امریکی سازشیں ایک وقت تھا جب کسی کو معلوم
نہیں ہوتا تھا کہ کیا ہورہا ہے مگر آج جب دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل
اختیار کرچکی ہے تو امریکی سازشوں کو بے نقاب کرنے میں غیرمسلم اور امریکی
دانشور پیش پیش ہیں اور ایک دن آئے گا جب ان سازشوں کا علم پوری دنیا کو
ہوجائے گا۔
ایک اور امریکی دانشور John Muellerمعروف علمی جریدےForeign
Affairsکےاکتوبر۲۰۰۶ء کےشمارےمیںامریکی اور امریکہ کےطفیلیوںکے’’دہشت گردی‘‘
کےنعرےکا پول کھولنےکےساتھ امریکی شہریوںسےوصول کردہ ٹیکس کا دہشت گردی
کےنام پر بےدریغ خرچ اور عملاً تمام حفاظتی اقدامات کےغیر موثر ہونےکی طرف
اشارہ کرتا ہے۔ گھر میںپروردہ دہشت گردوںسےکیسےنمٹا جائےاور کس طرح امریکی
پالیسیوںکےنتیجےمیںمسلسل دہشت گردوںکی پیدائش اور فروغ کو روکا
جائے،ایسےسوالات ہیںجن کا جواب وہ اقدامات نہیںدےسکتےجو امریکہ نےاختیار
کیےہیں۔ عراق میںخو د امریکی مبصر فرید ذکریا کےبقول ۷۰فیصد سےزائد عراقی
آج امریکیوںکو قتل کرنا پسند کرتےہیں۔ حالیہ واقعات نےاس امریکہ دشمنی
میںکئی گنا اضافہ کر دیا ہےاور آج ان حقائق کا اظہار خود امریکی مفکرین جس
کثرت سےکر رہےہیںاس سےتین نکات واضح ہو کر سامنےآتےہیں۔ اولاً،امریکہ کی
سامراجی اور شاہانہ (imperialist) پالیسی کےباوجود بہت سےامریکی ضمیر کی
آواز کو دبائےبغیر امریکی پالیسی کی مخالفت میںزبان وقلم کا استعمال کر
رہےہیںجبکہ امریکہ کےوفادار مسلم حکمران امریکہ کےہر ظلم اور آمرانہ فعل کو
حق بجانب سمجھتےہوئےاس کی حمایت ورنہ کم ازکم منقارزیر پر رکھنےمیںاپنی
عافیت سمجھتےہیں۔ ثانیاً،دیوار کی تحریر یہ بتا رہی ہےکہ امریکی شہنشاہیت
اور سلطنت زوال کےگرداب میںپھنس چکی ہےاور امریکی باشعور آبادی اس کی
جارحانہ عالمی سیاست سےبیزار ہو چکی ہے۔ ثالثاً،یہ بات بھی واضح طور پر
سامنےآئی ہےکہ امریکہ اور یورپ میںمقیم مسلمانوںکےلیےکم ازکم آئندہ دو
عشرےمزید آزمائش اور ابتلاء کےہیں۔ مذہبی منافرت اور تفریق میںاگر اضافہ
نہیںتو کمی کےواقع ہونےکےامکانات بھی روشن نظر نہیںآتے۔ ان حالات
میںمسلمانوں کا امریکہ اور یورپ کو چھوڑکر واپس اپنےآبائی وطنوںمیںآنےکا
خیال اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکتا۔
مسئلہ کا اصل حل اسلام کی جامع اور کامل تصویر کا خود مغرب کی زبان واسلوب
میںپیش کرنےاور ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر یہ ثابت کرنےمیںہےکہ اسلام ہر
ظلم اور زیادتی کےخلاف جہاد اور ظلم کو مٹا کرحقوق ِانسانی کی سربلندی کا
قائل ہےاور عالمی انسانی برادری کی بقائےباہمی کی غرض سےعالمگیر اخلاقی
اصولوںپر مبنی معاشرہ اور ریاست کا قیام چاہتا ہے۔ مذہبی منافرت،نسلی تعصب
اور رنگ کی بنیاد پر تفریق کو رد کرتےہوئےتمام انسانوںکو نسلِ آدم
ہونےکےتعلق سےعالمگیر اخلاقی اصولوںکےاحترام کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام
سامراجیت،آمریت اور شہنشاہیت کو رد کرتےہوئےانسانوںکو حریت،عزت نفس،وقار
اور معروف کی طرف بلاتا ہےاور اس سےقطع نظر کہ سامراجیت کا ارتکاب مغرب کر
رہا ہو یا مشرق،طاغوتی طرزعمل کسی سیاہ فام فرد نےاختیار کیا ہو یا سیاہ
قلب والےسفید نسل کےفرد نے،وہ ہر باطل اور طاغوتی عمل سےاپنی براء ت کا
اظہار کرتےہوئےنسل آدم کو اس عہد کی یاد دلاتا ہےجو اس کی تخلیق کےوقت خالق
نےلیا تھا کہ تمام انسانوںکا رب صرف اور صرف ایک مالک اور خالق اللہ ربُّ
العٰالمین ہے،جو عادل ہےاور چاہتا ہےکہ اس کےبندےبھی عدل کو اختیار کریں۔
یورپ وامریکہ میں مقیم مسلمانوں کو بالخصوص اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کو
بالعموم اسلام کی تعلیمات پر پورےاعتماد اور بلاکسی معذرت پسندانہ رویہ
کےاسلام کےاصلاحی طرزِعمل،ظلم اور فتنہ وفساد کےخلاف جہاد اور غریب
کےاستحصال کےخلاف جدوجہد کو مناسب انداز میںاپنےطرزِعمل سےواضح کرنا ہو گا
جس کےنتیجہ میںایک طویل عمل کےبعد مسلمانوںاور اسلام کےبارےمیںمغرب کےقائم
کردہ تصورات کی اصلاح اور مغرب کےطرزِعمل میںمثبت تبدیلی واقع ہو گی۔
آنےوالےوقت کو اس نقطۂ نظر سےدعوت کی صدی کہا جا سکتا ہے۔
ابلاغِ عامہ کےانقلاب اور عالمگیریت کی موجودگی میںدعوت با الحال اور دعوت
با القال کےذریعہ ہی اس ذہنی تصویر کو بدلاجا سکتا ہےجو اسلام کےرنگ آلود
تصور کی بنا پر مغرب اور مغرب زدہ ذہنوںمیںجگہ پکڑچکی ہے۔
وقت کےاس موڑپر جب غیر مسلم امریکی اور یورپی دانشور،خود امریکہ کی
سامراجیت کےخلاف آواز اٹھا رہےہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت کا فریضہ ہےکہ
وہ عدل وتوازن کےساتھ اسلام کےتعمیری کردار اور مغرب کی روبہ زوال اخلاقی
صورت حال کےتناظرمیںایک تہذیبی مکالمہ کےذریعہ صورت حال کو سنبھالنےاور
بہتر بنانےکےلیےاپنا کردار ادا کریں۔ اس تہذیبی مکالمےکا مقصد اپنی
ثقافت،دین،اور اپنےتصور ِحیات کو اعتماد کےساتھ اور بلاخوف پیش کرنا ہونا
چاہیےتاکہ دوسرا فریق اسلام کےپیش کردہ متبادل نظرےۂ حیات پر غور کرسکے،اس
کےخدوخال کو سمجھ سکےاور پوری آزادی کےساتھ اگر چاہےتو اسےاختیار کر سکے۔ |