بچے سبھی اچھے
(Mansha Fareedi, Dera Ghazi Khan)
تحریر: محمد دلشاد، بہاولپور
حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہمارے
چھوٹوں (بچوں) پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی قدر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے
۔ حدیثِ مبارک کے پہلے جز میں بچوں پر رحم نہ کرنے والوں کے لیے اتنی سخت
وعید کسی اور کی طرف سے نہیں ہے بلکہ رحمتہ للعالمین پیغمبرؐ کی طرف سے ہے
آپؐ ایسے شخص کو اُمت سے خارج قرار دے رہے ہیں اس سے آپؐ کی بچوں سے محبت
اور شفقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔بچوں سے آپ کو بے انتہا محبت تھی
موسم کاجب بھی نیا پھل آتا تو سب سے پہلے بچوں میں تقسیم فرماتے آپؐ کا
اُسوۂ حسنہ اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ بچے بچے ہی ہوتے ہیں خواہ وہ امیروں
کے ہوں یا غریبوں کے ہوں ،تاجروں کے ہوں یا کسانوں کے،وردی والوں کے ہوں یا
بغیر وردی والوں کے ،مسلمانوں کے ہوں یا کافروں کے ۔ بچے ہر حال میں لائقِ
محبت ہیں ۔ میدانِ جنگ میں بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن 16
دسمبر کے المناک سانحہ نے انسانیت کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں ۔ درندوں نے
آرمی پبلک سکول کے معصوم اور چھوٹے پھول جیسے بچوں کو خاک و خون میں تڑپا
دیا ہے ۔اس درد ناک سانحہ کی ہر شخص نے مذمت کی ہے۔خواہ اس کا تعلق کسی بھی
مکتبِ فکر سے ہو پہلی مرتبہ قوم،فوج اور حکومت متحد نظر آئی۔ قو می یکجہتی
کا شاندار مظاہرہ ہوا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ متحد ہو کر لڑنے کے اعلانات
بھی ہوئے ۔بلا شبہ یہ ایک لائق تحسین عمل ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے
کم ہے کیونکہ بچوں پر حملہ کرنے والے درندے کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ۔
پاکستانی قوم اس بد ترین سانحہ کو کبھی نہ بھُلا پائے گی ۔یہ حملہ قوم کے
مستقبل پر تھا اور ملک و ملت سے دشمنی کا واضح پیغام تھا وزیرِ اعظم میاں
محمد نواز شریف نے اس حملے کے بعد بار ہا اپنے اس بیان کو دہرایا کہ بچوں
کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا ۔ اوراس سلسلے میں حکومت کی
جانب سے کچھ اقدامات کیے گئے بچے کسی بھی معاشرے اور قوم کا قیمتی سرمایا
ہوتے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ تھر پار کر میں بلک بلک کے مرتے بچوں نے حکومت
کے تمام تر دعوؤ ں کی قلعی کھول دی ہے بچوں کے معاملہ میں بھی امتیازی رویہ
اپنایا گیا جو کہ ایک افسوس ناک امر ہے امتیازی رویہ ایک ایسا امر ہے جو
قوموں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتی ہے تھر پار کر کے صحرا میں تقریبا
360 بچے غذائی قلت اور ادویات کی عدمِ دستیابی کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے
کئی ماؤں کی گودیں اجڑ گئی کئی بہنوں کے سہانے خواب تعبیر نہ ہو سکے ۔بھوک
اور پیاس سے بلک بلک کر مرتے بچے دیکھ کر اﷲ کا آسمان بھی کانپ اُٹھا ہو گا
لیکن اہلِ اقتدار میں سے اس طرف کسی کو توجہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور نہ ہی
اب تک تھر پار کر کے بچوں کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں سندھ کے نا اہل
وزیر اعلی کو پروٹوکول سے فرست نہیں جناب کبھی بلٹ پروف گاڑیاں خرید رہے
ہیں تو کبھی ہیلی کاپٹر خریدنے کا فرمان صادر کرتے ہیں سندھ حکومت نے فوٹو
سیشن کے سوا تھر پار کر پر کوئی توجہ نہ دی اور متحدہ والوں کو الطاف بھائی
کے ٹیلی فونک خطاب سننے سے فرصت ملے تو وہ بھی قوم کی خدمت کریں وفاقی
حکومت شاید اسے سندھ کا معاملہ سمجھ کر نظر انداز کر رہی ہے وزیر اعظم صاحب
