سیاسی پارٹیوں کے حق میں مسلم قائدین کی اپیل مسلمانوں کے مفاد سے سودا
(Shamsh Tabrez Qasmi, New Delhi)
7 فروری کو دہلی اسمبلی انتخابات
کے لئے ہونے والی ووٹنگ میں اب8؍ گھنٹے سے بھی کم کا وقت باقی رہ گیا ہے ۔
جیسے جیسے وقت قریب ہوتا جارہا ہے امیدوراروں کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی ہیں۔
کل شام تک دہلی کے 70 اسمبلی حلقوں سے انتخابی جنگ لڑنے والے کل 673
امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہوجائے گا کہ کسے اسمبلی میں جانے کا موقع ملے
گا اور کسے نہیں ۔ اور یہ بھی طئے ہوجائے گاکہ کو ن بنے گا دہلی کے تخت کا
تخت نشیں اور کون نہیں ۔ہاں! لیکن اس خوشخبری کو سننے کے لئے تین دنوں تک
انتظارضرورکرنا پڑے گا۔10فروری کود ہلی کی قسمت کے فیصلے کا اعلان ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق سال رواں دہلی میں کل ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ
33لاکھ9 ہزار 78ہے۔ جن میں 73لاکھ 89ہزار 89مرد اور 59لاکھ 19ہزار
127خواتین ہیں۔ ان ووٹروں میں گیارہ فیصد مسلمان اور پانچ فی صدعیسائی بھی
شامل ہیں۔
تشہیری مہم ختم ہونے کے بعد ووٹنگ سے عین ایک دن قبل غیر متوقع طور پر دہلی
الیکشن کے حوالے سے دونئی بحث چھڑ گئی ہے ۔ ایک کا تعلق بی جے پی کے اشتہار
سے ہے ۔ تشہیری مہم 5 فروری شام پانچ بجے بند ہوگئی تھی ۔ اس کے بعد ٹی وی
اور انٹر نیٹ پر موجود تمام اشتہارات بند کردئے گئے تھے تاہم بی جے پی کا
اشتہار آج 6 فروری کو ہندی اور انگلش کے تمام اخبارات میں پورے صفحہ
کااشتہار صفحہ اول پر شائع ہواہے جس میں بی جے پی نے مرکزمیں نو ماہ کی
حکومت میں کئے گئے کاموں کو شمار کراتے ہوئے دہلی والوں سے ووٹ کا مطالبہ
کیا ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے تشہیری مہم ختم ہوجانے کے بعد اشتہارات دینے پر
بی جے پی کی سخت تنقید کی ہے ۔ اور الیکشن کمیشن سے اس پر پابندی عائد کرنے
کا مطالبہ کیا ہے۔ بی جے پی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ آپ کو قانون کا
علم نہیں ہے ۔ تشہیری مہم ختم ہونے کے بعد اخبارات میں اشتہارات پر پابندی
عائد نہیں ہوتی ہے صرف ٹی وی کے اشتہارات پر پابندی عائد ہوتی ہے ۔
دوسرا اہم مسئلہ امام بخاری کی حمایت کا ہے جس نے تشہیری مہم ختم ہوجانے کے
بعد میڈیا او رنیتاؤں کو ایک نیا ایشو فراہم کردیا ہے ۔ شاہی جامع مسجد کے
امام سید احمد بخاری صاحب نے آج عام آدمی پارٹی کی طرف سے کسی فرمائش کے
بغیر دہلی کی عوام اور بہ طور خاص یہاں کے مسلمانوں سے یہ اپیل کی ہے کہ
عام آدمی پارٹی کو ووٹ دے کر اس کی جیت کو یقینی بنائیں ۔ امام صاحب کا
کہنا ہے کہ عآپ ایک ابھرتی ہوئی پارٹی ہے ۔ بی جے پی کو اقتدار سے دور
رکھنے کے لئے اس پارٹی کی حمایت انتہائی ضروری ہے ۔ لہذا بہر صورت اس کی
حمایت کی جائے ۔
دوسر ی طر ف عام آدمی پارٹی نے امام صاحب کی یہ حمایت ٹھکرادی ہے ۔ اپنے
آفیشیل ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر عآپ نے لکھا ہے کہ ہمیں بخاری صاحب کی حمایت نہیں
چاہئے ۔عآپ لیڈروں نے امام صاحب کے اس بیان کی مذمت بھی کی ہے او رکہاکہ
مختلف وقتوں میں مختلف پارٹیوں کی حمایت کرنے والے اور ملک کے وزیر اعظم پر
پاکستان کے وزیر اعظم کو فوقیت دینے والے شاہی امام کی پیشکش ہمیں قبول
نہیں ہے ۔
