کاؤنٹرٹیررازم فورس
(Nasir Iqbal Khan, Lahore)
پشاور کے اندوہناک اورالمناک
سانحہ نے پاکستان کے ارباب اقتدارواختیارکوسرجوڑنے پرمجبورکردیا۔وزیراعظم
نوازشریف کی دعوت پراے پی سی ہوئی اورقومی ایکشن پلان بنایا گیا لیکن اگریہ
مشاورت اور اتحادویکجہتی بروقت کرلی جاتی توشایدسانحہ پشاوررونمانہ
ہوتاکیونکہ پاکستان میں خودکش حملے اوربم دھماکے اچانک شروع نہیں ہوئے بلکہ
پچھلے کئی برسوں سے ہورہے ہیں۔کوئی مانے یانہ مانے ہماری حکمران اشرافیہ نے
ملک وقوم کوپرائی جنگ میں جھونک دیا ہے ۔اگردہشت گردوں اورقاتلوں کیلئے
پھانسی کی سزامعطل نہ کی جاتی تویقینا کئی بیگناہ لوگ قتل نہ ہوتے۔ حکمران
پانی سرسے گزر نے کے بعد جوش میں آتے ہیں مگرانہیں ہوش پھربھی نہیں آتا۔
سانحہ پشاورمیں بظاہر 140بچے اوراساتذہ شہید ہوئے مگر ان کے ورثابھی جیتے
جی مرگئے ۔سکول کے فرش اوردرودیوارپر کئی معصوم خوابوں اورآرزوؤں کاخون
بکھراپڑا ہے،اس سانحہ میں کئی ارمانوں کابھی خون بہایاگیا،اس سانحہ کازخم
کبھی نہیں بھرسکتا۔سانحہ پشاورمیں دہشت گرد عقبی دیوار پھلانگ کرسکول میں
داخل ہوئے اورمعصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی ،اب ملک بھرمیں تعلیمی
اداروں کی دیواریں اونچی کرنے کے ساتھ ساتھ ان پرخاردارتاریں لگائی جارہی
ہیں مگردہشت گردی سے نجات اوردہشت گردعناصر کی سرکوبی کیلئے جو اقدامات
ناگزیر ہیں وہ نہیں کئے جارہے ۔خالی اونچی دیواریں،تعلیمی اداروں کے مرکزی
دروازوں پررکاوٹیں تعمیر اوربندوق بردار سکیورٹی گارڈزکھڑے کرنے سے مطلوبہ
نتائج برآمد نہیں ہوں گے ۔سکیورٹی گارڈزاوراساتذہ کے ساتھ ساتھ طلبہ
وطالبات کوبھی اپنے دفاع میں ہتھیار استعمال کرنے اورفرسٹ ایڈ کی تعلیم
وتربیت دی جائے۔حکومت نصاب تعلیم میں ایک باب شامل کرے جس کی مددسے مستقبل
کے معماروں کو غیرمعمولی صورتحال کاسامنا اورمقابلہ کرنے کیلئے خصوصی تعلیم
وتربیت دی جائے ۔سیاسی پنڈت آنیوالے وقت میں پاکستان اوربھارت کے درمیان
پانی کی بنیاد پرجنگ ہونے کا عندیہ دے ر ہے ہیں ،اس امکان کوردنہیں کیا
جاسکتا۔طلبہ وطالبات کواپنابچاؤاورہتھیاراستعمال کرنے کے ساتھ ساتھ فرسٹ
ایڈ کی تربیت اس دوران بھی بہت کام آئے گی ۔
“حکومت ان محرکات اوراسباب کوبھی ختم کرے جودہشت گردوں کوجنم دے رہے
ہیں۔دہشت گردوں کی سرپرستی کرنیوالی قوتوں کو بھی بے نقاب اوران کاگھیراؤ
کیا جائے ۔سکیورٹی اداروں کوجدیدخطوط پراستواراورمنظم کیا جائے،دنیا بھر
میں پولیس کاکردارلااینڈآرڈر کی صورتحال بہتربنانے اورکرائم کنٹرول کرنے تک
محدود ہے مگر ہمارے ملک میں پولیس سے گلیوں میں جھاڑولگاناباقی رہ گیا ہے
۔لاؤڈسپیکر ایکٹ کی پابندی،وال چاکنگ، ممنوعہ اورشرانگیزممنوعہ مواد کی
