جواب فتوی جاوید چوھدری
(usman ahsan, Liverpool UK)
٤ فروری ٢٠١٥ فتوی کے عنوان سے
جاوید چوھدری صاحب کا کالم انکی فیس بک ٹائم لائن پر شئیر کیا گیا جو کہ آج
میری نظر سے گذرا ۔ موصوف نے لکھا کہ ہلاکو خان نے بغداد فتح کرلیا تو
تاتاری فوج شہر میں داخل ہوئی اور انھوں نے لوگوں کے سر اتارنے شروع کیے
خواتین کی سرعام بیحرمتی کی اور بچوں کو نیزوں میں پرونا شروع کیا ۔
عمارتیں اور کتب خانے نظر آتش کردیے تو اسوقت بغداد کے علماء کرام اور مفتی
صاحبان دریائے فرات کے کنارے بیٹھ کر مسواک کے شرعی سائز پر بحث کررہے تھے
آدھے علماء کا کہنا تھا مسواک بالشت بھر ہونی چاہیے جبکہ نصف کا دعوی تھا
کہ اگر مسواک بالشت سے چھوٹی بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ، یہ بحث ابھی
ہورہی تھی کہ ہلاکو خان کے سپاہی فرات کے کنارے پہنچے اور اسکے بعد مفتی
بچے ، انکے فتوے بچے ، مسواکیں بچیں اور نہ ہی مسواکیں کرنے والے بچے ۔
بغداد تو برباد ہوگیا مگر اسکے باوجود بغداد کے علماء کرام اور مفتی صاحبان
کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے یہ بغداد نہیں بچا سکے لیکن انھوں نے مسواک کی
حرمت بچا لی انھوں نے مسواک کا سائز ضرور متعین کرلیا ۔
جاوید چوھدری نے یہ تاثر دینے کی کوشیش کی ہے کہ بغداد صرف علماء اور انکے
مناظرے کی وجہ سے برباد ہوا اور علماء نے بغداد کو بچایا نہیں ۔ اب میرا
اہل عقل وبینش سے سوال ہے کہ کیا بغداد کو بچانا صرف علماء کی ذمہ داری تھی
؟ چوھدری صاحب نے تو لکھا کہ علماء مسواک پر بحث و مناظرہ کررہے تھے ، جبکہ
ایک اور لبرل دانشور نے فرمایا کہ علماء کوے کے حلال و حرام پر مناظرہ
کررہے تھے ، ایک دانشور صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ علماء خلق قرآن کے مسئلے
پر مناظرہ کررہے تھے ۔ اب دور حاضر کے ارسطو و سقراط کے مطالعہ کا اندازہ
آپ اس امر سے لگائیں کہ سقوط بغداد 29 جنوری تا 10 فروری 1258 ء کو ہوا جب
معتصم بالله خلیفہ تھا ۔ اور مسئلہ خلق قرآن مامون الرشید (813-833) کے دور
خلافت میں پیدا ہوا اور امام احمد بن حنبل نے سعوبتیں برداشت کرکے اس فتنے
کا مقابلہ کیا ۔ رہی بات مسواک کے سائز کی تو یہ مسئلہ نہ فرائض و واجبات
میں سے تھا جس پر علماء اپنی توانائیاں خرچ کرتے ۔ اور اگر تحقیق کریں تو
پتہ چلتا ہے کہ ہلاکو خان نے بغداد فتح کرنے سے قبل محاصرہ کیا اور دریائے
فرات و دجلہ کے کناروں پر اپنی افواج تعینات کررکھیں تھیں ایسے میں علماء
دریا کے کنارے کیسے مناظرہ کررہے تھے ۔ دوسرا بغداد علم و عرفان کا اسوقت
محور و مرکز تھا اور باہمی مباحث و مناظرے کرکے علم و عرفان کی نئی راہیں
نکالنا علماء کا کام تھا اور ہے ۔ سقوط بغداد کا سبب علماء یا مناظرے نہ
تھے اسکے بیشمار اسباب میں سے ایک سبب میر جعفر و صادق کا مسلمانوں کی
صفحوں میں ہونا ہے خلیفہ مستعصم باللہ کے وزیر ابن علقمی نے ہلاکو خان کو
بغداد پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ امت مسلمہ کو آگ اسکے اپنے گھر
کے چراغ سے ہمیشہ لگی ہے ۔ کئی وجوہات کی بنا پر، خلیفہ، معتصم حملے کے لئے
تیاری کرنے میں ناکام رہا تھا؛ اس نے نہ لشکر جمع کئے اور نہ ہی شہر کی
دیواروں کو مضبوط کیا اس سے بھی زیادہ بدتر اس نے ہلاكو خان کو اپنی دھمکی
سے بہت زیادہ ناراض كر دیا اور اس طرح اپنے بربادی کو یقینى بنا ليا ہلاكو