عام آدمی پارٹی نے بروقت امام صاحب کی اپیل کو ٹھکرا کرایک قابل ستائش
فیصلہ لیا ہے اور ساتھ ہی امام صاحب کو ایک سبق بھی دے دیا ہے کہ کل تک کچھ
پارٹیاں ان کی حمایت لینے کے لئے ان کے دروازے پر دستک دیا کرتی تھیں لیکن
آج کسی آفر کے بغیر ان کی حمایت ٹھکرائی جارہی ہے۔
الیکشن کے موقع پر سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرنا امام بخاری صاحب کی پرانی
عادت ہے ۔ عام انتخاب کے موقع پر بھی انہوں نے کھلے عام کانگریس کی حمایت
کی تھی۔یوپی کے اسمبلی الیکشن کے دوران سماجوادی کی حمایت کی تھی ۔ اس سے
قبل 2004 کے عام انتخابات میں امام موصوف بی جے پی کی حمایت کرچکے ہیں ۔ ان
کے والد صاحب عبداللہ بخاری بھی ان سے کم نہیں تھے ۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آخر امام صاحب نے عآپ سے کوئی ڈیل
کئے بغیر اس کی حمایت کیسے اور کیوں کردی؟ وہ حمایت بھی انہوں نے انتخاب سے
صرف ایک دن قبل کی ہے ۔ مسلم دانشوران کا ماننا ہے کہ عام انتخاب میں کھلے
عام کانگریس کے لئے اپیل کرنے کی سزا مسلمانوں کو مل چکی ہے ۔ ان کے اسی
اپیل کی وجہ سے ہندوووٹ متحد ہوئے تھے اور بی جے پی اکثریت سے کامیا ب ہوئی
۔
ہندوستان کے مسلم قائدین کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ پورے سال سوتے
رہتے ہیں ۔ قوم کس حال میں ہے اس کی فکر کسی کو نہیں ستاتی ہے ہاں جب
الیکشن کا وقت آتا ہے فورا مسلمانوں کی ہمدردی شروع کردیتے ہیں ۔ اردو
اخبارات کا سہار الیکر مسلمانوں سے اپیلیں کرنا شرع کردیتے ہیں کہ فلا ں
پارٹی فرقہ پرست ہے اس کوووٹ نہیں دینا ہے فلاں پارٹی اقلیت نواز ہے اس کو
کامیاب کرنا ہے ۔
چناں چہ کسی پارٹی کی حمایت میں اپیلیں کرنے والے شاہی امام بخاری تن تنہا
نہیں ہیں ۔ آج کا اردو اخبار میرے ٹیبل پر موجود ہے جس میں مختلف مسلم
تنظیموں اور قائدین ملت کی اپیل میں دیکھ رہاہوں جس میں انہوں نے مسلمانوں
سے کانگریس کو ووٹ دینے کی اپیل کی ہے ۔ تو کچھ نے آپ کو۔
اس ملک میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے دوسر ے مذہب کے لوگ بھی رہتے
ہیں ۔ سکھ پانچ فی صدہیں انہوں نے کبھی کسی مسلم لیڈر کی طرح کسی پارٹی کی
حمایت نہیں کی ہے لیکن اس کے باوجود اپنے حقوق لینے میں وہ مسلمانوں سے بہت
آگے ہیں ۔ عیسائی بھی اس ملک میں رہتے ہیں جو ہم سے زیادہ منظم ہیں اور جو
بھی سرکار آتی ہے ان کے مفادات کا خیال رکھتی ہے لیکن ایک مسلمان ہے اس ملک
کے اندر جومختلف فرقوں اور طبقوں میں تقسیم ہے ۔ وہ سب پارٹی کی حمایت کرتے
ہیں اور سب انہیں لالی پاپ دیکھادیتی ہے۔ لیکن یہ قوم سب کچھ لٹ جانے کے
باوجود بھی اپنے لٹنے کا احساس نہیں کرسکی ہے ۔ نصف صدی سے زائد کا عرصہ
گذرجانے کے باوجود بھی اپنے آپ کو منظم نہیں کرپارہی ہے ۔
اس قوم کے قائدین چند ٹکوں کی خاطرالیکشن کے موقع پر اخبارات میں ایک اپیل
شائع کراکر عام مسلمانوں کے لئے مزید مشکلیں کھڑی کردیتے ہیں ۔ یہ الگ بات
ہے کہ ان کی اپیلیں صدابہ صحرا ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی فیملی کے لوگ بھی ان
کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے ہیں ۔ دوسرے لوگوں کا ان کی باتیں ماننا اور ا
س کے مطابق ووٹ دینا تو خیر ناممکن ہے ہاں اس کا منفی اثر پڑتا ہے ۔ دوسرے
فرقے کے لوگ متحد ہوجاتے ہیں اور پھر مسلمان جس پارٹی کوکامیاب کرنے کے
