپ کا اندازہ ہو گا انجام اس سے مختلف ہو گا
۔"بو کہاں ہے" ایک منفرد ترین افسانہ ہے ،اور" نمبر "271 تو اس سے بھی
مختلف ہے ۔ٹھوکا کی بابت بات بعد میں کرتے ہیں ،پہلے" بو کہاں ہے "کی جھلک
دیکھیں ۔ قارئین ہم ان افسانوں کی چند جھلکیاں اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ آپ
محفوظ بھی ہو سکیں ۔سید ظاہر علی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ،برطانیہ
جاتے ہیں ،گھروں میں قالین بچھانے کا کام سیکھتے ہیں ،اپنا کام شروع کر
دیتے ہیں ۔ان کی ملاقات ایک سکھ کرپان سنگھ سے ہوتی ہے جو سید ظاہر علی کی
طرح پینے پلانے کا شوقین ہوتا ہے وہ نیا مکان خریدتا ہے تو ظاہر علی سے
اپنے گھر میں قالین بچھانے کا کہتا ہے ظاہر علی اپنے اسسٹنٹ سبز گل کے ساتھ
ان کے گھر جاتے ہیں ، سبز گل کو دوران کام گھر سے بد بو آتی رہتی ہے ۔وہ
ظاہر علی سے کہتا ہے کہ کس کافر کے گھر لے آئے ہو جہاں اتنی بو ہے ۔ظاہر
علی اس وقت بہت حیران ہوتا ہے جب اس کو کرپان بتاتا ہے کہ اس کا بیتا کشمیر
سنگھ کہ رہا ہے کہ جب سے یہ مسلے (مسلمان )ہمارے گھر آئے ہیں بدبو آرہی ہے
۔ظاہر علی کو بعد میں علم ہوتا ہے کہ یہ بو کہاں سے آرہی تھی دراصل اس کے
اسسٹنٹ سبز گل کے جوتے سے لگی گندگی اس کی وجہ تھی ۔لیکن دونوں یعنی سبز گل
اور کرپان اسے مذہب سے جوڑ رہے تھے ۔
"نمبر "271 اس لحاظ سے ایک منفرد کہانی ہے کہ انیس احمد جھوٹ کے بل بوتے پر
کامیاب زندگی گزار رہاتھا ،سچ بولنے کا اسے بہت تلخ تجربہ ہوتا ہے جسے وہ
کبھی بھلا نہ پایا ۔انیس احمد مصنف کو جب اپنی کہانی سناتا ہے اس وقت تک اس
کی زندگی میں 419 گرلز فرینڈ سے تعلقات رہ چکے ہوتے ہیں بقول انیس احمد میں
نے جھوٹ کے سہارے بہت کامیاب زندگی بسر کی میں نے اپنی سابقہ ہر گرل فرینڈ
سے جھوٹ بولا کہ میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے اور نہ ہی میں شادی شدہ ہوں ۔
لیکن سیسی نام کی گرل فرینڈ جو کہ شادی شدہ ہوتی ہے اس کی زندگی میں آنے
والی لڑکیوں میں جس کا نمبر 271 واں تھا اس سے پہلے جھوٹ پھر اس سے سچ بول
دیتا ہے۔دراصل انیس احمد کو سیسی سے محبت ہو جاتی ہے اس لیے اسے سچ بتا
دیتا ہے ۔ لیکن سچ سن کر سیسی اپنا گھر ،شوہر ،ملک چھوڑ کر ایسی غائب ہوتی
ہے کہ باقی زندگی انیس احمد اس کی تلاش میں گزار دیتا ہے ،دنیا کا کونا
کونا چھان مارتا ہے لیکن وہ اسے نہیں ملتی وہ پچھتاتا ہے کہ اس نے سچ کیوں
بولا تھا ۔اسے اپنے جھوٹ پر قائم ہی رہنا چاہیے تھا ۔
"ایک عمر کی اجرت "،"عطر حیات" او"ر مہذب اور غیر مہذب "تینوں افسانے
13,,13 صفحات پر مشتمل ہیں ۔اور اپنی مثال آپ ہیں ۔"ایک عمر کی اجرت" تجسس
سے بھر پور کہانی ہے کہ قاری تیز تر پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔اس کا
مرکزی خیال جعلی پیرو ں پر اندھی عقیدت کیسے زندگیاں برباد کر رہی ہے اور
یہ کہ غریب کے پاس عزت ہی تو ہوتی ہے لیکن مقروض کے پاس وہ بھی نہیں رہتی ۔دوسرے
افسانے" عطر حیات "کا ایک فقرہ جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ ہے "گناہ سے
نفرت کرو لیکن گناہ گار کو دھتکارو مت "۔ ان تینوں افسانوں میں تجسس کے
لحاظ سے اول الذکر" ایک عمر کی اجرت "،ایڈونچر کے لحاظ سے "عطر حیات"
اورمطالعہ کے بعد دیر تک سوچنے پر مجبور کرنے والا افسانہ" مہذب ،غیر مہذہب
"ہے ۔جس میں ایک دوشیزہ کی مسلمانوں کے بارے میں دوہرے معیار کو دیکھایا
گیا ہے ۔کیرل مسلمانوں کو خاص کر عرب النسل افراد کو غیر مہذب سمجھتی ہے
لیکن ان کے سامنے لباس فطرت میں ڈانس کر نا ،اور ان سے ملنے والے درہم کو
جائز سمجھتی ہے اور خود کو ایسا کرنے پر غیر مہذب نہیں سمجھتی ۔کیرل
برطانیہ کی شہریت رکھتی ہے وہ ایک ثقافتی طائفے کے ہمراہ اسلام
آباد،بمبئی،دبئی میں جاتی ہے ،اس مختصر افسانے میں ان چاروں ممالک کے مردوں
کی فطرت سے آگاہ کیاگیا ہے ۔برطانیہ میں مرد وں کے لیے عورت کا ننگا جسم
کوئی اہمیت نہیں رکھتا ،پاکستان میں مردوں کی اکثریت کی آنکھوں میں عورت کے
لیے ہوس ہوتی ہے ،بھارت میں ملا جلا رحجان اور دبئی میں لاکھوں درہم ڈانس (فطری
لباس میں )پر لٹا دیئے جاتے ہیں ۔ایسا ڈانس کرنے سے ملنے والے درہم کیرن
باعث عزت سمجھتی ہے ۔ایک عمر کی اجرت ایسا افسافہ جس پر بہتریں تبصرہ اس کا
مطالعہ ہی ہے ۔(جاری ہے) |