نے دجلة کے دونوں کناروں پر لشکر کو تعینات کیا ، خلیفہ کی فوج نے مغرب سے
حملہ آور افواج میں سے کچھ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا، لیکن اگلی جنگ میں
ہار گئے. حملہ آور منگولوں نے کچھ حفاظتى بندوں کو توڑ دیا جس کی وجہ سے
وہاں فوج کے پیچھے ایک سیلاب آ گیا اور وہ پھنس گئے اس طرح بہت سے فوجیوں
کو ذبح کر دیا یا غرق کر دیا گیا. چینی دستےنے 29 جنوری کو شہر کا محاصرہ
شروع کیا یہ جنگ محاصرہ کے معیار کے مطابق بہت تیز تھی :5 فروری کو منگولوں
نے دیوار کا کنٹرول لے لیا. معتصم نے گفت و شنید كى کوشش کی ، لیکن اس سے
انکار کر دیا گیا. 10 فروری، بغداد نے ہتھیار ڈال دئے منگولوں نے 13 فروری
کو شہر میں بھاری کامیابی حاصل کی اور قتل عام اور تباہی کا ہفتہ شروع کر
دیا. بيت الحكمہ، جو کہ بے شمار قیمتی تاریخی دستاویزات اور طب سے لیکر علم
فلکیات تک کے موضوعات پرلكھی گئی کتب كا گھر تھا کو تباہ کر ڈالا گیا۔ زندہ
بچ جانے والوں نے کہا کہ دریائے دجلہ کا پانی ان کتب كی سیاہی کے ساتھ سیاہ
پڑ گیا جو بہت زیادہ تعداد میں دریا میں پھینک دى گئی تھیں۔ نہ صرف یہ مگر
کئی دنوں تک اس کا پانی سائنسدانوں اور فلسفیوں کے خون سے سرخ رہا۔ شہریوں
نے فرار کی کوشش کی مگر منگول سپاہیوں نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ مارٹن سكر
لکھتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد نوے ہزار ہو سکتی ہے (Sicker 2000, p. 111
)۔ - بنو عباس کے زوال کی اصل وجہ حکمرآنوںکی عیش پرستی، نااہلی اور امراء
کی خود سری و اخلاقی زوال کے نتیجے میں خلافت کی حدود پھر گھٹنا شروع
ہوگئیں۔ اور بالآخر بنی بویہ کے ایک حکمران معز الدولہ نے بغداد پر قبضہ
کرلیا۔ عباسی خاندان بویہی قبضے سے سلجوقیوں کے زیر اثر آگیا۔ یہ حالت دو
سو سال تک رہی اس کے بعد عباسی خلفاء پھر آزاد ہوگئے لیکن ان کی حکومت عراق
تک محدود رہی اور مزید سو سوا سو سال قائم رہنے کے بعد تاتاریوں کے ہاتھوں
ختم ہوگئی۔ سب سے بڑی وجہ ترکوں کا عروج تھا جو معتصم کے زمانے سے اپنے اثر
و رسوخ میں اضافہ کررہے تھے۔ اصل میں عباسیوں کو خلافت دلانے میں بڑا ہاتھ
ایرانیوں کا تھا اور عباسیوں نے ذاتی مصلحت کے تحت ایرانیوں کے اثر و رسوخ
کے کم کرنے کے لیے ترکوں کو آگے بڑھایا جو خود ان کے لیے نیک فال ثابت نہ
ہوا۔ انہوں نے اموی دور کی کسی ایک خرابی کو بھی دور نہ کیا بلکہ ان تمام
تغیرات کو جوں کا توں برقرار رکھا جو خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کے آ جانے
سے اسلامی نظام میں رونما ہوئے۔ بادشاہی کا طرز وہی رہا جو بنی امیہ نے
اختیار کیا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ بنی امیہ کے لیے قسطنطنیہ کے قیصر نمونہ تھے
تو عباسی خلفاء کے لیے ایران کے کسریٰ - آسان لفظوں میں بنو عباس کے عروج
کو زوال میں بدلنے کا سہرا جوڑ توڑ اور مفاہمت کے سر ہے جو آج کل پاکستان
میں ہورہی ہے ۔ سینکڑوں لوگ زندہ جل گئے انصاف دلوانے اور کرنے کی بجائے
ایم کیو ایم کو دوبارہ حکومت میں شامل کرلیا گیا ہے اور خان کے سوا کسی
پارٹی قائد کو زبان کھولنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ چوھدری صاحب یہ ہوتے ہیں
زوال کے اسباب ، علماء سوفٹ ٹارگٹ ہیں ہر کوئی ان پر ہی چڑھ دوڑتا ہے ۔ اور
ویسے بھی جب چور اور کتی مل جاتے ہیں زوال لازم ہوتا ہے ۔ |
|