ارادے سے ووٹ دیتے ہیں وہ شکست فاش سے دوچار ہوجاتی ہے۔ ملکی سطح پر
مسلمانوں کی شبیہ خراب ہوتی ہے ۔ ان کی قیادت بے اثر ثابت ہوتی ہے ۔
بات چل پڑی ہے مسلم قائدین کی جانب سے اپیلیں جاری کرنے کی تو آئیے میں آپ
کو یہ بھی بتادوں مسلم تنظیمیں سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں اپیلیں کیوں
جاری کرتی ہے ۔ عام مسلمانوں کا خیال ہے کہ وہ ووٹ کو منتشر ہونے سے بچانے
کے لئے مسلمانوں سے متحد ہوکر ووٹ کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ
نہیں ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ تمام تنظیمیں اور قائدین ملت جو کسی پارٹی کے
حق میں حمایت کی اپیل کرتے ہیں ان کی پہلے پارٹی لیڈرسے ڈیل ہوتی ہے اس کے
بعد وہ اس کے حق میں اپیل جاری کرتے ہیں ۔
چناں چہ خود ایک تنظیم کے صدر نے کچھ دنوں قبل مجھ سے کہاکہ عام انتخاب
2014 سے عین ایک دن قبل میرے پاس کانگریس کے ایک بڑے لیڈر کا فون آیا وہ
بڑے لیڈر کون تھے ان کا نام انہوں نے مجھے بتایا تھا لیکن میں اسے یہاں
ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں بہر حال انہوں نے فون پر کہاکہ آپ کانگریس
کی حمایت میں ایک اشتہار دے دیجئے ۔ وہ صاحب خوشی سے پھولے نہیں سمائے کل
ہوکر تمام اردو اخبارات میں ان کی اپیل صفحہ اول پر تھیں ۔بہ قول ان کے یہ
ڈیل ان کی پندرہ لاکھ روپے پر ہوئی تھی ۔ اسی طرح ایک اور تنظیم عام
انتخاب2014 میں کانگریس کی حمایت کرناچاہتی تھی ۔ کانگریسی لیڈر ان ان کے
دفتر تک گئے ۔شیلا دکشت ان دنوں کیرالا میں تھیں ان سے بھی فون پر بات ہوئی
لیکن ان کی شرطوں کے مطابق پیسے کی کی ڈیل نہیں ہوسکی ۔ تو مجبورا انہوں نے
عام آدمی پارٹی کی حمایت میں اپیل جاری کی ۔
یہ حال ہے مسلم تنظیموں کا ، ہمارے قائدین کا جو مسلمانوں کی خیرخواہی اور
ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کو صرف اپیلوں میں محدوو سمجھتے ہیں جب کہ دوسرے
مذاہب کے لیڈران زمینی سطح پر کام کرتے ہیں ۔ اخبار ات میں بھولے سے بھی
کبھی چھپنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ۔ آج تک میں نے کسی بھی ہندی اورانگریزی
اخبارات میں اس طرح کی کوئی بھی اپیل کسی ہندو، سکھ ، جین ، عیسائی اور
بڈھسٹوں کے رہنماؤں کی جانب سے نہیں دیکھی ہے ۔
بات چل رہی تھی الیکشن کی ۔دہلی الیکشن کے حوالے سے یہ بات واضح ہوچکی ہے
کہ اس مرتبہ مقابلہ صرف دو پارٹیوں کے درمیان ہے۔ عام آدمی پارٹی اور بی جے
پی میں سے ہی کوئی حکومت بنائے گی کانگریس مقابلہ سے باہر ہے ۔ مشہور صحافی
رویش کمار کے الفاظ میں کانگریس کی حیثیت اس الیکشن میں زمبابوے کی ٹیم
جیسی ہے جس کے جیتنے سے کسی ٹیم کے فائنل میں پہنچنے پر اثرتو پڑسکتا ہے
لیکن وہ بذات خود فائنل میں نہیں پہنچ سکتی ہے۔
یہ الیکشن اب تک کا سب سے ہائی پروفائل الیکشن مانا جارہا ہے ۔ پانی کی
پریشانی ، تحفظ خواتین، کرپشن ، مہنگائی اور صحت وتعلیم جیسے ایجنڈے پر یہ
الیکشن ہورہا ہے ۔ بی جے پی اور عآپ میں سے کون پارٹی دلی والوں کے لئے ان
مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرے گی یہ باتیں دلی والوں کو معلوم ہے ۔ اور وہ
اسی کے مطابق ووٹ کریں گے ۔ ان کے سامنے اروندکیجریوال کی 49 دنوں کی حکومت
بھی ہے اور سپنوں کے سوداگر نریندر مودی کے نوماہ کا دوراقتدار بھی ۔ |
|