اشاعت ،ناجائزتجاوزات کیخلاف آپریشن کلین اپ ،گڈی ڈور کی تیاری اورپتنگ
بازی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ داعش کے پوسٹرزاتارنا کیا یہ سب پولیس کے
کام ہیں ،باقی ضلعی اداروں سے کام کیوں نہیں لیا جارہا۔ہرکام میں پولیس
کوگھسا نادرست نہیں کیونکہ اس طرح شہریوں اورپولیس کے درمیان فاصلہ
پیداہوتا ہے۔خداراپولیس کوقابل نفرت نہ بنایا جائے ورنہ معاشرے میں
انتشارپیداہوگا ۔دہشت گردوں کی بروقت سرکوبی کیلئے خفیہ اداروں کومزیدمتحرک
اورموثربنانے کی ضرورت ہے۔ خفیہ اہلکاروں کوجدیدٹیکنالوجی استعمال کرنے کی
تربیت دی جائے۔سانحہ پشاور کے تناظر میں لاہورمیں کاؤنٹرٹیررازام فورس
کاقیام مثبت اقدام ہے ،دعا ہے اس کاانجام ایلیٹ فورس کی طرح نہ ہو۔ایلیٹ
فورس کے پیشہ وراورنڈر اہلکار دہشت گردوں کوکیفرکردارتک پہنچانے میں مہارت
رکھتے ہیں مگرانہیں حکمرانوں اوران کے بیوی بچوں سمیت وی آئی پی شخصیات کے
پروٹوکول پرلگادیا گیاہے۔ پچھلے دنوں کاؤنٹرٹیررازم فورس کے پرعزم اورپرجوش
جوانوں کی شاندارپاسنگ آؤٹ تقریب ہوئی جس میں وزیراعظم نوازشریف ،افواج
پاکستان کے دبنگ سربراہ جنرل راحیل شریف ،وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف ،آئی
جی پنجاب مشتاق سکھیرا ،سی سی پی اولاہور کیپٹن (ر)محمدامین وینس،ایڈیشنل
آئی جی سی ٹی ڈی محمد طاہراورڈی آئی جی ایلیٹ رائے طاہر سمیت اہم سیاسی
وسماجی شخصیات شریک ہوئیں۔ تقریب میں جہاں کاؤنٹرٹیررازم فورس کے جوانوں کی
تربیت اورمہارت کامظاہرہ د یکھنے میں آیاوہاں پنجاب کے قائم مقام گورنرکا
وزیراعظم نوازشریف کے ہاتھوں کوچومنااورضرورت سے زیادہ جھکنا بھی نوٹس کیا
گیا۔اس پروقارتقریب کی جوسرکاری تصویراخبارات کوبجھوائی گئی اس میں آئی جی
پنجاب مشتاق سکھیرا،ڈی جی رینجرز میجر جنرل خان طاہرجاویدخان ،سی سی پی
اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس،ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی محمد طاہر ،ڈی آئی
جی ایلیٹ رائے طاہر نہیں تھے جس کو عوامی سطح پرمحسوس کیا گیا کیونکہ جو
رینجرزاورپولیس فورس کوکمانڈکررہے ہیں ان کا بھی اس تصویرمیں ہوناضروری تھا
اس سے یقینا ان کے ماتحت اہلکاروں کامورال بلندہوتا۔ اگرارباب اقتداراداروں
اوران کے سربراہوں کی عزت نہیں کریں گے توسماج دشمن عناصر کے دل سے ان
کاڈرختم ہوجائے گا۔سیاست میں تو انتخابی امیدوار حادثاتی طورپریادھونس
دھاندلی کے بل پر منتخب ہوسکتے ہیں مگر کسی بھی سکیورٹی ادارے کاسربراہ
پیشہ ورانہ قابلیت ، طویل ریاضت اورانتھک تربیت کے بعداس مقام پرپہنچتا
ہے۔ڈی آئی جی ڈاکٹرحیدراشرف،ایس ایس پی باقررضا ،ایس ایس پی
