زنجیر جو پہناؤ گے جھنکار تو ہوگی!

کراچی کا موسم عمومی طور پر معتدل رہتا ہے۔۔۔گرمیاں ہوں یا سردیاں یہاں شامیں بہت دل فریب ہوتی ہیں۔۔۔ہلکی ہلکی سی خنک ہوا بہت محسور کن تاثر دیتی ہے۔۔۔کراچی کا رہائشی جب کہیں باہر جاتا ہے ۔۔۔تو یقینا اسے کراچی کی شامیں ضرور ستاتی ہونگی۔۔۔یاشائد اب زندگی اتنی بے ہنگم ہوچکی ہے کہ ان باتوں کا خیا ل ہی نہیں آتا ہوگا۔۔۔ہم معمول کی باتوں کو کم ہی خاطر میں لاتے ہیں۔۔۔اگر کوئی بات خاص ہو اور وہ بھی بہت زیادہ خاص تب کہیں جاکے توجہ حاصل کر پاتی ہے۔۔۔

پاکستان کی کل آبادی ۱۸ کروڑ سے بھی تجاوز کرتی نظر آرہی ہے۔۔۔جس میں سے تقریباً دو یا پونے دو کروڑ کراچی کی آبادی ہے۔۔۔کراچی پاکستان کا اہم ترین شہر ہے ۔۔۔بندرگاہ کراچی کو دوسرے شہروں سے منفرد کرتی ہے۔۔۔کراچی کو غریب پر ور شہر کہ نام سے بھی جانا جاتا ہے۔۔۔جہاں رہنے کیلئے کھانے پینے کیلئے اوڑھنے پہننے کیلئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنے پڑھتی۔۔۔

پاکستان لسانیت جیسے موذی مرض میں عرصہ دراز سے مبتلا ہے۔۔۔اس کی وجہ سمجھنا یا سمجھانا ذرا مشکل سا کام لگتا ہے ۔۔۔الجھاؤ ہے اور تناؤ سی کیفیت ہوجاتی ہے۔۔۔مگر یہ ایسی کڑوی حقیقت ہے جسے نا چھپایا جاسکتا ہے اور نا کھلے لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔۔۔یہ مرض اس قدر خطر ناک نوعیت اختیار کر چکا ہے کہ دینی جماعتوں میں بھی اس کا تاثر ملنے لگا ہے۔۔۔جو اقتدار میں ہوں یا جن کہ پاس اختیارات ہوں یقینا وہی اکثریت میں بھی ہونگے۔۔۔ انہیں اس بات پر دھیان دینے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی ۔۔۔اب اگر آپ کو آپ کے گھر میں ہی محدود کر دیا جائے یا حدود کی بیڑیاں ڈال دی جائیں۔۔۔نیوٹن کہ قانون کہ مطابق ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح زنجیر جو پہناؤ گے جھنکا ر تو ہوگی۔۔۔سیاسیات کو ذاتیات سے دور رکھنا چاہئے۔۔۔آپ کی ذمہ داری ملکی سطح کی ہے۔۔۔تنقید برائے اصلاح کی جائے۔۔۔تخریبی سیاست سے اجتناب کیا جائے۔۔۔ایسے عوامل سے سختی سے نمٹا جائے جو سیاسی جماعتوں کہ نام پر لوگوں کو دھمکاتے پھرتے ہیں۔۔۔

ہم آج تک کالا باغ ڈیم بنانے کیلئے ایک نہیں ہوسکے ۔۔۔جسکی وجہ سے ہر سال پانی کی کثیر تعداد ضائع ہوجاتی ہے۔۔۔دوسری طرف جانی و مالی نقصان الگ ہوتا ہے۔۔۔مگر کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا گیا یا جائے گا۔۔۔یہ لسانیت نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔ایک کو فائدہ ہوگا ایک کو نقصان ۔۔۔کوئی پاکستان اور پاکستانی عوام کا نہیں سوچتا۔۔۔پاکستان میں اگر واقعی جمہوریت کو فروغ دینا ہے تو آنے والی نسلوں کے ذہن سے لسانیت جسے ناسور کو نکالنا ہوگا۔۔۔جس کیلئے آبادی کہ لحاظ سے خود مختار صوبے بنائیں جائیں۔۔۔ صدارتی نظام قائم کیا جائے۔۔۔بلدیاتی نظام بھر پور طریقے سے بحال کیا جائے۔۔۔سیاسی تنطیموں کا ایک باقاعدہ ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے۔۔۔جس پر سیاسی جماعتوں کا بھر پور اتفاق ہو۔۔۔جذباتیت سے گریز کیا جائے۔۔۔حقائق پر مبنی پالیسیاں مرتب کی جائیں۔۔۔قانون اور عدالتوں کو خود مختار کیا جائے۔۔۔عام شہری کی عزت نفس کااحترام لازم و ملزوم قرار دیا جائے۔۔۔

سب سے پہلے ہمارے محترم سیاست دانوں کو اپنی اپنی انا کا بت توڑنا ہوگا۔۔۔ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا ۔۔۔ملک کی مفاد پر ذاتی(زبانی اور علاقائی ) رنجشیں ختم کرنی پڑینگی۔۔۔دشمن روز ہماری سرحدوں پر اپنے عزائم کا برملا اظہار کر رہا ہے۔۔۔مگر ہم لوگ اپنی ذاتی انا اور رنجشوں میں الجھے ہوئے ہیں۔۔۔وقت آچکا ہے کہ سیاست کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کیا جائے ۔۔۔اور ملک کی فلاح و بقاء کو سب سے مقدم رکھا جائے۔۔۔تاکہ ہمارے دشمن کی جرات نہ ہو کہ وہ ہمارے پاک وطن پر اپنی میلی نگاہ ڈال سکے۔۔۔اسے باور کرائیں کہ ہم ایک ہیں۔۔۔ دشمن کو اپنے عمل سے بتائیں کہ ہماری سیاست پاکستان کی بقا اور سالمیت کیلئے ہے۔۔۔پاکستان سے بڑھ کر ہمارے نذدیک کچھ بھی اہم نہیں ۔۔۔

ہمیں استحکام کی جانب گامزن ہونا پڑے گا۔۔۔ایک دوسرے کی رہنمائی کرنی پڑے گی۔۔۔تنقید کو اصلاح کہ طور پر کیا جائے تو نتائج بہتر ہوسکتے ہیں۔۔۔ایک غزل کہ بول ہیں ۔۔۔زنجیر جو پہناؤ گے جھنکارتو ہوگی۔۔۔اس مضمون کا عنوان اس پر ہی رکھ دیاہے۔۔۔
Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 529 Articles with 454663 views Take good care of others who live near you specially... View More