آپ ایک صوبے کے نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اگر پشاور میں مرنے
والے بچے قابلِ رحم ہیں تو تھر پار کر میں مرنے والے بچے کیوں قابلِ رحم
نہیں ۔اگر وہ قوم کا سرمایا تھے تو یہ بھی قوم کا سرمایا ہیں گزشتہ دنوں
وزیرِاعظم متحدہ کو منانے کے لیے کراچی پہنچے اور کراچی سے ہی واپس چلتے
بنے کاش کہ وزیر اعظم تھر پار کر میں جا کر مرنے والے معصوم بچوں کے
لواحقین کو دلاسہ دیتے ان سے اظہار ہمدردی کرتے جس طرح انہوں نے سانحہ
پشاور پر کیا ۔انتہائی مقام افسوس ہے جس قوم کے بچے بھوک و افلاس سے مر رہے
ہوں جن کے پاس پینے کے لیے پانی نہ ہو کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی نہ ہو
تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے نہ ہوں ضروریات زندگی سے محروم ہوں تو ان حالات میں
سیکیورٹی کے نام پر مہنگی بلٹ پروف گاڑیاں خریدی جائیں قوم کا وزیر اعظم
غیر ملکی دوروں پر 29کروڑ خرچ کر ڈالے تو ایسی قوم کی قسمت پر سوائے ماتم
کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا تھر پار کر کے معاملے میں امتیازی رویہ باعث
تشویش ہے اہل اقتدار کو اس طرف ضرور متوجہ ہونا پڑے گا اگر کل قیامت کے دن
تھر پار کر کے معصوم بچے اﷲ کے دربار میں پیش ہو جائیں اور کہیں کہ اے اﷲ
قوم کے لیڈران خود تو قسم قسم کے رنگ برنگے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوتے
تھے اور ہمیں دو وقت کی روٹی نصیب نہ تھی خود تو لاکھوں روپے والے سوٹ زیب
تن کرتے تھے اور ہمارے پاس تن ڈھانپنے کو دو کپڑے نہ تھے اگر ان کو چھینک
بھی آ جاتی تو اپنا علاج لندن میں کروانے چلے جاتے اور ہمیں ایک روپے کی
گولی بھی نصیب نہ ہوئی تو بتائیے ان معصوموں کے سوالوں کا جواب کون دے سکے
گا اب بھی وقت ہے دیر آید درست آید کے تحت فوری طور پر ہنگامی بنیاد پر
اقدامات کر کے ہم کئی معصوم جانوں کو بچا سکتے ہیں ۔تھر میں اب بھی بدستور
غذائی قلت ہے اور ادویات کی کمی ہے پانی کے بے شمار مسائل ہیں وزیراعظم
سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے کو حل کرے تاکہ امتیازی رویہ سے قوم
میں پائی جانے والی بے چینی ختم ہو سکے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے
پیپلز پارٹی کا تو یہ نعرہ ہے روٹی، کپڑا اور مکان۔لیکن تھر کے باسی ان
تمام چیزوں سے محروم ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس پُر فریب
نعرے کو انتخابات تک محدود رکھتی ہے اس پر عمل کچھ بھی نہیں کرتی جو کہ
ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی روح سے غداری ہے۔ اربابِ اقتدار سے
التماس ہے کہ وہ تھر پار کر میں غذائی قلت ادویات کی کمی اور پانی جیسے
مسائل کو فوری حل کرے یہی ملک و قوم اور خود ان کے حق میں بہتر ہو گا پشاور
میں مرنے والے بچے قابلِ رحم سہی لیکن یہ بھی تو کسی کے بچے ہیں حکمرانوں
کے رویے سے یہی معلوم ہوتا ہے غریبوں اور امیروں کے لیے الگ الگ پیمانے ہیں
اہلِ اقتدار کا امتیازی رویہ قوم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دے گا تھر
پار کر کے معصوم پھولو ہم تمہیں کبھی نہیں بھول سکتے ہم ان معصوم بچوں کو
کیسے بھلائیں جو بھوک کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں جو ادویات
کی کمی کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں جو پیاس سے بلک بلک کر اﷲ کے حضور
پیش ہو جاتے ہیں نہیں نہیں اے تھر پار کر کے معصوم پھولو! ہم تمہیں کبھی
نہیں بھول سکتے ۔تمہاری آہیں اور سسکیاں ہمیں کبھی نہ بھول پائیں گی تمہاری
آنکھوں سے گرتے آنسوں انشاء اﷲ حکمرانوں کے شاہی محلات میں شگاف ڈال دیں گے۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے اہلِ پاکستاں
داستاں تک نہ ہو گی تمہاری بھی داستانوں میں
|
|