راناایازسلیم،ایس ایس پی شعیب خرم جانباز ،ڈی پی اوننکانہ کامران یوسف
ملک،ڈی پی اواوکاڑہ محمدفیصل رانا، عمرورک،منصورقمر،عاطف حیات اورعاطف
معراج خان کی قابلیت پرشبہ نہیں کیاجاسکتا ۔
میں جس آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کوجانتاہوں انہوں نے آج تک اپنے
اختیارات، پولیس فورس کے وقاراور ڈسپلن پرسمجھوتہ نہیں کیا ۔انہوں نے ماضی
میں بھی کئی بار پولیس فورس کی رِٹ برقراررکھنے کیلئے سٹینڈ
لیااورناجائزاحکامات تسلیم کرنے سے انکار کیا۔حق پرڈٹ جانااورناجائز بات
کاانکار سرمایہ افتخارہے ۔ماضی میں پولیس آفیسرز کی ٹرانسفرپوسٹنگ سمیت
مختلف انتظامی فیصلے اقتدار کے ایوانوں میں ہوتے رہے مگر اب ایسا نہیں
ہوتااوراس تبدیلی کاکریڈٹ مشتاق سکھیراکوجاتا ہے ۔ مشتاق سکھیرا کبھی
دباؤمیں نہیں آتے ، اگران کے آفیسرپربھی دباؤآئے تووہ اس کی پشت پرکھڑے
ہوتے ہیں۔ نیک نیتی،نیک نامی،اصول پرستی اورفیصلوں پراستقامت مشتاق سکھیرا
کاطرہ امتیاز ہے ۔مشتاق سکھیر اکی طرف سے پنجاب بھر کے سی پی اواور ڈی پی
اوزکوبھی کہا گیا ہے کہ سنگین مقدمات کے تفتیشی ایس ایچ اوزاور آئی اوکے
بیجاتبادلے نہ کئے جائیں اوراگرمقامی منتخب نمائندوں ،سیاستدانوں سمیت کسی
بھی بااثرشخصیت کادباؤہوتواسے مستردکردیں۔بلوچستان میں آئی جی پولیس کی
حیثیت سے مشتاق سکھیرا کی اصلاحات اورخدمات کوآج بھی قدرکی نگاہ سے دیکھا
جاتا ہے۔مشتاق سکھیرا بروقت،درست اور دوررس فیصلے کرنے میں شہرت رکھتے
ہیں۔پنجاب میں ایڈیشنل آئی جی کی دس خالی سیٹوں پرموزوں آفیسرز کی تعیناتی
آئینی طورپر وفاق کا اختیار ہے ۔پنجاب پولیس کی مینجمنٹ وفاق کودس خالی
سیٹوں کی نشاندہی کرنے کے سواکچھ نہیں کرسکتی کیونکہ گریڈبیس سے بائیس کے
آفیسرز کی پوسٹنگ وفاق کرتا ہے ۔ مشتاق سکھیرا پولیس کے انتظامی امور میں
بیرونی مداخلت اور دباؤ قبول نہیں کرتے ۔سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین
وینس کی تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے اصلاحات کے اثرات منظرعام پرآناشروع
ہوگئے ہیں۔ہرقسم کے سائل کی سی سی پی اولاہورتک باآسانی رسائی سے عوام کی
پولیس بارے سوچ میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔تھانوں میں ایڈمن آفیسرز کا
پروفیشنل اندازاورحسن اخلاق بھی قابل دید اورقابل داد ہے۔کپتان امین وینس
نے'' تحفظ مل جل کر'' کا جوتصور پیش کیا ہے اسے لوگ خوش آئندقراردے رہے ہیں
کیونکہ عوام کی بھرپورشراکت اورطاقت کے بغیرکسی ریاست کی فوج دشمن کامقابلہ
اورپولیس مجرمانہ سرگرمیوں کاسدباب نہیں کرسکتی۔لاہور پولیس کے کپتان امین
وینس نے بھتہ خوروں کو براہ راست اوردوٹوک اندازمیں للکارا ہے کہ کسی شہری
سے بھتہ مانگنے کامطلب سی سی پی اولاہورسے بھتہ مانگنا ہے ۔
فوج ،رینجرزاورپولیس والے ہمارے محافظ ہیں انہیں مزارع نہ سمجھا جائے ۔
اگران اداروں کی اصلاح کیلئے تنقیدکرناہماراحق ہے توان کی قربانیوں کو
تحسین پیش کرنا ہمار افرض ہے ۔یہ ہمارے اوردشمن کے درمیان اپناسینہ تان
کرکھڑے ہوتے ہیں ،ہمیں نہ صرف ان کی پشت پرکھڑے رہنا ہے بلکہ ان کاحوصلہ
بڑھانا ہوگا۔پائیدارامن کاراستہ ڈر،انصاف اورمساوات سے ہوکرجاتا
ہے،اگرسکیورٹی اداروں اوراہلکاروں کاڈرختم ہوگیا توخدانخواستہ سماج دشمن
طبقہ معاشرے کویرغمال بنالے گا ۔ جہاں کمزوراورنادارکوانصاف نہیں ملتاوہاں
انتقامی رویے پرورش پاتے ہیں۔ طبقاتی نظام نے ہمارے معاشرے کوطبقاتی
بنیادوں پرتقسیم جبکہ قومی یکجہتی کاقلعہ کمزور کردیا ہے۔ حکمران دہشت گردی
کے اسباب اورمحرکات ختم کردیں دہشت گردوں کاناپاک وجودخودبخودختم ہوجائے
گا۔پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ملکوں میں رائج سرمایہ دارانہ نظام باغیوں
اور دہشت گردوں کوجنم دے رہا ہے ۔جوانسان زندگی سے مایوس اوربیزارہوجائے وہ
موت سے نہیں ڈرتا لہٰذاء انہیں خودکش حملے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے۔ قیام
امن کیلئے ان مسائل پر قابوپایا جائے جولوگوں کومایوس اوردلبرداشتہ کررہے
ہیں۔ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کے ڈانڈے شیطانی تکون سے جاملتے ہیں ۔
ریاست کے وسائل شاہراہوں کی بجائے براہ راست انسانوں کی اچھی صحت اورمعیاری
تعلیم پرصرف کئے جائیں ۔ عوام کواقتدارمیں شریک جبکہ ان کاریاست اورآئین
پراعتمادبحال کیا جائے ۔ آج معاشرے کاہرباشعور فرداور طبقہ سزائے موت کی
بحالی کوخوش آئندقراردے ریا ہے جس کاصاف مطلب ہے کہ سزائے موت کی طویل
معطلی درست نہیں تھی ۔کوئی بھی تحریر لکھتے وقت تنقید اورتوہین میں فرق
ملحوظ خاطررکھناناگزیر ہوتاہے کیونکہ کالم میں گالم گلوچ نہیں ہوسکتی ۔کچھ
لوگ لکھتے وقت تنقید کی آڑمیں لفظی تشدداوردوسروں کی تضحیک پراترآتے
ہیں۔بدقسمتی سے جوگالیاں لکھتا ہے اس کاکالم زیادہ پڑھاجاتا ہے ۔ ہمارے ہاں
کوئی فرد کامل ہے اورنہ ریاستی ادارے سوفیصد خا میوں یاناکامیوں سے پاک
ہیں۔اب اصولی نہیں وصولی کادور ہے ۔دین فطرت اوردین رحمت اسلام نے برائی
کوبرائی جبکہ اچھائی کواچھائی کہناسکھایا ہے ۔ کوئی فردہویاادارہ اسے مختلف
خانوں میں تقسیم کرکے اجتماعی کارکردگی کی روشنی میں اس کے بارے میں حتمی
رائے قائم کی جاسکتی ہے ،محض تصویرکاایک رخ دیکھ کرکیا گیافیصلہ درست نہیں
ہوتا ۔ کسی بھی ریاست کی بقاء اورعوام کی بہبود کیلئے اداروں کے وجوداوران
کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ |
|